نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آنیوالی ریاست، 76سال بعد، آج بھی اپنی شناخت کی جستجو میں سر گرداں، 7دہائیوں سے طالع آزماؤں کی نیٹ پریکٹس بن چکی ہے۔ میں ٹھہرا ایک ڈھنڈورچی، جس نظریہ پر مملکت نے استوار ہونا تھا، اسکی تلاش میں اپنی جوانی دیانتداری سے غرق رکھی اور اب پیرانہ سالی میں’’مملکت ڈوبتے دیکھ رہا ہوں‘‘،آہ و بکا کیوں نہ کروں ،کیونکر خاموش رہوں؟ قرآن کریم میں زیر عتاب قوموں کی جتنی خصلتیں درج ہیں، من و عن مملکت خداداد کے 24کروڑ 60 لاکھ ( معدودے چند لاکھ برطرف) میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ جدید مہذب معاشروں کے جتنے اعلیٰ و ارفع معیار اقدار ،صلہ رحمی، انسانی حقوق ، اخلاقی وقانونی ضوابط، قانون کی حکمرانی ، ادائیگی ٹیکس اورتہذیب و تمدن کے پیمانے، بحیثیت قوم ہم اسکو روند چکے ہیں۔ کرپشن، جھوٹ، چوری، فواحش، حسد ، غیبت، لاقانونیت، فراڈ، ملاوٹ، نوسر بازی، دھوکا دہی، جعلسازی، منافقت کونسا ایساہنر، جس میں کسب کمال نہ ہو۔ ہر کوئی جہاں جس جس مد میں گوڈے گوڈے ملوث ، ڈھٹائی سے انہی مدوں پر شاکی ہے ۔آج وطن عزیز کے مستقبل کیساتھ سوال ایک ہی نتھی ،’’ 8 فروری کو الیکشن ہو پائینگے یا نہیں‘‘ ؟ ۔ پچھلے چھ ماہ کے واقعات کا اجمالی جائزہ لیں ۔ یادش بخیر، چند ماہ پہلے اچانک خبر آئی کہ نواز شریف فریضہ حج کیلئے جون کے آخری ہفتہ سعودی عرب پہنچ رہے ہیں ۔ چند دن بعد نوازشریف جدہ کی بجائے دبئی پہنچ گئے جبکہ اسی دن زرداری صاحب مع بلاول دبئی پہنچ چکے تھے۔ وہاں پر نواز/ زرداری کی اہم میٹنگ بارے جب بریکنگ نیوز آئی تو ساتھ ہی میڈیا کے کان کھڑے ، پلکیں بلند ہو گئیں ۔ اگلے دن جیو TV پر جب میٹنگ زیر بحث آئی تو میرا جواب مختصر ،’’ استحکام پاکستان پارٹی کی ایک دم تشکیل سیاسی جماعتوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے ،علاوہ ازیں دونوں قائدین یا تو موجود اپنی حکومت کی توسیع چاہتے ہیں یا بصورت دیگر الیکشن ملتوی ہوتے ہیں تو نگران سیٹ اپ اپنی مرضی کا چاہتے ہیں‘‘۔ جب بلوچستان سے محمد مالک اور اسحاق ڈار کا نام بطور وزیراعظم سامنے آیا تو شک نہ تھا کہ نواز زرداری گٹھ جوڑ ( UNDERSTANDING ) کا نتیجہ ہے ۔ اگست کے پہلے ہفتے مشترکہ مفادات کونسل (CCI ) کی اچانک بیٹھک ہوئی ، یک نکاتی ایجنڈا،’’مردم شماری کے نتائج شائع کرنا تھے‘‘ ۔ مردم شماری رزلٹ شائع ہونے پر نئی حلقہ بندیاں ایک آئینی ضرورت ، الیکشن ملتوی ہونا دیوار پر کندہ تھا ۔ سانحہ 9 مئی کے بعد میرا موقف حتمی ،’’بصورت الیکشن ، اگر تحریک انصاف الیکشن میں موجود ہوئی تو پھر وہ عمران خان کے زیر اثر نہیںہو گی ۔مزید ، عام انتخابات میں سیٹوں کی بندر بانٹ یقینی رہے گی ( بعینہ جیسے 2018 میں حصہ بقدر جثہ )۔یہ بات بھی طے سمجھیں ، اگلے وزیراعظم نواز شریف ہونگے‘‘ ۔ جب نگران حکومتیں وجود میں آئیں تو اسٹیبلشمنٹ نے بنفس نفیس اپنی سہولیات اور خواہشات کےمطابق تشکیل دیں ۔یعنی کہ دونوں قائدین کے مطالبات ثمر آور نہ ہوئے ۔اسٹیبلشمنٹ کوئی مطالبہ کسی خاطر میں نہ لائی تاکہ آنیوالے دنوں کی سیاسی حکمت عملی عین اپنے مطابق رکھ سکے۔ میرے خدشات آج بھی ،’’فروری مارچ میں بھی الیکشن نہیں ہو سکیں گے‘‘ ۔وجہ صاف ظاہر ہے ، سانحہ 9 مئی کے بعد’’اصلی تے نسلی‘‘ تحریک انصاف عملاً معذور ہو چکی تھی ۔ساری قیادت یا جیل میں یا معافی تلافی یا زیر زمین تھی ۔ سیاسی حالات اسٹیبلشمنٹ کے عین مطابق اور عام انتخابات کرانے کے موافق تھے ۔ مرضی کے نتائج بھی ممکن تھے ۔کوئی وجہ تو ہوگی کہ مردم شماری کے نتائج شائع کر کے الیکشن ملتوی کروانا پڑے ۔ اب جبکہ الیکشن کمیشن نے 8فروری کی تاریخ دے دی اور سپریم کورٹ نے اس پر مہر تصدیق بھی ثبت کر دی ، میرا سوال ! کیا 8 فروری تک ملتوی کرنے کی’’وجہ‘‘درست ہو چکی ؟ میری سوئی وہیں پہ اٹکی ہے کہ’’فروری میں الیکشن نہیں ہو پائیں گے‘‘۔ مجھے اس سے غرض نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ یقیناً آج سیاہ و سپید کی مالک ، دلجمعی اور خلوص نیت سے الیکشن کروانا چاہتی ہے ۔ سیاسی جماعتیں خصوصاً پیپلز پارٹی بھی شدومد سے الیکشن کی متمنی ۔ تحریک انصاف اپنی مقبولیت کے زعم میں الیکشن کے لئے تڑپ رہی ہے ،بد قسمتی! الیکشن شاید نہ ہو پائیں۔ اگر ساری سہولت کے باوجود،’’ 8نومبرتک الیکشن نہ کروائے گئے تو اسکی کوئی وجہ نزاع تو تھی؟کیا آج وہ’’وجہ نزاع‘‘دور ہو چکی ہے؟۔میرا خدشہ ، کہ وہ’’ وجہ نزاع‘‘ نہ صرف موجود بلکہ شدت پہلے سے بھی کچھ زیادہ ہے ۔ اگرچہ تحریک انصاف برضا و رغبت اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثرآ چکی، اسٹیبلشمنٹ کیلئے آسودگی کا سماں ہے ۔ عثمان بزدار کی طرح گوہر علی خان نووارد ضرور ، اچانک آئے اور چھا گئے ۔باقی اکثر عہدیدار بھی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ، عمران خان کے اردگرد موجود درجن بھر وکلابھی اسٹیبلشمنٹ کی گڈ بکس میں ہیں۔ گوہر علی خان ، علی امین گنڈا پور ، حلیم عادل شیخ جیسے سلیقہ شعار ی ، معاملہ فہمی ، مفاہمتی ہی تو اسٹیبلشمنٹ کے گوشہ عافیت کے متعلقین ہیں ۔ ایسے ہی جیسے 12 اپریل 2022ءکو مسلم لیگ ن شہباز شریف کی قیادت میاں نواز شریف کی مرضی کے عین مطابق جنرل باجوہ کی کفالت میں منتقل ہو گئی تھی ۔’’پروجیکٹ نئی تحریک انصاف‘‘کو کے پی میں اور سند ھ میں کھل کر سیاست کرنے کی اجازت مل چکی ہے ۔ کے پی میں تحریک انصاف کے ورکرز دل کی خوب بھڑاس نکال رہے ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ نئے عہد و پیماں متاثر ہوئے بغیرPTI کا سیاسی گہما گہمی پر اترانا بنتا ہے ۔ اگر الیکشن ہو گئے تو کئی درجن سیٹیں بھی ملیں گی ۔ازراہِ تفنن ، سیاسی جماعتوں کے درمیان 70 سال سے جو خون ریز جنگ جاری ہے ، اسکی وجہ تو اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو کریڈٹ ، ایک دوسرے کی تکہ بوٹی کرنیوالی تمام سیاسی جماعتوں کا اسٹیبلشمنٹ کیلئے باجماعت نیک خواہشات و جذبات رکھنا ، انکے اورمملکت کیلئے نیک شگون ہے ۔ معیشت میں حرکت حوصلہ افزا اور خوش آئند ضرور، اسکی برکت اسٹیبلشمنٹ ہی سمیٹے گی ۔ اگرچہ اکانومی کی بحالی بھی الیکشن میں رکاوٹ بننی ہے ۔ عمران خان کی موجودگی رنگ میں کیا بھنگ ڈالے گی؟خاطر جمع ، جب تک عمران خان کے مقدمات عدالتوں میں ، انتخابی مہم بگاڑ کی زد میں ہی رہنی ہے ۔ میری مانیں !الیکشن کے انعقاد سے پہلے ، ماحول ہی نہیں بن پائے گا۔

امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کردی۔

مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما احسن اقبال نے تصدیق کی ہے کہ ن لیگ نے استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اصولی اتفاق کرلیا ہے لیکن ایسا کرنے کے لیے کوئی دباؤ نہیں ہے۔

تحریک انصاف کے سینئر رہنما حامد خان کا کہنا ہے کہ قانونی لوازمات پورے کرنے کے باوجود تحریک انصاف کو نوٹس جاری کرنا بالکل مناسب نہیں۔

شجاع آباد کے قاضی ندیم اپنے بچوں کی شادی پر خوشی سے نہال ہیں، اور خاندان کے دیگر افراد کو بھی ”دل کا رشتہ“ ایپ کا مشورہ دے رہے ہیں۔

فائرنگ کے دوران روشن بی بی نے اپنے دونوں بچوں اور شوہر کو بس کےفرش پر لٹایا اور خود انکی ڈھال بن گئیں،

غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی واپسی کا عمل جاری ہے خیبر پختونخوا سے اب تک 2 لاکھ 58 ہزار 657 غیرقانونی مقیم غیرملکی اپنے وطن واپس لوٹ گئے۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے غزہ کی قرون وسطیٰ کی عمری مسجد کو بمباری سے شہید کردیا۔

چائنیز تائپے میں جاری ایشین بیس بال چیمپئن شپ میں پاکستان نے دوسری کامیابی حاصل کرلی۔

پاکستان کرکٹ ٹیم مینجمنٹ نے اسپنر ابرار احمد کے متبادل کے حوالے سے مشاورت شروع کردی ہے، اس حوالے ٹیم ڈائریکٹر محمد حفیظ اور چیف سلیکٹر وہاب ریاض کے درمیان رابطہ ہوگیا۔

یہ پروجیکٹ دسمبر 2020 میں سنگہوا یونیورسٹی اور یالونگ ریور ہائیڈرو پاور ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ نے شروع کیا تھا۔

ریلی کو "گرلز بائیکرز آن روڈ" کا نام دیا گیا تھا۔

بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بھی ریفرنس میں شامل کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ پارلیمانی بورڈ کے اجلاس جاری ہیں۔

کراچی میں بدھ کے روز ابتدائی رپورٹ میں فی الحال آگ لگنے کی وجوہات کا تعین نہیں کیا گیا۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما طلال چوہدری نے کہا ہے کہ نواز شریف کے ہوتے ہوئے مجھے ٹکٹ مانگنے کی ضرورت ہی نہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی کی درخواستوں پر بھی آئندہ ہفتے سماعت ہوگی،ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کی عدالتی کارروائی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی جائے گی۔

QOSHE - حفیظ اللہ نیازی - حفیظ اللہ نیازی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

حفیظ اللہ نیازی

13 1
09.12.2023

نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آنیوالی ریاست، 76سال بعد، آج بھی اپنی شناخت کی جستجو میں سر گرداں، 7دہائیوں سے طالع آزماؤں کی نیٹ پریکٹس بن چکی ہے۔ میں ٹھہرا ایک ڈھنڈورچی، جس نظریہ پر مملکت نے استوار ہونا تھا، اسکی تلاش میں اپنی جوانی دیانتداری سے غرق رکھی اور اب پیرانہ سالی میں’’مملکت ڈوبتے دیکھ رہا ہوں‘‘،آہ و بکا کیوں نہ کروں ،کیونکر خاموش رہوں؟ قرآن کریم میں زیر عتاب قوموں کی جتنی خصلتیں درج ہیں، من و عن مملکت خداداد کے 24کروڑ 60 لاکھ ( معدودے چند لاکھ برطرف) میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ جدید مہذب معاشروں کے جتنے اعلیٰ و ارفع معیار اقدار ،صلہ رحمی، انسانی حقوق ، اخلاقی وقانونی ضوابط، قانون کی حکمرانی ، ادائیگی ٹیکس اورتہذیب و تمدن کے پیمانے، بحیثیت قوم ہم اسکو روند چکے ہیں۔ کرپشن، جھوٹ، چوری، فواحش، حسد ، غیبت، لاقانونیت، فراڈ، ملاوٹ، نوسر بازی، دھوکا دہی، جعلسازی، منافقت کونسا ایساہنر، جس میں کسب کمال نہ ہو۔ ہر کوئی جہاں جس جس مد میں گوڈے گوڈے ملوث ، ڈھٹائی سے انہی مدوں پر شاکی ہے ۔آج وطن عزیز کے مستقبل کیساتھ سوال ایک ہی نتھی ،’’ 8 فروری کو الیکشن ہو پائینگے یا نہیں‘‘ ؟ ۔ پچھلے چھ ماہ کے واقعات کا اجمالی جائزہ لیں ۔ یادش بخیر، چند ماہ پہلے اچانک خبر آئی کہ نواز شریف فریضہ حج کیلئے جون کے آخری ہفتہ سعودی عرب پہنچ رہے ہیں ۔ چند دن بعد نوازشریف جدہ کی بجائے دبئی پہنچ گئے جبکہ اسی دن زرداری صاحب مع بلاول دبئی پہنچ چکے تھے۔ وہاں پر نواز/ زرداری کی اہم میٹنگ بارے جب بریکنگ نیوز آئی تو ساتھ ہی میڈیا کے کان کھڑے ، پلکیں بلند ہو گئیں ۔ اگلے دن جیو TV پر جب میٹنگ زیر بحث آئی تو میرا جواب مختصر ،’’ استحکام پاکستان پارٹی کی ایک دم تشکیل سیاسی جماعتوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے ،علاوہ ازیں دونوں قائدین یا تو موجود اپنی حکومت کی توسیع چاہتے ہیں یا بصورت دیگر الیکشن ملتوی ہوتے ہیں تو نگران سیٹ اپ اپنی مرضی کا چاہتے ہیں‘‘۔ جب بلوچستان سے محمد مالک اور اسحاق ڈار کا نام بطور وزیراعظم سامنے آیا تو شک نہ تھا کہ نواز........

© Daily Jang


Get it on Google Play