پیرپوررِپورٹ میں تفصیلات دی گئی ہیں کہ عام ہندو سوراج کو رام راج اور کانگریسی حکومت کو ہندو حکومت سمجھتا ہے۔درحقیقت کانگریسی ارکان کی بھاری اکثریت ہندوؤں پر مشتمل ہے جو مسلمانوں اور اَنگریزوں کے صدیوں تک محکوم رہنے کے بعد خالص ہندو رَاج کے قیام کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ اِس رپورٹ کے مطابق گزشتہ صوبائی انتخابات کے دوران مخصوص مسلم نشستوں میں کانگریس کی شکستِ فاش نے اُس کا یہ دعویٰ بالکل کھوکھلا ثابت کر دیا کہ وہ مسلم عوام کی نمائندگی کرتی ہے، لیکن اُس کی قیادت نے شکستِ فاش کی صحیح وجہ معلوم کرنے کے بجائے مسلم عوام سے براہِ راست رابطہ پیدا کرنے کی ایک مصنوعی تحریک شروع کی۔بےشمار مسلمانوں کو اِس امر کا پورا یقین ہے کہ اِس تحریک سے کانگریس کا مقصد اُن میں افتراق پیدا کرنا اور اُن کی طاقت اور سالمیت کو نقصان پہنچانا ہے اور کچھ علما اور کچھ مسلم سیاسی کارکن اپنے ساتھ ملا لیے ہیں جو اَپنے ہم مذہبوں سے لڑتے جھگڑتے اور مسلم لیگ کو بدنام کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں پیلی بھیت میں فرقہ وارانہ فساد کے بعد سیٹھ دمو درداس دو مولاناؤں کے ہمراہ جائے واردات پر پہنچے اور اُنہوں نے یہ بیان جاری کیا کہ اِس پورے فساد کی ذمےدار مسلم لیگ ہے، لیکن جب معاملے کی عدالتی تحقیق ہوئی تو الزام سراسر بےبنیاد ثابت ہوا۔

کانگریس نے پانچ صوبوں میں بھاری اور چھٹے میں معمولی اکثریت حاصل کی تھی۔عام خیال یہی تھا کہ اگر کانگریس نے حکومت سازی میں حصّہ لیا، تو ایک نیا دور شروع ہو گا، فرقہ واریت کی خلیج پاٹ دی جائے گی اور تمام ترقی پسند قومی عناصر مادرِ وَطن کی خاطر ایک مشترکہ پروگرام وضع کریں گے۔

ٹھیک اُسی وقت کانگریس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو نے بڑے زور و شور سے ’’تحریکِ رابطۂ مسلم عوام‘‘ شروع کر دی اور مسلمانوں کو یہ سمجھانے کیلئے بڑے جتن کیے کہ اصل مسئلہ روٹی اور کپڑے کا ہے اور مسلم لیگ کے الگ پرچم تلے جمع ہونا کسی طور مناسب نہیں۔ مسلم عوام کے اندر کانگریسی نقطۂ نظر پھیلانے کیلئے اردو اَخبارات جاری کیے گئے اور مسلم لیگ کے رہنماؤں بالخصوص مسٹر جناح کی کردارکشی کی مہم چلائی گئی۔ خاص طور پہ نیشنلزم کے نام پر فریب دے کر سرحد اور آسام میں کانگریسی وزارتیں قائم کی گئیں۔ کانگریس ہائی کمان کے اِس منافقانہ رویّے پر محبِ وطن مسلم قیادت کو سخت صدمہ پہنچ رہا تھا۔

کانگریسی حکومتیں بن جانے کے بعد ہندوؤں کا برطانوی حکومت سے براہِ راست تصادم ختم ہو گیا اور عہدوں کی بانٹ میں وہ عظیم مقصد بھی اُن کی آنکھوں سے اوجھل ہوتا گیا جس کیلئے مختلف عناصر اُس سے وابستہ چلے آ رہے تھے۔ کانگریسی وزارتوں کی کامیابی اِس امر میں تھی کہ ہندوستان میں امن و امان کی فضا قائم رہے اور طبقاتی کشمکش اور قوتِ حاکمہ کے ساتھ تصادم سے بچا جائے، لیکن بدقسمتی سے اِس حکمتِ عملی کےبرعکس پولیس اور دُوسرے سرکاری اداروں کی فرائض کی ادائیگی کی حوصلہ شکنی کی جاتی رہی جو امن و امان کے ذمےدار تھے۔ کانگریسی رہنماؤں کے ایک گروہ نے ہندو عوام کے اندر یہ تاثر پیدا کیا کہ اِس جماعت کا ہر رکن خصوصی حیثیت کا مالک ہے اور وُہ اِنتظامیہ پر حکم چلا سکتا ہے۔ یوپی اسمبلی کے اجلاس کے دوران مسلم لیگ کے متعدد اَرکان نے حکومت کی اِس طرف خصوصی توجہ دلائی کہ چیف سیکرٹری کے گشتی مراسلے نے بڑا بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔ اِس مراسلے میں ضلعی افسروں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اِنتظامی امور میں مقامی کانگریس کی کمیٹیوں سے مشورہ کریں۔ اِس سے مقامی افسروں کا وقار اَور مورال سخت متاثر ہوا ہے، چنانچہ اَب وہ حساس معاملات کے آزادانہ فیصلے نہیں کر پاتے۔ عام طور پر کانگریسیوں نے مقامی افسروں کے غیرسرکاری مشیروں کی حیثیت اختیار کر لی ہے اور خودغرض لوگ یہ موقع اپنے مفاد اَور فتنہ انگیز مقاصدکیلئے استعمال کر رہے ہیں۔

کانگریس پارٹی کے ارکان جس طرح عدالت کی کارروائی میں دخل دیتے ہیں، اِس کا ذکر الہ آباد کی عدالتِ عالیہ نے اپنے کئی فیصلوں میں کیا ہے۔ گورکھ پور کے کانگریسی ایم۔ایل۔اے ڈاکٹر وشواناتھ مکرجی کے خلاف توہینِ عدالت کے مقدمے میں جج صاحبان نے لکھا: ’’یہ عدالت کوئی ایسی کوشش برداشت نہیں کرے گی جس میں عدالتی افسر بالخصوص کسی چھوٹے عدالتی افسر پر دباؤ ڈالا جائے، کیونکہ وہ اَپنا تحفظ کرنے سے معذور ہوتا ہے۔‘‘

پیرپور رِپورٹ میں درج ہے کہ ہمیں مصدقہ شہادتوں کے ساتھ مسلمانوں کی طرف سے بےشمار شکایتیں موصول ہوئی ہیں کہ اُنہیں کانگریس کی مقامی تنظیمیں بہت زیادہ تنگ کر رہی ہیں اور اُن کیلئے انصاف کا حصول بہت مشکل ہو گیا ہے۔ کانگریسیوں نے ایک متوازی حکومت قائم کر رکھی ہے اور جہاں کہیں پولیس کسی مسئلے کی تفتیش شروع کرنے لگتی ہے، وہاں کانگریس بھی اپنی ’آزادانہ تحقیقات‘ شروع کر دیتی ہے، چنانچہ اب ضابطوں کے مطابق زندگی گزارنے کیلئے فضا سازگار نہیں رہی۔

مسلم عوام کی شدید خفگی اور مزاحمت کی وجہ سے آل انڈیا مسلم لیگ اپنے لکھنؤ کے اجلاس میں بندے ماترم کے بارے میں یہ قرارداد منظور کرنے پر مجبور ہوئی: ’’آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس کانگریس کے اِس رویّے کی شدید مذمت کرتا ہے جس نے مسلم عوام کے جذبات مجروح کرتے ہوئے ’بندے ماترم‘ کو ملک کا قومی ترانہ بنا دیا ہے۔ یہ اجلاس اِس ترانے کو واضح طور پر خلافِ اسلام اور بت پرستانہ نظریات کا حامل قرار دَیتا ہے اور قانون ساز اداروں کے مسلمان ارکان اور ملک بھر کے عوامی اداروں پر زور دَیتا ہے کہ وہ اِس انتہائی قابلِ اعتراض ترانے سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہ رکھیں۔‘‘

اکتوبر 1937ء میں کانگریس کی مجلسِ عاملہ نے اِس ترانے کے بارے میں ایک طویل بیان جاری کیا جس میں یہ سفارش کی گئی تھی کہ اِس گیت کے بعض بند قومی پلیٹ فارم سے نہ گائے جائیں۔ اِس ’’قومی گیت‘‘ سے بعض اشعار خارج کر دینے سے کانگریس ہائی کمان نے مسلم لیگ کا یہ موقف صحیح تسلیم کر لیا ہے کہ ’بندے ماترم‘ میں قابلِ اعتراض اشعار موجود ہیں، تاہم اُنہیں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ مسلمان اِس گیت کا بھیانک تاریخی پس منظر ہرگز فراموش نہیں کر سکتے۔ (جاری ہے)

مشرقی لندن کے علاقے وائٹ چیپل میں واقع مسجد میں بم کی افواہ کے بعد پولیس نے ہنگامی طور پر مسجد کو نمازیوں سےخالی کروالیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بُک کی پیرنٹ کمپنی میٹا نے زندگی ٹرسٹ کی واٹس ایپ چینل میں کامیابی کو بطور مثال پیش کیا ہے۔

اسرائیلی وزارت دفاع نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس فوجی ساز و سامان میں ہتھیار، گولہ بارود اور فوجی گاڑیاں شامل ہیں۔

گوہر خان کا کہنا تھا کہ آئندہ ہفتہ تک سب واضح ہو جائے گا، امید ہے عدلیہ ہمیں بھی ریلیف دے گی۔

ناز شاہ نے مزید کہا کہ حکومتی اعداد و شمار مسلمانوں پر حملوں کے گواہ ہیں، مگر حکومت اسلاموفوبیا کو تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں۔

القسام بریگیڈ کے فوجی ترجمان ابوعبیدہ کا کہنا ہے کہ 72 گھنٹے کے دوران ہم نے 135 اسرائیلی گاڑیوں کو مکمل یا جزوی تباہ کیا ہے۔

غزہ کی صورتحال پر مسلم ممالک کے رابطہ گروپ کا واشنگٹن میں اجلاس آج ہوگا۔

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان میر نصیر مینگل کے صاحبزادے میر حمود الرحمان اور میر شفیق الرحمان بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔

رانا ثناء نے کہا کہ کیس کے حقائق، مندرجات میں پراسیکیویشن کو پھر موقع دیا جائے کہ غلط بات کو دوبارہ ثابت کرے؟

انٹرویو کے دوران جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ دوبارہ رنبیر کپور کے ساتھ کام کرنا چاہیں گے؟ جس پر انوراگ کیشیاپ کا کہنا تھا کہ ’میں؟ کون ہے جو رنبیر کے ساتھ کام کرنا نہیں چاہیےگا؟‘

سابق اسرائیلی آرمی چیف کا فوجی بیٹا گال میر شمالی غزہ میں جھڑپ میں مارا گیا۔

1948 کے بعد پہلی بار اسرائیل پر فضائی، زمینی، بحری راستوں سے ایک ساتھ حملہ کیا گیا، رپورٹ

گزشتہ سیزن میں کراچی کنگز کی کپتانی کرنے والے عماد وسیم ٹریڈ کے بعد اسلام آباد یونائیٹڈ کا حصہ بن گئے۔

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے ماسکو میں روسی صدر ولادیمر پیوٹن سے ملاقات کی۔

مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ابھی فی الحال لکھنے پڑھنے پر توجہ ہے اور کاروبار کر رہا ہوں، اگلے چند ماہ تک سیاست میں انٹری کا کوئی ارادہ نہیں۔

واضح رہے کہ 93 سالہ اندرا بہادری کو بدھ کو اسپتال میں داخل کرایا گیا۔

QOSHE - الطاف حسن قریشی - الطاف حسن قریشی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

الطاف حسن قریشی

9 23
08.12.2023

پیرپوررِپورٹ میں تفصیلات دی گئی ہیں کہ عام ہندو سوراج کو رام راج اور کانگریسی حکومت کو ہندو حکومت سمجھتا ہے۔درحقیقت کانگریسی ارکان کی بھاری اکثریت ہندوؤں پر مشتمل ہے جو مسلمانوں اور اَنگریزوں کے صدیوں تک محکوم رہنے کے بعد خالص ہندو رَاج کے قیام کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ اِس رپورٹ کے مطابق گزشتہ صوبائی انتخابات کے دوران مخصوص مسلم نشستوں میں کانگریس کی شکستِ فاش نے اُس کا یہ دعویٰ بالکل کھوکھلا ثابت کر دیا کہ وہ مسلم عوام کی نمائندگی کرتی ہے، لیکن اُس کی قیادت نے شکستِ فاش کی صحیح وجہ معلوم کرنے کے بجائے مسلم عوام سے براہِ راست رابطہ پیدا کرنے کی ایک مصنوعی تحریک شروع کی۔بےشمار مسلمانوں کو اِس امر کا پورا یقین ہے کہ اِس تحریک سے کانگریس کا مقصد اُن میں افتراق پیدا کرنا اور اُن کی طاقت اور سالمیت کو نقصان پہنچانا ہے اور کچھ علما اور کچھ مسلم سیاسی کارکن اپنے ساتھ ملا لیے ہیں جو اَپنے ہم مذہبوں سے لڑتے جھگڑتے اور مسلم لیگ کو بدنام کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں پیلی بھیت میں فرقہ وارانہ فساد کے بعد سیٹھ دمو درداس دو مولاناؤں کے ہمراہ جائے واردات پر پہنچے اور اُنہوں نے یہ بیان جاری کیا کہ اِس پورے فساد کی ذمےدار مسلم لیگ ہے، لیکن جب معاملے کی عدالتی تحقیق ہوئی تو الزام سراسر بےبنیاد ثابت ہوا۔

کانگریس نے پانچ صوبوں میں بھاری اور چھٹے میں معمولی اکثریت حاصل کی تھی۔عام خیال یہی تھا کہ اگر کانگریس نے حکومت سازی میں حصّہ لیا، تو ایک نیا دور شروع ہو گا، فرقہ واریت کی خلیج پاٹ دی جائے گی اور تمام ترقی پسند قومی عناصر مادرِ وَطن کی خاطر ایک مشترکہ پروگرام وضع کریں گے۔

ٹھیک اُسی وقت کانگریس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو نے بڑے زور و شور سے ’’تحریکِ رابطۂ مسلم عوام‘‘ شروع کر دی اور مسلمانوں کو یہ سمجھانے کیلئے بڑے جتن کیے کہ اصل مسئلہ روٹی اور کپڑے کا ہے اور مسلم لیگ کے الگ پرچم تلے جمع ہونا کسی طور مناسب نہیں۔ مسلم عوام کے اندر کانگریسی نقطۂ نظر پھیلانے کیلئے اردو اَخبارات جاری کیے........

© Daily Jang


Get it on Google Play