اللّٰہ کو جان دینی ہے ، مجھے آج تک سمجھ نہیں آسکی کہ مسجد میں ہر نمازی جوتوں کی جوڑی ہاتھ میں پکڑ کر کیوں گھومتا ہے اور پھر بالآخر جوتوں کے سامنے سجدہ ریز کیوں ہوجاتا ہے ۔ اوّل تو مسجد میں کوئی بھی شخص گوچی یا بالی کے جوتے پہن کر نہیں آتا ،زیادہ سے زیادہ لوگ ہوائی چپل یا ربڑ کا جوتا پہن کر آتے ہیں ، سواگر آپ کا یہ جوتا چوری بھی ہو جائے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ لیکن نہیں ، اپنی نماز خراب کر لیں گے مگر ربڑ کی جوتی کو سینے سے لگا کر رکھیں گے۔

ایک منٹ کیلئے فرض کر لیں کہ نمازی ہی مسجد سے جوتے چوری کرتے ہیں تو کیااِس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہوگا کہ مذہب انسان کی اخلاقی تطہیر نہیں کرسکتا؟یقیناًیہ بات درست نہیں کیونکہ مذہب تو انسان سے مطالبہ ہی یہ کرتا ہے کہ اس کا کوئی قول اور فعل اپنے پروردگار کی رضا کے خلاف نہ ہو،لہٰذا اگر کسی شخص کے عمل سے کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچتا ہے تو لامحالہ مذہب کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔بالکل اسی طرح جیسے ہم کارل مارکس کو تو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے کس درد مندی کے ساتھ محنت کشوں کیلئے کمیونزم اور سوشلزم کا نظام متعارف کروایا مگر اس نظام کے نام پر جب اسٹالن نے لاکھوں بندےمار دیے تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اِس میں کارل مارکس کا قصور تھا۔جب بھی کوئی باریش شخص کسی اسکینڈل میں ملوث پایا جاتاہےیا کسی مدرسےکامولوی بدفعلی کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہےتو اُس شخص کی ذات کے ساتھ ساتھ مذہب پربھی تنقید کی جاتی ہے جس کے جواب میں مذہبی اکابر کہتے ہیں کہ اِس میں مذہب کاکوئی قصور نہیں ،یہاں انہیں کمیونزم اور کارل مارکس والی دلیل پسند آجاتی ہے اور پھر کہتے ہیں کہ یہ سارا مسئلہ قانون کی عملداری کا ہے ، آپ رِٹ آ ف اسٹیٹ قائم کردیں ،یہ مسائل ختم ہوجائیں گے ۔اِس کی مثال کچھ یوں ہے کہ ایک مذہبی جماعت دارالحکومت میں دھرنا دیتی ہے ،پوری ریاست کو مفلوج کرتی ہے ، حکومتی مشینری اُسکے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوجاتی ہے،وہ جماعت کہتی ہے کہ ہمیں فلاں وزیر کا عقیدہ پسندنہیں، اُس کا استعفیٰ لاؤ، ریاست اُس جتھے کا حکم بجا لاتے ہوئے استعفیٰ لاکر پیش کرتی ہے ، پوری دنیا میں ایٹمی طاقت کی جگ ہنسائی ہوتی ہے ، ہم دست بستہ پوچھتے ہیں کہ اِس سارے معاملے میں کس کاقصور ہے، جواب ملتا ہے کہ اِس میںبھی قانون کی عملداری کا نہ ہونا ہی وجہ ہے،آپ ملک میں قانون کی عملداری کویقینی بنادیں کسی کو جرات نہیں ہوگی کہ آئندہ اِس قسم کی حرکت کرے۔ایک اور مثال۔سیالکوٹ میں سری لنکن منیجر پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگایا جاتا ہے ، چند نوجوان اسے سڑک پر گھسیٹتے ہیں، اُس کو ڈنڈوں سے مار کرہلاک کرتے ہیں اور اُس کی لاش کو آگ لگا دیتے ہیں۔سوال کیاجاتا ہے کہ جناب والا اِس معاملے میں کسے الزام دیناہے، جواب ملتا ہے کہ عدالتی نظام کو، آپ عدالتی نظام ٹھیک کردیں،Mob Justiceختم ہوجائے گا۔

کسی بھی قسم کی بحث میں جائےبغیر ہم مان لیتے ہیں کہ یہ تمام باتیں درست ہیں،یعنی مسجد میں جوتا چوری ہونے سے لے کر ایک ملزم کو مذہب کے نام پر زندہ جلا دینے تک،مذہب کا کوئی قصور نہیں ، قصور ہے تو فقط ریاست کا اور اِس فرسودہ نظام کا جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں وہ کون سے ممالک ہیں جہاں قانون کی عملداری ہے اور جہاں نظام عدل پوری شفافیت کے ساتھ کام کر رہا ہے ۔آپ انٹرنیٹ پر مختلف قسم کے اشاریےتلاش کریں اور دیکھیں کہ کون سے ممالک عدالتی نظام کی فعالیت، جمہوریت کی بالادستی، انسانی حقوق کی پاسداری ، مذہبی رواداری ،قانون کی عملداری اوراقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں سب سے اوپر ہیں ۔حیرت انگیز طور پرہر اشاریے میں مغربی ،سیکولر اور لبرل ممالک ہی درجہ بندی میں اوپر نظر آئیں گے ، کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں ملے گا جہاں کسی مذہبی جماعت کی حکومت ہواور وہ یہ دعویٰ کرے کہ ہم نے یہاںمذہبی نظام نافذ کر رکھاہے ۔جب ہم اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں تو ہمارے کچھ دوست ناراض ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں آپ اسلامی نظام کے خلاف ہیں حالانکہ ہم انہی کا استدلال استعمال کرتے ہوئے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ قبلہ آپ ہی نے تو کہا تھا کہ ریاست کی عملداری قائم کردو تو پاکستان کے مسائل حل ہوجائیں گے ، جب یہ ماڈل تلاش کیا تو معلوم ہوا کہ وہ سیکولر، لبرل اور جمہوری ماڈل ہے نہ کہ تھیوکریسی پر مبنی نظام جہاں ملائیت ہو۔اب ناراضی کس بات کی؟

ناراضی دراصل اِس بات کی ہے کہ جس نظام نے مسائل حل کیے ہیں اُس میں دین کی گنجائش نہیں ، مذہب وہاں انسان کا ذاتی معاملہ ہے ، اسی وجہ سے جب وہاں دو بالغ لوگ ایک ساتھ بغیر نکاح کے رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں ، یا نایٹ کلب میں جاتے ہیں یا عورتیں ساحل سمندر پر بکنی پہن کر غسل آفتابی کرتی ہیں تو ہم بہت جز بز ہوتے ہیں ،کیونکہ اِن باتوں کی اسلامی ریاست میں اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ناراضی کی دوسری وجہ ریاست کے فیصلہ سازی کے عمل میں مذہبی پیشواؤں کی عدم مداخلت ہے ، وہاں پاپائے اعظم کسی کیتھولک نظریاتی کونسل کا سربراہ نہیں،بلکہ وہاں سرے سے ایسی کونسل کا تصور ہی نہیں ۔ عدالت بھی ایک ہی ہے جہاں تمام مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے مقدمات سنے جاتے ہیں، پروٹسٹنٹ یا کیتھولک پادریوں نے کسی شرعی عدالت کا مطالبہ نہیں کیا اور نہ ہی اُن کے دماغ میں کبھی یہ اچھوتا آئیڈیا آیا کہ ریاست میں ایک متوازی نظام عدل بھی ہونا چاہیے جہاں مذہبی تعبیرات کے مطابق مقدموں کی سماعت ہو اور مسند پر اُن کے نمائندے براجمان ہوں۔ظاہر ہے کہ جس ریاست میں اِس قسم کی باتوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوگی اور اِس کے باوجود وہاں کے عوام کی جان و مال محفوظ ہوگی اورانہیں انصاف مل رہا ہوگا تو ایسی ریاست مذہبی پیشواؤں کو کیوں کر قبول ہوگی؟

اصل میں دینی رجحان کے حامل دانشوروں کو اچھی طرح علم ہے کہ مغربی ممالک نے کس قدر طویل اور صبر آزما جدو جہد کے بعد یہ ریاستی نظام بنایاہے جس نےاُن کے وہ سب مسائل حل کر دیے ہیں جو ہمارے ہاں موجود ہیں اور جن پر ہم آئے دن سینہ کوبی کرتے ہیں ۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ مذہبی دانشور اِس مغربی نظام کی افادیت سے انکار نہیں کرتے مگر اسے قبول بھی نہیں کرتے کیونکہ جس دن انہوں نے اعتراف کرلیا کہ یہی نظام پاکستان میں نافذ ہونا چاہیےاُس دن مذہب کی بنیاد پر تعمیر کردہ اُن کا مقدمہ ختم ہوجائے گا۔

امریکا کی یونیورسٹی آف پنسلوینیا کی قیادت نے استعفیٰ دے دیا ہے، ڈونرز کے دباؤ کی وجہ سے یونیورسٹی کی صدر الزبتھ میگیل اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے چیئرمین اسکاٹ باک نے استعفیٰ دیا ہے۔

امریکا نے اسرائیل کو ٹینکوں کے 14ہزار گولے ہنگامی طور پر فراہم کرنے کی منظوری دے دی۔

اے سی سی انڈر 19 ایشیا کپ میں روایتی حریف پاکستان اور بھارت آج مدمقابل آئیں گے۔

سلامتی کونسل میں امریکا کی جانب سے جنگ بندی کی قرار داد ویٹو کرنے کا اسرائیل نے خیر مقدم کیا ہے۔

این ایچ اے حکام کا کہنا ہے کہ مارچ تک پل کو ٹریفک کیلئے کھول دیا جائے گا۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت 3 رکنی ججز کمیٹی اجلاس کے میٹنگ منٹس جاری کر دیے گئے۔

گوہر اعجاز نے کہا کہ قلت کی بنا پر کسی کمپنی یا ڈیلر کو کھاد مہنگی بیچنے کی اجازت نہیں ہے۔

بالی ووڈ فلمساز زویا اختر نے ’دی آرچز‘ کے تناظر میں اقربا پروری کی بحث کو غیر حقیقی قرار دے دیا اور کہا کہ آپ کو ن ہوتے ہیںیہ بتانے والےکہ مجھے اپنے پیسوں سے کیا کرنا ہے؟

اسرائیل کا غزہ پر بمباری کرنا معمول ہے، موجودہ آپریشن نے اسرائیلی ریاست کی بنیادیں کمزور کی ہیں، اسرائیلی اخبار

ریلوے حکام کے مطابق مال گاڑی ایران سے گندھک لوڈ کر کے کوئٹہ جارہی تھی۔

ایک روز پہلے جنرل غادی ایزینکوت کا بیٹا بھی حماس سے لڑائی میں مارا گیا تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کا مقدمہ درج کرکے ملزمان کی تلاش شروع کردی گئی۔

اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں فلسطینیوں پر مظالم کم نہ ہوئے اور انہوں نے مظلوم فلسطینیوں کی املاک کو بھی نقصان پہنچانا شروع کردیا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل غزہ میں جنگ بندی کروانے میں پھر ناکام ہوگئی ہے, ترجمان دفتر خارجہ

ریان زمان نے انٹرنیشنل جونیئر اسکواش چیمپئن شپ میں ملائیشین کھلاڑی کو شکست دینے کے بعد جیت کا جشن منایا،

غزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری سے 7 اکتوبر سے اب تک شہداء کی تعداد 18 ہزار کے قریب پہنچ گئی،

QOSHE - یاسر پیر زادہ - یاسر پیر زادہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

یاسر پیر زادہ

47 9
10.12.2023

اللّٰہ کو جان دینی ہے ، مجھے آج تک سمجھ نہیں آسکی کہ مسجد میں ہر نمازی جوتوں کی جوڑی ہاتھ میں پکڑ کر کیوں گھومتا ہے اور پھر بالآخر جوتوں کے سامنے سجدہ ریز کیوں ہوجاتا ہے ۔ اوّل تو مسجد میں کوئی بھی شخص گوچی یا بالی کے جوتے پہن کر نہیں آتا ،زیادہ سے زیادہ لوگ ہوائی چپل یا ربڑ کا جوتا پہن کر آتے ہیں ، سواگر آپ کا یہ جوتا چوری بھی ہو جائے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ لیکن نہیں ، اپنی نماز خراب کر لیں گے مگر ربڑ کی جوتی کو سینے سے لگا کر رکھیں گے۔

ایک منٹ کیلئے فرض کر لیں کہ نمازی ہی مسجد سے جوتے چوری کرتے ہیں تو کیااِس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہوگا کہ مذہب انسان کی اخلاقی تطہیر نہیں کرسکتا؟یقیناًیہ بات درست نہیں کیونکہ مذہب تو انسان سے مطالبہ ہی یہ کرتا ہے کہ اس کا کوئی قول اور فعل اپنے پروردگار کی رضا کے خلاف نہ ہو،لہٰذا اگر کسی شخص کے عمل سے کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچتا ہے تو لامحالہ مذہب کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔بالکل اسی طرح جیسے ہم کارل مارکس کو تو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے کس درد مندی کے ساتھ محنت کشوں کیلئے کمیونزم اور سوشلزم کا نظام متعارف کروایا مگر اس نظام کے نام پر جب اسٹالن نے لاکھوں بندےمار دیے تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اِس میں کارل مارکس کا قصور تھا۔جب بھی کوئی باریش شخص کسی اسکینڈل میں ملوث پایا جاتاہےیا کسی مدرسےکامولوی بدفعلی کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہےتو اُس شخص کی ذات کے ساتھ ساتھ مذہب پربھی تنقید کی جاتی ہے جس کے جواب میں مذہبی اکابر کہتے ہیں کہ اِس میں مذہب کاکوئی قصور نہیں ،یہاں انہیں کمیونزم اور کارل مارکس والی دلیل پسند آجاتی ہے اور پھر کہتے ہیں کہ یہ سارا مسئلہ قانون کی عملداری کا ہے ، آپ رِٹ آ ف اسٹیٹ قائم کردیں ،یہ مسائل ختم ہوجائیں گے ۔اِس کی مثال کچھ یوں ہے کہ ایک مذہبی جماعت دارالحکومت میں دھرنا دیتی ہے ،پوری ریاست کو مفلوج کرتی ہے ، حکومتی مشینری اُسکے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوجاتی ہے،وہ جماعت کہتی ہے کہ ہمیں فلاں وزیر کا عقیدہ پسندنہیں، اُس کا........

© Daily Jang


Get it on Google Play