جنوری 2023ء سے پنجاب میں نگران حکومت قائم ہے اور محسن نقوی اس نگران حکومت کی سربراہی کر رہے ہیں۔ آپ پنجاب پولیس کے ایک دبنگ ایس ایس پی، جناب اشرف مارتھ مرحوم کے داماد اور ہمارے دوست چوہدری سالک حسین کے ہم زلف ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران انہوں نے حیرت انگیز طور پر خود کو ایک فعال، بیدار مغز اور متحرک سربراہ حکومت کے طور پر پیش کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ اس وقت پاکستان میں موجود نگران سیٹ اپ کی سب سے فعال شخصیت ہیں۔ انہوں نے بہت تھوڑے وقت میں لاہور میں کئی منصوبے اتنی تیزی سے مکمل کئے ہیں کہ لوگ انہیں واقعتاً ’’محسن سپیڈ ‘‘ کہنا شروع ہو گئے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ جو میاں شہباز شریف کا متاثر کن اور عثمان بزدار کا مایوس کن طرز حکومت دیکھ چکا ہے وہاں محسن نقوی نے کچھ اس انداز میں کام کیا ہے کہ اب لوگ شہباز شریف کا طرز حکومت بھی بھولتے جا رہے ہیں۔ افسر شاہی میں نہ تو کوئی انکا لاڈلا ہے اور نہ ہی کوئی انکے زیر عتاب۔ انہوں نے نظام حکومت چلانے کیلئے نہ تو کسی احد چیمہ پر بھروسہ کیا نہ کسی فواد حسن فواد کی انگلی پکڑی بلکہ محض اپنی ذاتی صلاحیتوں کی بنیاد پر پنجاب کا بالعموم اور لاہور کا بالخصوص چہرہ ہی تبدیل کر دیا۔ وہ میاں شہباز شریف کے انداز حکمرانی سے کچھ اس طرح بھی مختلف ہیں کہ نہ تو افسر شاہی ان سے نالاں ہے اور نہ ہی کسی افسر کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب سے ملکر خالص میرٹ کی بنیاد پر ایک ٹیم تشکیل دی ہے جس میں ترقی اور تنزلی کا معیار صرف کارکردگی ہے۔ اگرچہ وہ خود میڈیا کے بندے ہیں اور صحافتی برادری سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اسکے باوجود انہوں نے اپنے ترقیاتی کاموں کی تشہیر کیلئے کبھی میڈیا کا سہارا نہیں لیا بلکہ وہ اس فارمولے پر یقین رکھتے ہیں کہ ’’کام خود بولتے ہیں‘‘۔ دنیا میں اس وقت دو افراد ایسے ہیں جنہوں نے میئر شپ سے اپنا سیاسی کیریئر شروع کیا اور پھر شہرت اور مناصب کی بلندیوں تک پہنچے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے 90ء کی دہائی میں جب استنبول کے میئر کا انتظام سنبھالا تو اس وقت یہ شہر بھی ایک بے ہنگم شہر تھا۔ آبادی کا بڑھتا ہوا سمندر اور بدانتظامی نے شہر کا حسن گہنا دیا تھا۔ پھر زمام اقتدار رجب طیب اردگان کے ہاتھ میں آئی تو انہوں نے نہ صرف شہر کا حلیہ بدل دیا بلکہ اسی کارکردگی کی بنیاد پر وہ پہلے ترکی کے وزیراعظم اور پھر صدر منتخب ہوئے۔ شہری انتظام کی دوسری مثال لندن کے میئر صادق خان پر صادق آتی ہے جو پاکستانی نژاد ہونے کے باوجود لندن کے میئر کے منصب تک پہنچے۔ اور انہوں نے انتہائی خاموشی کیساتھ لندن جیسے دنیا کے بڑے شہر کے انتظامی معاملات میں وہ اصلاحات متعارف کروائیں کہ شہریوں کی مقبول ترین شخصیت بن گئے۔ اور انتخابات میں اگرچہ ان کی جماعت نمایاں کامیابی حاصل نہ کر سکی لیکن لندن کے شہریوں نے صادق خان کو ایک مرتبہ پھر لندن کے میئر کے طور پر منتخب کیا اور اب وہ قومی سیاست کیلئے پر تول رہے ہیں۔ بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے بھی صوبہ گجرات سے اپنی شروعات کیں۔ انکے ہاتھ بیگناہ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اوروہ انسانی حقوق کے حوالے سے بدترین ریکارڈ رکھتے ہیں لیکن گجرات کی ترقی کی بدولت وہ بھارت کی وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک ایسے پہنچے کہ آج دور دور تک کوئی انکا مدمقابل نظر نہیں آرہا۔ ہمارے ہاں بلدیاتی ادارے غیر فعال ہیں جسکی وجہ سے نئی قیادت جنم نہیں لے رہی۔1985ء سے وجود میں آنیوالی سیاسی اشرافیہ سیاہ و سفید کی مالک ہے۔ایسے دور میں محسن نقوی کی آمد تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے۔ اسی تناظر میں اگر نام نہاد جمہوریت پسندوں کی جمہوریت خطرے میں نہ پڑے، موروثی سیاست کے علمبرداروں کے مفادات متاثر نہ ہوں تو 28 فروری کے انتخابات سے فراغت کے بعد محسن نقوی کو لاہور کی سربراہی کیلئے مروجہ سیاست کے گھوڑے پر سوار ہو کر لاہور کے شہریوں کی خدمت جاری رکھنی چاہئے۔ یہ نہ صرف ان کی صلاحیتوں کا اعتراف ہوگا بلکہ لاہور کے شہریوں کیلئے بھی یہ بات باعث راحت ہوگی۔ اس انتخاب پر بظاہر مقتدرہ کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا کیونکہ اب تو یہ حقیقت سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ جس شخص نے بھی عوامی خدمت کے منصب پر پہنچنا ہے اسے مقتدرہ کی آشیر باد حاصل ہونا ضروری ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ محسن نقوی مقتدرہ کے منظور نظر بھی ہیں۔ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو ،جنرل ایوب خان کا انتخاب بن سکتے ہیں، جناب میاں محمد نواز شریف کی سیاست کا پودا جنرل ضیاء الحق کی نرسری میں جنم لے سکتا ہے تو جناب محسن نقوی جنرل عاصم منیر کا تحفہ کیوں ثابت نہیں ہو سکتے۔ صرف لاہور پر ہی کیا موقوف اس وقت پاکستان کے تمام بڑے شہروں کو ایسے افراد کے حوالے کرنا چاہئے کہ جو اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر ان شہروں کی کایا پلٹ سکتے ہوں۔ پاکستان کے بڑے شہر جن میں کراچی کوئٹہ، پشاور، حیدرآباد، راولپنڈی، فیصل آباد، گجرانوالہ، ملتان، بہاولپور اور اس سطح کے دیگر شہر اگر باصلاحیت افراد کے حوالے کر دیے جائیں تو نہ صرف ان شہروں کا چہرہ تبدیل ہو جائیگا بلکہ اسکے اثرات پاکستان کے دیگر حصوں پر بھی نظر آئینگے۔ میں اگر اپنی خوش گمانی بڑھاتے ہوئے یہ کہہ دوں تو بے جا نہ ہوگا کہ اگر اسلام آباد مصطفی نواز کھوکھر اور کراچی اسد عمر یا مفتاح اسماعیل کے حوالے کر دیا جائے اور باقی شہروں کے لوگ اسی طرح کے غیر متنازع اور شفاف کردار کے حامل لوگوں کا انتخاب کریں تو یہ ملک و قوم اور شہری آبادیوں کیلئے ایک اچھا شگون ہوگا۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر کنوینئر مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ ہمارے تین ساتھیوں کو پیپلز پارٹی کے غنڈوں نے شہید کردیا ہے۔

اسرائیلی فوج نے دھمکی آمیز پیغام میں الجزیرہ ٹی وی کے رپورٹر کو کوریج کرنے سے روکا تھا۔

انہوں نے ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان کے چیئرمین جمشید حسین اور ان کی ٹیم کی کاوشوں کو بھی سراہا۔

کراچی کے علاقے بلال کالونی میں پولیس اور ملزمان کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں ایک راہگیر خاتون جاں بحق جبکہ ایک ملزم کو زخمی حالت میں گرفتار کرلیا گیا۔

پاکستان کی قابل اعتماد ایپ پر عالیہ کو اپنے پسندیدہ ہیرو سے مشابہ لڑکے کی پروفائل نظر آئی تو اُن کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔

نگراں وزیراعظم کی زیر صدارت پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے امور سے متعلق اجلاس ہوا جس میں چیئرمین پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی ذکا اشرف اور کرکٹ بورڈ کے دیگر عہدیدار نے شرکت کی۔

فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے کئی علاقوں میں اسرائیلی فوج کو پسپا کر دیا

رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ جواد ایس خواجہ کا سویلینز کے ملٹری کورٹ ٹرائل پر انٹرا کورٹ اپیل کے بینچ کے سربراہ پر اعتراض مذموم اقدام ہے۔

سعودی عرب کے صدر مقام ریاض کو اہم مغربی ساحلی شہر جدہ سے ملانے کے لیے ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ زیر غور ہے۔

بھارتی اداکار، میوزک کمپوزر، لکھاری اور پروڈیوسر منصور علی خان کو مدراس ہائیکورٹ نے ہتک عزت کے مقدمہ میں سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ تریشا کو آپکے خلاف کیس فائل کرنا چاہیئے۔

بلاول بھٹو زرداری اس وقت سب سے فعال سیاسی رہنما ہیں لیکن کچھ لوگوں کو یہ اچھا نہیں لگ رہا، شازیہ مری

ڈپٹی میئر کراچی سلمان عبداللہ مراد نے اپنے ردعمل میں کہا کہ جماعت اسلامی عدم اعتماد لے کر آئے، مقابلہ کریں گے۔

25 ارب 9 کروڑ 80 لاکھ روپے سے کے پی میں تحفظ خوراک کے منصوبے کی منظوری دی گئی۔

امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے لبنان پر حملے میں امریکی ساختہ وائٹ فاسفورس بم استعمال کیے۔

کشمیریوں نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخی کی توثیق کا بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کر دیا۔

QOSHE - پیر فاروق بہاو الحق شاہ - پیر فاروق بہاو الحق شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

پیر فاروق بہاو الحق شاہ

8 6
12.12.2023

جنوری 2023ء سے پنجاب میں نگران حکومت قائم ہے اور محسن نقوی اس نگران حکومت کی سربراہی کر رہے ہیں۔ آپ پنجاب پولیس کے ایک دبنگ ایس ایس پی، جناب اشرف مارتھ مرحوم کے داماد اور ہمارے دوست چوہدری سالک حسین کے ہم زلف ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران انہوں نے حیرت انگیز طور پر خود کو ایک فعال، بیدار مغز اور متحرک سربراہ حکومت کے طور پر پیش کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ اس وقت پاکستان میں موجود نگران سیٹ اپ کی سب سے فعال شخصیت ہیں۔ انہوں نے بہت تھوڑے وقت میں لاہور میں کئی منصوبے اتنی تیزی سے مکمل کئے ہیں کہ لوگ انہیں واقعتاً ’’محسن سپیڈ ‘‘ کہنا شروع ہو گئے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ جو میاں شہباز شریف کا متاثر کن اور عثمان بزدار کا مایوس کن طرز حکومت دیکھ چکا ہے وہاں محسن نقوی نے کچھ اس انداز میں کام کیا ہے کہ اب لوگ شہباز شریف کا طرز حکومت بھی بھولتے جا رہے ہیں۔ افسر شاہی میں نہ تو کوئی انکا لاڈلا ہے اور نہ ہی کوئی انکے زیر عتاب۔ انہوں نے نظام حکومت چلانے کیلئے نہ تو کسی احد چیمہ پر بھروسہ کیا نہ کسی فواد حسن فواد کی انگلی پکڑی بلکہ محض اپنی ذاتی صلاحیتوں کی بنیاد پر پنجاب کا بالعموم اور لاہور کا بالخصوص چہرہ ہی تبدیل کر دیا۔ وہ میاں شہباز شریف کے انداز حکمرانی سے کچھ اس طرح بھی مختلف ہیں کہ نہ تو افسر شاہی ان سے نالاں ہے اور نہ ہی کسی افسر کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب سے ملکر خالص میرٹ کی بنیاد پر ایک ٹیم تشکیل دی ہے جس میں ترقی اور تنزلی کا معیار صرف کارکردگی ہے۔ اگرچہ وہ خود میڈیا کے بندے ہیں اور صحافتی برادری سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اسکے باوجود انہوں نے اپنے ترقیاتی کاموں کی تشہیر کیلئے کبھی میڈیا کا سہارا نہیں لیا بلکہ وہ اس فارمولے پر یقین رکھتے ہیں کہ ’’کام خود بولتے ہیں‘‘۔ دنیا میں اس وقت دو افراد ایسے ہیں جنہوں نے میئر........

© Daily Jang


Get it on Google Play