بھیرہ جانے کاا تفاق ہوا ندیم افضل چن سے ملاقات تو نہیں ہوئی مگر ان کی محبتیں وہاں قدم قدم پر ملیں ۔ پیر سید امین الحسنات بھی اسلام آباد تھے مگران کے چاہنے والوں نے مجھے بھی کچھ کم نہیں چاہا۔مجھے وہاں بار بار پیر محمد کرم شاہ یاد آئے ۔ میں جب چودہ سال کا تھا تو وہ ایک روزہمارے گھر آئے تھے ۔دوسری ملاقات ان سے خواب میں ہوئی تھی ۔جس میں ایک تقریب میں انہوں نے مجھے انعام میں قلم عطا کیاتھا۔

میں کافی دیر صدیوں پرانے بھیرے میں پھرتا رہاجہاں سکندر اعظم گھوما کرتا تھا۔مجھے جگہ جگہ محمود غزنوی کے نقش ِ پا بھی دکھائی دئیے ۔مجھے ظہیر الدین بابر کے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز بھی فضا میں سنائی دی۔مجھے یہ سوچ کر اس مٹی کی معجز ہ نمائی کا احساس ہوا کہ یہاں۱نیس سو اٹھارہ کی ایک برکتوں بھری رمضان المبارک کی عشا کے وقت تاجدارِ علم و قلم نے جنم لیا۔جسے دنیا پیر محمد کرم شاہ کے نام سے جانتی ہے ۔میں بھیرہ کے قدیم ریلوے اسٹیشن پر گیا تومجھے انیس سو اکتالیس کی ایک خوشگوار صبح نظر آنے لگی ۔ ایک خوبصورت سا نوجوان بھیرہ ریلوے اسٹیشن سے ریل گاڑی میں سوار ہوا۔ ملکوال سے ہوتا ہوا جب لاہور ریلوے اسٹیشن پر اترا۔توا ورینٹل کالج تک ڈھلتی سہ پہر کی ہر کرن نے آگے بڑھ بڑھ کرقدم چوم لیے۔اور پھر اس نوجوان نے علوم ِعربیہ میں پنجاب بھرمیں پہلی پوزیشن حاصل کی۔لاہور سے مراد آبادکا رختِ سفر باندھا۔جہاں نعیم الدین مراد آبادی نے اسے اپنی آغوشِ علم و حکمت میں سمیٹ لیا۔

پھر ذہن میںمصرلہرا گیا۔ انیس سو اکیاون کا کوئی دن تھا۔قاہرہ میں جامعہ الازہر اپنی بانہیں کھول کرکھڑا تھا،اسی نوجوان کے انتظار میں۔وہاں اسے شیخ ابوالزہرا جیسے عظیم استاد میسر آئے۔ساڑھے تین سال وہاں تعلیم مکمل کرکے واپس آیاتو اسی محمدیہ غوثیہ پرائمری کی چوکھٹ پر آکھڑا ہوا جہاں اس نے سلسلۂ علم کا آغازکیا۔پھر اُس نوجوان نے اسی محمدیہ غوثیہ کوشرق و غرب میں پھیلا دیا۔برصغیرمیں پہلی بار کسی مدرسہ میں دینی علوم کے ساتھ دنیاوی علوم بھی پڑھائے جانے لگے ۔ آج وہی محمدیہ غوثیہ مدرسہ الکرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں بدل چکا ہے۔

پیر محمد کرم شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے علم و قلم کا ایک نیا بھیرہ دنیائے علوم کے نقشے پر بنادیا۔ ضیاالقرآن کے نام سے ایسی تفسیرِ قرآن لکھی کہ زمانہ چونک اٹھا۔ ضیاالنبیﷺ کے نام سے ایسی سیرت النبیﷺ لکھی کہ عشاق جھوم جھوم گئے۔ ضیاالقرآن تین ہزار پانچ صفحات پر مشتمل ہے اور ایک ایک سطر میں موتی پروئے ہیں۔یہ پانچ جلدوں میں تقسیم شدہ تفسیر انیس برس کی طویل ریاضت سے تکمیل تک پہنچی۔اس کا انگریزی ترجمہ بھی بہت شاندار ہے ۔ ضیاء النبی صرف کوئی عاشقِ رسول لکھ سکتا ہے۔سات جلدوں پر مشتمل یہ سیرت ِ چارہ سازِ بیکساں قبولیت عامہ کے اس مقام پر ہے جہاں خواص ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ ایک ایک جملہ پر تخیل کی بلند پروازیاں نثار ہیں۔آپ کی ایک اور کتاب کا ذکر کرنا بھی فرضِ کفایہ کی طرح ہے۔اس کا نام ’’سنت خیرالانام‘‘ ہے۔ یہ انہوں نے مصر میں قیا م کے دوران تحریر فرمائی۔بے شمار منکرین ِ حدیث اسے پڑھ کر راہِ راست پر آئے۔یہ کتاب بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔دنیا کے بہت سے ممالک میں اس ادارہ کی بہت سی شاخوں پر الوہی روشنی اورمحبت ِ رسول ﷺ کی خوشبو کے پھول کھل رہے ہیں۔ انہوں نے انیس سو اکہتر میں ماہنامہ ضیائے حرم کا اجرا کیا جس کے تسلسل میں کبھی رکاوٹ نہیں آئی۔انیس سو 74 میں اسلامی کتابوں کی ترویج و اشاعت کیلئے ضیاء القرآن پبلیکیشنز کا قیام عمل میںلائے جو شاید اس وقت دنیا میں چند اہم ترین پبلشنگ ہائوسز میں سے ایک ہے ۔ان کا شجرۂ نسب شیخ السلام مخدوم بہاؤالدین زکریا ملتانی سہروردی سے جا ملتا ہے۔ان کے والد کا اسمِ گرامی پیر محمدشاہ ہاشمی تھا ان کی کنیت ابو الحسنات تھی جو ان کے بڑے صاحبزادے اور موجودہ سجادہ نشین پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب کے نام سے منسوب ہے۔ حکومت پاکستان نے 1980ء میں آپ کی علمی و اسلامی خدمات کے اعتراف میں ان کو تمغہ ٔامتیاز کے اعزاز سے نوازا۔ انیس سو ترانوے میں مصر کے صدر حسنی مبارک نے ان کی عظیم خدمات کے صلے میں آپ کو’’ نت ِ الامتیاز‘‘ کاایوارڈدیا۔انیس سو چوراسی میں حکومت پاکستان اور حکومت کشمیر نے انہیں سند ِ امتیاز سے نوازا۔ ڈاکٹر احمد عمر ہاشم نے انہیں جامعہ الازہر کا سب سے بڑا اعزاز دیا ۔انیس سو تریسٹھ سے انیس سو اکیاسی تک آپ وفاقی شرعی عدالت کے جج رہے اورتاریخی فیصلے کیے ۔سات اپریل 1998ء بروز منگل رات، طویل علالت کے بعد وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔ انہوں نے خواجہ قمر الدین سیالوی کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ان کے فرزندخوا جہ محمد حمید الدین سیا لوی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔وہ اپنے وقت کی بہت بڑی روحانی شخصیت تھے ۔افسوس کہ ان کے جانے کے بعد وہاں کی صورتحال بہتر نہیں تھی توقع ہے کہ جلد حکومتِ پنجاب اس طرف توجہ دےگی اور اس کا انتظام و انصرام محکمہ اوقاف سنبھال لے گا۔ اس سلسلے میں محکمہ اوقاف کے سیکریٹری طاہر رضا بخاری سے بھی درخواست ہے کہ وہ اس میں خصوصی دلچسپی لیں تاکہ دنیائے روحانیت کے عظیم آستانے سیال شریف کا وقار بحال ہوسکے ۔ایسے آستانے کو سیاسی معاملات کی نذرنہیں ہونا چاہئے۔

ترجمان مسلم لیگ ن مریم اورنگزیب نے کہا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں دھاندلی نہیں، دھاندلا ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ پنجاب بھر میں تھانوں کی اپ گریڈیشن کا عمل شروع کردیا ہے، تمام اضلاع کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے خریدیں گے۔

دبئی میں کوپ 28 میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل غزہ میں اپنے فوجی مقاصد جاری رکھے تو بے گناہ فلسطینیوں کے تحفظ کا خیال رکھے۔

غیرملکی میڈیا کے مطابق شدید برفباری کے باعث میونخ ایئرپورٹ پر 760 پروازیں منسوخ کردی گئی ہیں۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ واٹس ایپ گروپس میں پولیس افسران یا اہلکاروں کی موجودگی پر محکمانہ کارروائی ہوگی۔

حماس نائب سربراہ نے کہا کہ جنگ بندی پر اب کوئی بات چیت نہیں ہو رہی، تمام یرغمالی خواتین، بچوں کو رہا کر دیا ہے۔

قومی کرکٹ سلیکشن کمیٹی کا اجلاس چیف سلیکٹر وہاب ریاض کی سربراہی میں کل کراچی میں ہوگا۔

گھنٹوں میں اسرائیل کے 400 سے زیادہ حملوں میں300 سے زیادہ فلسطینی شہید ہوگئے۔

بالی ووڈ اسٹار رنبیر کپور کی فلم اینمل نے پہلے دن دنیا بھر میں 115 کروڑ کا بزنس کرکے تاریخ رقم کردی۔

خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ایم کیو ایم نے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے تین نکات پیش کیے ہیں۔

سلطان نشے کا عادی تھا اور گھر بیچ کر پیسے حاصل کرنا چاہتا تھا۔

پاکستان کرکٹ کی کامیابی کےلیے تمام تقرریاں میرٹ پر کریں گے، نگراں وزیراعظم

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ آج پی ٹی آئی دربدر ہے ان کے رہنما بلوں میں گھسے ہوئے ہیں، آج پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن نہیں کرواسکتی۔

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بہن سے ملاقات کےلیے واشنگٹن میں حکام سے باضابطہ اجازت لے رکھی تھی۔

گزشتہ ماہ بھی 2 فضائی میزبان کینیڈا میں سلپ ہوئے تھے۔

ایرانی پاسداران انقلاب گارڈز شام میں ملٹری ایڈوائزر کے مشن پر تھے، ایرانی میڈیا

QOSHE - منصور آفاق - منصور آفاق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

منصور آفاق

9 1
03.12.2023

بھیرہ جانے کاا تفاق ہوا ندیم افضل چن سے ملاقات تو نہیں ہوئی مگر ان کی محبتیں وہاں قدم قدم پر ملیں ۔ پیر سید امین الحسنات بھی اسلام آباد تھے مگران کے چاہنے والوں نے مجھے بھی کچھ کم نہیں چاہا۔مجھے وہاں بار بار پیر محمد کرم شاہ یاد آئے ۔ میں جب چودہ سال کا تھا تو وہ ایک روزہمارے گھر آئے تھے ۔دوسری ملاقات ان سے خواب میں ہوئی تھی ۔جس میں ایک تقریب میں انہوں نے مجھے انعام میں قلم عطا کیاتھا۔

میں کافی دیر صدیوں پرانے بھیرے میں پھرتا رہاجہاں سکندر اعظم گھوما کرتا تھا۔مجھے جگہ جگہ محمود غزنوی کے نقش ِ پا بھی دکھائی دئیے ۔مجھے ظہیر الدین بابر کے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز بھی فضا میں سنائی دی۔مجھے یہ سوچ کر اس مٹی کی معجز ہ نمائی کا احساس ہوا کہ یہاں۱نیس سو اٹھارہ کی ایک برکتوں بھری رمضان المبارک کی عشا کے وقت تاجدارِ علم و قلم نے جنم لیا۔جسے دنیا پیر محمد کرم شاہ کے نام سے جانتی ہے ۔میں بھیرہ کے قدیم ریلوے اسٹیشن پر گیا تومجھے انیس سو اکتالیس کی ایک خوشگوار صبح نظر آنے لگی ۔ ایک خوبصورت سا نوجوان بھیرہ ریلوے اسٹیشن سے ریل گاڑی میں سوار ہوا۔ ملکوال سے ہوتا ہوا جب لاہور ریلوے اسٹیشن پر اترا۔توا ورینٹل کالج تک ڈھلتی سہ پہر کی ہر کرن نے آگے بڑھ بڑھ کرقدم چوم لیے۔اور پھر اس نوجوان نے علوم ِعربیہ میں پنجاب بھرمیں پہلی پوزیشن حاصل کی۔لاہور سے مراد آبادکا رختِ سفر باندھا۔جہاں نعیم الدین مراد آبادی نے اسے اپنی آغوشِ علم و حکمت میں سمیٹ لیا۔

پھر ذہن میںمصرلہرا گیا۔ انیس سو اکیاون کا کوئی دن تھا۔قاہرہ میں جامعہ الازہر اپنی بانہیں کھول کرکھڑا تھا،اسی نوجوان کے انتظار میں۔وہاں اسے شیخ ابوالزہرا جیسے عظیم استاد میسر آئے۔ساڑھے تین سال وہاں تعلیم مکمل کرکے واپس........

© Daily Jang


Get it on Google Play