پاکستان کے دیگر بے شمار مسائل میں سے ایک مسئلہ ریاستی یا حکومتی اخراجات کا بھی ہے۔ ہماری حکومتیں اپنی آمدنی اور سکت سے بہت زیادہ پیسہ خرچ کرتی ہیں۔ جہاں ان بے جا ریاستی اخراجات کو معقول بنانے کی ضرورت ہے‘ وہیں حکمرانوں کو خودپر خرچ ہونے والے سرکاری خزانے کو بھی موثر بنانے اور اسے ا سٹریم لائن کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے انہی سطور میں بہت دفعہ بیوروکریسی کی بے تحاشا مراعات اور بہت سے فضول اخراجات کی مد میں قومی خزانے پر پڑنے والے بوجھ پر بات ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ ہماری حکومتوں کا ایک اور مسئلہ سرکاری اداروں کو منظم انداز میں نہ چلانا بھی ہے‘ جس کی وجہ سے سرکاری اداروں کا حجم بھی بڑھتا ہے اور ان کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے اور عوام کو یہ مشکل پیش آتی ہے کہ اُنہیں ہر کام کے لیے الگ الگ دفتر کے چکر لگانا پڑتے ہیں اور وہاں کے افسران کی افسر شاہی سے بھی نمٹنا پڑتا ہے۔

مثال کے طور پر انہیں شناختی کارڈ بنوانے کے لیے نادرا کے دفتر‘ پاسپورٹ بنوانے کے لیے پاسپورٹ کے دفتر‘ گاڑی کی رجسٹریشن کروانے کے لیے ایکسائز کے دفتر‘ کاروبار کی رجسٹریشن کے لیے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے دفتر‘ بچوں کے پیدائشی سرٹیفکیٹ بنوانے کے لیے یونین کونسل کے دفتر‘ نکاح کا اندراج کروانے اور میرج سرٹیفکیٹ بنوانے کے لیے بھی یونین کونسل کے دفتر‘ زمین کے ریکارڈ کے حصول کے لیے اراضی ریکارڈ سنٹر‘ ڈرائیونگ لائسنس اور کریکٹر سرٹیفکیٹ کے لیے پولیس خدمت مراکز اور تھانوں کے چکر لگانا پڑتے ہیں۔ یہ سب وہ کام ہیں جن سے ہر پاکستانی کا پالا پڑتا ہے۔ کاروباری لائسنسوں کے حصول‘ ٹیکسوں اور فیس کا معاملہ الگ ہے جس کیلئے نجانے کہاں کہاں لوگوں کو دھکے کھانا پڑتے ہیں۔ ان خدمات کیلئے الگ الگ دفاتر کی عمارت بنانے کا خرچہ الگ‘ انہیں چلانے کیلئے خرچہ الگ‘ ان کئی اقسام کے دفاتر میں تعینات افسران اور عملے کی تنخواہیں‘ مراعات اور دیگر اخراجات الگ سے قومی خزانےپر بوجھ بنتے ہیں۔ لیکن تھوڑی سی توجہ اور چیزوں کو منظم انداز میں چلانے سے ان سب اخراجات کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو سہولت بھی دی جا سکتی ہے۔ اور یہ صرف عوام کو خدمات فراہم کرنیوالے سرکاری دفاتر کی بات ہو رہی ہے۔

شاید سوچنے میں یہ بات عجیب لگے کہ اتنی ساری خدمات‘ جو عوام کو مختلف محکموں سے ملتی ہیں‘ ایک وِنڈو میں کیسے دی جا سکتی ہیں لیکن دنیا میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور وہاں یہ وَن ونڈو سسٹم بہت کامیابی سے چل رہا ہے۔ بلکہ وہاں سے وَن وِنڈو سسٹم دفاتر میں تو موجود ہے ہی، یہ خدمات عوام کو آن لائن بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ استونیا کے ای گورنمنٹ سسٹم کو دنیا بھر میں سب سے جدید اور مکمل ڈیجیٹل سسٹمز میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ اس سسٹم کے ذریعے استونیا کے شہری لگ بھگ ہر سرکاری خدمت تک آن لائن رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس میں ٹیکس جمع کرانا‘ صحت کی معلومات‘ پولیس کی خدمات اور یہاں تک کہ غیر ملکیوں کے لیے ای ریزیڈنسی پروگرام بھی شامل ہیں۔ سنگاپور کا ای گورنمنٹ سسٹم ”سنگ پاس“ کے نام سے جانا جاتا ہے‘ جو سنگاپور کے شہریوں اور وہاں مقیم غیر ملکیوں کو 60سے زائد حکومتی اداروں سے متعلق ایک ہزار سے زیادہ خدمات تک رسائی فراہم کرتا ہے۔

اسی طرح کینیڈا میں ”سروس کینیڈا“ اور اس کے مختلف صوبوں میں اُن صوبوں کے نام سے جیسا کہ اونٹاریو میں ”سروس اونٹاریو“ کے نام سے وَن وِنڈو دفاتر موجود ہیں جو تقریباً وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کی تمام خدمات ایک ہی پلیٹ فارم پر فراہم کرتے ہیں۔ اس سے سروس ڈیلیوری کی لاگت تو کم ہوتی ہی ہے، عوام کو بھی سہولت ملتی ہے۔ اس سے ان اداروں کا احتساب بھی آسان ہوتا ہے اور ریاست کا خرچہ بھی کم ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں‘ جہاں وسائل اور انفراسٹرکچر کی کمی کا سامنا ہے‘ ایسے ای گورنمنٹ سسٹم سے سرکاری اداروں کی کارکردگی اور افادیت میں نمایاں بہتری لائی جا سکتی ہے۔جب تمام سرکاری خدمات ایک ہی پلیٹ فارم پر میسر ہوتی ہیں تو اس سے شفافیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ شہری آسانی سے دیکھ سکتے ہیں کہ ان کی درخواست پر کس حد تک کام ہو چکا ہے یعنی عوام سرکاری اداروں کی کارکردگی پر نظر بھی رکھ سکتے ہیں۔ جب شہریوں کو آسانی سے ضروری معلومات مل جاتی ہیں اور وہ اپنے ضروری کام آن لائن کر سکتے ہیں تو اس سے ان کی حکومت کے ساتھ مشغولیت بڑھتی ہے اور وہ خود کو زیادہ بااختیار محسوس کرتے ہیں۔ دور دراز علاقوں کے لوگوں کیلئے بھی یہ سسٹم بہت مفید ہے جہاں ہر سرکاری دفتر تک خود چل کر جانا مشکل ہوتا ہے۔ اس طرح کے نظام سے افسر شاہی اور عوام کی مشکلات کا خاتمہ کرنا بھی آسان ہے کیونکہ جب سب کام ایک ہی جگہ سے ہو رہے ہوں تو اس کی نگرانی کرنا‘ ان اداروں کا احتساب کرنا اور سسٹم کو بہتر بنانا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس بیسیوں اداروں کی کارکردگی پر الگ الگ نظر رکھنا اور اُسے بہتر بنانا اس کے مقابلے میں مشکل کام ہے۔ اس نظام سے عوام کی شکایات کا ازالہ اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں بے شمار سرکاری اداروں میں تو شکایت جمع کروانے کا ہی کوئی نظام موجود نہیں ہے تو ان کو حل کرنا تو دور کی بات ہے۔

پاکستان میں پہلے مرحلے میں اُن خدمات کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جانا چاہیے جن میں کافی مماثلت ہے اور اس کے بعد دیگر خدمات کو بھی وَن وِنڈو سے فراہم کیا جا سکتا ہے۔ نادرا کے دفاتر کو دیکھ لیں‘ یہ پورے ملک میں ہر تحصیل میں موجود ہیں جبکہ کئی جگہ پاسپورٹ کے دفاتر بھی الگ سے موجود ہیں۔ ضروری مشینری‘ کیمرے‘ بائیومیٹرک سکینرز دونوں دفاتر میں ایک جیسے ہی استعمال ہوتے ہیں مگر دونوں کے دفاتر الگ الگ ہیں جبکہ یہ دونوں خدمات ایک ہی دفتر میں ایک ہی ڈیسک پر فراہم کی جا سکتی ہیں۔ ہمارے ملک میں عوامی خدمات کیلئے وَن ونڈو کا نظام متعارف کروائے جانے کی اشد ضرورت ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں تو یہ کام صرف عوام کی آسانی کیلئےکیا جا رہا ہے لیکن ملکِ عزیز کو اس کا دوگنا فائدہ ہوگا یعنی ہمارے قومی خزانے کے قیمتی پیسے بھی بچیںگے اور لوگوں کیلئے آسانی بھی پیدا ہوگی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر کنوینئر مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ ہمارے تین ساتھیوں کو پیپلز پارٹی کے غنڈوں نے شہید کردیا ہے۔

اسرائیلی فوج نے دھمکی آمیز پیغام میں الجزیرہ ٹی وی کے رپورٹر کو کوریج کرنے سے روکا تھا۔

انہوں نے ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان کے چیئرمین جمشید حسین اور ان کی ٹیم کی کاوشوں کو بھی سراہا۔

کراچی کے علاقے بلال کالونی میں پولیس اور ملزمان کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں ایک راہگیر خاتون جاں بحق جبکہ ایک ملزم کو زخمی حالت میں گرفتار کرلیا گیا۔

پاکستان کی قابل اعتماد ایپ پر عالیہ کو اپنے پسندیدہ ہیرو سے مشابہ لڑکے کی پروفائل نظر آئی تو اُن کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔

نگراں وزیراعظم کی زیر صدارت پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے امور سے متعلق اجلاس ہوا جس میں چیئرمین پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی ذکا اشرف اور کرکٹ بورڈ کے دیگر عہدیدار نے شرکت کی۔

فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے کئی علاقوں میں اسرائیلی فوج کو پسپا کر دیا

رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ جواد ایس خواجہ کا سویلینز کے ملٹری کورٹ ٹرائل پر انٹرا کورٹ اپیل کے بینچ کے سربراہ پر اعتراض مذموم اقدام ہے۔

سعودی عرب کے صدر مقام ریاض کو اہم مغربی ساحلی شہر جدہ سے ملانے کے لیے ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ زیر غور ہے۔

بھارتی اداکار، میوزک کمپوزر، لکھاری اور پروڈیوسر منصور علی خان کو مدراس ہائیکورٹ نے ہتک عزت کے مقدمہ میں سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ تریشا کو آپکے خلاف کیس فائل کرنا چاہیئے۔

بلاول بھٹو زرداری اس وقت سب سے فعال سیاسی رہنما ہیں لیکن کچھ لوگوں کو یہ اچھا نہیں لگ رہا، شازیہ مری

ڈپٹی میئر کراچی سلمان عبداللہ مراد نے اپنے ردعمل میں کہا کہ جماعت اسلامی عدم اعتماد لے کر آئے، مقابلہ کریں گے۔

25 ارب 9 کروڑ 80 لاکھ روپے سے کے پی میں تحفظ خوراک کے منصوبے کی منظوری دی گئی۔

امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے لبنان پر حملے میں امریکی ساختہ وائٹ فاسفورس بم استعمال کیے۔

کشمیریوں نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخی کی توثیق کا بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کر دیا۔

QOSHE - علی معین نوازش - علی معین نوازش
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

علی معین نوازش

10 1
12.12.2023

پاکستان کے دیگر بے شمار مسائل میں سے ایک مسئلہ ریاستی یا حکومتی اخراجات کا بھی ہے۔ ہماری حکومتیں اپنی آمدنی اور سکت سے بہت زیادہ پیسہ خرچ کرتی ہیں۔ جہاں ان بے جا ریاستی اخراجات کو معقول بنانے کی ضرورت ہے‘ وہیں حکمرانوں کو خودپر خرچ ہونے والے سرکاری خزانے کو بھی موثر بنانے اور اسے ا سٹریم لائن کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے انہی سطور میں بہت دفعہ بیوروکریسی کی بے تحاشا مراعات اور بہت سے فضول اخراجات کی مد میں قومی خزانے پر پڑنے والے بوجھ پر بات ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ ہماری حکومتوں کا ایک اور مسئلہ سرکاری اداروں کو منظم انداز میں نہ چلانا بھی ہے‘ جس کی وجہ سے سرکاری اداروں کا حجم بھی بڑھتا ہے اور ان کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے اور عوام کو یہ مشکل پیش آتی ہے کہ اُنہیں ہر کام کے لیے الگ الگ دفتر کے چکر لگانا پڑتے ہیں اور وہاں کے افسران کی افسر شاہی سے بھی نمٹنا پڑتا ہے۔

مثال کے طور پر انہیں شناختی کارڈ بنوانے کے لیے نادرا کے دفتر‘ پاسپورٹ بنوانے کے لیے پاسپورٹ کے دفتر‘ گاڑی کی رجسٹریشن کروانے کے لیے ایکسائز کے دفتر‘ کاروبار کی رجسٹریشن کے لیے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے دفتر‘ بچوں کے پیدائشی سرٹیفکیٹ بنوانے کے لیے یونین کونسل کے دفتر‘ نکاح کا اندراج کروانے اور میرج سرٹیفکیٹ بنوانے کے لیے بھی یونین کونسل کے دفتر‘ زمین کے ریکارڈ کے حصول کے لیے اراضی ریکارڈ سنٹر‘ ڈرائیونگ لائسنس اور کریکٹر سرٹیفکیٹ کے لیے پولیس خدمت مراکز اور تھانوں کے چکر لگانا پڑتے ہیں۔ یہ سب وہ کام ہیں جن سے ہر پاکستانی کا پالا پڑتا ہے۔ کاروباری لائسنسوں کے حصول‘ ٹیکسوں اور فیس کا معاملہ الگ ہے جس کیلئے نجانے کہاں کہاں لوگوں کو دھکے کھانا پڑتے ہیں۔ ان خدمات کیلئے الگ الگ دفاتر کی عمارت بنانے کا خرچہ الگ‘ انہیں چلانے کیلئے خرچہ الگ‘ ان کئی اقسام کے دفاتر میں تعینات افسران اور عملے کی تنخواہیں‘ مراعات اور دیگر اخراجات الگ سے قومی خزانےپر بوجھ بنتے ہیں۔ لیکن تھوڑی سی توجہ اور چیزوں کو منظم انداز میں چلانے........

© Daily Jang


Get it on Google Play