پاکستان کے خراب معاشی حالات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ 76برس میں یہاں نہ تو کوئی طویل المدت اقتصادی پالیسی تیار کی جا سکی ہے اور نہ ہی مختلف حکومتوں کی طرف سے تیار کئے جانے والے اقتصادی اصلاحات کے کسی ایجنڈے پر پوری طرح عمل درآمد ہو سکا ہے۔ حتیٰ کہ ملکی ترقی کے لئے شروع کئے جانے والے بہت سےاہم اقتصادی منصوبے بھی سیاسی مخالفت کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے۔ علاوہ ازیں اقتصادی منصوبوں میں کرپشن اور کک بیکس کے حصول نے پاکستان کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں اسے دنیا بھر میں ایک ناکام ریاست کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگرچہ گزشتہ کچھ عرصے میں ارباب اقتدار نے معیشت کی بحالی کے لئے کچھ قابل ذکر اقدامات کئے ہیں۔ اس کی وجہ سے ناصرف زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئی ہے بلکہ غیر دستاویزی معیشت پر بھی زد پڑی ہے۔

تاہم اس کے باوجود اب بھی ملک کی معاشی حالت پوری طرح سنبھل نہیں سکی ہے اور حکومت کو اب بھی ریاست کے انتظامی معاملات چلانے کے لئے مقامی بینکوں اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینا پڑ رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے تو اس قرض کی ادائیگی اور درآمدات کے لئے زرمبادلہ کی کمی کو پورا کرنے کے لئے یا تو مزید قرض لینا پڑے گا یا پھر اس کے لئے پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے طبقات پر عائد مختلف ٹیکسز کی شرح میں مزید اضافہ کرنا پڑے گا۔

ہم گزشتہ 76 سال سے اسی دائرے میں گھوم رہے ہیں لیکن گزرتے وقت کے ساتھ یہ دائرہ مزید سکڑتا جا رہا ہے اور اس میں پھنسے ہو ئے ٹیکس دہندگان کو اتنا نچوڑا جا چکا ہے کہ اب ان میں مزید ٹیکس ادا کرنے کی سکت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف ٹیکس نظام میں اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے بھی کمزور طبقات بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ جنرل سیلز ٹیکس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی و گیس پر عائد ٹیکس در ٹیکس کی وجہ سے مہنگائی تاریخ کی بلند ترین شرح کو چھو رہی ہے اور حکومت کی طرف سے عائد کئے جانے والے بلواسطہ ٹیکسز کا سب سے زیادہ بوجھ اس طبقے کو اٹھانا پڑ رہا ہے جو پہلے ہی زندہ درگور ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 1990ء کی دہائی تک پاکستان خطے میں فی کس آمدنی کے لحاظ سے اوپر سے دوسرے نمبر پر تھا لیکن اب ہم نیچے سے دوسرے نمبر پر ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح طویل عرصے سے دس فیصد پر رکی ہوئی ہے جبکہ خطے کے دیگر ممالک میں یہ شرح بیس سے تیس فیصد تک ہے۔ اس حوالے سے ورلڈ بینک نے بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کو ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح دو سے تین فیصد تک سالانہ بڑھانے پر زور دیا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کو چاہیے کہ پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے شعبوں پر مزید ٹیکس لگانے کی بجائے ٹیکس نیٹ سے باہر شعبوں کو ٹیکس گزار بنائے۔ علاوہ ازیں زرعی شعبے کی پیداوار بڑھا کر اس پر بھی ٹیکس لگانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح کالے دھن سے رئیل اسٹیٹ، کرنسی کی اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ میں ملوث عناصر کے گرد بھی قانون کا شکنجہ مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عام انتخابات سے قبل عوام کو اپنی معاشی پالیسیوں سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکس بڑھانے کے حوالے سے بھی واضح لائحہ عمل دیں۔

اس کے علاوہ قومی سطح پر سیاسی جماعتوں اور پالیسی سازوں کے ایک جامع پالیسی ڈائیلاگ کی بھی ضرورت ہے کیونکہ دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سےلئے گئے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کا فائدہ تب ہی ہو گا جب ملک میں معاشی اصلاحات اپنے منطقی انجام تک پہنچیں گی۔ اس طرح مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے کے لئے حکومتی نظام کی خرابیاں دور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے اور ٹیکس نہ دینے والے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے یا نظام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بوسیدہ ٹیکس اسٹرکچر کی وجہ سے ملک کو ہر سال ایک تہائی ٹیکس وصولیوں کا نقصان ہوتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پورے ملک سے ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے کے اپنے افسران کی بڑی تعداد نان فائلر ہے۔ یہ وہ رکاوٹیں ہیں جن کی وجہ سے ہمارا معاشی نظام ابھی تک مستحکم نہیں ہو سکا ہے اور حکومتوں کی طرف سے بھی وقتا ًفوقتا ًجو معاشی اصلاحات کی جاتی رہی ہیں انکا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا ہے۔

اس کے باوجود حکومتی اخراجات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور حکومتی اخراجات جی ڈی پی کے ڈیڑھ فیصد سے بڑھ کر ڈھائی فیصد سے زائد ہو چکے ہیں۔ اس لئے معاشی اصلاحات کے ساتھ ساتھ حکومتی اخراجات میں بھی کمی لانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ورلڈ بینک کی طرف سے بھی جو چھ نکاتی معاشی اصلاحات تجویز کی گئی ہیں ان میں بھی ٹیکس نیٹ میں توسیع، حکومتی اخراجات میں 10 فیصد کٹوتی کرنے، وسطی اور بالائی سطح کے ملازمین کی تنخواہیں موجودہ سطح پر منجمد کرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری افسران کے لئے مہنگی گاڑیاں خریدنے اور انہیں سفر وپیٹرول کی مد میں دی جانے والی رعایتوں کو ختم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ یہاں یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ اب معیشت کی بہتری کے لئے اصلاحات کے علاوہ کوئی آپشن باقی نہیں بچا ہے۔ اس لئے اگر موجودہ اسٹیبلشمنٹ اور آنے والی حکومت نے بھی ماضی کی طرح سیاسی مجبوریوں اور مصلحتوں کی وجہ سے معاشی اصلاحات کے ایجنڈے کو سرد خانے کی نذر کئے رکھا تو وقت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

امریکی ایوان نمائندگان نے صدر جوبائیڈن کے مواخذہ کی تحقیقات سے متعلق باضابطہ منظوری دیدی، صدر بائیڈن نے ایوان کے اقدام کو بےبنیاد اور سیاسی شعبدہ بازی قرار دیدیا ہے۔

امریکی جج نے سن دو ہزار بیس کے صدارتی انتخابات کے نتائج پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مبینہ اثر انداز ہونے سے متعلق مقدمے میں عدالتی کارروائی روک دی جبکہ نیویارک میں دھوکا دہی سے متعلق مقدمے میں گواہیاں مکمل کرلی گئی ہیں۔

امریکا سے کراچی پہنچنے پر گفتگو کرتے ہوئے فوزیہ صدیقی نے کہا کہ عافیہ صدیقی کے جسم پر پہلے سے زیادہ زخم تھے۔

اپنے بیان میں انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں تحفظات تھے، اور ہم نے ان خدشات کا اظہار کردیا ہے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ دو طرفہ دفاعی تعاون کے ممکنہ شعبوں پر تبادلہ خیال بھی کیا گیا۔

پنجاب کے میدانی علاقے دھند کی لپیٹ میں ہیں، دھند کے باعث موٹروے ایم 2 اور ایم 3 مختلف مقامات سے جبکہ سیالکوٹ موٹر وے کو لاہورسے سمبڑیال تک ٹریفک کے لیے مکمل بند کیا گیا ہے۔

جسٹس علی باقر نجفی نے تحریک انصاف کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنا دیا۔

لال بیگ کی موجودگی پر آپریشن تھیٹر کو 24 گھنٹے کے لیے بند کر دیا گیا۔

موٹر وے ایم ٹو لاہور سے کوٹ مومن تک دھند کےباعث بند ہے۔ ترجمان کے مطابق موٹر وے ایم تھری فیض پور سے درخانہ دھند کے باعث بند ہے۔

اگر میں سجدہ کرنا چاہتا تو میں کرتا، اس میں مسئلہ ہی کیا ہے؟ بھارتی فاسٹ بولر

مہنگائی کی شرح 12 ماہ میں سب سے کم ہے جس کی وجہ روپے کی قیمت میں استحکام ہے۔

غزہ زمینی آپریشن میں ہلاک اسرائیلی فوجیوں کی تعداد 115 ہوگئی۔

ضلعی انتظامیہ کے مطابق سفولا اسٹوپا عمارت کی تعمیر و مرمت کا کام دوبارہ شروع کردیا گیا ہے۔

ترک فضائیہ کے کمبیٹ کمانڈر جنرل اسماعیل گنیکیا نے ایئر ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کر کے سربراہ پاک فضائیہ ائیرچیف مارشل ظہیراحمد بابرسدھو سے ملاقات کی۔

ریسکیو حکام کے مطابق بائی پاس روڈ پرمسافر بس اور ٹرک میں ٹکر کے بعد ٹرک میں آگ لگ گئی۔

مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کےلیے حفاظتی اقدامات کیے جارہے ہیں، ٹیم وجے دیوراکونڈا

QOSHE - چوہدری سلامت علی - چوہدری سلامت علی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

چوہدری سلامت علی

11 0
14.12.2023

پاکستان کے خراب معاشی حالات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ 76برس میں یہاں نہ تو کوئی طویل المدت اقتصادی پالیسی تیار کی جا سکی ہے اور نہ ہی مختلف حکومتوں کی طرف سے تیار کئے جانے والے اقتصادی اصلاحات کے کسی ایجنڈے پر پوری طرح عمل درآمد ہو سکا ہے۔ حتیٰ کہ ملکی ترقی کے لئے شروع کئے جانے والے بہت سےاہم اقتصادی منصوبے بھی سیاسی مخالفت کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے۔ علاوہ ازیں اقتصادی منصوبوں میں کرپشن اور کک بیکس کے حصول نے پاکستان کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں اسے دنیا بھر میں ایک ناکام ریاست کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگرچہ گزشتہ کچھ عرصے میں ارباب اقتدار نے معیشت کی بحالی کے لئے کچھ قابل ذکر اقدامات کئے ہیں۔ اس کی وجہ سے ناصرف زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئی ہے بلکہ غیر دستاویزی معیشت پر بھی زد پڑی ہے۔

تاہم اس کے باوجود اب بھی ملک کی معاشی حالت پوری طرح سنبھل نہیں سکی ہے اور حکومت کو اب بھی ریاست کے انتظامی معاملات چلانے کے لئے مقامی بینکوں اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینا پڑ رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے تو اس قرض کی ادائیگی اور درآمدات کے لئے زرمبادلہ کی کمی کو پورا کرنے کے لئے یا تو مزید قرض لینا پڑے گا یا پھر اس کے لئے پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے طبقات پر عائد مختلف ٹیکسز کی شرح میں مزید اضافہ کرنا پڑے گا۔

ہم گزشتہ 76 سال سے اسی دائرے میں گھوم رہے ہیں لیکن گزرتے وقت کے ساتھ یہ دائرہ مزید سکڑتا جا رہا ہے اور اس میں پھنسے ہو ئے ٹیکس دہندگان کو اتنا نچوڑا جا چکا ہے کہ اب ان میں مزید ٹیکس ادا کرنے کی سکت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف ٹیکس نظام میں اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے بھی کمزور طبقات بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ جنرل سیلز ٹیکس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی و گیس پر عائد ٹیکس در ٹیکس کی وجہ سے مہنگائی تاریخ کی بلند ترین شرح کو چھو رہی ہے اور........

© Daily Jang


Get it on Google Play