عالمی بینک نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان اگر روشن مستقبل چاہتا ہے تو اسے ماضی کی ڈگر چھوڑ کر نئی اصلاحات کیلئےمشکل اور ناگزیر فیصلے کرنا ہوں گے۔ فیصلے کی گھڑی آچکی ہے۔ آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوئوں دامادوں سے تبادلۂ خیال کا دن۔ بہتر ہے کہ آپ عالمی بینک کے جاری کردہ پالیسی نکات پر اپنی اولادوں سے بات کریں کیونکہ یہ نکات بینک نے ہمارے مستقبل کیلئے ہی تجویز کیے ہیں۔ یوم انتخاب یعنی 8فروری میں 67 دن رہ گئے ہیں۔ ماضی میں انتخابات سے 3ماہ قبل ہی سرگرمیاں عروج پر ہوتی تھیں۔انتخابی منشور چھپ کر تقسیم ہوتے تھے۔ اخبارات۔ ٹی وی چینلوں پر منشور کے حوالے سے اشتہارت بھی شائع ہونے لگتے تھے۔ پہلے صرف با خبر اور با اثر لوگوں کو پتہ ہوتا تھا کہ اس بار وزارتِ عظمیٰ کی اچکن کس کو ملے گی۔ اب کے عام لوگوں کو بھی عدالتی فیصلوں سے اندازہ ہورہا ہے کہ اب کے شیروانی کون پہننے والا ہے۔

کراچی میں ایئرپورٹ کے راستے میں متحدہ قومی موومنٹ کے تازہ سلے ہوئے پرچم کھمبوں پر آویزاں دیکھے۔ یا پھر جماعت اسلامی کے نئے نویلے جھنڈے۔ لاہور میں شیر کی تصویر کے پرچم لمبے لمبے اونچے کھمبوں کے اوپر۔ اخبارات میں اشتہارات ابھی شروع نہیںہوئے۔ البتہ نگراں حکومت کی طرف سے حج بیت اللہ کے بڑے بڑے اشتہارات کا آغاز ہوگیا ہے۔ نگراں وفاقی وزیر مذہبی امور انیق احمد کے حصّے میں سعادت آرہی ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں مہنگائی اگرچہ زیادہ ہے۔ لیکن حج پچھلے سال کی نسبت عام عازمین کیلئے ایک لاکھ روپے کم ہے۔ جب ایئر لائن کے کرائے بڑھ رہے ہیں۔ دیگر لوازمات بھی گراں ہو رہے ہیں۔ انیق صاحب نے سعودی عرب کے متعلقہ وزراء سے مذاکرات کرکے سہولتیں حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ پھریہ نوید بھی سنائی ہے کہ انڈونیشیا، ملائشیا کی طرح پاکستان کے عازمین بھی اپنی قومی شناخت کے ساتھ خانہ کعبہ میں، میدان عرفات میں، مسجد نبویؐ میں دکھائی دیں گے۔ حرف و دانش سے جس شخصیت کا بھی واسطہ رہا ہے۔ وہ کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور لے کر آتا ہے۔

2024 اسی لیے اہمیت حاصل کررہا ہے کہ وہ صرف پاکستان میں ہی نہیں۔ سب سے بڑی طاقت امریکہ میں بھی انتخابات کا سال ہے۔ اور انڈیا میں بھی۔ پاکستان، امریکہ، انڈیا تینوں ملکوں میں کانٹے کے مقابلوں کی امید ہے۔ مقامی اسٹیبلشمنٹ کیا چاہتی ہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کیا نقشہ بنارہی ہے۔ اس کا بغور مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ، انڈیا کووڈ کی اقتصادی تباہ کاری سے سنبھل چکے ہیں۔ حالات اب بھی پوری طرح سازگار نہیں ہیں۔ لیکن پاکستان والی اقتصادی بد حالی نہیں ہے۔ معاشی طور پر افغانستان بھی مستحکم ہورہا ہے۔ ہمارے ایک تاجر دوست ایران کے دورے سے واپس آئے ہیں۔ ان کا تدبر یہ ہے کہ پابندیوں کے باوجود ایران جس طرح اقتصادی،سیاسی، سماجی طور پر مستحکم ہے۔ اگر یہ عالمی جبر نہ ہوتا تو ایران اپنی بصیرت، منصوبہ بندی، خلوص نیت کی بدولت دنیا کی چند بڑی معیشتوں میں شامل ہوجاتا۔جنوبی ایشیا میں شرح نمو میں پاکستان بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ عالمی بینک کے جنوبی ایشیا کیلئے نائب صدر مارٹن ریزر پاکستان آئے ہوئے ہیں ۔ اقتصادی صورت حال کا ملک گیر معروضی جائزہ لینے کے بعد ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت بہت کم شرح نمو کے ساتھ بہت حقیر انسانی بہبود اور روز افزوں غربت کے جال میں اٹکی ہوئی ہے۔ یہ اقتصادی حالت ملک کی موسمیاتی تبدیلیوں کے سامنے عجز کا شکار ہو رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کیلئے سرکاری وسائل ناکافی ہیں۔ اس لیے وقت آگیا ہے کہ پاکستان فیصلہ کرے کہ وہ ماضی کی ڈگر پر چلے گا یا ایک روشن مستقبل کیلئے مشکل لیکن ناگزیر قدم اٹھائے گا۔ ان کے جاری کردہ سلسلہ وار پالیسی نکات توجہ دلاتے ہیں کہ ایک صحت مند، پائیدار، نتیجہ خیز، پختہ کار پاکستان کیلئے کن سمتوں میں پالیسی تبدیلی کی ضرورت ہے۔

عالمی بینک کی ٹیموں نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں کئی ماہ تک بچوں کی پیدائش، پرورش۔ پرائیویٹ سیکٹر کی نمو، توانائی، غربت، زراعت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے مسائل کا مشاہدہ کیا۔ ملک ایک انتخابی سال سے گز رہا ہے۔ اس لیے عالمی بینک نے Reforms for a Bright Future Time to Decide ۔ روشن مستقبل کیلئے اصلاحات، فیصلے کی گھڑی۔ کے زیر عنوان پالیسی نکات جاری کیے ہیں۔ معلوم نہیں ہماری قومی سیاسی جماعتوں نے ان اہم اور ناگزیر اقدامات پر مبنی پالیسی نکات پڑھنے کی زحمت بھی کی ہے۔

عالمی بینک نے تو اپنی بین الاقوامی ذمہ داری ادا کی ہے۔ لیکن کیا ریاست پاکستان اور نگراں وفاقی، صوبائی حکومتوں کو بھی ملک کے مستقبل کی فکر ہے۔ کیا اس اہم مسئلے پر نگراں وزیر اعظم نے قومی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ان کو یاد دلایا ہے کہ عالمی بینک کہہ رہا ہے کہ پاکستان کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ روشن مستقبل کیلئے مشکل فیصلوںکیلئے سخت پالیسیاں اختیار کرے گا یا ماضی کی ڈگر پر چلے گا۔ تین بار وزیرا عظم رہنے والی جس شخصیت کے چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے قوی امکانات ہیں۔ وہ تو اپنی دو دو عشرے پرانی پالیسیوں کی ہی بات کر رہے ہیں۔ وہ تو نئی اصلاحات کا ذکر نہیں کررہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی معیشت کیلئے مشکل فیصلوں کا اشارہ نہیں دے رہی۔ دونوں بڑی پارٹیوں کی کوئی ٹاسک فورسز یا اقتصادی کمیٹیاں اپنی اصلاحات کیلئے غور و فکر کررہی ہیں نہ ہی ملک میں کسی بھی سطح پر ایسے ’ڈائیلاگ‘ کا آغاز ہوا ہے۔

عالمی بینک نے کسی بھی ریاست کیلئے جو بنیادی مسائل ہوتے ہیں مثلاً زچہ بچہ کی صحت، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، زراعت میں فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ، موسمیاتی تبدیلیوں سے ممکنہ خطرات، امن و امان،انسانی وسائل کی بہبود، غربت کے خاتمے کیلئے اقدامات۔ ان پر تفصیلی پالیسی نکات کا اجرا کیا ہے۔ ہم تو ان کالموں میں ہمیشہ سے زور دیتے آرہے ہیں کہ ملک کو درپیش اقتصادی سماجی سیاسی قانونی پیچیدگیوں پر عام بحث کاآغاز کیا جائے۔ سیاسی جماعتوں، میڈیا ہائوسز، یونیورسٹیوں، تحقیقی اداروں سب کو چاہئے کہ ان نکات پر سیمینارز، مذاکرات شروع کریں۔ فیصلہ پاکستان کی ریاست اور عوام کو ہی کرنا ہے کہ آئندہ پانچ دس برس کیلئے کس قسم کی اقتصادی اصلاحات، زرعی منصوبے، قانونی ترامیم ہونی چاہئیں۔ لوگوں میں شعور پیدا کیا جائے تاکہ وہ الیکشن کے دن فیصلہ کرسکیں کہ روشن مستقبل کیلئے ضروری اصلاحات کس پارٹی کے منشور میں ہیں۔ اور کس پارٹی کے پاس ایسے ماہروں کی ٹیم ہے جو پرانی ڈگر پر چلنے کی بجائے مشکل فیصلے کرنے کی ہمت رکھتی ہے۔

ترجمان مسلم لیگ ن مریم اورنگزیب نے کہا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں دھاندلی نہیں، دھاندلا ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ پنجاب بھر میں تھانوں کی اپ گریڈیشن کا عمل شروع کردیا ہے، تمام اضلاع کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے خریدیں گے۔

دبئی میں کوپ 28 میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل غزہ میں اپنے فوجی مقاصد جاری رکھے تو بے گناہ فلسطینیوں کے تحفظ کا خیال رکھے۔

غیرملکی میڈیا کے مطابق شدید برفباری کے باعث میونخ ایئرپورٹ پر 760 پروازیں منسوخ کردی گئی ہیں۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ واٹس ایپ گروپس میں پولیس افسران یا اہلکاروں کی موجودگی پر محکمانہ کارروائی ہوگی۔

حماس نائب سربراہ نے کہا کہ جنگ بندی پر اب کوئی بات چیت نہیں ہو رہی، تمام یرغمالی خواتین، بچوں کو رہا کر دیا ہے۔

قومی کرکٹ سلیکشن کمیٹی کا اجلاس چیف سلیکٹر وہاب ریاض کی سربراہی میں کل کراچی میں ہوگا۔

گھنٹوں میں اسرائیل کے 400 سے زیادہ حملوں میں300 سے زیادہ فلسطینی شہید ہوگئے۔

بالی ووڈ اسٹار رنبیر کپور کی فلم اینمل نے پہلے دن دنیا بھر میں 115 کروڑ کا بزنس کرکے تاریخ رقم کردی۔

خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ایم کیو ایم نے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے تین نکات پیش کیے ہیں۔

سلطان نشے کا عادی تھا اور گھر بیچ کر پیسے حاصل کرنا چاہتا تھا۔

پاکستان کرکٹ کی کامیابی کےلیے تمام تقرریاں میرٹ پر کریں گے، نگراں وزیراعظم

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ آج پی ٹی آئی دربدر ہے ان کے رہنما بلوں میں گھسے ہوئے ہیں، آج پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن نہیں کرواسکتی۔

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بہن سے ملاقات کےلیے واشنگٹن میں حکام سے باضابطہ اجازت لے رکھی تھی۔

گزشتہ ماہ بھی 2 فضائی میزبان کینیڈا میں سلپ ہوئے تھے۔

ایرانی پاسداران انقلاب گارڈز شام میں ملٹری ایڈوائزر کے مشن پر تھے، ایرانی میڈیا

QOSHE - محمود شام - محمود شام
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

محمود شام

15 16
03.12.2023

عالمی بینک نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان اگر روشن مستقبل چاہتا ہے تو اسے ماضی کی ڈگر چھوڑ کر نئی اصلاحات کیلئےمشکل اور ناگزیر فیصلے کرنا ہوں گے۔ فیصلے کی گھڑی آچکی ہے۔ آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوئوں دامادوں سے تبادلۂ خیال کا دن۔ بہتر ہے کہ آپ عالمی بینک کے جاری کردہ پالیسی نکات پر اپنی اولادوں سے بات کریں کیونکہ یہ نکات بینک نے ہمارے مستقبل کیلئے ہی تجویز کیے ہیں۔ یوم انتخاب یعنی 8فروری میں 67 دن رہ گئے ہیں۔ ماضی میں انتخابات سے 3ماہ قبل ہی سرگرمیاں عروج پر ہوتی تھیں۔انتخابی منشور چھپ کر تقسیم ہوتے تھے۔ اخبارات۔ ٹی وی چینلوں پر منشور کے حوالے سے اشتہارت بھی شائع ہونے لگتے تھے۔ پہلے صرف با خبر اور با اثر لوگوں کو پتہ ہوتا تھا کہ اس بار وزارتِ عظمیٰ کی اچکن کس کو ملے گی۔ اب کے عام لوگوں کو بھی عدالتی فیصلوں سے اندازہ ہورہا ہے کہ اب کے شیروانی کون پہننے والا ہے۔

کراچی میں ایئرپورٹ کے راستے میں متحدہ قومی موومنٹ کے تازہ سلے ہوئے پرچم کھمبوں پر آویزاں دیکھے۔ یا پھر جماعت اسلامی کے نئے نویلے جھنڈے۔ لاہور میں شیر کی تصویر کے پرچم لمبے لمبے اونچے کھمبوں کے اوپر۔ اخبارات میں اشتہارات ابھی شروع نہیںہوئے۔ البتہ نگراں حکومت کی طرف سے حج بیت اللہ کے بڑے بڑے اشتہارات کا آغاز ہوگیا ہے۔ نگراں وفاقی وزیر مذہبی امور انیق احمد کے حصّے میں سعادت آرہی ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں مہنگائی اگرچہ زیادہ ہے۔ لیکن حج پچھلے سال کی نسبت عام عازمین کیلئے ایک لاکھ روپے کم ہے۔ جب ایئر لائن کے کرائے بڑھ رہے ہیں۔ دیگر لوازمات بھی گراں ہو رہے ہیں۔ انیق صاحب نے سعودی عرب کے متعلقہ وزراء سے مذاکرات کرکے سہولتیں حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ پھریہ نوید بھی سنائی ہے کہ انڈونیشیا، ملائشیا کی طرح پاکستان کے عازمین بھی اپنی قومی شناخت کے ساتھ خانہ کعبہ میں، میدان عرفات میں، مسجد نبویؐ میں دکھائی دیں گے۔ حرف و دانش سے جس شخصیت کا بھی واسطہ رہا ہے۔ وہ کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور لے کر آتا ہے۔

2024 اسی لیے اہمیت........

© Daily Jang


Get it on Google Play