پاکستان کو اس وقت جس معاشی بحران کا سامنا ہے اسکی بڑی وجہ ملک میں موجود کالے دھن کی فراوانی اور غیر دستاویزی معیشت بھی ہے۔ ایک طرف حکومت کے پاس ٹیکسوں کی مد میں حاصل ہونے والی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو رہا ہے اور دوسری طرف قانونی طریقے سے کاروبار کرنے والے نجی اداروں کو مارکیٹ میں غیر منصفانہ مسابقت کا سامنا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی عشروں کی محنت سے صنعتی ادارے بنانے والے بڑے بڑے سرمایہ دار تو ملک میں جاری معاشی بحران کی وجہ سے سخت مالی مشکلات کا شکار ہیں جبکہ کالے دھن اور غیر دستاویزی معیشت سے وابستہ عناصر کی دولت میں دن دگنی ، رات چوگنی ترقی جاری ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں کالے دھن یا بلیک اکانومی کا مجموعی حجم ایک کھرب ڈالر سے بھی زیادہ ہے اور اس کا بڑا حصہ بدعنوانی، ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ اور دیگر غیر قانونی پوشیدہ معاشی سرگرمیوں پر مشتمل ہے۔

کالے دھن کی اس فراوانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت پاکستان اس وقت عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے محض تین ارب ڈالر حاصل کرنے کے لئے کڑی شرائط اور معاشی پابندیوں کا سامنا کر رہی ہے جو ملک کی مجموعی بلیک اکانومی کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دنیا کی ہر حکومت اپنے شہریوں کو صحت، تعلیم اور بنیادی انفراسٹرکچر کی فراہمی کے لئے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے محصولات پر انحصار کرتی ہے جبکہ کالے دھن کی فراوانی کے باعث ٹیکس محصولات میں اضافہ کسی صورت ممکن نہیں ہے بلکہ حکومت پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل افراد اور اداروں پر مزید ٹیکس لگا کر انہیں بھی ٹیکس دینے سے بدظن کر رہی ہے۔ ملک میں کالے دھن کی فراوانی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جن دنوں عالمی سطح پر پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی خبریں گردش کر رہی تھیں اس وقت بھی پاکستان کے شاپنگ مالز، تفریحی پارک اور ریستوران گاہکوں سے بھر ے ہوئے تھے اور آبادی کے بڑے حصے پر اس معاشی بحران کا کوئی خاص اثر نہیں ہواتھا۔ اس وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ یہاں حکومت غریب ہے اور شہری امیر جو ملک کے کمزور معاشی حالات سے متاثر ہونے کی بجائے معاشی طور پر اسے اندر سے مزید کھوکھلا کر رہے ہیں۔

دنیا کے ہر ملک میں ٹیکس ریونیو بڑھانے کے لئے ہر شہری کے شناختی کارڈ نمبر کو ہی ٹیکس نمبر قرار دیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں نان فائلرز کو معمولی اضافی ادائیگی کے ذریعے ماہانہ لاکھوں روپے کے اخراجات کرنے کے باوجود ٹیکس نیٹ میں شامل نہ کرنے کی سہولت میسر ہے۔ ان حالات میںملک کے ارباب اقتدار کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ دفاع تب ہی مضبوط ہو گا جب معیشت ٹھیک ہو گی۔ اگر ہمارے پاس مالی وسائل ہی نہیں ہوں گے تو ہم کسی جارحیت کا مقابلہ کیسے کریں گے۔ اس لئے جس طرح اسمگلنگ اور غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم غیر ملکیوں کو ان کے آبائی ملک بھیجنے کے لئے اقدامات کئے گئے ہیں اسی طرح معیشت کو کالے دھن سے پاک کرنے کے لئے بھی ملک میں رائج تمام کرنسی نوٹ فوری تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں ملک بھر میں پہلے سے زیرگردش نوٹوں کو منسوخ کرکے نئے کرنسی نوٹ جاری کئے جائیں تاکہ جن لوگوں نے اربوں، کھربوں روپے کا کالا دھن چھپا رکھا ہے اسے دستاویزی معیشت کا حصہ بنایا جا سکے۔ اس کیلئے یہ کیا جا سکتا ہے کہ پرانے کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کا کام بینکوں کے ذریعے سرانجام دیا جائے اور جو شخص بھی کرنسی نوٹ تبدیل کرنے کیلئے بینکوں سے رجوع کرے اسے نئے کرنسی نوٹوں کی نقد ادائیگی کرنے کی بجائے اس کا بینک اکائونٹ کھول کر یہ رقم اس میں جمع کر دی جائے۔ علاوہ ازیں ایسے افراد کو فوری طور پر بطور ٹیکس دہندہ رجسٹرڈ کیا جائے اور ذرائع آمدن کی وضاحت نہ کرنے والوں پر جرمانہ بھی عائد کیا جائے۔ اس طرح نہ صرف بینکوں کے پاس بڑی مقدار میں ڈیپازٹ آ جائیں گے بلکہ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں بھی فوری طور پر نمایاں اضافہ کیا جا سکے گا۔

یاد رہے کہ 2016ء میں ہمسایہ ملک بھارت میں بھی حکومت یہ تجربہ کر چکی ہے اور اس اقدام سے کالا دھن خودبخود چل کر حکومت کے پاس پہنچ گیا تھا۔ انڈیا کے تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ پہلے سے رائج کرنسی نوٹ منسوخ کرنے سے شہریوں کی جانب سے بڑی مقدار میں گھروں پر کرنسی ذخیرہ کرنے کے رجحان میں نمایاں کمی آئی ہے۔ اس طرح بینکوں کے مالیاتی ذخائر میں اضافہ ہوا جس سے مارکیٹ میں قانونی کاروبار کرنے والے اداروں کے لئے قرضوں کی فراہمی میں بھی بہتری آئی ہے۔ علاوہ ازیں کرنسی نوٹوں کی تبدیلی سے معیشت میں کرنسی کی گردش میں اضافہ ہوا جو معاشی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے انتہائی ضروری امر ہے۔ اس کا ایک اور اہم فائدہ یہ ہے کہ اگر لوگ کرنسی کو گھروں میں ذخیرہ کرنے کی بجائے بینکوں میں جمع کروائیں گے اور وہ کرنسی نوٹ گردش میں رہیں گے تو اس سے حکومت پر نئے نوٹ چھاپنے کے لئے اضافی اخراجات کرنے کا دباؤ کم ہو گا۔ کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ جعلی کرنسی چھاپنے والے جرائم پیشہ گروہوں کا خاتمہ ہو جائے گا اور حکومت کو مارکیٹ میں زیر گردش جعلی کرنسی نوٹوں کی وجہ سے درپیش مسائل سے بھی نجات مل جائے گی۔ ان تمام تر فوائد سے قطع نظر یہ اقدام ملکی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹنے والے کالے دھن اور اس سے وابستہ کرپشن کے پورے نظام کے خاتمے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔

پشاور کے علاقے یکہ توت میں پولیس اور رہزنوں کے درمیان فائرنگ سے رہزن ہلاک ہوگیا۔

جان کربی نے کہا کہ اسرائیل دوبارہ حماس کے پیچھے جانے کا فیصلہ کرے گا تو اسے امریکی حمایت حاصل ہوگی۔

ملک بھر میں صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں کے 593 حلقے ہوں گے۔

ویڈیو میں رہائی پانے والے یرغمالی گرم جوشی سے حماس جنگجوؤں کو الوداع کر رہے ہیں۔

نیب نے کہا کہ نواز شریف کے خلاف کچھ ثبوت نہیں تھے، سربراہ جے یو آئی (ف)

ن لیگی رہنما نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے بڑا تڑکا اپنا بندہ چیئرمین پی ٹی آئی لگواکر لگایا ہے۔ بیرسٹر گوہر پچھلے سال تک پیپلز پارٹی میں تھے۔

اسرائیلی فوج نے الزام لگایا تھا کہ بچوں نے ان پر دھماکا خیز مواد پھینکا تھا، درحقیقت ایک بچے کے ہاتھ میں فائر کریکر تھا۔

ڈومینیکا کو پہلے راؤنڈ کا ایک اور سپر 8 کے دو میچز کی میزبانی کرنا تھی۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل کی منظوری دے دی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ متعلقہ آفیسر نے پولیس کو گالیاں دیں اور کارروائیوں میں رکاوٹ ڈالی۔

لطیف نیازی کو محکمہ تعلیم میں غیر قانونی بھرتیوں پر اینٹی کرپشن نے گرفتار کیا،

برطانیہ ان دنوں شدید سردی کی زد میں ہے۔ لندن سے میڈیا رپورٹ کے مطابق انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئر لینڈ کے لیے برفباری کی وارننگ جاری کی گئی ہے۔

نادرا ریکارڈ میں نوجوان کی تین مائیں ہونے کی وجہ سے مستقبل میں مسئلہ ہوسکتا ہے۔

وزارت خزانہ کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ میں قابل اور تجربہ کار اسٹاف بھرتی کیا جائے گا۔

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق امیر اور ترقی یافتہ ممالک کوذمہ داری دکھانی چاہئے۔

اداکار انیل کپور نے اداکار رنبیر کپور سے متعلق 16 سال قبل کہے الفاظ دوبارہ دہرادیے۔

QOSHE - چوہدری سلامت علی - چوہدری سلامت علی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

چوہدری سلامت علی

9 1
01.12.2023

پاکستان کو اس وقت جس معاشی بحران کا سامنا ہے اسکی بڑی وجہ ملک میں موجود کالے دھن کی فراوانی اور غیر دستاویزی معیشت بھی ہے۔ ایک طرف حکومت کے پاس ٹیکسوں کی مد میں حاصل ہونے والی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو رہا ہے اور دوسری طرف قانونی طریقے سے کاروبار کرنے والے نجی اداروں کو مارکیٹ میں غیر منصفانہ مسابقت کا سامنا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی عشروں کی محنت سے صنعتی ادارے بنانے والے بڑے بڑے سرمایہ دار تو ملک میں جاری معاشی بحران کی وجہ سے سخت مالی مشکلات کا شکار ہیں جبکہ کالے دھن اور غیر دستاویزی معیشت سے وابستہ عناصر کی دولت میں دن دگنی ، رات چوگنی ترقی جاری ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں کالے دھن یا بلیک اکانومی کا مجموعی حجم ایک کھرب ڈالر سے بھی زیادہ ہے اور اس کا بڑا حصہ بدعنوانی، ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ اور دیگر غیر قانونی پوشیدہ معاشی سرگرمیوں پر مشتمل ہے۔

کالے دھن کی اس فراوانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت پاکستان اس وقت عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے محض تین ارب ڈالر حاصل کرنے کے لئے کڑی شرائط اور معاشی پابندیوں کا سامنا کر رہی ہے جو ملک کی مجموعی بلیک اکانومی کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دنیا کی ہر حکومت اپنے شہریوں کو صحت، تعلیم اور بنیادی انفراسٹرکچر کی فراہمی کے لئے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے محصولات پر انحصار کرتی ہے جبکہ کالے دھن کی فراوانی کے باعث ٹیکس محصولات میں اضافہ کسی صورت ممکن نہیں ہے بلکہ حکومت پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل افراد اور اداروں پر مزید ٹیکس لگا کر انہیں بھی ٹیکس دینے سے بدظن کر رہی ہے۔ ملک میں کالے دھن کی فراوانی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جن دنوں عالمی سطح پر پاکستان کے........

© Daily Jang


Get it on Google Play