1970ء میں ہونے والے انتخابات کو منصفانہ کہا جاتا ہے، اس الیکشن کی بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں پارٹیوں کو ووٹ پڑا۔ اسی بنا پر غریب اور متوسط افراد پارلیمنٹ کا حصہ بنے۔ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کے عام کارکنوں نے تلوار کے نشان پر جاگیر داروں کو پچھاڑتے ہوئے 138 میں سے 81 سیٹیں حاصل کیں۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ 162میں سے 160سیٹیں جیت گئی، عام بنگالی کشتی پر بیٹھ کر انتخابات کا دریا پار تو کر گئے مگر جمہوریت کو نہ ماننے والوں نے پاکستان دو لخت کر دیا، اقتدار کے لالچ میں عوامی لیگ کی اکثریت کو تسلیم نہ کر کے ملک توڑ دیا گیا۔ ہم سے جدا ہونے والوں نے بنگلہ دیش بنا لیا جبکہ پاکستان میں بھٹو کو اقتدار مل گیا۔ 70ء میں بھٹو عام کارکنوں کے ساتھ آگے بڑھا مگر پھر جاگیرداروں کے گھیرے میں آ گیا۔ 1977ء کے الیکشن میں دھاندلی کا شور مچا، احتجاجی تحریک چلی اور مارشل لاء آ گیا، طلبہ یونین پر بھی پابندی لگا دی گئی، طلبہ یونین قومی سیاست میں داخلے کا ایک راستہ تھا، غریبوں کے لئے یہ دروازہ بھی بند کر دیا گیا۔

1985ء میں غیر جماعتی الیکشن نے برادری ازم، صوبائی اور لسانی تعصب کو ہوا دی پھر غیر جماعتی اراکین کو جماعتی بنانے کے لئے مسلم لیگ بنائی گئی۔ 1988ء اور اس کے بعد جتنے بھی الیکشن ہوئے وہ جماعتی بنیادوں پر ہوئے مگر ان تمام انتخابات میں کسی نہ کسی بند کمرے میں ہار جیت کا فیصلہ کیا گیا، انتخابات میں چمک نظر آنے لگی، یوں ہماری سیاست دولت کا کھیل بن کر رہ گئی۔ الیکشن اخراجات آسمان سے باتیں کرنے لگے، متوسط اور غریب طبقہ الیکشن لڑنے سے محروم ہو گیا۔ اب کوئی 53برس بعد سیاست کی چال بدلی ہے، ایک سیاسی پارٹی باقی جماعتوں سے کہیں آگے ہے۔ حالیہ دنوں میں جتنے بھی سروے ہوئے ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ زیر عتاب پی ٹی آئی جس کسی کو بھی ٹکٹ دے گی وہ جیت جائے گا۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے جنوبی پنجاب کے بڑے جاگیردار اور پنجاب کے سابق گورنر مخدوم احمد محمود کا یہ کہنا ہے کہ’’ہم سب سیاسی پارٹیاں 30 فیصد پر جبکہ وہ اکیلا 70فیصد پر کھڑا ہے‘‘۔ طلباء یونین اور قومی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے والے مخدوم جاوید ہاشمی ( بہاندرے شاہ) کا کہنا ہے کہ’’میں نے 55 دیہاتیوں سے پوچھا کہ ووٹ کسے دو گے تو 53 نے کہا عمران خان‘‘۔ اس صورتحال میں کچھ ایسا ہونا چاہیے کہ الیکشن اخراجات کم ہوں، غریب لوگوں کا داخلہ بھی کھل جائے، وہ بھی ایوانوں میں پہنچ کر قابلیت کے جوہر دکھا سکیں تو کیوں نا سیاست کو حلقوں سے آزاد کر دیا جائے، حلقوں کی وجہ سے بڑا نقصان یہ ہے، فرض کریں کہ جیتنے والے امیدوار نے ایک لاکھ ووٹ حاصل کیے اور ہارنے والے نے چھیانوے ہزار، جیتنے والا تو جیت گیا، کیا ان 96 ہزار ووٹوں کی کوئی قدر نہیں ؟ وہ جو ہر حلقے میں ہار کے ووٹ ہیں ان کا بھی تو کوئی کردار ہونا چاہیے، اس لئے الیکشن متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہونے چاہئیں، پارٹیاں اپنا منشور عوام کے سامنے رکھیں، جلسوں اور میڈیا کے ذریعے لوگوں کو آگاہ کریں، اس کے بعد پورے ملک میں پارٹیوں کی بنیاد پر الیکشن ہوں، جو پارٹی جتنے ووٹ حاصل کرے اسی حساب سے اس کو نشستیں دی جائیں، اس طرح دولت کی ریل پیل ختم ہو جائے گی، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی اجارہ داریاں بھی ختم ہو جائیں گی، برادری ازم، صوبائی اور لسانی تعصب بھی ختم ہو جائے گا، اہل لوگ اسمبلیوں میں آ سکیں گے، ہر جماعت کو حصہ بھی مل جائے گا اور ہر جماعت کی نمائندگی بھی اسمبلیوں میں نظر آئے گی۔ متناسب نمائندگی پر ہونے والے انتخابات کا بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ہر حلقے میں ہونیوالی مقامی لڑائیاں مدھم پڑ جائیں گی، امن و امان کا مسئلہ گھمبیر نہیں ہو گا۔ متناسب نمائندگی پر ہونیوالے انتخابات میں لوگ پارٹیوں کے منشور دیکھ کر فیصلہ کریں گے، ہر ووٹ کا کردار ہو گا، کابینہ بہت اچھی بنے گی، افراد کی بجائے پارٹیاں جواب دہ ہوں گی، مزید بہتری کیلئے انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کروائے جائیں، اس سے دھاندلی کا چکر ختم ہو جائے گا، بیلٹ پیپر، سیاہی اور بیلٹ باکس کی بچت ہو گی، بیلٹ باکس اٹھا کر بھاگنے کا رواج بھی ختم ہو جائے گا ، نتائج میں تاخیر بھی نہیں ہو گی۔ ہمسایہ ملکوں ایران اور بھارت میں ای وی ایم کے ذریعے الیکشن ہوتے ہیں، ہم کیوں جدید ترین ٹیکنالوجی سے گریزاں ہیں، ہمارے ہاں لاہور ہائیکورٹ بار کے الیکشن ای وی ایم پر ہوئے، رزلٹ بھی جلدی آ گیا اور دھاندلی کا شور بھی نہیں مچا۔ اگر ہم سیاست کو دولت مندوں کے چنگل سے نکالنا چاہتے ہیں، نظریاتی اور اہل لوگوں کو آگے لانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں متناسب نمائندگی کی طرف جانا چاہئے۔ بقول اقبال

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

رپورٹس کے مطابق رکن ممالک کے چیفس اور جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کا اتحاد کے سیکرٹری جنرل میجر محمد المغیدی نے استقبال کیا۔

ماسکو میں سالانہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غزہ کی صورتحال تباہ کُن ہے، ایسا کچھ یوکرین میں نہیں ہے۔

فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے اپیل کی ہے کہ عرب دنیا، اسلامی ممالک اور تمام انصاف پسند اقوام غزہ سے یکجہتی کا اظہار جاری رکھیں۔

لارا نے پاکستان آ کر ”دل کا رشتہ“ ایپ پر پروفائل بنایا اور پاکستان کے سافٹ ویئر انجینیر فہد کا انتخاب کرلیا۔

برطانیہ نے فلسطینیوں پر تشدد میں ملوث اسرائیلی آباد کاروں پر پابندیوں کا اعلان کر دیا۔

القسام نے الزیتون غزہ میں اسرائیلی فوجی مراکز پر بھاری مارٹر گولوں سے بمباری کی۔

مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی اسرائیلی فوج کی اشتعال انگیز کارروائیاں جاری ہیں۔ محاصرے کے دوران جنین کیمپ میں مسجد کی بے حُرمتی کی گئی۔

اسرائیلی فوجیوں کو مرنے سے بچانے کیلیے غزہ میں جنگلی سور چھوڑنے کی تجویز دی گئی ہے۔

دوسرا سیمی فائنل بنگلادیش اور بھارت کے درمیا کھیلا جائے گا۔

برطانیہ میں کھانسی کی وبا کے حوالے سے ماہرین نے ہدایت کی ہے کہ کرسمس پر گلے ملنے کے بجائے کہنی ملائیں اور ماسک پہنیں۔

جاوید لطیف نے کہا کہ کیوں چند لوگوں نے انتقام میں اندھے ہوکر فیصلے کیے۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے لیے شہباز شریف اور زرداری نے تعاون کی درخواست کی تھی۔

جنوبی کوریا میں تیار کیے گئے روبو ڈوگ ہائونڈ نے اس وقت تاریخ رقم کی جب وہ چار ٹانگوں والا تیز ترین روبو اسپرنٹر بن گیا۔

علی ظفر نے کہا کہ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ الیکشن فری اینڈ فیئر ہوں اور ریٹرننگ آفیسرز (آر اوز) جوڈیشری کی طرف سے ہوں،۔

لندن میں 15 جنوری کو ہونے والی تقریب میں مجموعی طور پر 11 ایوارڈز دیئے جائیں گے۔

QOSHE - مظہر برلاس - مظہر برلاس
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مظہر برلاس

14 1
15.12.2023

1970ء میں ہونے والے انتخابات کو منصفانہ کہا جاتا ہے، اس الیکشن کی بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں پارٹیوں کو ووٹ پڑا۔ اسی بنا پر غریب اور متوسط افراد پارلیمنٹ کا حصہ بنے۔ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کے عام کارکنوں نے تلوار کے نشان پر جاگیر داروں کو پچھاڑتے ہوئے 138 میں سے 81 سیٹیں حاصل کیں۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ 162میں سے 160سیٹیں جیت گئی، عام بنگالی کشتی پر بیٹھ کر انتخابات کا دریا پار تو کر گئے مگر جمہوریت کو نہ ماننے والوں نے پاکستان دو لخت کر دیا، اقتدار کے لالچ میں عوامی لیگ کی اکثریت کو تسلیم نہ کر کے ملک توڑ دیا گیا۔ ہم سے جدا ہونے والوں نے بنگلہ دیش بنا لیا جبکہ پاکستان میں بھٹو کو اقتدار مل گیا۔ 70ء میں بھٹو عام کارکنوں کے ساتھ آگے بڑھا مگر پھر جاگیرداروں کے گھیرے میں آ گیا۔ 1977ء کے الیکشن میں دھاندلی کا شور مچا، احتجاجی تحریک چلی اور مارشل لاء آ گیا، طلبہ یونین پر بھی پابندی لگا دی گئی، طلبہ یونین قومی سیاست میں داخلے کا ایک راستہ تھا، غریبوں کے لئے یہ دروازہ بھی بند کر دیا گیا۔

1985ء میں غیر جماعتی الیکشن نے برادری ازم، صوبائی اور لسانی تعصب کو ہوا دی پھر غیر جماعتی اراکین کو جماعتی بنانے کے لئے مسلم لیگ بنائی گئی۔ 1988ء اور اس کے بعد جتنے بھی الیکشن ہوئے وہ جماعتی بنیادوں پر ہوئے مگر ان تمام انتخابات میں کسی نہ کسی بند کمرے میں ہار جیت کا فیصلہ کیا گیا، انتخابات میں چمک نظر آنے لگی، یوں ہماری سیاست دولت کا کھیل بن کر رہ گئی۔ الیکشن اخراجات آسمان سے باتیں کرنے لگے، متوسط اور غریب طبقہ الیکشن لڑنے سے محروم ہو گیا۔ اب کوئی 53برس بعد سیاست کی چال بدلی ہے،........

© Daily Jang


Get it on Google Play