ان دنوں ہمارا قومی میڈیا ”لیول پلینگ فیلڈ“ کے حوالے سے سخت اضطراب میںہے۔ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب واضح یہ ہے کہ ”تمام کھلاڑیوں کو کھیل کیلئے ایک جیسا میدان ملنا چاہیے “ اب اصولی طور پر دیکھا جائے تو اس سلسلے میں کسی نوع کے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ 8فروری 2024ء کے معرکے پر آنے سے قبل ہم جائزہ لیتے ہیں کہ یہاں مطلوبہ یا آئیڈیل لیول پلینگ فیلڈ رہی کب ہے اور اب اس کا شور کیوں اٹھا ہے ؟‎70ء کے انتخابی معرکے کو نظر انداز کیے دیتے ہیں کہ وہ جتنے بھی شفاف تھے ان کے نتائج ہی نہ مانے گئے۔ 77ء کے انتخابات پر بھی کیا بات کی جائے جنہیں کسی نے بھی درست تسلیم نہ کیا، وہاں کہاں لیول پلینگ فیلڈ تھی؟ جہاں وزیر اعظم کے بالمقابل کاغذات نامزدگی داخل کروانے کیلئے جانیوالے کو اغوا کر لیا گیا؟ 85ء کے غیر جماعتی انتخابات کی کہانی بھی کچھ ایسی ہے کہ اپوزیشن نے ان کا بائیکاٹ کر دیا لہٰذا وہ ریفرنڈم جیسے ہی قرار پائے۔‎ اس کے بعد 88ء، 90ء، 93ء، 97ء، 2002ء، 2008ء، 2013ء اور 2018ء کے تمام انتخابات کاجائزہ لیا جا سکتا ہے۔ 88ء کے متعلق یہ کہاجاسکتا ہے کہ آئی جے آئی بنانے یا ہلکا پھلکا روکنے کے باوجود بی بی آگئی مگر وہ بھی کیا آئی جیسے آئی، جن شرائط پر آئی اور پھر جس شتابی سے واپس بھیج دی گئی اسے آنا تھوڑی کہتے ہیں۔ ‎

مشرف کھلے بندوں کہتا تھا کہ بی بی میری مرضی کے خلاف آدھمکی ہے اب میں اس کی سیکورٹی کا ذمہ دار نہیں ہوں پھر اس کمزور سیکورٹی یا سیکورٹی لیپس نے اسے کہاں پہنچا دیا؟ اسی بی بی کے باپ کو بھی بڑا گھمنڈ تھا کہ ڈگڈگی بجانے میں اور عوام کو پیچھے لگانے میں میرا کوئی ثانی نہیں ، میری کرسی بڑی مضبوط ہے ،مجھے کچھ ہوا تو دریا سرخ ہوجائیں گے مگر جب طاقت کا ڈنڈا اُٹھا تو کیا ہوا؟؟ ‎ہمارے ایک معروف صحافی جو انتخابی معرکوں پر گہری نگاہ رکھتے ہیں ایک مرتبہ درویش سے فرمارہے تھے کہ عوامی ہیرو یا قائدِ عوام بننا بڑا مشکل ہوتا ہے دلوں پر وہی راج کرتے ہیں جو پھندے پر جھول جاتے ہیں اس کے بالمقابل جو تن آسان اور مصلحت اندیش مشکل پڑنے پر ہمت دکھانے کی بجائے محفوظ پناہ گاہ کی طرف بھاگ جاتے ہیں وہ عوامی لیڈر تو نہیں ہوسکتے! عرض کی جانے دیں سرکار، کیا لیڈری اور کون سے عوام یہ سب کہنے کی باتیں ہیںیہاں تو محض نعرے بازی چلتی ہے قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں !جو سمجھدار منہ طرف کعبہ شریف کرتے ہوئے جدہ شریف پہنچ جاتا ہے اور آندھی تھمنے پر لوٹ آتا ہے۔‎بہرحال ”لیول پلینگ فیلڈ“ کا شور مچانے والے اور ان کی مخالفت کرنے والے اپنا اپنا ایجنڈا اٹھائے سیاسی فضاؤں میں غوطہ زن ہیں پتہ سب کو ہے کہ ہونا وہی ہے جو وڈی سرکار نے کرنا ہے۔ اب ایک نوجوان کے پیٹ میں بے وجہ مروڑ کیوں اُٹھ رہے ہیں؟ یہی نوجوان اگر لاڈلا ٹھہرتا تو کیا پھر بھی اس کو سیاست کا میدان یوں ناہموار دکھتا؟ رہ گیا جناح تھرڈ ہمارا پیارا کھلاڑی یا اس کا فینز کلب ، تو جمع خاطر رکھیں 2018ء میں ان کی پسندیدہ جو ”لیول پلینگ فیلڈ“ استوار ہوئی تھی وہ 2024ء میں بھی جوں کی توں رہے گی ، البتہ اب آر ٹی ایس کے بیٹھ جانے کی نوبت نہیں آئے گی اس لیے کہ اب کے میدان میںسیاست کا وہ شہسوارہے جس کے خوف سے طاقتوروں کو ایک سو ایک پاپڑ بیلنا پڑتے رہے ہیں البتہ اس سب کے باوجود انتخابی ضابطہ سب پر لاگو ہونا چاہیے۔ ہماری پی ٹی آئی نے بحیثیت پارٹی کوئی ایسا گھناؤنا فعل نہیں کیا جس کی پاداش میں اسے کالعدم کیا جائے یا انتخابی عمل سے نااہل قرار دے دیا جائے لیکن جو لوگ سانحۂ 9 مئی کے ذمہ دار تھے ان کا محاسبہ لازم ہے ۔ ان چند کو چھوڑ کر باقی پی ٹی آئی کیلئے لیول پلینگ فیلڈ پوری طرح دستیاب ہونی چاہیے وہ کسی کے ساتھ اتحادبنانا چاہے تو ضرور بنائے۔‎رہ گیا یہ ایشو یا خوف کہ اگر آئیڈیل لیول پلینگ فیلڈ نہ ملی تو انتخابی معرکے کے بعد ایک نئی دھینگا مشتی شروع ہوجائے گی ، درویش صاف عرض کیے دیتا ہے کہ اگر بڑی سرکار کو مطلوب و منظور نہ ہو تو کس کی مجال ہے کہ سسٹم کو مفلوج کرسکے،ایشو یہ ہے کہ کیا ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اب مستحکم جمہوریت کو چلنے دینا ہے؟‎ رہ گیا یہ معافیوں تلافیوں کا شور یا مطالبہ یہ بظاہر تو بہت نرم و ملائم ہے لیکن حقیقت میں کتنا خطرناک ہے اس کا ادراک شاید مطالبہ اٹھانے والوں کو بھی پوری طرح نہیںورنہ وہ اس نوع کی کھچڑی کیلئےپریشان نہ ہوتے، 8فروری کے معرکے کو منصفانہ ہونا ہی نہیں چاہیے نظر بھی آنا چاہیے لیکن یہاں مسئلہ نظر کی مخصوص عینکوں کا ہے جن کے نمبر بدلتے رہتے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں ماں اور 3 بیٹے شامل ہیں، بچوں کی عمریں 10 سے 15 سال کے درمیان ہیں۔

اردو کانفرنس میں دنیا بھر سے 200 سے زائد دانشور شرکت کریں گے۔

نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ یکم اور دو دسمبر کو عالمی ماحولیاتی ایکشن کانفرنس میں بھی شرکت کریں گے۔

فائر بریگیڈ حکام کے مطابق 8 فائر ٹینڈر، 2 واٹر باوزر اور4 واٹر ٹینکر آگ بجھانے میں مصروف ہیں۔

گوجرانوالہ میں گھمن والا کے قریب مبینہ پولیس مقابلے میں زیر حراست ملزم عبدالجبار ہلاک ہوگیا۔

پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) سے ڈیڑھ ارب روپے کے واجبات کی فوری ادائیگی کا مطالبہ کردیا۔

ترجمان حیسکو کا کہنا ہے کہ حیسکو چیف نے واقعے سے متعلق انکوائری کا حکم دیا ہے۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ متاثرہ شاپنگ مال کے چیف سیکیورٹی آفیسر سمیت 5 افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

یہ ارون ہے۔ ہم بالکل نہیں جانتے کہ وہ یہاں کیا کہہ رہا ہے لیکن یہ یقینی طور پر اطالوی لہجے میں بات کر رہا ہے، پوسٹ کا عنوان

سوشل میڈیا انفلوئنسر نے مظلوم بچی کی پھوٹ پھوٹ کر رونے کی ویڈیو اپنے انسٹا گرام اکاؤنٹ پر شیئر کردی۔

ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ زیا بیطس ٹائپ ٹو کے لاحق ہونے کے خطرے سے محفوظ رہنے کے لیے تیز رفتاری سے چلنے کی کوشش کرنا چاہیئے۔

دونوں نے سوشل میڈیا پر کچھ روز قبل اس بات کی تصدیق کی تھی کہ وہ 29 نومبر کو شادی کر رہے ہیں۔

پولیس نے گاڑی کے رجسٹریشن نمبر کے ذریعے اس کے مالک کے گھر پر چھاپہ مارا تو وہ اس وقت گھر پر موجود نہیں تھا۔

ہمارے خلاف گندی اور غلیظ باتیں اچھالی گئیں۔ ایسا کرنے سے انہیں کیا ملا؟ کیا جمعیت کی ترقی کا سفر رک گیا؟، سربرا جے یو آئی (ف)

پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منير کی کویتی ولی عہد شیخ مشعل الاحمد الجابر الصباح سے کویت سٹی میں ملاقات ہوئی۔

نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی کویت سٹی میں البیان محل میں آمد ہوئی، جہاں کویت کے اول نائب وزیرِ اعظم شیخ طلال الخالد الاحمد الصباح نے انکا استقبال کیا۔

QOSHE - افضال ریحان - افضال ریحان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

افضال ریحان

8 0
30.11.2023

ان دنوں ہمارا قومی میڈیا ”لیول پلینگ فیلڈ“ کے حوالے سے سخت اضطراب میںہے۔ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب واضح یہ ہے کہ ”تمام کھلاڑیوں کو کھیل کیلئے ایک جیسا میدان ملنا چاہیے “ اب اصولی طور پر دیکھا جائے تو اس سلسلے میں کسی نوع کے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ 8فروری 2024ء کے معرکے پر آنے سے قبل ہم جائزہ لیتے ہیں کہ یہاں مطلوبہ یا آئیڈیل لیول پلینگ فیلڈ رہی کب ہے اور اب اس کا شور کیوں اٹھا ہے ؟‎70ء کے انتخابی معرکے کو نظر انداز کیے دیتے ہیں کہ وہ جتنے بھی شفاف تھے ان کے نتائج ہی نہ مانے گئے۔ 77ء کے انتخابات پر بھی کیا بات کی جائے جنہیں کسی نے بھی درست تسلیم نہ کیا، وہاں کہاں لیول پلینگ فیلڈ تھی؟ جہاں وزیر اعظم کے بالمقابل کاغذات نامزدگی داخل کروانے کیلئے جانیوالے کو اغوا کر لیا گیا؟ 85ء کے غیر جماعتی انتخابات کی کہانی بھی کچھ ایسی ہے کہ اپوزیشن نے ان کا بائیکاٹ کر دیا لہٰذا وہ ریفرنڈم جیسے ہی قرار پائے۔‎ اس کے بعد 88ء، 90ء، 93ء، 97ء، 2002ء، 2008ء، 2013ء اور 2018ء کے تمام انتخابات کاجائزہ لیا جا سکتا ہے۔ 88ء کے متعلق یہ کہاجاسکتا ہے کہ آئی جے آئی بنانے یا ہلکا پھلکا روکنے کے باوجود بی بی آگئی مگر وہ بھی کیا آئی جیسے آئی، جن شرائط پر آئی اور پھر جس شتابی سے واپس بھیج دی گئی اسے آنا تھوڑی کہتے ہیں۔ ‎

مشرف کھلے بندوں کہتا تھا کہ بی بی میری مرضی کے خلاف آدھمکی ہے اب میں اس کی سیکورٹی کا ذمہ دار نہیں ہوں پھر اس کمزور سیکورٹی یا سیکورٹی لیپس نے اسے کہاں پہنچا دیا؟ اسی بی بی کے باپ کو بھی بڑا گھمنڈ تھا کہ ڈگڈگی بجانے میں اور عوام کو پیچھے لگانے میں میرا کوئی ثانی نہیں ،........

© Daily Jang


Get it on Google Play