اخبار کی صحافت آخری دموں پر ہے۔ رواں صدی کے آغاز پر نجی ٹیلی وژن چینلز نے سرکاری نشریات کے ملبے سے برآمد ہونے والی نانک شاہی اینٹوں سے جو عمارت اٹھانا چاہی تھی، وہ عدلیہ بحالی کی تحریک میں کارفرما پس پردہ عناصر کے ہاتھوں منہدم ہو گئی۔ سرکار دربار کے بقراطوں نے نجی ٹیلی وژن چینلوں کے مقابلے میں بے چہرہ سوشل میڈیا کا ایسا سیل بے اماں میدان میں اتارا جس نے ذہن سازی کی کھلی سازش کے ذریعے صحافت کی تمدنی خدمت کو ٹھیک اسی طرح دفن کر دیا جیسے پچاس کی دہائی میں سیاست کو حرف دشنام میں بدلا گیا تھا۔ اب نجی ٹیلی وژن کی صحافت نودولتیہ طبقے کے کاروباری مفادات کی آلہ کارہے۔ سرکاری نشریاتی ادارے حکومتی بیانیے سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش میں اپنی پیشہ ورانہ اہلیت سے محروم ہو چکے ہیں۔پانچویں پشت کی نام نہاد ابلاغی جنگ میں جو پورس کے ہاتھی اتارے گئے تھے ان میں سے کچھ کھیت رہے، کچھ غنیم کی صفوں میں جا ملے اور کچھ اپنی ہی صفوں کو روند رہے ہیں۔ خبر اور افواہ کا فرق جاتا رہا۔ بابائے قوم نے کہا تھا کہ قوم اور صحافت ایک ساتھ عروج اور زوال پاتے ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے امریکا کے بانیان قوم نے سوا تین سو برس پہلے 1791 میں پہلی آئینی ترمیم میں صحافت کی آزادی کی ضمانت دے کر تسلیم کیا تھا۔ اب جبکہ سیاست اور صحافت پانی پت کے میدان کا منظر پیش کر رہے ہیں تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قریب دو سو برس پر محیط ہماری صحافت کے کچھ ادوار یاد کر لیے جائیں۔ پھر التفات دل دوستاں رہے، نہ رہے۔مولانا محمد حسین کے والد مولوی باقر نے 1837 میں ’دہلی اخبار‘ کے نام سے ہفت روزہ اخبار جاری کیا۔ دہلی سے شائع ہونے والا یہ پہلا اخبار 12جولائی 1857 کو اپنے انجام کو پہنچ گیا جب بہادر شاہ ظفر کے حکم پر اسے ’اخبار الظفر‘ کا نام دیدیا گیا۔ اس ہنگامہ خیز دور میں مولوی باقر کی صحافت افواہ اور سنسنی خیزی کا ملغوبہ بن گئی۔ کبھی خبر دی جاتی کہ ایران کا بادشاہ برطانوی قبضہ گیروں سے آزادی دلانے کیلئے نکل کھڑا ہوا ہے۔ کبھی اطلاع دی جاتی کہ قفقاز روس کا حکمران دلی آزاد کرنے کیلئے روانہ ہو گیا ہے۔ جامع مسجد دلی کے دروازے پر چسپاں کیے جانے والے دہلی اخبار کے ان نمونوں سے 1857ءکی رستاخیز پر تو کوئی فرق نہیں پڑا لیکن ہنگامہ فرو ہونے کے بعد 18ستمبر 1857 کو انگریزوں نے مولوی محمد باقر کو گولی مار دی۔ گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے منشی محبوب عالم نے جنوری 1887میں لاہور کے مضافاتی علاقے فیروز والا سے ’پیسہ اخبار‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ شروع کیا جو بعد ازاں لاہور منتقل ہو کر روزنامہ اخبار کی شکل اختیار کر گیا۔ منشی محبوب عالم یورپ بالخصوص برطانیہ کی سیاسی، علمی اور صنعتی ترقی سے بہت متاثر تھے۔ 1908ءمیں مولانا ظفر علی خان ’زمیندار‘ اخبار کو لاہور لائے تو منشی محبوب عالم کی صحافت غروب ہو گئی۔ ظفر علی خان متلون مزاج صحافی تھے۔ انہوں نے اردو صحافت کو مذہبی تشخص دیا۔ نثر اور شاعری میں درجہ کمال رکھتے تھے لیکن شخصی صحافت کے اتار چڑھائو میں غلام رسول مہر اور عبدالمجید سالک کا مقابلہ نہ کر سکے جنہوں نے 1927 ء میں زمیندار سے الگ ہو کر ’روزنامہ انقلاب‘ جاری کیا۔ سر فضل حسین نے 1923 ءمیں پنجاب کی دیہی سیاست کے ہندو اور مسلم دھاروں کو پنجاب یونینسٹ پارٹی کا پلیٹ فارم مہیا کیا تھا۔ روزنامہ انقلاب نے یونینسٹ پارٹی کی اقتدا قبول کی۔ ہندوستان تقسیم ہوا تو پاکستان میں روزنامہ انقلاب اور زمیندار کا پانی اتر گیا۔ انقلاب تو 1949 ءمیں بند ہو گیا اور زمیندار کو مولانا اختر علی خان کی ادارت اور 1953ء کے فسادات میں دولتانہ حکومت سے مالی مدد لینے کا انکشاف لے ڈوبا۔ پاکستان میں اردو صحافت کے نئے خد و خال روزنامہ امروز اور روزنامہ جنگ نے متشکل کیے۔ امروز ترقی پسند رنگ کا حامل تھا جبکہ روزنامہ جنگ کا رجحان اخبار کو صنعت کا درجہ دینے پر مرتکز تھا۔ میاں افتخار الدین کا ادارہ پروگریسو پیپرز لمیٹڈ اپریل 1959ءمیں ایوب آمریت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اس کے بعد اردو صحافت دو دھاروں میں بٹ گئی۔ نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات سرکاری بھونپو بن گئے اور آزاد صحافی زندانوں کی رونق ٹھہرا۔ طاقتور سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر شخصی طور پر ادبی پس منظر رکھتے تھے لیکن آمریت اور آزاد صحافت کی ناگزیر حرکیات سے نابلد تھے۔ یحییٰ خان کے ہاتھوں جبری ریٹائرمنٹ کے بعد 1969ءمیں روزنامہ ڈان کے مدیر بنے تو خود اعتراف کیا کہ ’سرکاری پروپیگنڈے کا آلہ کار پریس نہ تو عوام کا اعتماد حاصل کر سکتا ہے اور نہ رائے عامہ کو متاثر کر سکتا ہے۔ ایسے پریس کے ذریعے حکومتی کارناموں کا ڈھنڈورا پیٹا جا سکتا ہے۔ اختلافی رائے اور تنقید کا راستہ روکا جا سکتا ہے لیکن عوام کی رائے پر ذرہ برابر اثر انداز ہونے کی توقع رکھنا خام خیالی ہو گی‘۔ الطاف گوہر نے جو سبق سیکھا تھا وہ آج اس حد تک بے معنی ہو چکا ہے کہ صحافی اور صحافتی ادارے کھلم کھلا سیاسی جماعتوں کے حامی یا مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ عامل صحافی نامی جنس مفقود ہو چکی۔ صحافت اور علم و ادب کا تعلق منقطع ہو چکا۔ صحافت میں ایک طبقہ مخصوص سیاسی ریشہ دوانیوں کا سرگرم حصہ بن کر طبقہ اشرافیہ میں شامل ہو چکا ہے جبکہ صنعتی مزدوروں کی طرح کام کرنے والے ہزاروں صحافی نان ِجویں کو ترستے ہیں۔ مدیر کا ادارہ ختم ہو چکا۔ اب کسی کو پریس ایڈوائس کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی اس لیے کہ خود ساختہ فیصلہ ساز اب صحافی سے نہیں، صحافتی ادارے کے مالکان سے رابطہ کرتے ہیں۔ حال ہی میں صحافیوں کے تحفظ کے نام سے ایک قانون منظور کیا گیا ہے۔ کسی دیدہ ور کو خیال نہیں آیا کہ صحافت کو رائے عامہ کی رہنمائی کے لیے صحافی کی ذات نہیں بلکہ خود صحافت کے تحفظ کی ضرورت پڑتی ہے۔ آزادی صحافت کی ضمانت دستور کی شق 19 میں دی جا چکی ہے اور اس شق میں آزادی صحافت پر اتنی شرائط عائد کی گئی ہیں کہ یہ ضمانت بذات خود بے معنی ہو چکی۔ اب مغنی کس طرح گائے گا اور گائے گا کیا؟

امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کردی۔

مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما احسن اقبال نے تصدیق کی ہے کہ ن لیگ نے استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اصولی اتفاق کرلیا ہے لیکن ایسا کرنے کے لیے کوئی دباؤ نہیں ہے۔

تحریک انصاف کے سینئر رہنما حامد خان کا کہنا ہے کہ قانونی لوازمات پورے کرنے کے باوجود تحریک انصاف کو نوٹس جاری کرنا بالکل مناسب نہیں۔

شجاع آباد کے قاضی ندیم اپنے بچوں کی شادی پر خوشی سے نہال ہیں، اور خاندان کے دیگر افراد کو بھی ”دل کا رشتہ“ ایپ کا مشورہ دے رہے ہیں۔

فائرنگ کے دوران روشن بی بی نے اپنے دونوں بچوں اور شوہر کو بس کےفرش پر لٹایا اور خود انکی ڈھال بن گئیں،

غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی واپسی کا عمل جاری ہے خیبر پختونخوا سے اب تک 2 لاکھ 58 ہزار 657 غیرقانونی مقیم غیرملکی اپنے وطن واپس لوٹ گئے۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے غزہ کی قرون وسطیٰ کی عمری مسجد کو بمباری سے شہید کردیا۔

چائنیز تائپے میں جاری ایشین بیس بال چیمپئن شپ میں پاکستان نے دوسری کامیابی حاصل کرلی۔

پاکستان کرکٹ ٹیم مینجمنٹ نے اسپنر ابرار احمد کے متبادل کے حوالے سے مشاورت شروع کردی ہے، اس حوالے ٹیم ڈائریکٹر محمد حفیظ اور چیف سلیکٹر وہاب ریاض کے درمیان رابطہ ہوگیا۔

یہ پروجیکٹ دسمبر 2020 میں سنگہوا یونیورسٹی اور یالونگ ریور ہائیڈرو پاور ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ نے شروع کیا تھا۔

ریلی کو "گرلز بائیکرز آن روڈ" کا نام دیا گیا تھا۔

بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بھی ریفرنس میں شامل کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ پارلیمانی بورڈ کے اجلاس جاری ہیں۔

کراچی میں بدھ کے روز ابتدائی رپورٹ میں فی الحال آگ لگنے کی وجوہات کا تعین نہیں کیا گیا۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما طلال چوہدری نے کہا ہے کہ نواز شریف کے ہوتے ہوئے مجھے ٹکٹ مانگنے کی ضرورت ہی نہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی کی درخواستوں پر بھی آئندہ ہفتے سماعت ہوگی،ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کی عدالتی کارروائی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی جائے گی۔

QOSHE - وجاہت مسعود - وجاہت مسعود
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

وجاہت مسعود

14 3
09.12.2023

اخبار کی صحافت آخری دموں پر ہے۔ رواں صدی کے آغاز پر نجی ٹیلی وژن چینلز نے سرکاری نشریات کے ملبے سے برآمد ہونے والی نانک شاہی اینٹوں سے جو عمارت اٹھانا چاہی تھی، وہ عدلیہ بحالی کی تحریک میں کارفرما پس پردہ عناصر کے ہاتھوں منہدم ہو گئی۔ سرکار دربار کے بقراطوں نے نجی ٹیلی وژن چینلوں کے مقابلے میں بے چہرہ سوشل میڈیا کا ایسا سیل بے اماں میدان میں اتارا جس نے ذہن سازی کی کھلی سازش کے ذریعے صحافت کی تمدنی خدمت کو ٹھیک اسی طرح دفن کر دیا جیسے پچاس کی دہائی میں سیاست کو حرف دشنام میں بدلا گیا تھا۔ اب نجی ٹیلی وژن کی صحافت نودولتیہ طبقے کے کاروباری مفادات کی آلہ کارہے۔ سرکاری نشریاتی ادارے حکومتی بیانیے سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش میں اپنی پیشہ ورانہ اہلیت سے محروم ہو چکے ہیں۔پانچویں پشت کی نام نہاد ابلاغی جنگ میں جو پورس کے ہاتھی اتارے گئے تھے ان میں سے کچھ کھیت رہے، کچھ غنیم کی صفوں میں جا ملے اور کچھ اپنی ہی صفوں کو روند رہے ہیں۔ خبر اور افواہ کا فرق جاتا رہا۔ بابائے قوم نے کہا تھا کہ قوم اور صحافت ایک ساتھ عروج اور زوال پاتے ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے امریکا کے بانیان قوم نے سوا تین سو برس پہلے 1791 میں پہلی آئینی ترمیم میں صحافت کی آزادی کی ضمانت دے کر تسلیم کیا تھا۔ اب جبکہ سیاست اور صحافت پانی پت کے میدان کا منظر پیش کر رہے ہیں تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قریب دو سو برس پر محیط ہماری صحافت کے کچھ ادوار یاد کر لیے جائیں۔ پھر التفات دل دوستاں رہے، نہ رہے۔مولانا محمد حسین کے والد مولوی باقر نے 1837 میں ’دہلی اخبار‘ کے نام سے ہفت روزہ اخبار جاری کیا۔ دہلی سے شائع ہونے والا یہ پہلا اخبار 12جولائی 1857 کو اپنے انجام کو پہنچ گیا جب بہادر شاہ ظفر کے حکم پر اسے ’اخبار الظفر‘ کا نام دیدیا گیا۔ اس ہنگامہ خیز دور میں مولوی باقر کی صحافت افواہ اور سنسنی خیزی کا ملغوبہ بن گئی۔ کبھی خبر دی جاتی کہ ایران کا بادشاہ برطانوی قبضہ گیروں سے آزادی دلانے کیلئے نکل کھڑا ہوا ہے۔........

© Daily Jang


Get it on Google Play