ریاستی امور میں مستقل مزاجی ، تحمل اور معاملہ فہمی کامیابی کی کلید ہے جبکہ غیر مستقل مزاجی ، جذباتی رویہ یا صرف الفاظ سے کھیلنا ،جیسے سائفر سے کھیلا گیا، ناکامی کا راستہ ہے۔ اب جس کا جی چاہے کامیابی کا سفر اختیار کرلے اور جو چاہے ناکامی کواپنا مقدر ٹھہرا لے ۔ یہ فلسفہ صرف سیاست دانوں تک محدود نہیں ، ریاستی معاملات میں ہر صاحب اختیار پر اس کا اطلاق ہوتا ہے اور جب کبھی اس حوالے سے کوئی کجی ،کوئی خامی رہ جاتی ہے تو اسکے ذمہ دار اس وقت کے تمام ارباب حل و عقد ہوتے ہیں ۔ تمہیدی گفتگو کا شان نزول یہ ہے کہ چند روز قبل صبح ناشتہ بھی نہیں کیا تھا کہ ایک مغربی سفارت کار دوست کی کال آ گئی وہ کچھ عرصہ قبل تک وطن عزیز میں تعینات تھے اور اب اپنے ملک کے دفتر خارجہ میں جنوبی ایشیا کے معاملات سے منسلک ہیں۔ جب حال ہی میں پاکستان نے یہ درست فیصلہ کیا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو ان کے ممالک واپس بھیجا جائے اور لا محالہ ان میں ایک بہت بڑی اکثریت افغان غیر قانونی مقیم افراد کی ہے تو اس پربڑی لے دے شروع ہو گئی تھی ۔ پاکستان کی جانب سے یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ پاکستان میں دہشت گردی جیسے ناسور کے بار بار پنپنے کی بنیادی وجہ ان افغان شہریوں کا پاکستان میں غیر قانونی قیام ہے ۔ اس لئے پاکستان مجبور ہے کہ انکو ان کے ملک واپس بھیجا جائے تو اس وقت بھی میرے ان دوست کی کال آئی تھی اسی اقدام کے حوالے سے گفتگو ہوئی تو میں نے ان سے کہا تھا کہ افغانستان کی جانب سے حد درجہ غیر ذمہ داری کا رویہ اختیار کرنے کے بعد پاکستان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا کہ وہ اس اقدام کے علاوہ کوئی دوسرا لائحہ عمل تیار کرتا ۔ اور جو آپکے ملک میں ان دہشت پسند عناصر کے نظریاتی حامی ہیں جو موقع ملنے پر انکے شانہ بشانہ مسلح بھی ہوجاتے ہیں انکے حوالے سے کیا پالیسی ہوگی؟ کیا انکو ان کی سرگرمیوں سے روکا جائیگا؟ کیا آنے والے عام انتخابات میں ان کے حصہ لینے پر کوئی قدغن ہوگی ؟ یا یہ حسب سابق دندناتے پھريں گے ؟ ان تمام تحفظات پر ان پر یہ واضح کیا تھا کہ پاکستان کی مقتدرہ اور سیاسی قیادت اس حوالے سے مکمل طور پر یکسوہےکہ اب پاکستان کو دہشت گردی کے ہر خطرے سے آزاد کروانا ہے اور اس حوالے سےاب کوئی دہرا معیار اختیار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی کو شکار کر لیا جائے اور کسی کو شکار کرنے کا کھلا موقع فراہم کردیا جائے ۔ یہ طے شدہ حکمت عملی ہے اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ متوقع حکمران جماعت کے قائد نواز شریف اور شہباز شریف دہشت گردی کے خلاف اپنے ادوار حکومت میں اس حد تک متحرک رہے تھے کہ ان عناصر کی وجہ سے وہ اور ان کا خاندان دہشت گردی کے شدید خطرات کا سامنا کرتےرہے ، محترمہ بینظیر بھٹو تو ان کی سفاکیت کا نشانہ بن گئیں ۔ اس لئے ملک میں کسی سیاسی تبدیلی کے باوجود اس حوالے سے کسی نرمی کا سرے سے کوئی امکان نہیں ۔ اس پر یقین فقرے پر میری گفتگو کا اختتام ہو گیا تھا۔ اب جو دوبارہ انکی کال آئی تو بولے کے آپ سے کی گئی کچھ عرصہ قبل کی گفتگو کے تناظر میں آپ کو چند تصاویر جو آپ کے میڈیا کی بھی’’ زینت‘‘بنی ارسال کر رہا ہوں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ان عناصر کی گزشتہ کچھ عرصے کی عوامی گفتگو کے ویڈیو كلپ بھی ہیں، ذرا دیکھ لیجئے گا۔

ميسيج دیکھا تو مختلف ایسے اشخاص کی سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے کی تصاویر تھیں جن کے متعلق سب جانتے ہیں کہ وہ دہشت گرد تنظیموں سے وابستہ رہے اور اب بھی ان کے حقیقی رہبر وہی لوگ ہیں ۔ انہی لوگوںکے كلپس سنے تو وہ سب کچھ اس میں شامل تھا جس کا عشر عشیر بھی اب قابل برداشت نہیں ہونا چاہئے ۔ ملک کی اعلیٰ ترین سیاسی قیادت کو اس کا نوٹس لینا چاہئے کہ کہیں ایک دو نشستوں کے حصول کیلئے اپنی اور مملکت کی ساکھ ہی داؤ پر نہ لگ جائے اور دنیا یہ محسوس کرے کہ غیر قانونی افغان شہریوں کی وطن واپسی کی پالیسی بھی بس ایک دکھاوا ہی ہے ۔ نو مئی کو جو ہوا اس کی تکلیف حد درجہ ہے مگر ان افراد نے نو مئی سے برسوں قبل جی ایچ کیو پر حملہ سے لیکر فوجی ، پولیس ، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں سمیت ان گنت عام شہریوں کو شہید کردیا اسکی تکلیف کیوں محسوس نہیں کی جا رہی ؟ ریاست اور سیاست غیر مستقل مزاجی یا جذباتیت سے نہیں چل سکتیں ۔ پیر ضیاء الحق نقشبندی نے سہیل وڑائچ کی زندگی پر تیرہ سال کی عرق ریزی کے بعد’’ سہیل وڑائچ کہانی‘‘ کتاب قلم بند کی ۔ اس کتاب میں جذباتیت کے حوالے سے سہیل وڑائچ نے حضرت قائد اعظم کا ایک واقعہ نقل کیا ہے’’ ایک دفعہ قائد اعظم سے مولانا بھاشانی کی ملاقات ہوئی ، اس وقت مولانا بھاشانی جوان تھے اور قائد اعظم بوڑھے ۔ اس وقت وہاں مسٹر اصفہانی بھی موجود تھے ، انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب مولانا بھاشانی مل کر گئے تو میں نے قائد اعظم سے پوچھا کہ اس بندے میں بڑی انرجی ہے ، ہمیں اسے مسلم لیگ کیلئے استعمال کرنا چاہئے لیکن قائد اعظم نے کہا کہ نہیں یہ ایک جذباتی انسان ہے ، سیاست کے لئے یہ لوگ ٹھیک نہیں‘‘پھر تاریخ نے دیکھا کہ اسی مولانا بھاشانی کی سیماب طبیعت نے سیاست کو کیسے نقصان پہنچا یا۔اگر ہم نے آئندہ انتخابات میں دہشت گرد ذہنیت رکھنے والے عناصر کو برداشت کیا ، سہولت کاری کی تو ہمارا شمار بھی تاریخ مولانا بھاشانی کی مانند ہی کرے گی مگر ہمارا مسئلہ جذباتیت سے زیادہ عاقبت نا اندیشی ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

صدر جوبائیڈن کو 26 جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا تھا۔

193 رکنی جنرل اسمبلی میں سے 23 ملکوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

ڈھول کی تھاپ پر ریان زمان نے رقص بھی کیا جبکہ گھر پہنچنے پر کیک کاٹا گیا۔

فلسطینی میڈیا نے بتایا کہ طبی عملے سمیت متعدد افراد کو حراست میں لے کر کہیں اور منتقل کردیا گیا، اسپتال پر حملے سے پہلے یہاں کئی دنوں تک گولہ باری کی گئی اور محاصرہ کیا گیا۔

حماس کا کہنا ہے کہ ہم فلسطینی عوام، غزہ کے لوگوں کے ساتھ مثالی اظہار یکجہتی پر پاکستان،کویت،اردن کے عوام کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

تقریب 2018 میں پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے شروع کردہ سائنس ڈپلومیسی انیشیٹیو کے حوالے سے منعقد کی گئی تھی۔

کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے غزہ جنگ بندی کیلیےفوری عالمی کوششوں کی حمایت کی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے سینئر نائب صدر شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ بانی چیئرمین کسی بھی قسم کی ڈیل کرنے کےلیے تیار نہیں ہیں۔

برطانیہ میں اب جج بھی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کا استعمال کریں گے۔ لندن سے میڈیا رپورٹ کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں ججوں کو چیٹ جی پی ٹی کے استعمال سے متعلق گائیڈ لائن جاری کی گئی ہے۔

مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللّٰہ نے کہا ہے کہ نواز شریف کو انصاف حاصل کرنے میں 7 سال لگ گئے۔

غیر ملکی باشندے بھی’دل کا رشتہ‘ ایپ کے دیوانے بن گئے۔

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری حقائق سے لاعلم تھے یا زبان پھسل گئی تھی؟

کراچی واٹر کارپوریشن نے تین ہٹی کے قریب ریکسر پل کے نیچے پانی چوری کے خلاف کارروائی کی، جس کے دوران 22 فٹ گہری خندق برآمد کرلی گئی۔

میاں بیوی اور 4 بچے گذشتہ رات کمرے میں ہیٹر جلا کر سوگئے تھے۔

امریکی شوبز ستاروں نے غزہ کے لیے امداد جمع کرنے کی تقریب میں شرکت کی۔

QOSHE - محمد مہدی - محمد مہدی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

محمد مہدی

11 1
13.12.2023

ریاستی امور میں مستقل مزاجی ، تحمل اور معاملہ فہمی کامیابی کی کلید ہے جبکہ غیر مستقل مزاجی ، جذباتی رویہ یا صرف الفاظ سے کھیلنا ،جیسے سائفر سے کھیلا گیا، ناکامی کا راستہ ہے۔ اب جس کا جی چاہے کامیابی کا سفر اختیار کرلے اور جو چاہے ناکامی کواپنا مقدر ٹھہرا لے ۔ یہ فلسفہ صرف سیاست دانوں تک محدود نہیں ، ریاستی معاملات میں ہر صاحب اختیار پر اس کا اطلاق ہوتا ہے اور جب کبھی اس حوالے سے کوئی کجی ،کوئی خامی رہ جاتی ہے تو اسکے ذمہ دار اس وقت کے تمام ارباب حل و عقد ہوتے ہیں ۔ تمہیدی گفتگو کا شان نزول یہ ہے کہ چند روز قبل صبح ناشتہ بھی نہیں کیا تھا کہ ایک مغربی سفارت کار دوست کی کال آ گئی وہ کچھ عرصہ قبل تک وطن عزیز میں تعینات تھے اور اب اپنے ملک کے دفتر خارجہ میں جنوبی ایشیا کے معاملات سے منسلک ہیں۔ جب حال ہی میں پاکستان نے یہ درست فیصلہ کیا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو ان کے ممالک واپس بھیجا جائے اور لا محالہ ان میں ایک بہت بڑی اکثریت افغان غیر قانونی مقیم افراد کی ہے تو اس پربڑی لے دے شروع ہو گئی تھی ۔ پاکستان کی جانب سے یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ پاکستان میں دہشت گردی جیسے ناسور کے بار بار پنپنے کی بنیادی وجہ ان افغان شہریوں کا پاکستان میں غیر قانونی قیام ہے ۔ اس لئے پاکستان مجبور ہے کہ انکو ان کے ملک واپس بھیجا جائے تو اس وقت بھی میرے ان دوست کی کال آئی تھی اسی اقدام کے حوالے سے گفتگو ہوئی تو میں نے ان سے کہا تھا کہ افغانستان کی جانب سے حد درجہ غیر ذمہ داری کا رویہ اختیار کرنے کے بعد پاکستان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا کہ وہ اس اقدام کے علاوہ کوئی دوسرا لائحہ عمل تیار کرتا ۔ اور جو آپکے ملک میں ان دہشت پسند عناصر کے نظریاتی حامی ہیں جو موقع ملنے پر انکے شانہ بشانہ مسلح بھی ہوجاتے ہیں انکے حوالے سے کیا........

© Daily Jang


Get it on Google Play