میں نے پچھلے دنوں ایک نظم لکھی تھی’’سارے اہل قلم سپاہی ہیں‘‘قصہ اتنا ہے کہ ا یسے موسم میں ہم جیسے شاعرزلف و لب ورخسار کے قصیدے نہیں گا سکتے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ شاعر جس گھر جس گاؤں جس شہر جس ملک میں رہتا ہو۔ اس کے دکھوں پررنگ و خوشبو کے نغمے الاپنے لگے۔شاعر تو خیر بڑے حساس لوگ ہوتے ہیں۔ وطن سے محبت ان کی طبیعت کا جزو ہوتی ہے وہ ہمیشہ زمین کے ساتھ اپنا رشتہ استوار رکھتے ہیں۔اپنی مٹی سے پیارکرتے ہیں۔ روسی ادیب شولوخوف نے ادب کے نوبل پرائزکی تقریب میں کتنی خوبصورت بات کہی تھی۔ ”انسانی برادری صرف ایسے اکیلگی میں رچے بسے افراد کا مجموعہ نہیں جو کا سمو ناٹس کی طرح کشش ثقل سے دور بے وزنی کی حالت میں خلامیں تیرتے پھرتے ہیں ہم ادیب زمین سے جڑے ہوئے ہیں اور ہمیں جو بھی لکھنا ہے انسانی ترقی، انسانی ہمدردی اور انسانی جمال کیلئے لکھنا ہے۔‘‘

بلاشبہ اپنی زمین سے جڑ کر اپنے ہم وطنوں کی نجات کیلئے لکھنا اور انکے خون میں اپنا خون شامل کرنا ہی ادب ہے، بھوکے آدمی کا پیٹ دیوان غالب سے بھرتا ہے نہ بال جبریل سے۔ اسے تو روٹی چاہئے اور سب کو پر سکون روٹی تب ہی مل سکتی ہے۔ جب ملک خوشحال ہو اور ملک میں چلنے والا نظام ِحکومت درست ہو۔

وطن کی محبت انسانی خمیر میں شامل ہوتی ہے۔ وطن کی محبت کا ایک اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے ہر ملک کا باشندہ یہی سمجھتا ہے کہ میرا ملک، صحیح یا غلط اس کیلئے دنیاسے لڑنا میرے اوپر فرض ہے۔شاعر تو پھر شاعر ہے۔یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی دوسرا ملک اس کے وطن کیخلاف جارحیت کامرتکب ہو، اسکی آزادی کے درپے ہو اور وہ تڑپ نہ اٹھے۔ یہاں اس کی سائیکی بھی اس کی تائید کرتی ہے اگر وہ زیادہ باہمت ہوتاہے تو اپنا لہو بھی اپنے بھائیوں کے لہو میں شامل کرلیتا ہے۔وگرنہ اسکا قلم ضرورعلم بن جاتاہے اسکی آواز رجزبن جاتی ہے اور وہ اپنے دیس کا دفاع کرتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھ سکتا کہ اس کے کوئی اس کےپرامن دیس کی آزادی چھیننےکیلئے آگ کے شعلے بکھیرتا آرہا ہے۔ پابلو نرودا (Pablo Naroda)اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے۔

”سپین کی گٹاروں پر گولیوں کی پہلی بوچھاڑ ہوئی توان سے موسیقی کی جگہ لہو کے سُر چیخ اٹھے، اس انتہائی کر بنا ک لمحے نے میری شاعری کو انقلاب سے دوچار کردیا آگہی کے اس ثانیے میں میں نے محسوس کر لیا کہ میں تنہائی کے قطب جنوبی سے انسانوں کے قطب شمالی میں ہجرت کرآیا ہوں۔ان انسانوں کے درمیان میری شاعری ہاتھ میں پکڑا ہوا رومال اور میان سے تڑپ کر نکلنے والی تلوار بننے کی آرزو مندہے۔ رومال اس لئے کہ وہ انکی پیشانیوں سے انکی بے پایاں محرومیوں کا پسینہ پونچھ سکے اور تلوار اس لئے کہ انکی جدوجہد میں انکا ہتھیار بن سکے“

میں نے یہ لکھتے ہوئے کہ سارے اہل قلم سپاہی ہیں۔ کچھ ایسا سوچاتھا۔ شاعر کاایک ایک لفظ قاری کو میدانِ کارزار میں لاکھڑا کرتاہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے شاعر نے کہیں بیٹھ کر لفظ نہیں لکھے یہ تو تلواروں کی جھنکار ہے جو لہو میں ڈوب کر لفظ اور شعر بنتی جارہی ہے۔اسکی شاعری فوجی بیر کوں اور جنگی محاذوں پر گونجتی ہے۔وہ خود میدان جنگ میں جاکر گرجتی توپوں کے سائے میں بیٹھ کر شاعری کرتا ہے۔گولوں کی دھمک سے اس کے لفظ جنم لیتے ہیں۔یہی وہ لفظ ہوتے ہیں جونظموں میں ڈھل کر سپاہیوں کے خون میں حرارت پیدا کرتے ہیں اور جنگ کے بعد یہی لفظ ساری دنیا پرمحیط ہوجاتے ہیں۔ کئی شاعر اور ادیب صرف قلم سے ہی نہیں تلوار کے ساتھ بھی لڑتے رہے۔ژاں پال سارتر جس نے نوبل پرائز لینے سے انکار کردیا تھا۔وہ فرانس کا شاعر ادیب اور فلسفی تھا جوصرف قلم چلاناہی نہیں بندوق چلانا بھی جانتا تھا لیکن اس کے قلم کیطرح اسکی بندوق کی بھی سچائی کیساتھ کمٹ منٹ تھی اور اسے فرانس سے بے پایاں محبت تھی، دوسری جنگِ عظیم میں سارتر نے فوج میں شامل ہوکر اپنے وطن کے دفاع میں تلوار اٹھائی اسے میگنوٹ لائن پر جرمن فوج نے گرفتار کر لیا۔ وہ نوماہ تک جرمن فوجی کیمپ میں نازیوں کے رسوائے زمانہ تشدد کا شکار رہا۔میں عربی کے معروف ترین شاعر متنبی کا ذکر کیےبغیر بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ یہ بڑا شاعر جس کا دیوان سینکڑوں سال سے پڑھا اور پڑھایا جارہا ہے اور آج بھی بے مثال قرار دیا جاتا ہے بہت سی دولت لے کر واپس جارہا تھا کہ ڈاکوؤں نے حملہ کردیا۔اس نے اپنی جان بچا کر اپنے تیز رفتار گھوڑے کو ایڑ لگا ئی تو ا س کا غلام بولا کہ مجھے آپ کا ایک شعر یاد آگیا ہے۔ متنبی نے کہا سناؤ غلام نے شعرسنایا،شعر کا ترجمہ یہ ہے ”قلم اور تلوار دونوں گواہ ہیں کہ میں ہر میدان کا مرد ہوں“۔متنبی نے کہا ”بدبخت کس جگہ کیا یاد دلادیا، واپس پلٹا اور بڑی بہادری سے لڑتا ہوا مارا گیا“ لیکن عرب کے یہ شعرا ء سارترکے مرتبہ کو اس لئے نہیں پہنچ سکتے کہ یہ لوگ اپنی جنگوں کیلئے کوئی بلند مقصدِ جواز نہیں رکھتے تھے اورسارترسچائی کا حوصلہ مند سپاہی تھا۔

مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے مزید 2 فلسطینی شہید ہوئے۔

موٹر وے ایم تھری فیض پور سے سمندری تک بند، اور پشاور سے رشکئی تک موٹر وے دھند کی وجہ سے بند ہے۔

ملزم وسیم نے شادی کی تقریب سے واپسی پر کار پر فائرنگ کردی، گولیاں لگنے سے ملزم کی بیٹی اور دو خواتین زخمی ہوئیں۔

فہرست میں شاہ رخ خان پہلی پوزیشن پر موجود ہیں، اس کے ساتھ وہ اس خطے میں مقبول ترین ایشیائی سلیبریٹری بن گئے۔

عرفان صدیقی نے یہ بھی کہا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع بانی پی ٹی آئی نے دی تھی،

لاہور میں دھند سے نمٹنے کے لیے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے تعاون سے مصنوعی بارش کا تجزیہ کیا گیا۔

کراچی کے علاقے کیماڑی میں جھگڑے کے دوران چھری کے وار سے ایک شخص ہلاک ہوگیا۔

عرب میڈیا کے مطابق کویتی کابینہ نے شیخ مشعل الاحمد الجابر الصباح کی بطور امیر تقرری کا فیصلہ کیا۔

فیشن شو کے دوران نامور اداکاروں عمران اشرف، کنزا ہاشمی اور فیروز خان سمیت دیگر نے بطور شو اسٹاپر ریمپ واک کی۔

الیکشن میں تاخیر ہوگی تو ریاست اور ن لیگ کو نقصان پہنچے گا۔ الیکشن سے ہی ملکی ترقی کی راہیں کھلتی ہیں، ن لیگی رہنام

عثمان اور انیلا اسکول کے زمانے سے ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے،

صارف نے ایکس پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں ایک پلیٹ میں سلاد میں زندہ گھونگھے کو دیکھا جاسکتا ہے۔

بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق دیروبھائی امبانی انٹرنیشنل اسکول ایونٹ میں بالی ووڈ فنکاروں کے بچوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

کراچی میں آج رات سے سرد ہوائیں چلیں گی اور کل سے سردی کی شدت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

رفتار کا طوفان، مہارت کے امتحان کیساتھ طاقتور گاڑیاں بھی موجود لیکن ان سے بھی مضبوط جذبے کیساتھ جھل مگسی کی ریت سے جاں بازوں کے جنون کا مقابلہ ہوا۔

اجلاس میں پارٹی قائد میاں نواز شریف نے بہاولپور ڈویژن سے پارٹی ٹکٹ کے خواہشمند امیدواروں کے انٹرویو کیے جو کئی گھنٹے جاری رہے۔

QOSHE - منصور آفاق - منصور آفاق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

منصور آفاق

11 0
17.12.2023

میں نے پچھلے دنوں ایک نظم لکھی تھی’’سارے اہل قلم سپاہی ہیں‘‘قصہ اتنا ہے کہ ا یسے موسم میں ہم جیسے شاعرزلف و لب ورخسار کے قصیدے نہیں گا سکتے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ شاعر جس گھر جس گاؤں جس شہر جس ملک میں رہتا ہو۔ اس کے دکھوں پررنگ و خوشبو کے نغمے الاپنے لگے۔شاعر تو خیر بڑے حساس لوگ ہوتے ہیں۔ وطن سے محبت ان کی طبیعت کا جزو ہوتی ہے وہ ہمیشہ زمین کے ساتھ اپنا رشتہ استوار رکھتے ہیں۔اپنی مٹی سے پیارکرتے ہیں۔ روسی ادیب شولوخوف نے ادب کے نوبل پرائزکی تقریب میں کتنی خوبصورت بات کہی تھی۔ ”انسانی برادری صرف ایسے اکیلگی میں رچے بسے افراد کا مجموعہ نہیں جو کا سمو ناٹس کی طرح کشش ثقل سے دور بے وزنی کی حالت میں خلامیں تیرتے پھرتے ہیں ہم ادیب زمین سے جڑے ہوئے ہیں اور ہمیں جو بھی لکھنا ہے انسانی ترقی، انسانی ہمدردی اور انسانی جمال کیلئے لکھنا ہے۔‘‘

بلاشبہ اپنی زمین سے جڑ کر اپنے ہم وطنوں کی نجات کیلئے لکھنا اور انکے خون میں اپنا خون شامل کرنا ہی ادب ہے، بھوکے آدمی کا پیٹ دیوان غالب سے بھرتا ہے نہ بال جبریل سے۔ اسے تو روٹی چاہئے اور سب کو پر سکون روٹی تب ہی مل سکتی ہے۔ جب ملک خوشحال ہو اور ملک میں چلنے والا نظام ِحکومت درست ہو۔

وطن کی محبت انسانی خمیر میں شامل ہوتی ہے۔ وطن کی محبت کا ایک اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے ہر ملک کا باشندہ یہی سمجھتا ہے کہ میرا ملک، صحیح یا غلط اس کیلئے دنیاسے لڑنا میرے اوپر فرض ہے۔شاعر تو پھر شاعر ہے۔یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی دوسرا ملک اس کے وطن کیخلاف جارحیت کامرتکب ہو، اسکی آزادی کے درپے ہو اور وہ تڑپ نہ اٹھے۔ یہاں اس کی سائیکی بھی اس کی تائید کرتی ہے اگر وہ زیادہ باہمت........

© Daily Jang


Get it on Google Play