اکتوبر 1826 ءمیں غالب کانپور کے راستے لکھنؤ پہنچے۔ غازی الدین حیدر اودھ کے بادشاہ تھے اور معتمد الدولہ آغا میر ان کے وزیر اعظم۔ شعرا کی سرپرستی کے شائق آغا میر نے غالب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ غالب نے امام بخش ناسخ کے مشورے سے آغا میر کی شان میں قریب سو اشعار کا قصیدہ لکھا مگر آغا میر سے ملاقات کے لئے کچھ شرائط بھی رکھ دیں۔ اقتدار بھی کہیں کمزور کی شرائط مانتا ہے۔ سو یہ ملاقات نہیں ہو سکی۔ اس سعی ناکام کے طفیل اردو ادب کو غالب کی ایک بے نظیر غزل حاصل ہوئی۔ ایک شعر ہمارے حال سے خاص مناسبت رکھتا ہے۔’’ لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی... ہوس سیر و تماشا سو وہ کم ہے ہم کو۔‘‘ ہوس سیر و تماشا کی کمی آشفتگان زمانہ کا مقسوم رہی ہے۔ میر تقی میر اپنے دیوان میں درد و غم کے ماہ و نجم ٹانکنے میں ایسے مگن تھے کہ باغ کی طرف کھلنے والی کھڑکی پر نگاہ ہی نہیں کی۔ ان بلند پایہ ہستیوں میں بندہ بے مایہ کا کیا مذکور، لیکن سانس کی ڈوری نے ہر کہ و مہ کو ہست کی تہمت عطا کی ہے۔ آپ کے نیاز مند نے بھی عہد جوانی میں اجنبی دیاروں کا بہت سفر کیا لیکن آثار قدیمہ یا سیاحتی مقامات کیلئے قدم نہیں اٹھ پائے۔ عالم رنگ و بو کے حسن بے پناہ سے کس کافر کو انکار ہے لیکن اپنے ظرف نشاط کی تنگ دامانی معلوم تھی، گریز پائی کا دامن تھامنا ہی قرار پایا۔ بایں گوشہ نشینی، شغل تدریس کے طفیل نوجوان نسل سے کچھ ربط رہتا ہے۔ میرا تاثر ہے کہ تاریخ اور سیاسی حرکیات سے نابلد نسل کی بڑی تعداد تحریک انصاف کے بیانیے کی اسیر ہے۔ یہ رجحان انتخابی نتائج پر کس حد تک اثر انداز ہو گا، یہ دیکھنا باقی ہے۔

ہماری نسل نے ساٹھ کی دہائی کے پرامید موسموں میں آنکھ کھولی تھی۔ اگلے دو عشرے تلاطم خیز تھے۔ 90ء کی دہائی میں امیدوں کی فصل پھربرگ و بار لائی لیکن ہمارے دھان سوکھے ہی رہے۔ خواب ہستی کی شام میں مقبولیت پسند سیاست کے گرداب میں گرفتار ہیں۔ اپنے ملک کا احوال ہم سے بہتر کون جانتا ہے۔ آئندہ انتخابات کا نتیجہ کچھ بھی ہو، یہ واضح ہے کہ جمہوریت کا شفاف تسلسل ہماری کتاب مقدرات میں نہیں لکھا۔ دریوزہ گر معیشت، درماندہ حال سیاست اور مسخ شدہ تمدنی نقشے میں بہتری کی کوئی سمت نظر نہیں آتی۔ اس پر طرہ یہ کہ دنیا بھر میں جمہوریت گرداب میں گھری ہے۔ روس میں ولادیمیر پیوٹن کا سماجی اصلاحات سے کوئی تعلق نہیں۔ رعونت بھری قوم پرستی کے نتیجے میں معاشرہ غیر سیاسی رجحانات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یوکرین کی جنگ کو دو برس ہونے کو آئے۔ اب عالمی توجہ غزہ میں بھڑکتی آگ کی طرف مبذول ہو چکی ہے۔ وسائل اور حجم کے اعتبار سے مالامال روس کے سامنے یوکرین کب تک مزاحمت کر سکے گا۔ چین کے سپریم لیڈر ژی پنگ اقتدار کی ایک دہائی مکمل کر چکے ہیں۔ اکتوبر 2022 ءمیں تیسری بار کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ منتخب ہونے اور گزشتہ مارچ میں پولٹ بیورو کی تشکیل نو کے بعد ژی پنگ کی گرفت ناقابل مزاحمت ہے۔ سنکیانگ کے سوا کروڑ مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ آئندہ اپریل یا مئی میں بھارت کے انتخابات میں قریب 300نشستوں پر بی جے پی کی تیسری مسلسل کامیابی کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ گزشتہ صدی میں فاشزم اور کمیونزم کی فیصلہ کن شکست کے بعد سے لبرل جمہوریت کو اہم ترین چیلنج امریکہ میں درپیش ہے جہاں قانونی مسائل میں گھرے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر جمہوری بلکہ فسطائی ارشادات کو وسیع پذیرائی حاصل ہے۔ ری پبلکن پارٹی میں کسی کو ڈونلڈ ٹرمپ کی گمراہ کن خطابت اور غیر جمہوری ارادوں کی مزاحمت کرنے کی ہمت نہیں۔ موجودہ صدر جوبائیڈن بوجوہ کمزور صدارتی امیدوار ہیں۔ اپنے مخالفین کو کیڑے مکوڑے قرار دینے والے ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ 2020ء کے انتخابات چرائے گئے تھے۔ اگرچہ اس دعوے کا کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آیا۔ آئندہ مارچ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکی جمہوریت پر حملہ آور ہونے کے الزام میں عدالتی کارروائی شروع ہونے کا امکان ہے۔ متعدد عدالتوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس موقف کو مسترد کیا ہے کہ سابق صدر ہونے کے ناتے وہ کسی عدالتی کارروائی سے ماورا ہیں لیکن تارکین وطن، اقلیتی گروہوں اور سماجی اصلاحات کے خلاف ٹرمپ کی شعلہ بیانی بدستور جاری ہے۔ وہ کھل کر اعلان کر رہے ہیں کہ نومبر 2024ءمیں دوبارہ منتخب ہونے کے بعد صحافت اور عدالتوں سے نمٹ لیں گے۔ ٹرمپ صدر کے عہدے کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ امریکی رائے عامہ کے معتدبہ حصے میں ان کے خیالات مقبول ہیں۔ 250 برس کے جمہوری تجربے میں امریکہ کے دستوری توازن کو اس قدر شدید بحران تب بھی پیش نہیں آیا جب انیسویں صدی میں خانہ جنگی نے امریکی قوم کو دو حصوں میں بانٹ دیا تھا یا 70ء کی دہائی میں واٹرگیٹ اسکینڈل نے صدارتی منصب کی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر کےلئے مطلق العنان اختیارات چاہتے ہیں جو اختیارات کی تقسیم کے بنیادی جمہوری اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ لمحہ موجود میں دنیا کی واحد سپرپاور کے عوام اپنی قیادت چننے میں آزاد ہیں۔ مسولینی اور ہٹلر کی زبان بولنے والے ڈونلڈ ٹرمپ امریکی معاشرے میں موجود منافرانہ دھاروں پر سوار 1588ء کے ہسپانوی بیڑے کی طرح وائٹ ہائوس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کچھ خوش گمان حلقے آئندہ برسوں میں امریکا کے متوازی عالمی قوتوں کی نمود سے امید باندھے ہیں لیکن یہ ممکنہ عالمی طاقتیں بھارت، چین اور روس کے سوا کون ہو سکتی ہیں۔ خود یورپ میں مقبولیت پسند سیاست زور پکڑ رہی ہے۔ یہ ایک الجھی ہوئی دنیا کے آثار ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے سو برس قبل پہلی عالمی جنگ کے کے بعد عالمی افراتفری کا نتیجہ دوسری عالمی جنگ کی صورت میں برآمد ہوا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ضمیر عالم میں موجود جمہوری دھارے اس منظر نامے میں سرمایہ دار معیشت اور جمہوری آزادیوں میں موجود بنیادی تضادات کا حل نکال سکتے ہیں۔ یہ جمہوریت کی آزمائش کے دن ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

ترجمان اے ایس ایف کے مطابق مسافر سحر بانو نے ہیروئن اپنے پیٹ کے نیچے بیلٹ کے ساتھ مہارت سے باندھ رکھی تھی۔

نیلسن منڈیلا کی دسویں برسی کے موقع پر جوہانسبرگ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دو سال پہلے تک افغانستان میں عورتیں کام کرتی تھیں، وزارتوں پر بھی فائز تھیں۔

دبئی کی پرواز میں 27 سال کے دھرووال دھرمیش کمار سونی کی طبیعت خراب ہوئی تھی۔

بجلی کمپنیوں کے افسران کیلئے مفت بجلی کی سہولت ختم کردی گئی۔

پولیس کے مطابق واقعہ ذاتی دشمنی کا نتیجہ ہے۔

سعودی مجلس شوریٰ کے ارکان نے شادی سے قبل ڈرگ ٹیسٹ کی تجویز دی ہے۔ ریاض سے سعودی میڈیا کے مطابق 6 ارکان شوریٰ نے شادی سے قبل طبی معائنے میں ڈرگ ٹیسٹ کی تجویز دی ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) خیبرپختونخوا کے صدر ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔

جنوبی وزیرستان کے علاقے سراروغہ میں سیکیورٹی فورسز اور دہشتگردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا، آئی ایس پی آر

پاکستانی لڑکی جویریہ خانم کو بھارتی نوجوان سمیر سے شادی کے لیے بالآخر بھارتی ویزا مل گیا۔

روسی صدر اسرائیل حماس جنگ، تیل کی پیداوار اور دیگر علاقائی امور پر بات کریں گے۔

اگر کوئی اور دشمن ایجنٹ گرفتار ہو تو کریمینل لا 1958 کے تحت ٹرائل ہوگا، حکم نامہ

برطانیہ میں پناہ طلب کرنے والوں کو روانڈا بھیجنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ لندن سے میڈیا رپورٹ کے مطابق برطانوی وزیر داخلہ جیمز کلیورلی نے روانڈا میں نئے معاہدے پر دستخط کر دئیے۔

اسرائیلی فوج کے دیرالبلح کے رہائشی علاقے میں فضائی حملے میں 45 افراد شہید ہوئے، فلسطینی وزارت صحت

ذرائع کے مطابق اسپائس جیٹ ایئر کی پرواز ایس جی 15 نے رات ساڑھے 9 بجے پر کراچی لینڈ کیا۔

بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) سے نااہلی فیصلے کے خلاف اپیل واپس لینے کی درخواست دائر کی۔

محکمہ کالج کے پروفیسر حفیظ اللّٰہ کو سیکریٹری سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ تعینات کردیا گیا۔

QOSHE - وجاہت مسعود - وجاہت مسعود
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

وجاہت مسعود

15 0
06.12.2023

اکتوبر 1826 ءمیں غالب کانپور کے راستے لکھنؤ پہنچے۔ غازی الدین حیدر اودھ کے بادشاہ تھے اور معتمد الدولہ آغا میر ان کے وزیر اعظم۔ شعرا کی سرپرستی کے شائق آغا میر نے غالب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ غالب نے امام بخش ناسخ کے مشورے سے آغا میر کی شان میں قریب سو اشعار کا قصیدہ لکھا مگر آغا میر سے ملاقات کے لئے کچھ شرائط بھی رکھ دیں۔ اقتدار بھی کہیں کمزور کی شرائط مانتا ہے۔ سو یہ ملاقات نہیں ہو سکی۔ اس سعی ناکام کے طفیل اردو ادب کو غالب کی ایک بے نظیر غزل حاصل ہوئی۔ ایک شعر ہمارے حال سے خاص مناسبت رکھتا ہے۔’’ لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی... ہوس سیر و تماشا سو وہ کم ہے ہم کو۔‘‘ ہوس سیر و تماشا کی کمی آشفتگان زمانہ کا مقسوم رہی ہے۔ میر تقی میر اپنے دیوان میں درد و غم کے ماہ و نجم ٹانکنے میں ایسے مگن تھے کہ باغ کی طرف کھلنے والی کھڑکی پر نگاہ ہی نہیں کی۔ ان بلند پایہ ہستیوں میں بندہ بے مایہ کا کیا مذکور، لیکن سانس کی ڈوری نے ہر کہ و مہ کو ہست کی تہمت عطا کی ہے۔ آپ کے نیاز مند نے بھی عہد جوانی میں اجنبی دیاروں کا بہت سفر کیا لیکن آثار قدیمہ یا سیاحتی مقامات کیلئے قدم نہیں اٹھ پائے۔ عالم رنگ و بو کے حسن بے پناہ سے کس کافر کو انکار ہے لیکن اپنے ظرف نشاط کی تنگ دامانی معلوم تھی، گریز پائی کا دامن تھامنا ہی قرار پایا۔ بایں گوشہ نشینی، شغل تدریس کے طفیل نوجوان نسل سے کچھ ربط رہتا ہے۔ میرا تاثر ہے کہ تاریخ اور سیاسی حرکیات سے نابلد نسل کی بڑی تعداد تحریک انصاف کے بیانیے کی اسیر ہے۔ یہ رجحان انتخابی نتائج پر کس حد تک اثر انداز ہو گا، یہ دیکھنا باقی ہے۔

ہماری نسل نے ساٹھ کی دہائی کے پرامید موسموں میں آنکھ کھولی تھی۔ اگلے دو عشرے تلاطم خیز تھے۔ 90ء کی دہائی میں امیدوں کی فصل پھربرگ و بار لائی لیکن ہمارے دھان سوکھے ہی رہے۔ خواب ہستی کی شام میں مقبولیت پسند سیاست کے گرداب میں گرفتار ہیں۔ اپنے ملک کا احوال ہم سے بہتر کون جانتا ہے۔ آئندہ انتخابات کا........

© Daily Jang


Get it on Google Play