متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے 76 اور بنگلہ دیش کے قیام کے اکیاون سال بعد یہ حقیقت آشکار ہوگئی ہے کہ : جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش نہ تو پورپین یونین جیسا کوئی نیم وحدتی (ONENESS) علاقائی بندوبست قائم کرنے کی صلاحیت کے حامل ہیں، جس کا دائرہ افغانستان، نیپال، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ تک بڑھایا جا سکے، نہ ہی پاکستان اور بھارت اپنی الگ الگ حیثیت میں علاقائی طاقتیں بن سکتے ہیں جو علاقے کے ممالک پر اثر انداز ہوسکیں اور نہ امریکہ اور کینیڈا جیسے پائیدار مثالی دو طرفہ تعلقات قائم کرنے کےاہل ہیں ۔اس بدقسمت خطے میں یہ بھی ممکن نہیں کہ اس کے سب ممالک اپنے ہی ریجن کے سب ممالک سے خوشگوار اور ثمر آور دو طرفہ تعلقات تو کیا معمول کے (نارمل) تعلقات ہی قائم کرسکیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوتیں اور زیادہ آبادی والے بہترین مردم خیز ممالک ہونے کے باوجود امریکہ، چین حتیٰ کہ انڈونیشیا کے درجے کا بھی داخلی سیاسی و اقتصادی استحکام قائم کرنے کے اہل نہیں۔ کوئی شک نہیں بھارت کی قومی و ریاستی اقتصادیات جہاں تک عوامی اقتصادی حالت (مائیکرو اکانومی) کا تعلق ہے تیزی سے مستحکم ہو رہی ہے اور بنگلہ دیش بھی اپنے اہداف اطمینان بخش درجے تک حاصل کر چکا ہے، لیکن پاکستان سمیت تینوں ہی ممالک میں شرح غربت و غریب ترین درجے کا اتار چڑھائو (فلیکچویشن) قریب قریب رہتا ہے۔ جو آبادی کا بڑا فیصد ہوتا ہے۔پاکستان کی قومی سطح کی اقتصادی حالت (خصوصاً خزانہ) مسلسل آئینی و سیاسی عدم استحکام کے باعث بد سے بدتر ہوتی چلی گئی ۔ آج بدترین اور بھاری بھرکم قرضوں کی جکڑ بندی اور عالمی قرض داروں کی کڑی اور عوام کا دم نکالنے والی شرائط کے حوالوں سے تشویشناک ہے۔ بڑھتی غربت میں کمی کی بھی کوئی صورت نہیں بن رہی، اشیائے خورو نوش، بجلی، ایندھن اور پٹرول کی مسلسل بڑھتی قیمتوں سے گرتے معیار زندگی نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے، جس سے جرائم کی شرح اور داخلی بدامنی کا گراف بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ قرضوں کے غیر معمولی بوجھ نے معمول کی سست رفتار ترقی کو بھی جامد کر دیا ہے۔سو ہم علاقائی تعاون و اشتراک اور پائیدار دوطرفہ تعلقات سے بھی مہنگائی کا جن کسی حد تک قابو نہیں کرسکتے۔ روپے کی قدر میں تشویشناک کمی اور ڈالر اور تمام غیر ملکی زرمبادلہ کی کمی اور اس کی ویلیو میں بے پناہ اضافے نے سستی درآمد سے بھی عوامی ضروریات پورے ہونے کے ذرائع کو محدود کردیا ہے۔ ہمارے جو بہت روشن امکانات انٹرریجنل کوآپریشن میں پاکستان کے واضح ہوئے سرگرم کردار سے بنے تھے وہ بھی ہمارے داخلی سیاسی انتشار 16ماہی حکومت کی بدترین کارکردگی الیکشن کے انعقاد میں تاخیر اور آئین کی بڑی اور مسلسل خلاف ورزیوں سے شدید داخلی بحرانی کیفیت سے معدوم ہوگئے۔ اس پس منظر میں کچھ بہتر اقدامات ہوئےخصوصاً ڈالر قابو کرنے میں چیف صاحب کامیا ب ہوئے، اسٹاک ایکسچینج میں غیر معمولی تیزی آنے اور اسمگلنگ اور غیر قانونی کراس بارڈر ٹریڈ کو کنٹرول کرنے سے بہتری آئی ہے، پھر ان کے خلیجی ممالک کے دوروں سے صنعتی و زرعی شعبوں اور پٹرولیم کی صنعت میں بڑی سرمایہ کاری کے امکانات پیدا ہوئے ہیں، تباہ شدہ قومی معیشت کی بحالی کی جانب اٹھائے یہ اولین اقدامات یقیناً حوصلہ افزا ہیں لیکن انکی ان کاوشوں کا ثمر آور ہونا، 8فروری کو ہونے والے انتخابات کے یقینی شفاف اور غیر جانبدارانہ انعقاد سے مشروط ہوگیا ہے۔

سبھی تجزیہ نگار اور ماہرین ِمعیشت اس پرمکمل متفق نظر آ رہے ہیں کہ گھمبیر اقتصادی بحران کے کم ہوتے جانے کا انحصار جلد سے جلد آئینی و سیاسی ابتری ختم ہو کر شفاف انتخابات بمطابق آئین و قانون ایک غیرمتنازع منتخب حکومت کے ناگزیر قیام سے مشروط ہوگیا ہے۔ قومی معیشت کے ضمن میں یہ کاوشیں الیکشن سے قبل ایک ہوم ورک ثابت ہوگا،جو سیاسی و اقتصادی استحکام لانے کا لازمہ ہے،جبکہ بڑی سیاسی جماعتیں نہ انتخابی مہم چلا رہی ہیں نہ ان کے پاس کوئی ایسا منشور اور بڑا انقلابی پروگرام ہے جو بحران کے مطلوب حل کے تقاضوں سے میچ کرتا ہو۔ بہت سوںکیلئےکڑوی (لیکن سچی) حقیقت پاپولر پی ٹی آئی کیلئے انتخابی تیاری اور ابلاغ مہم کی راہیں بند ہونا ہے تو دوسری بڑی جماعت ن لیگ بدستور الیکشن سے بیزار، ڈری اپنی پہلی پوزیشن بحال کرنے کی تمام جائز و ناجائز کوششوں میں ناکامی کے بعد سارا زور لیول پلینگ فیلڈ کے رونے دھونے اور بڑے فیصلہ سازوں اور عدلیہ پر ڈسٹینس پریشر ڈالنے کو اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہے۔ اس کا بیانیہ ’’چوتھی مرتبہ‘‘ کی یقین دہانی کرانے سے آگے نہیں جا رہا۔ اس میں وہ اتنا آگے نکل گئی ہے کہ پارٹی کے ایک مخصوص لیکن اہم اور حساس فیصد کو یہ انداز سیاست ہرگز گوارا نہیں، مصلحتیں سب کچھ ظاہر نہیں ہونے دے رہیں تاہم شاہد خاقان عباسی اور جاوید ہاشمی جیسے وفا کے پیکر اپنے خلوص کا ثبوت دیتے حق گوئی کی ہمت کرتے پارٹی کو خبردار اور فیصلہ سازوں کو قائل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ ان کا باٹم لائن بہت توجہ طلب ہے کہ ایک تو الیکشن آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ہوں تبھی حکومت مستحکم ہو سکے گی اور یہ ن لیگ کی بقا کی بھی ضرورت ہے۔ ادھر الیکشن کمیشن کے مجموعی رویہ کا اس مرتبہ انتخاب کے انعقاد سے قبل ہی سخت متنازع ہو جانا، چیف صاحب کی قومی معیشت کی بحالی کی ابتدائی کامیابی حاصل کرتی کوششوں کے ثمر آور ہونے میں پیشگی رکاوٹوں کے مترادف ہے جبکہ موجودہ غیر معمولی اور گھمبیر صورتحال میں ناگزیر تقاضا ہے کہ الیکشن کو بااعتبار بنانےکیلئے جماعتوں میں ایک متفقہ ڈیکلریشن پر ڈائیلاگ ہوں جس میں شفاف الیکشن کو یقینی بنایا جائے، تشکیل حکومت پر سب پارلیمانی پارٹیاں اعلامیہ کو تسلیم کریں، حکومت اپوزیشن کی کسی جماعت کیخلاف انتقامی کارروائیوں سے باز رہے، جو کام موجودہ حکومت بہتری کیلئے پائپ لائن میں ڈال کر جارہی ہے اسے تکمیل تک پہنچایا جائے۔ کرپشن فری پاکستان کیلئے ایک متفقہ اقدامات کی قانون سازی کا مشترکہ پیشگی قانونی مسودہ تیار کرکے اس پر اتفاق رائے کا اعلان کیا جائے۔ گڈ گورننس کیلئے ای گورننس کے نتیجہ خیز گورننس ماڈل پر اتفاق کرلیا جائے، مقامی حکومتوں کے انتخابات اگر اب 8 فروری کو نہیں ہوسکتے تو تشکیل حکومت کے 3 ماہ کے اندر اندر ملک گیر سطح پر یہ ایک ہی روز کرائے جائیں، میڈیا پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں، سیاسی نوعیت کے مقدمات کی زد میں آئے موجود پارٹی لیڈروں اور کارکنوں پر مقدمات ختم کردیئے جائیں، ایک مرتبہ کچھ بنیادی شرائط کے ساتھ عام معافی کا اعلان کردیا جائے۔ بہترین سول، ملٹری ریلیشنز کی نشاندہی کرکے انہیں بنایا جائے اور اگلے یقینی مستحکم سیاسی عمل کو پائیدار اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے ’’آئین کا مکمل اطلاق اور قانون کا سب شہریوں پر یکساں نفاذ‘‘ کو قومی بیانیہ بنایا جائے۔ وما علینا الالبلاغ۔

امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کردی۔

مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما احسن اقبال نے تصدیق کی ہے کہ ن لیگ نے استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اصولی اتفاق کرلیا ہے لیکن ایسا کرنے کے لیے کوئی دباؤ نہیں ہے۔

تحریک انصاف کے سینئر رہنما حامد خان کا کہنا ہے کہ قانونی لوازمات پورے کرنے کے باوجود تحریک انصاف کو نوٹس جاری کرنا بالکل مناسب نہیں۔

شجاع آباد کے قاضی ندیم اپنے بچوں کی شادی پر خوشی سے نہال ہیں، اور خاندان کے دیگر افراد کو بھی ”دل کا رشتہ“ ایپ کا مشورہ دے رہے ہیں۔

فائرنگ کے دوران روشن بی بی نے اپنے دونوں بچوں اور شوہر کو بس کےفرش پر لٹایا اور خود انکی ڈھال بن گئیں،

غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی واپسی کا عمل جاری ہے خیبر پختونخوا سے اب تک 2 لاکھ 58 ہزار 657 غیرقانونی مقیم غیرملکی اپنے وطن واپس لوٹ گئے۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے غزہ کی قرون وسطیٰ کی عمری مسجد کو بمباری سے شہید کردیا۔

چائنیز تائپے میں جاری ایشین بیس بال چیمپئن شپ میں پاکستان نے دوسری کامیابی حاصل کرلی۔

پاکستان کرکٹ ٹیم مینجمنٹ نے اسپنر ابرار احمد کے متبادل کے حوالے سے مشاورت شروع کردی ہے، اس حوالے ٹیم ڈائریکٹر محمد حفیظ اور چیف سلیکٹر وہاب ریاض کے درمیان رابطہ ہوگیا۔

یہ پروجیکٹ دسمبر 2020 میں سنگہوا یونیورسٹی اور یالونگ ریور ہائیڈرو پاور ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ نے شروع کیا تھا۔

ریلی کو "گرلز بائیکرز آن روڈ" کا نام دیا گیا تھا۔

بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بھی ریفرنس میں شامل کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ پارلیمانی بورڈ کے اجلاس جاری ہیں۔

کراچی میں بدھ کے روز ابتدائی رپورٹ میں فی الحال آگ لگنے کی وجوہات کا تعین نہیں کیا گیا۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما طلال چوہدری نے کہا ہے کہ نواز شریف کے ہوتے ہوئے مجھے ٹکٹ مانگنے کی ضرورت ہی نہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی کی درخواستوں پر بھی آئندہ ہفتے سماعت ہوگی،ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کی عدالتی کارروائی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی جائے گی۔

QOSHE - ڈاکٹر مجاہد منصوری - ڈاکٹر مجاہد منصوری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ڈاکٹر مجاہد منصوری

15 1
09.12.2023

متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے 76 اور بنگلہ دیش کے قیام کے اکیاون سال بعد یہ حقیقت آشکار ہوگئی ہے کہ : جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش نہ تو پورپین یونین جیسا کوئی نیم وحدتی (ONENESS) علاقائی بندوبست قائم کرنے کی صلاحیت کے حامل ہیں، جس کا دائرہ افغانستان، نیپال، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ تک بڑھایا جا سکے، نہ ہی پاکستان اور بھارت اپنی الگ الگ حیثیت میں علاقائی طاقتیں بن سکتے ہیں جو علاقے کے ممالک پر اثر انداز ہوسکیں اور نہ امریکہ اور کینیڈا جیسے پائیدار مثالی دو طرفہ تعلقات قائم کرنے کےاہل ہیں ۔اس بدقسمت خطے میں یہ بھی ممکن نہیں کہ اس کے سب ممالک اپنے ہی ریجن کے سب ممالک سے خوشگوار اور ثمر آور دو طرفہ تعلقات تو کیا معمول کے (نارمل) تعلقات ہی قائم کرسکیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوتیں اور زیادہ آبادی والے بہترین مردم خیز ممالک ہونے کے باوجود امریکہ، چین حتیٰ کہ انڈونیشیا کے درجے کا بھی داخلی سیاسی و اقتصادی استحکام قائم کرنے کے اہل نہیں۔ کوئی شک نہیں بھارت کی قومی و ریاستی اقتصادیات جہاں تک عوامی اقتصادی حالت (مائیکرو اکانومی) کا تعلق ہے تیزی سے مستحکم ہو رہی ہے اور بنگلہ دیش بھی اپنے اہداف اطمینان بخش درجے تک حاصل کر چکا ہے، لیکن پاکستان سمیت تینوں ہی ممالک میں شرح غربت و غریب ترین درجے کا اتار چڑھائو (فلیکچویشن) قریب قریب رہتا ہے۔ جو آبادی کا بڑا فیصد ہوتا ہے۔پاکستان کی قومی سطح کی اقتصادی حالت (خصوصاً خزانہ) مسلسل آئینی و سیاسی عدم استحکام کے باعث بد سے بدتر ہوتی چلی گئی ۔ آج بدترین اور بھاری بھرکم قرضوں کی جکڑ بندی اور عالمی قرض داروں کی کڑی اور عوام کا دم نکالنے والی شرائط کے حوالوں سے تشویشناک ہے۔ بڑھتی غربت میں کمی کی بھی کوئی صورت نہیں بن رہی، اشیائے خورو نوش، بجلی، ایندھن اور پٹرول کی مسلسل بڑھتی قیمتوں سے گرتے معیار زندگی نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے، جس سے جرائم کی شرح اور داخلی بدامنی کا گراف بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ قرضوں کے غیر معمولی بوجھ نے معمول کی سست رفتار ترقی کو بھی جامد کر دیا ہے۔سو ہم علاقائی تعاون و اشتراک اور پائیدار دوطرفہ تعلقات سے بھی مہنگائی کا جن کسی حد تک قابو نہیں کرسکتے۔ روپے کی........

© Daily Jang


Get it on Google Play