دنیائے سیاست کی بہار، انتخابی مہم بہت دیر میں آتی ہے، جن ملکوں میں حکومتیں انتخابی عمل سے تشکیل پاتی ہیں ،کسی میں 4سال اور ایٹ لارج اقتدار کی مدت پانچ سال ہوتی ہے تو اس کے اختتام سے تین چار ماہ قبل انتخابی مہم کا آغاز ہو جاتا ہے۔ ویسے تو ان ممالک میں حکومت کے آخری سال کو الیکشن ایئر پکارا جاتا ہے اور الیکشن میں حصہ لینے والی جماعتیں ہوم ورک بشکل منشور سازی، مخصوص پروگرامز کی تشکیل اور انتخابی مہم کی منصوبہ بندی اور حکمت ہائے عملی پر کام شروع کر دیتی ہیں۔بھارت تو اپنے رقبے آبادی اور صحت مند سیاسی عمل میں اتنا آگے ہے کہ یہاں ضمنی انتخابات سےکہیں نہ کہیں بہار آتی ہی رہتی ہے ۔پاکستان، جس کا سیاسی عمل سدا سے بیمار ہی چلا آ رہا ہے ،میں بھی مارشل لا لگے یا کمزور سول حکومت اپوزیشن اور عوام کو بمشکل ہضم ہو کر مدت پوری کر رہی ہو یہ جماعتی الیکشن سے آئی ہو یا سول ملٹری مکس رجیم سے برآمد ہو یہاں الیکشن سپرنگ تو کبھی نہیں ٹلتی ،ایوبی مارشل لا کے نفاذ کے تین چار سال بعد ہی ملک میں فرد واحد کے آئین نے بھی صدارتی نظام اور بی ڈی سسٹم کو جنم دیا تھا سو ہر دو کی الیکشن سپرنگ دونوں صوبوں میں ہزار میل کی دوری کے باوجود ملک گیر ہی ہوتی تھی، رونق اور سیاسی میلوں ٹھیلوں کی ہلچل بڑے شہروں سے دور افتادہ دیہات تک پاکستان میں اپنا ر نگ دکھاتی رہی۔ ضیائی مارشل لا میں غیر جماعتی اور لوکل باڈیز الیکشن نے بھی عوام اور ووٹروں میں انتخابی مستی خوب بانٹی اور سیاست اپنے وقت کے رنگ کا جلوہ دکھائی رہی ،پی پی کے کچھ کارکنوں کو کوڑے پڑے تو ایم آر ڈی تحریک برآمد ہو گئی جس سے پیپلز پارٹی کو گلوکوز لگا اور وہ بحال ہو گئی،ہوئی تو غیر جماعتی انتخابات پھوٹ آئے اور الیکشن ا سپرنگ میں جونیجو لیگ کھل کھلا کر نکل آئی۔ مشرف کو چیف مارشل لا کا ٹائٹل خود بھی ہضم نہ ہوا تو انہوں نے خود ہی ملک بھر کا چیف ایگزیکٹو پھر صدر بن کر، قابل تحسین و تعریف اور ناقابل واپسی لوکل گورنمنٹ سسٹم ق لیگ متعارف کرا کر بھرپور بہاراں کا انتظام کیا ۔ن لیگی قیادت کو اسیری برداشت نہ ہوئی تو ڈیل کر کے دس سالہ خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی، لیکن دو تہائی اکثریت والی حکومت کے معزول وزیر اعظم کی طویل عدم موجودگی میں بھی ملک میں انتخابی بہاریں نہ رکیں۔ بھلا ہو وکلاء تحریک (2007)کا جس نے عوامی اور ملک گیر ہو کر، وہ فضا بنا دی جس سے دونوں بڑی خود ساختہ جلا وطن پارٹیوں کے قائدین کی واپسی بغیر کسی اپنی تحریک کے، ڈیل کےسہارے ممکن ہو گئی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جرنیلی آمیزش کے بغیر جو عشرہ جمہوریت (2008-18) بھرپور سیاسی عمل اور پررونق انتخابی بہار سے شروع ہوا، اگرچہ وہ کرپشن اور بیڈ گورننس میں ملکی تاریخ کے ہر عشرے پر بھاری رہا، اس میں اولیگار کی (مافیا راج) نے ایک سخت گیر شکل اختیار کر لی، اپنی اسی طاقت پر سیاسی عمل جاری رہا تین عام انتخابی بہاریں پھر بھی ملک کو نصیب ہوئیں، تیسری بڑی ملک گیر پارلیمانی پارٹی نے جنم لیا۔ سب سے مثبت پہلو یہ نکلا کہ حکمران طبقے کو ارب ،کھرب پتی اور عوام کو مفلوک الحال ہی رکھنے والے اس عشرے میں ملکی سیاسی تاریخ میں یکے بعد دیگردو منتخب حکومتوں نے اپنے اقتدار کی مدت مکمل کی، باوجود اس کے کہ وہ ہر دو ادوار میں دونوں بڑی پارلیمانی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وزرائے اعظم ملکی عدالتوں میں آئین و حلف کی خلاف ورزی کرپشن اور ملک کے مقابل پارٹی کے مفاد کا دفاع کرنے پر اپنے منصب گنوا بیٹھے، لیکن تیسرا الیکشن بھی وقت پر ہوا، اپوزیشن اس میں، پہلے دو کی طرح الیکشن فیئر نہ ہونے کی چیخ پکار کرتی رہی، لیکن کوویڈ کی عالمی وبا میں بھی عمران حکومت کمال کامیابی سے چلتی، بڑھتی ایکسپورٹ پر تیزی سے ختم ہوتی بے روزگاری، صحت کارڈ کی بڑی عوامی خدمت اور عالمی سطح پر وباکے بہترین مینجر ثابت ہونے کے باوجود اولیگار کی ٹولا گہری سازشوں اور وبائی ماحول کے چیلنجنگ قومی مرحلے میں بھی ناگزیر ہوتی مہنگائی کی آڑ میں اودھم مچاتا عمران حکومت اکھاڑنے کے درپے رہا۔ انہیں مزیدڈیڑھ سال اپوزیشن میں رہنا گوارا نہ ہوا، پی ڈی ایم نے ارتقا پذیر جمہوری سیاسی عمل میں، جس طرح ہارس ٹریڈنگ اور با جماعت سازش سے حکومت اکھاڑ کر ملکی سیاسی حکومتی ماحول کو آلودہ اور عوامی مفادات کو مکمل برباد کیا، اس کی پہلی اور فوری سزا تو اسے عوام سے ہٹ اور کٹ جانے کی شکل میں مل گئی کہ سب سے بڑی اولیگار کی جماعت ن لیگ کا اقتدار حاصل کرنے کے سیاسی کھیل میں سارا انحصار ہمرکاب ہوئے ریاستی اداروں کی غیر آئینی بخششوںاور جھٹ پٹ پوری ہونے والی فرمائشوں پر ہے۔ نگران حکومت اور اسکے غیر معمولی اختیار میں آئے اداروں کو جس طرح فسطائیت پھیلانے پر لگا دیا ہے، اس نے ملک میں انتخابات کے قریب تر ہونے انعقاد کے باوجود آئین کی پامالی کی رفتار تیز کر دی ہے۔

اب تو جھوٹے وعدے بھی نہیں کئے جا رہے کہ یہ تو عوام سے ہی کرنے ہوتے ہیں، جو اولیگار کی ٹولے سے کوسوں دور ہو گئے۔ عدالت عظمیٰ پھر تقسیم ہو گئی۔ گزشتہ رات سے ہی ن لیگ نے الیکشن سے فرار کی راہ پھر نکالنی شروع کر دی جب یہ خبر آئی کہ پی ٹی آئی الیکشن عملہ ایٹ لارج جوڈیشری سے لینے کی بجائے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز بیوروکریسی سے لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کےنعرےکو تو جیسے کوئی سانپ سونگھ گیا ہے۔ اس مرتبہ ن لیگ نے اپنی ’’انتخابی مہم‘‘ کا آغاز لاہور میں شاہدرہ اور ٹھوکر نیاز بیگ کے عشائیہ عام سے کیا تھا، لیکن تمام تر ڈھیل کے باوجود اسے لگتا ہے جلالپور جٹاں کے ’’پاور شو‘‘ پر ختم کر دیا۔ ن لیگ نے بڑا شور مچایا کہ رہبر پارٹی لندن سے کوئی بڑا بیانیہ لے کر آ رہے ہیں، جس پر ملک میں بہار ہی بہارہو گی۔ وہ عمرا ن دور اور 2017کے اپنے دور کی قیمتوں کے موازنے کی شکل میں آیا، لیکن انہوں نے آج کی عمران حکومت دور کے خاتمے تک کے نرخوں کے موازنے سے گریز کیا کہ آج کے نرخ لشکری حکومت کے قیام کا شاخسانہ ہیں۔ یوں الیکشن 2023کی الیکشن سپرنگ بلاول کے بلا روک ٹوک جلسوں، زرداری صاحب کی طرف سے ان کی کاٹ، مولانا صاحب کے جلسوں سے پرہیز، ن لیگ کی ڈرائینگ روم ملاقاتوں اور سب سے بڑھ کر پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور کارکنوں کی پکڑ جکڑ، جیلوں میں سماعتوں اور بیلوں کے انتظار ، خوف و ہراس اور دبائو کی سخت نا انصافی، آلودگی اور پے در پے آئین کی پامالی سے آئی ہے۔ یہ حال انتخابی بہار کا ہے تو نہ جانےموسم ِ گرمامیں کیا ہو گا اور برسات میں نہ جانے کیا برسے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما احسن اقبال کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کا نوٹس لینا بروقت اقدام ہے، ن لیگ نے اس کا مطالبہ کیا تھا۔

یوکرین کے مغربی علاقے میں قصبے کے کونسلر نے کونسل کی میٹنگ میں دستی بم پھینک کر 26 افراد کو زخمی کردیا۔

ایشوریا رائے اور ابھیشیک بچن ایک تقریب میں شریک ہوکر علیحدگی کی افواہوں کی تردید کردی۔

نگراں وزیر اعلی علی مردان ڈومکی نے استعفے قبول کرلیے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما امین الحق نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن سے تعلقات کو آگے بڑھائیں گے، پیپلز پارٹی کی حکومت نے شہر کا انفرا اسٹرکچر تباہ کر دیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بانی چیئرمین کی ہدایت پر لاہور ہائیکورٹ میں الیکشن کمیشن کے خلاف درخواست جمع کرائی تھی۔

اعلامیے کے مطابق 10جنوری 2024 کو اپیلوں پر اپیلٹ اتھارٹی کے فیصلوں کا آخری روز ہوگا۔

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما چوہدری منظور حسین نے کہا ہے کہ الیکشن کا عمل متنازع ہوچکا، شفاف انتخابات نظرنہیں آرہے۔

نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی منظوری دے دی۔

نگراں وزیر داخلہ سینیٹر سرفراز بگٹی نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما تیمور سلیم جھگڑا نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے آج مناسب فیصلہ کیا۔

بھارتی اداکار، فٹنس انٹر پرینیور اور یو ٹیوبر ساحل خان اور انکے بھائی کو ممبئی پولیس نے ماہا دیو بیٹنگ ایپ کیس میں طلب کرلیا۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ انتخابات کے آزادانہ، شفاف انعقاد کیلئے غیر جانبدار عدالتی افسران بطور انتخابی عملہ مقرر کیے جائیں۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا ہے کہ الیکشن شیڈول تیار ہے، میں نے کبھی نہیں کہا کہ الیکشن میں تاخیر ہو سکتی ہے۔

QOSHE - ڈاکٹر مجاہد منصوری - ڈاکٹر مجاہد منصوری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ڈاکٹر مجاہد منصوری

9 1
16.12.2023

دنیائے سیاست کی بہار، انتخابی مہم بہت دیر میں آتی ہے، جن ملکوں میں حکومتیں انتخابی عمل سے تشکیل پاتی ہیں ،کسی میں 4سال اور ایٹ لارج اقتدار کی مدت پانچ سال ہوتی ہے تو اس کے اختتام سے تین چار ماہ قبل انتخابی مہم کا آغاز ہو جاتا ہے۔ ویسے تو ان ممالک میں حکومت کے آخری سال کو الیکشن ایئر پکارا جاتا ہے اور الیکشن میں حصہ لینے والی جماعتیں ہوم ورک بشکل منشور سازی، مخصوص پروگرامز کی تشکیل اور انتخابی مہم کی منصوبہ بندی اور حکمت ہائے عملی پر کام شروع کر دیتی ہیں۔بھارت تو اپنے رقبے آبادی اور صحت مند سیاسی عمل میں اتنا آگے ہے کہ یہاں ضمنی انتخابات سےکہیں نہ کہیں بہار آتی ہی رہتی ہے ۔پاکستان، جس کا سیاسی عمل سدا سے بیمار ہی چلا آ رہا ہے ،میں بھی مارشل لا لگے یا کمزور سول حکومت اپوزیشن اور عوام کو بمشکل ہضم ہو کر مدت پوری کر رہی ہو یہ جماعتی الیکشن سے آئی ہو یا سول ملٹری مکس رجیم سے برآمد ہو یہاں الیکشن سپرنگ تو کبھی نہیں ٹلتی ،ایوبی مارشل لا کے نفاذ کے تین چار سال بعد ہی ملک میں فرد واحد کے آئین نے بھی صدارتی نظام اور بی ڈی سسٹم کو جنم دیا تھا سو ہر دو کی الیکشن سپرنگ دونوں صوبوں میں ہزار میل کی دوری کے باوجود ملک گیر ہی ہوتی تھی، رونق اور سیاسی میلوں ٹھیلوں کی ہلچل بڑے شہروں سے دور افتادہ دیہات تک پاکستان میں اپنا ر نگ دکھاتی رہی۔ ضیائی مارشل لا میں غیر جماعتی اور لوکل باڈیز الیکشن نے بھی عوام اور ووٹروں میں انتخابی مستی خوب بانٹی اور سیاست اپنے وقت کے رنگ کا جلوہ دکھائی رہی ،پی پی کے کچھ کارکنوں کو کوڑے پڑے تو ایم آر ڈی تحریک برآمد ہو گئی جس سے پیپلز پارٹی کو گلوکوز لگا اور وہ بحال ہو گئی،ہوئی تو غیر جماعتی انتخابات پھوٹ آئے اور الیکشن ا سپرنگ میں جونیجو لیگ کھل کھلا کر نکل آئی۔ مشرف کو چیف مارشل لا کا ٹائٹل خود بھی ہضم نہ ہوا تو انہوں نے خود ہی ملک بھر کا چیف ایگزیکٹو پھر صدر بن کر، قابل تحسین و تعریف اور ناقابل واپسی لوکل گورنمنٹ سسٹم ق لیگ متعارف کرا کر بھرپور بہاراں کا انتظام کیا ۔ن لیگی قیادت کو........

© Daily Jang


Get it on Google Play