نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ (NIM) ہر سال 20ویں گریڈ میں ترقی پانے والے اعلیٰ سرکاری افسران کیلئے اہم ٹریننگ کورس منعقد کرتا ہے۔ میری یہ خوش قسمتی ہے کہ میں گزشتہ 12سال سے اِن اعلیٰ افسران کو اُن کے کورس کے دوران پاکستان کی بڑی صنعتوں (LSM)، سی پیک، تجارتی اور صنعتی پالیسیوں جیسے اہم موضوعات پر پریزنٹیشن دے رہا ہوں۔ NIM میں کسی اسپیکر کا کورس کے شرکاء سے خطاب اسپیکر کے اعلیٰ گریڈ حاصل کرنے پر ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں میں نے 34ویں سینئر مینجمنٹ کورس کے اعلیٰ افسران کو ’’پاکستان کی تجارتی پالیسی‘‘ پر ایک اہم پریزنٹیشن دی جس میں 50 سینئر مینجمنٹ اور مڈکیریئر افسران نے شرکت کی۔ قومی پالیسیاں بنانے والے اِن اعلیٰ افسران کے ساتھ 2 گھنٹے جاری رہنے والی پریزنٹیشن آج میں اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔

پاکستان کی تجارتی پالیسی کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہماری ایکسپورٹ گزشتہ کئی برسوں سے 27سے 31ارب ڈالر کے درمیان رکی ہوئی ہے اور عالمی ایکسپورٹ مارکیٹ میں ہمارا شیئر 0.18فیصد سے بھی کم ہوکر 0.13 فیصد رہ گیا ہے۔ اسی دوران چین نے 27فیصد اور بھارت نے 18فیصد شیئر حاصل کیا ہے جبکہ بنگلہ دیش نے 95فیصد کی متاثر کن گروتھ حاصل کی ہے۔ ملکی ایکسپورٹس بڑھانے کیلئے نگراں حکومت نے وزیر تجارت گوہر اعجاز کی سربراہی میں ملک کے ممتاز ایکسپورٹرز پر مشتمل ٹیکسٹائل اور دیگر سیکٹرز کیلئے ایکسپورٹ ایڈوائزری کونسل (EAC) کا اعلان کیا ہے جنہوں نے 8ہفتوں میں ملکی ایکسپورٹ کو 100ارب ڈالر تک لے جانے کیلئے تجاویز پیش کرنی ہیں۔ حکومت نے 2021ء میں آخری تجارتی پالیسی اسٹرٹیجک ٹریڈ پالیسی فریم ورک (STPF) 2020-25کا اعلان کیا تھا لیکن اس دوران ایکسپورٹ بڑھنے کے بجائے ہماری امپورٹ میں ریکارڈ اضافہ ہوا جو 2021-22ء میں بڑھ کر 80ارب ڈالر تک پہنچ گئیں جس میں پیٹرولیم مصنوعات کی 18ارب ڈالر اور کھانے پینے کی اشیا کی 8ارب ڈالر کی امپورٹ شامل تھیں جبکہ اس دوران ایکسپورٹ بمشکل 30ارب ڈالر رہی جس کی وجہ سے ملک کو 50ارب ڈالر کا ناقابل برداشت تجارتی خسارہ ہوا جس نے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کوکم ترین سطح پر پہنچا دیا۔ ملکی ایکسپورٹ کو درپیش چیلنجز میں پیداواری لاگت، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ، 24فیصد بلند شرح سود، سیلز ٹیکس ریبٹ اور DLTL کے ریفنڈز میں غیر معمولی تاخیر شامل ہے جس سے کمپنیوں کا کیش فلو بری طرح متاثر ہوا ہے۔

ملک میں ڈالر کی کمی کے باعث ایکسپورٹ خام مال کی LCs کھلنے میں تاخیر سے بھی سپلائی چین متاثر ہوئی ہے جس کے باعث ہماری مصنوعات کی قیمتیں خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں غیر مسابقتی ہوگئی ہیں۔ کئی برسوں سے کاٹن کی پیداوار میں کمی، جو 11 ملین بیلز سے کم ہوکر گزشتہ سال بمشکل 5ملین بیلز رہ گئی تھی، کی وجہ سے ہمیں 2.4ارب ڈالر کی کاٹن امپورٹ کرنا پڑی جس سے ہماری پیداواری لاگت میں اضافہ اور مسابقتی سکت میں کمی ہوئی۔ گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور لوڈشیڈنگ نے بھی صنعتوں کی پیداواری صلاحیتوں کو متاثر کیا۔

ہمیں اپنا امپورٹ بل کم کرنے کیلئے فرنس آئل اور ایل این جی کی امپورٹ کم کرکے متبادل ذرائع سولر، ہوا، کوئلے اور نیوکلیئر سے بجلی پیدا کرنا ہوگی اور زراعت کے شعبے کو بحال کرکے زرعی اجناس کی امپورٹ کے بجائے ملک کو زراعت میں خود کفیل بنانا ہوگا۔ ہم 4ارب ڈالر کے خوردنی تیل اور 2ارب ڈالر کے چائے کے امپورٹ بل کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہماری امپورٹ میں اس وقت 29 فیصد پیٹرولیم مصنوعات، 20فیصد خام مال، 22فیصد کیپٹل گڈز، 16فیصد کیمیکلز، 10فیصد فوڈ آئٹمز اور 3فیصد کنزیومر گڈز شامل ہیں۔ امپورٹ اور ایکسپورٹ میں ریکارڈ فرق ہماری 3سالہ تجارتی پالیسی کی ناکامی کا ثبوت ہے جس کی ایک وجہ پالیسی پر عملدرآمد کرنے کیلئے وزارت تجارت کو وقت پر فنڈز کا نہ ملنا ہے۔ پاکستان کی پہلی ٹیکسٹائل پالیسی 2009-14ء جو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں پیش کی گئی تھی، نے پہلے 2 سال بہترین نتائج دیئے لیکن بعد میں فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے ٹیکسٹائل پالیسی کی کئی اسکیمیں جاری نہ رہ سکیں لہٰذا سالانہ بجٹ میں وزارتوں کو فنڈز مختص کئے جائیں تاکہ پالیسیوں پر عملدرآمد کیا جاسکے۔

اسٹرٹیجک ٹریڈ پالیسی فریم ورک (STPF) کے مطابق وزارت تجارت نے 3مختلف حالات میں ایکسپورٹ کی پروجیکشن کی تھی جس میں 2021-22ء میں ایکسپورٹ پروجیکشن 23سے 29ارب ڈالر تھا جبکہ ہدف 31.2ارب ڈالر رکھا گیا۔ 2022-23 ء میں ایکسپورٹ پروجیکشن 25 سے 33 ارب ڈالر تھا جبکہ ہدف 37.8 ارب ڈالر رکھا گیا۔ 2023-24ء ایکسپورٹ پروجیکشن 26 سے 36 ارب ڈالر تھا جبکہ ہدف 45.81 ارب ڈالر رکھا گیا۔ 2024-25ء میں ایکسپورٹ پروجیکشن 28سے 40ارب ڈالر تھا جبکہ ہدف 57.03ارب ڈالر رکھا گیا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ اہداف حاصل نہیں کئے جاسکے۔ ہمیں ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے ویلیو ایڈیشن، برانڈنگ، پیداواری لاگت میں کمی اور مسابقتی سکت میں بہتری لانا ہوگی۔ اس سلسلے میں خصوصی سرمایہ کاری کونسل (SIFC) کے تحت زراعت، آئی ٹی، معدنیات اور دفاعی پیداوار کے شعبے ہماری ترجیحات ہونے چاہئیں۔

ڈاکٹر فوزیہ کی امریکی جیل میں قید اپنی بہن ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات ہوگئی، فوزیہ صدیقی نے ویڈیو بیان میں کہا کہ جیل میں عافیہ کی حالت پہلے سے زیادہ خراب لگی ہے۔

بلوچستان کے ضلع موسی خیل کے علاقے میں جنگلات میں آگ لگ گئی، آگ شیرانی اور موسیٰ خیل اضلاع کے درمیان میں پہاڑی سلسلے میں لگی ہے۔

رہنما مسلم لیگ ن نے کہا کہ احسن اقبال کا کہنا کہ پی ٹی آئی نے مہنگائی کی ہے پھر اس کا کوئی وائٹ پیپر شائع کیوں نہیں کیا؟

نگراں وزیراعظم کےنمائندہ خصوصی طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ معاملات کا حل میز پر بیٹھ کر نکلتا ہے، ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین (پی پی پی پی) کی سیکریٹری اطلاعات شازیہ مری نے کہا ہے کہ حکومت اور لوگوں کو معذور افراد کے لیے سہولت پیدا کرنا ہوگی۔

پاکستانی ٹیم نے فزیکل ٹریننگ اور فیلڈنگ کی، لیکن اس کے بعد بارش اور ژالہ باری شروع ہوگئی، پریکٹس تو رک گئی لیکن تفریح شروع ہوگئی۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کےمرکزی رہنما حافظ حمد اللّٰہ نے کہا ہے کہ اگلے صدر مملکت مولانا فضل الرحمان ہوں گے۔

نامور مصنف مستنصر حسین تارڑ نے کہا ہے کہ تخلیق کار باصلاحیت کے ساتھ خوش نصیب بھی ہو تو اسے مداح مل جاتے ہیں۔

محکمہ انسداددہشت گردی کے پی نے دہشت گردی میں ملوث 50 سے زیادہ خواتین کی فہرست جاری کی تھی۔

ریاست منی سوٹا سے شروع ہوئی بائیڈن مخالف مہم مشی گن، ایری زونا، وسکونسن، پنسلوانیا اور فلوریڈا تک پھیل گئی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) خیبرپختونخوا کے صدر علی امین گنڈا پور نے انٹرا پارٹی الیکشن پر ہونے والی تنقید پر ردعمل دیدیا۔

موسمیاتی تبدیلی کا ایک اور اثر ظاہر ہونا شروع ہوگیا ہے، بحر انٹارٹک میں دنیا کے سب سے بڑے گلیشیئر نے ہلنا شروع کر دیا۔

خان یونس میں بھی اسرائیلی فضائیہ نے رہائشی کمپلیکس تباہ کردیا،

عمران اسماعیل نے مزید کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے اعتراضات کیے ہیں مگر ہٹ دھرمی کے ساتھ الیکشن کمیشن سندھ اپنے کام میں ڈٹا ہوا ہے۔

سابقہ پلیئرز سے درخواست ہے کہ ٹیم کےلیے مثبت بات کیا کریں، ٹیسٹ کرکٹر

پاکستانی آل راؤنڈر شعیب ملک نے آج قومی ٹی ٹوئنٹی میں 6چوکوں اور 4 چھکوں کی مدد سے 84 رنز بنائے۔

QOSHE - ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ - ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ

13 0
04.12.2023

نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ (NIM) ہر سال 20ویں گریڈ میں ترقی پانے والے اعلیٰ سرکاری افسران کیلئے اہم ٹریننگ کورس منعقد کرتا ہے۔ میری یہ خوش قسمتی ہے کہ میں گزشتہ 12سال سے اِن اعلیٰ افسران کو اُن کے کورس کے دوران پاکستان کی بڑی صنعتوں (LSM)، سی پیک، تجارتی اور صنعتی پالیسیوں جیسے اہم موضوعات پر پریزنٹیشن دے رہا ہوں۔ NIM میں کسی اسپیکر کا کورس کے شرکاء سے خطاب اسپیکر کے اعلیٰ گریڈ حاصل کرنے پر ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں میں نے 34ویں سینئر مینجمنٹ کورس کے اعلیٰ افسران کو ’’پاکستان کی تجارتی پالیسی‘‘ پر ایک اہم پریزنٹیشن دی جس میں 50 سینئر مینجمنٹ اور مڈکیریئر افسران نے شرکت کی۔ قومی پالیسیاں بنانے والے اِن اعلیٰ افسران کے ساتھ 2 گھنٹے جاری رہنے والی پریزنٹیشن آج میں اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔

پاکستان کی تجارتی پالیسی کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہماری ایکسپورٹ گزشتہ کئی برسوں سے 27سے 31ارب ڈالر کے درمیان رکی ہوئی ہے اور عالمی ایکسپورٹ مارکیٹ میں ہمارا شیئر 0.18فیصد سے بھی کم ہوکر 0.13 فیصد رہ گیا ہے۔ اسی دوران چین نے 27فیصد اور بھارت نے 18فیصد شیئر حاصل کیا ہے جبکہ بنگلہ دیش نے 95فیصد کی متاثر کن گروتھ حاصل کی ہے۔ ملکی ایکسپورٹس بڑھانے کیلئے نگراں حکومت نے وزیر تجارت گوہر اعجاز کی سربراہی میں ملک کے ممتاز ایکسپورٹرز پر مشتمل ٹیکسٹائل اور دیگر سیکٹرز کیلئے ایکسپورٹ ایڈوائزری کونسل (EAC) کا اعلان کیا ہے جنہوں نے 8ہفتوں میں ملکی ایکسپورٹ کو 100ارب ڈالر تک لے جانے کیلئے تجاویز پیش کرنی ہیں۔ حکومت نے 2021ء میں آخری تجارتی پالیسی اسٹرٹیجک ٹریڈ پالیسی فریم ورک (STPF) 2020-25کا اعلان کیا تھا لیکن اس دوران ایکسپورٹ بڑھنے کے بجائے ہماری امپورٹ میں ریکارڈ اضافہ ہوا جو 2021-22ء میں بڑھ کر 80ارب ڈالر تک........

© Daily Jang


Get it on Google Play