دیومالائی داستانوں میں طلسمی پرندے ققنس سے منسوب مافوق خوبیوں کے نقش ہمارے دور میں بھی عجیب انداز میں پائے جاتے ہیں :ہر ققنس پانچ سو سال زندہ رہتا ہے، اور ایک وقت میں ہی ایسا ققنس پایا جاتا ہے۔ جب اس کا وقت ختم ہو جاتا ہے تو یہ ایک گھونسلا بناتا اور خود کو آگ لگا لیتا ہے۔ اس کی راکھ سے ایک نیا ققنس ابھرتا ہے۔ سادہ الفاظ میں، یہ خود اذیتی کی داستان ہے جس کے نتیجے میں ایک نئی زندگی جنم لیتی ہے۔ آپ کے تخیلات کی دنیا میں کچھ جنبش ہوئی؟

خود اذیتی عملی نتائج کے بغیر جاری نہیں رہ سکتی۔ یہ غلط سوچ کا نتیجہ ہے جو لا شعوری طور پر، لیکن اکثر ایسا طرز عمل اپنانے والوں کیلئے شدید نقصان کا باعث بنتی ہے۔ پھر بھی ذاتی قربانی کے نتیجے میں نئی زندگی کا وہمہ کہیں نہ کہیں موجود رہتا ہے۔ اس وقت ہم جس جگہ کھڑے ہیں، اسے دیکھ کر مجھے ایسا موقع محل یاد آتا ہے جیسے ہم کسی وسیع و عریض ویرانے میں ہوں اور وہاں سے ایک راستہ گزرتا ہو، لیکن ہم نہیں جانتے کہ یہ کس طرف لے جائیگا۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ ہم ایسی صورت حال کا شکار ہوئے ہوں۔ اکثر ہمیں ماضی میں بھی ایسے حالات سے واسطہ پڑتا رہا، پھر بھی ہم نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

ہمیں ایسے تیز رفتار احتسابی عمل اور انصاف کی ضرورت ہے جو نظام کا لازمی حصہ ہو، اور انکی فعالیت اور ان پر کاربند رہنے کا عزم اس قدر صمیم ہو کہ دولت، عہدہ، طاقت اور اختیار کے باوجود کسی کو استثنیٰ حاصل نہ ہو۔ ترقی کی راہ پر گامزن اقوام اور خود اذیتی کی چکی میں پسنے والی پسماندہ اقوام میں فرق آئین اور قانون کی مکمل پاسداری کا ہے ۔ ہمارا شمار موخر الذکر میں ہوتا ہے۔ تمام تر شواہد اور ارادے بتاتے ہیں کہ ہم بہت دیر سے اسی صف میں ہیں اور اس دلدل سے باہر نکلنے کی کوئی سبیل دکھائی نہیں دیتی۔ درحقیقت یا تو ہم ان مسائل سے بے حس ہیں جو ہمیں گھیرے ہوئے ہیں، یا پھر ہم اس صورتحا ل سے براہ راست یا بالواسطہ فائدہ اٹھانے والوں میں سے ہیں۔ ہم ایسی کوئی تبدیلی لانےپر تیار نہیں جو بدعنوانی کے ثمرات کو ہماری پہنچ سے دور کر دے۔ اس طرح ہم ایک اتھاہ گہرائی میں گر تے چلے جارہے ہیں اور ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ مصائب کے خارزاروں سے جان چھڑا کرہم کس طرح کسی محفوظ مقام تک پہنچیں گے۔

ہم میں سے زیادہ تر کیلئے جو چیز اہم ہے وہ فوری طور پر ملنے والے فوائد ہیں جو ہم قانون کی پہنچ سے باہر ایک طبقے کی تشکیل، امتیازی انصاف کے اطلاق اور ریاستی اداروں کی پامالی سے حاصل کر رہے ہیں۔ اس نے ایک چھوٹے مفاد پرست طبقے کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ ملک کی آبادی کی ایک بڑی لیکن پسماندہ اور نظر انداز کردہ اکثریت کی محرومی سے فائدہ اٹھا کر وسائل سمیٹتا رہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس حالت میں لامتناہی طور پر زندہ رہ سکتے ہیں یا ہمارے پاس ماضی میں کیے گئے گھناؤنے کاموں کا ازالہ کرنے کیلئے بہت کم وقت بچا ہے؟ بدقسمتی سے ہم اپنی افسوسنا ک عادت پر مصر ہیں، جبکہ ہمیں مطلق احساس نہیں کہ ہم جس حرکت کو سفر سمجھے ہوئے ہیں، وہ دراصل کھائی میں گرنے کی رفتار ہے اور اس میں سب کی اجتماعی تباہی یقینی ہے۔ ہر کوئی، چاہے اس نے جتنا بھی دھن دولت جمع کر رکھا ہو، اس کے نتیجے میں تباہ ہو جائیگا۔ یہ ایک خود کش مشن ہے جو ہم نے شروع کیا ہے جسے روکنا اب انتہائی مشکل ہے کیونکہ ہم کسی اور طرف دیکھتے ہوئے اس کھائی میں تیزی سے گر رہے ہیں ۔

جو چیز حیران کن ہے وہ بے لگام جبر مسلسل ہے جس کا نشانہ ایک سیاسی جماعت کے حامی ہیں۔ ان کیلئے کوئی جائے مفر نہیں۔ وہ انصاف فراہم کرنیوالے اداروں کی خرابی کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ جرم ننگی تلوار لیے سڑکوں پر گھوم رہا ہے۔ اور اس عمل کو 'جائز قرار دینےکیلئے انتخابات کا ڈرامہ رچایا جائیگا۔ اس میں حصہ بس وہ لیں گے جنھیں انتخابی سرگرمیوں کی اجازت دی جائیگی۔ اب تک ملک کی سب سے بڑی اور چاروں صوبوں میں جڑیں رکھنے والی واحد سیاسی جماعت پر پابندی ہے۔ اس کے قائدین جبری گمشدگیوں کا شکار ہیں۔ ان کا اختتام اپنی سیاسی وفا داریاں تبدیل کرنے کے بیانات جاری کرنے یا پریس کانفرنسوں کے انعقاد پر ہوتا ہے۔ ان پریس کانفرنسوں میں وہ پہلے سے اس کام کیلئے تشکیل دی گئی جماعتوں میں شمولیت کا اعلان کرکے اپنی جان بچاتے ہیں۔ ہم جرم کی راہ پر کس حد تک بڑھ چکے ہیں اور اس سفر میں ابھی کون سی منزلیں سر کرنی باقی ہیں؟ تباہی کی اس مسافت کا وہی نتیجہ نکلے گا جو گزرے برسوں میں ہم پہلے بھی بھگت چکے ہیں ۔

عمران خان کا راج جبر اور تشدد کی بنیادوں پر استوار نہیں، وہ اخلاقی اتھارٹی کی مسند پر فائز ہیں اور رہیں گے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں تمام ممکنہ بادشاہ قدم نہیں رکھ سکتے۔ جتنی جلدی یہ احساس ہوجائے کہ عوامی مینڈیٹ منتخب شدہ لیڈروں کو ملنا ہے اور اسے تسلیم کیا جانا ہے، ریاست کیلئے اتنا ہی بہتر ہو گا۔ ملک کو کسی مجرمانہ گروہ کے حوالے کرنے کی بجائے جمہوری راستہ اختیار کیا جانا چاہیے۔

ایسا لگتا ہے کہ ققنس کی عمر تمام ہو چکی۔ اب یہ خود کو نذر آتش کرنے جا رہا ہے۔ کیا اسکی راکھ سے ایک اور ققنس جنم لے گا یا ہم اس داستان کا آخری باب دیکھنے جا رہے ہیں؟ مستقبل کا راستہ سب نے دیکھا ہے، لیکن ارباب اختیار اس راہ پر قدم رکھنے پر تیار نہیں۔ اس کیلئے عوام کے دل و دماغ پر راج کرنیوالے ملک کے بے تاج بادشاہ، جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند واحد لیڈر کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت مرکزی اسٹیج پر صرف اسی کی قدم فرسائی ہے، دور دور تک اس کا کوئی حریف نہیں، وہ تو ہرگز نہیں جسے بادشاہ بنا نے کیلئے تاجپوشی کی رسم ادا کی جارہی ہے۔

(صاحب تحریر پاکستان تحریک انصاف کے انفارمیشن سیکرٹری ہیں)

بدنام جارج سانتوس کو کانگریس سے نکالنے کی قرارداد 114 کے مقابلے میں 311 ووٹ سے منظور کی گئی۔

ملاقات کے بعد اپنے پیغام میں طلحہ محمود کا کہنا تھا کہ دو گھنٹے تک عافیہ صدیقی سے ملاقات جاری رہی۔

اپنے بیان میں ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ روس کو خصوصی فوجی آپریشن اور نیٹو کی مسلسل توسیع سے خطرات لاحق ہیں۔

رنبیر کپور کی فلم اینمل کی پہلے دن 60 کروڑ کی کمائی کا امکان سامنے آیا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے خدشات اور اعتراضات الیکشن کمیشن میں جمع کروائے تھے۔

بلوچستان حکومت کی جانب سے فنڈز کی فراہمی نہ ہونے پر پیڑول پمپس مالکان نے فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کو تیل کی فراہمی روک دی۔ جس کے بعد کوئٹہ میں فائربریگیڈ کی سروس بند ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

بھارتی فلم اینمل کے ہدایت کار سندیپ ریڈی وانگا نے بالی ووڈ کے بادشاہ شاہ رخ خان کے ساتھ کام کرنے کی خواہش ظاہر کردی۔

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے 9ویں سیزن کی رونق کو چار چاند لگانے کےلیے کولن منرو بھی آئیں گے۔

برطانیہ کے شاہ چارلس سوم نے کہا ہے کہ پاکستان نے موسمیاتی تبدیلوں کے خطرناک نتائج بھگتے، سیلاب کے باعث اسے شدید نقصان اٹھانا پڑا۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران لاپتہ ہوجانے والا فائٹر طیارہ 80 برس بعد مل گیا۔

بھارت نے مہمان ٹیم آسٹریلیا کو چوتھے ٹی 20 میچ میں 20 رنز سے شکست دے دی اور 5 میچوں کی سیریز میں 3-1 کی فیصلہ کن برتری حاصل کرلی۔

عالمی اردو کانفرنس ایک ایسا میلہ جہاں نئی نسل کو روایات سے جوڑنے کی تدبیر ہورہی ہے، جہاں گزرے ہوئے وقتوں کی یادیں تازہ ہورہی ہیں۔

بلا ول بھٹو زرداری نے پارٹی کے صوبائی عہدیداروں اور کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات کی بھر پور انداز میں تیار یاں شروع کردیں۔

اینٹی کرپشن کو سرکاری ملازمین کے خلاف مقدمہ درج کرنےسے قبل متعلقہ اتھارٹی سے اجازت لینا ہوگی۔

سائنسدانوں کی جانب سے پر اسرار بیماری سر درد کی نئی وجہ دریافت کی گئی ہے جس سے اس مرض میں مبتلا ہونے والے کروڑوں لوگوں کی امیدیں جاگ گئی ہیں۔

QOSHE - رؤف حسن - رؤف حسن
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

رؤف حسن

15 1
02.12.2023

دیومالائی داستانوں میں طلسمی پرندے ققنس سے منسوب مافوق خوبیوں کے نقش ہمارے دور میں بھی عجیب انداز میں پائے جاتے ہیں :ہر ققنس پانچ سو سال زندہ رہتا ہے، اور ایک وقت میں ہی ایسا ققنس پایا جاتا ہے۔ جب اس کا وقت ختم ہو جاتا ہے تو یہ ایک گھونسلا بناتا اور خود کو آگ لگا لیتا ہے۔ اس کی راکھ سے ایک نیا ققنس ابھرتا ہے۔ سادہ الفاظ میں، یہ خود اذیتی کی داستان ہے جس کے نتیجے میں ایک نئی زندگی جنم لیتی ہے۔ آپ کے تخیلات کی دنیا میں کچھ جنبش ہوئی؟

خود اذیتی عملی نتائج کے بغیر جاری نہیں رہ سکتی۔ یہ غلط سوچ کا نتیجہ ہے جو لا شعوری طور پر، لیکن اکثر ایسا طرز عمل اپنانے والوں کیلئے شدید نقصان کا باعث بنتی ہے۔ پھر بھی ذاتی قربانی کے نتیجے میں نئی زندگی کا وہمہ کہیں نہ کہیں موجود رہتا ہے۔ اس وقت ہم جس جگہ کھڑے ہیں، اسے دیکھ کر مجھے ایسا موقع محل یاد آتا ہے جیسے ہم کسی وسیع و عریض ویرانے میں ہوں اور وہاں سے ایک راستہ گزرتا ہو، لیکن ہم نہیں جانتے کہ یہ کس طرف لے جائیگا۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ ہم ایسی صورت حال کا شکار ہوئے ہوں۔ اکثر ہمیں ماضی میں بھی ایسے حالات سے واسطہ پڑتا رہا، پھر بھی ہم نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

ہمیں ایسے تیز رفتار احتسابی عمل اور انصاف کی ضرورت ہے جو نظام کا لازمی حصہ ہو، اور انکی فعالیت اور ان پر کاربند رہنے کا عزم اس قدر صمیم ہو کہ دولت، عہدہ، طاقت اور اختیار کے باوجود کسی کو استثنیٰ حاصل نہ ہو۔ ترقی کی راہ پر گامزن اقوام اور خود اذیتی کی چکی میں پسنے والی پسماندہ اقوام میں فرق آئین اور قانون کی مکمل پاسداری کا ہے ۔ ہمارا شمار موخر الذکر میں ہوتا ہے۔ تمام تر شواہد اور ارادے بتاتے ہیں کہ ہم بہت دیر سے اسی صف میں ہیں اور اس دلدل سے باہر نکلنے کی کوئی سبیل دکھائی نہیں دیتی۔ درحقیقت یا تو ہم ان مسائل سے بے حس ہیں جو ہمیں گھیرے ہوئے ہیں، یا پھر ہم اس صورتحا ل سے براہ راست یا........

© Daily Jang


Get it on Google Play