16دسمبر کا دن ،ہرسال آرمی پبلک سکول پشاور سے وابستہ ہمارے گہرے زخموں کو کریدنے آجاتا ہے ، درویش کا رنج و غم سو گنا بڑھ جاتا ہے جب وہ یہ سوچتا ہے کہ ہم نے اتنے اندوہناک سانحہ کے باوجود بحیثیت قوم اس سے کچھ نہیں سیکھا ۔‎ کیا سیکھنا تھا؟ سیکھنا یہ تھا کہ ہم من حیثیت القوم عہد کرتے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے ہم اس قومی و انسانی بربادی کے مرتکبین کو کسی صورت نہیں چھوڑیں گے نہ ہی اس کے مائنڈ سیٹ کو یہاں پنپنے دیں گے تاکہ آئندہ کوئی دہشتگرد ہمارے ملک میں گھسنے کی جرات نہ کرسکے اور نہ ایسی سوچ کے حاملین دوبارہ ادھر کا رخ کرسکیں۔ ایسی بربادی کے بعد زندہ اقوام بنیان مرصوص بنکر یوں ایستادہ ہوجاتی ہیں بلکہ برے کے گھر تک اسکا یوں پیچھا کرتی ہیں کہ دہشت گر د ذہنیت کو چھپنے کیلئے کوئی جائے امان نہیں مل پاتی۔‎ امریکا میں نائن الیون برپا ہوا توامریکیوں نےاس کے ماسٹر مائنڈز کا قلع قمع کرنے کیلئے افغانستان کے مخصوص حصوں کا تورا بورا بنا ڈالا۔ افراد ہوں یا اقوام خودپر حملہ آور ہونیوالے دہشت گردوں کا تعاقب کرتے ہیں اور انہیں اس قابل نہیں رہنے دیتے کہ وہ دوبارہ ایسی جارحیت کرسکیں، قانون اور دنیا اسے سیلف ڈیفنس یا حفاظت خود اختیاری کا نام دیتی ہے، آج کی مہذب جمہوری دنیا اسی وجہ سے دہشت گردی کو لعنت قرار دیتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 16دسمبر 2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک سکول میں ہمارے معصوم بچوں پر جو قیامت ڈھائی گئی ہم نے ان دہشت گردوں کے استیصال کیلئے ”نیشنل ایکشن پلان“تشکیل دیا تھا ،کیا یہ درویش اپنی عسکری و جمہوری قیادت سے یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتا ہے کہ اس’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ پر اتنے برس گزرنے کے بعد بھی کتنے فیصد عمل ہوا ؟‎یہاں ایسا کونسا مغالطہ ہے؟کسے معلوم نہیں ہے کہ ہمارے اس نائن الیون کے مرتکبین کو ئی اور نہیں یہی اپنے طالبان تھے جن کے چہرے کسی سے اوجھل نہیں یہ خالد خراسانی طالبان ہی کا ایک لیڈر تھا جس نے ارشاد فرمایا تھا کہ ہم نے سب کچھ احادیث و سنت کی مطابقت میں کیا ہے اور پشاور کے معصوم بچوں کی تشبیہ بنو قریظہ کے لوگوں سے دی تھی۔ اس بربادی کی سب سے بڑھ کر وکالت کرنے والا احسان اللہ احسان جب پکڑا گیا تو اسے کیا سزا دی گئی؟اور پھر ہمارے لوگوں کی تحویل سے وہ دہشت گرد کس طرح بھاگ نکلا؟

‎آج وہی طالبان جس طرح ہماری سرزمین پر حملے کر کےہمارے جوانوں کو مار رہے ہیں کیا ہمارے لیے یہ شرم کی بات نہیں ہے کہ ہم لوگوں نے اپنے جسد قومی پر حملہ آور ہونیوالوں کیخلاف کارروائی میں جو کوتاہی دکھائی یہ سب اسی غفلت کا کیا دھرا ہے ۔کبھی اس پر بھی سروے کروالیں کہ خود ملک کے اندر اس مائنڈ سیٹ کےحامی کس ریشو میں ہیں؟‎ اسی تاریخ یعنی 16دسمبر کو سقوطِ ڈھاکہ یا مشرقی پاکستان توڑنے والوں کے خلاف غم و غصہ نصف صدری گزرنے کے باوجود ٹھنڈا نہیں ہورہا حالانکہ ان ڈرامے بازوں کو اتنا شعور بھی نہیں کہ بالفرض اگر وہ سانحہ تھا بھی تو اس کے اصل کلپرٹ کون تھے؟ انہیں تو آج بھی تم لوگوں نے قائد عوام کہتے ہوئے سر آنکھوں پر بٹھا رکھا ہے۔بہر کیف اس وقت کے مظلوم لیڈر شیخ مجیب الرحمن کے خلاف پھیلائی گئی منافرت اب بڑی حد تک تھم چکی ہے ‎اب جو بھی جمہوریت کا نام لے کر اٹھتا ہے اور آمریت کا جبر اس کے سامنے ہتھیار بند کھڑا ہوتا ہے تو اسے شیخ صاحب یاد آنے لگتے ہیں جیسے کہ ابھی ہمارا ایک سابق کھلاڑی یہ کہہ رہا تھا کہ میں شیخ مجیب الرحمن کی طرح ظلم و جبر سہہ رہا ہوں آپ لوگوں نے شیخ مجیب الرحمن پر جو بھی زیادتیاں کیں ان سب کے باوجود وہ عوام کی عدالت میں سرخرو ہو ا تمامتر ستم کے ہوتے ہوئے وہ 162سیٹوں کی بھاری اکثریت سے الیکشن جیت گیا جب آپ لوگوں نے انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا تو نتیجتاًملک ٹوٹ گیا، لہٰذا اس کے مجرم وہ ہیں جنہوں نے عوامی فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کردیا، ماقبل یہی بات تین مرتبہ منتخب ہونے والا ہمارا ہر دلعزیز عوامی لیڈر بھی بارہا کہہ چکا ہے کہ جمہوریت کے حوالے سے جوبھی زیادتی شیخ مجیب الرحمن پر روا رکھی گئی یہ ملک اب اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔الحمدللہ تاریخ کا مطلع بڑی حد تک صاف ہوچکا ہے تو ہمیں جذبہ خود احتسابی کے تحت یہ مان لینا چاہیے کہ عظیم بنگالی قوم کے ساتھ ہمارے لوگوں نے زیادتیاں کی تھیں۔ سقوط ڈھاکہ کی روایتی ”پھوڑی“ بھی اٹھا دی جانی چاہیے۔ آج اکیسویں صدی میں ہم لوگوں کو مذہبی لسانی یا نسلی تعصبات اور منافرتوں سے اوپر اٹھ جانا چاہیے ان زہریلے نظریات سے کبھی محبتوں کے زمزمے نہیں پھوٹ سکتے،

ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نو ع انساں کو

اخو ت کا بیاں ہوجا محبت کی زباں ہوجا

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما احسن اقبال کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کا نوٹس لینا بروقت اقدام ہے، ن لیگ نے اس کا مطالبہ کیا تھا۔

یوکرین کے مغربی علاقے میں قصبے کے کونسلر نے کونسل کی میٹنگ میں دستی بم پھینک کر 26 افراد کو زخمی کردیا۔

ایشوریا رائے اور ابھیشیک بچن ایک تقریب میں شریک ہوکر علیحدگی کی افواہوں کی تردید کردی۔

نگراں وزیر اعلی علی مردان ڈومکی نے استعفے قبول کرلیے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما امین الحق نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن سے تعلقات کو آگے بڑھائیں گے، پیپلز پارٹی کی حکومت نے شہر کا انفرا اسٹرکچر تباہ کر دیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بانی چیئرمین کی ہدایت پر لاہور ہائیکورٹ میں الیکشن کمیشن کے خلاف درخواست جمع کرائی تھی۔

اعلامیے کے مطابق 10جنوری 2024 کو اپیلوں پر اپیلٹ اتھارٹی کے فیصلوں کا آخری روز ہوگا۔

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما چوہدری منظور حسین نے کہا ہے کہ الیکشن کا عمل متنازع ہوچکا، شفاف انتخابات نظرنہیں آرہے۔

نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی منظوری دے دی۔

نگراں وزیر داخلہ سینیٹر سرفراز بگٹی نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما تیمور سلیم جھگڑا نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے آج مناسب فیصلہ کیا۔

بھارتی اداکار، فٹنس انٹر پرینیور اور یو ٹیوبر ساحل خان اور انکے بھائی کو ممبئی پولیس نے ماہا دیو بیٹنگ ایپ کیس میں طلب کرلیا۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ انتخابات کے آزادانہ، شفاف انعقاد کیلئے غیر جانبدار عدالتی افسران بطور انتخابی عملہ مقرر کیے جائیں۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا ہے کہ الیکشن شیڈول تیار ہے، میں نے کبھی نہیں کہا کہ الیکشن میں تاخیر ہو سکتی ہے۔

QOSHE - افضال ریحان - افضال ریحان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

افضال ریحان

13 0
16.12.2023

16دسمبر کا دن ،ہرسال آرمی پبلک سکول پشاور سے وابستہ ہمارے گہرے زخموں کو کریدنے آجاتا ہے ، درویش کا رنج و غم سو گنا بڑھ جاتا ہے جب وہ یہ سوچتا ہے کہ ہم نے اتنے اندوہناک سانحہ کے باوجود بحیثیت قوم اس سے کچھ نہیں سیکھا ۔‎ کیا سیکھنا تھا؟ سیکھنا یہ تھا کہ ہم من حیثیت القوم عہد کرتے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے ہم اس قومی و انسانی بربادی کے مرتکبین کو کسی صورت نہیں چھوڑیں گے نہ ہی اس کے مائنڈ سیٹ کو یہاں پنپنے دیں گے تاکہ آئندہ کوئی دہشتگرد ہمارے ملک میں گھسنے کی جرات نہ کرسکے اور نہ ایسی سوچ کے حاملین دوبارہ ادھر کا رخ کرسکیں۔ ایسی بربادی کے بعد زندہ اقوام بنیان مرصوص بنکر یوں ایستادہ ہوجاتی ہیں بلکہ برے کے گھر تک اسکا یوں پیچھا کرتی ہیں کہ دہشت گر د ذہنیت کو چھپنے کیلئے کوئی جائے امان نہیں مل پاتی۔‎ امریکا میں نائن الیون برپا ہوا توامریکیوں نےاس کے ماسٹر مائنڈز کا قلع قمع کرنے کیلئے افغانستان کے مخصوص حصوں کا تورا بورا بنا ڈالا۔ افراد ہوں یا اقوام خودپر حملہ آور ہونیوالے دہشت گردوں کا تعاقب کرتے ہیں اور انہیں اس قابل نہیں رہنے دیتے کہ وہ دوبارہ ایسی جارحیت کرسکیں، قانون اور دنیا اسے سیلف ڈیفنس یا حفاظت خود اختیاری کا نام دیتی ہے، آج کی مہذب جمہوری دنیا اسی وجہ سے دہشت گردی کو لعنت قرار دیتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 16دسمبر 2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک سکول میں ہمارے معصوم بچوں پر جو قیامت ڈھائی گئی ہم نے ان دہشت گردوں کے استیصال کیلئے ”نیشنل ایکشن پلان“تشکیل دیا تھا ،کیا یہ درویش اپنی عسکری و جمہوری قیادت سے یہ پوچھنے کی جسارت........

© Daily Jang


Get it on Google Play