کچھ لوگوں کی الیکشن کمیشن سے محبت کی شدت کا جواب ہی نہیں، وہ صبح و شام اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں انتخابی شکست دیکھ کر سارا پیار الیکشن کمیشن ہی پر نچھاور کرنے کے درپے ہیں۔ وقت پر ووٹر اور اسپوٹر کے در پر دستک دی ہوتی تو معاملہ تھوڑا مختلف ہوتا۔ ایک دفعہ پیار پیار میں اکبر الہ آبادی نے کہا تھا: ’’چشم جہاں سے حالت اصلی چھپی نہیں / اخبار میں جو چاہئے وہ چھاپ دیجئے‘‘

ہم تو کہتے ہیں صاحب، الیکشن کا جہاں اور ہے کمیشن کا جہاں اور۔ جس کو اپنا الیکشن چاہئے وہ عوام کی نبض اور خواہش کی رمز پر بھی ہاتھ رکھے۔ کوئی تو ہو جو عوام کو بےوقوف بنانے کے بجائے خان کے آغاز اور انجام کے درمیان والے شبانہ روز میں سعودیہ و ملائشیا ، امریکہ و روس، چائنہ و ترکی سے پاکستان کے تعلقات کی جما دینے والی ٹھنڈک کا جائزہ بھی مدنظر رکھے، کوئی تو ہو جو پی ڈی ایم کے آفتاب و ماہتاب قبلہ شہباز شریف کی تابکاریوں و طراریوں کی بھی تان چھیڑے۔ نغمہء بلبل اور ہے اور سیاسی ترانے کچھ اور۔اگر چھوٹے میاں صاحب میں دم خم ہوتا تو بڑے میاں صاحب کو سفری صعوبتوں کے تکلفات ہی سے نہ گزارا جاتا اور نہ قبلہ عمران خان ہی پارلیمان کے اعتماد کے عدم کا سامنا کرتے۔ مانا کہ آنگن بھی اونچا نیچا ہے لیکن ناچ کے ہر اسٹیپ ہی کیلئے بھی اتنا ٹیڑھا نہیں کہ محض آنگن ہی کو کوستے رہیں ، او بھائی خود احتسابی بھی کوئی چیز ہوتی ہے کہ نہیں؟ پھر، میڈیا کے راگ راگنی اور اوپر سے نیچے تک کے عادل جب تہیہ کرلیں کہ الیکشن منصفانہ کرانے ہیں تو کس کی مجال ( ویٹو پاور نکال کر ) انتخابات کے آئینے سے پہلوتہی کرے؟ اگر کوئی چشمِ بینا سے دیکھے گا تو معلوم ہوگا کہ بیوروکریسی اور پولیس ہی میں سب امراض نہیں تماشے کہیں اور بھی ہیں جنہیں شور و غل کے غلاف میں ڈھانپ دیا جاتا ہے، کوئی الیکشن کمیشن کے چیلنجز کو بھی تو آئیڈیل ازم کے آسیب کے سایوں سے باہر نکل کر دیکھے! الیکشن کمیشن نے دیگر اداروں کی مدد سے ، اور تفویض کار کے تناظر میں انتخابات کے عمل کو ترتیب دینی ہے جس میں فورسز اور عدلیہ کے علاوہ بالخصوص محکمہ تعلیم کا اہم عمل دخل ہوتا ہے۔ ضلعی انتظامیہ سے مجسٹریٹ اور سول ججز و سیشن ججز کی کاوشوں اور تعاون کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا پھر سب سے اہم تعاون عوام اور سیاسی نمائندوں کا بھی ناقابلِ فراموش ہوا کرتا ہے تب جا کر بیل منڈھے چڑھتی ہے۔ جہاں تک چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ ، سیکرٹری عمر حمید خان اور اسپیشل سیکریٹری ڈاکٹر سید آصف حسین شاہ کا تعلق ہے ان کے ماضی و حال کی حب الوطنی اور فرض شناسی سے کمٹمنٹ کا اندازہ لگانا مشکل کام نہیں ہے، وہ قابلِ فخر افسران ہیں۔ ڈسکہ کی’’دھند‘‘ کا ایک سابق ضمنی الیکشن میں جو پردہ چاک کیا گیا اس نےمخصوص چھاتی پر مونگ ضرور دلی لیکن اب تو آگے چلنا ہے۔

کچھ سال قبل آزاد جموں و کشمیر میں ایک پارٹی کو جب اپنے کئے کا پھل ملا تو اس نے اس وقت کے آزاد جموں و کشمیر کے الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر خواجہ سعید پر بےجا انگلیاں اٹھانا شروع کردیں۔ لیکن خواجہ سعید کے سابق چیف جسٹس آف سپریم کورٹ ہونے کے شفاف کردار کو اہلِ کشمیر بھولے ہوئے نہ تھے۔ راقم نے جون و جولائی 2011 میںاس معاملہ کو خاصا باریک بینی سے دیکھا اور بعد ازاں کالم بھی لکھے تاہم اس وقت کے سیکرٹری الیکشن کمیشن کی سادگی اور شرافت سے سردار عتیق نے ناجائز فائدہ اٹھانے کی اپنے تئیں بھرپور کوشش کی جو بہرکیف رائیگاں گئی، خیر رائیگاں تو سردار عتیق کی وہ کاوش بھی گئی تھی جو انہوں نے 2011 کی انتخابی مہم میں سرکاری ذرائع کی انویسٹمنٹ سےکی تھی۔ یہی تو ہوتا ہے کہ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔ مگر سیاسی قائدین سے قوم توقع کرتی ہے کہ وہ تیرگی میں دیکھنے والی چشمِ بینا رکھیں ! بہرحال ڈی جی لاء برائے الیکشن کمیشن محمد ارشد سے توقع ہے کہ وہ احسن انداز میں لاہور ہائی کورٹ اور ماہرِ قانون کے تحفظات کو دیکھیں اور ابہام سے پاک انہیں اور ملک و قوم کو جواب دیں گے۔ کچھ دن قبل کراچی سے ایم کیو ایم اور دیگر پارٹیوں نے سندھ الیکشن کمیشن اور کچھ تقرریوں کے حوالے سے جو سوالات اٹھائے ان کا بروقت جواب دے کر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قوم کو ایک قابلِ ستائش اعتماد بخشا۔ جہاں تک سندھ/ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کا معاملہ ہے ان میں آصف علی زرداری ہوں یا بلاول بھٹو، وہ بر وقت الیکشن کے بھرپور حامی ہیں اور اپنی معاونت بھی الیکشن کمیشن کیلئے پیش کئے ہوئے، آصف علی زرداری کی باڈی لینگوئج اور کھلا یا خفیہ اظہار بھی گر الیکشن کمیشن کے حق میں ہے یا راجہ پرویز اشرف اور سعید غنی سمیت دیگر قیادت الیکشن کمیشن کیلئے حسنِ ظن رکھتے ہیں تو الیکشن کے بروقت انعقاد کی خاطر۔ پچھلے دنوں آصف علی زرداری نے اپنے ایک انٹرویو میں بھی اظہار کیا کہ وہ الیکشن بروقت ہونے کی توقع رکھتے اگر یہ فروری سے مارچ تک بھی جاتے ہیں تو مضائقہ نہیں، یہ مگر ہونے چاہئیں! وہ کے پی کے کی حلقہ بندیوں کے تحفظات دور کرنے کے حق میں ہیں جو دراصل مولانا فضل الرحمٰن کی ڈیمانڈلاہور ہائی کورٹ کے ڈی آر اوز اور آر اوز کی تعیناتی کی معطلی کے آرڈرز سے اچانک کھلبلی مچ گئی، تاہم دو تین روز قبل اس عدالتی حکم کے سبب ہونے والی کمیشن کی ایک سنجیدہ میٹنگ کے بعد کہا گیا کہ 8 مئی 2023کو انتخابات کرانے کے ہمارے انتظامات مکمل ہیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کی جس درخواست سے معطلیاں ہوئیں اور ٹریننگ رکی اس پر شہباز شریف نے الزام لگایا کہ اگر الیکشن ملتوی ہوئے تو اب تحریک انصاف ذمہ دار ہوگی، پھر جواب میں رہنما تحریک انصاف علی ظفر نے کہا ’’ہمارا پٹیشن دائر کرنے کا بالکل یہ مقصد نہیں تھا کہ الیکشن میں تاخیر ہو بلکہ میرا خیال ہے شاید ہم یہ درخواست واپس لے لیں تاکہ یہ آرڈر نہ رہے‘‘۔یہ سب ہوتا سو ہوتا سپریم کورٹ نے اگلے ہی دن مسئلہ حل کردیا اور لاہور ہائی کورٹ کے برعکس معطلیاں ختم ، الیکشن بروقت اور امور جاری رکھنے کا تاریخی فیصلہ دے کر حیران ہی نہیں خوش بھی کردیا۔ گو مختلف شہروں سے اکا دکا ایسی شکایات بھی ہیں جیسے ملتان میں آر اوز تعیناتی پرگیلانی پیری مریدی چلی ہے، ایسی معمولی گڑ بڑ بھی کہیں نہ ہو پس اس پر بھی کمیشن ضرور دیکھے کیونکہ کریڈیبل الیکشن ہی روشن مستقبل اور شفاف جمہوریت کو تقویت بخشیں گے، اور عرض یہ بھی ہے کہ سیاستدان خود بھی اچھی نیت اور میک اپ کے ساتھ عوام اور جمہوریت کیلئے جاگتے رہیں صرف الیکشن کمیشن پر نہ رہیں، اس ضمن میں ادارے کچھ اور بھی ہیں!

مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے مزید 2 فلسطینی شہید ہوئے۔

موٹر وے ایم تھری فیض پور سے سمندری تک بند، اور پشاور سے رشکئی تک موٹر وے دھند کی وجہ سے بند ہے۔

ملزم وسیم نے شادی کی تقریب سے واپسی پر کار پر فائرنگ کردی، گولیاں لگنے سے ملزم کی بیٹی اور دو خواتین زخمی ہوئیں۔

فہرست میں شاہ رخ خان پہلی پوزیشن پر موجود ہیں، اس کے ساتھ وہ اس خطے میں مقبول ترین ایشیائی سلیبریٹری بن گئے۔

عرفان صدیقی نے یہ بھی کہا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع بانی پی ٹی آئی نے دی تھی،

لاہور میں دھند سے نمٹنے کے لیے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے تعاون سے مصنوعی بارش کا تجزیہ کیا گیا۔

کراچی کے علاقے کیماڑی میں جھگڑے کے دوران چھری کے وار سے ایک شخص ہلاک ہوگیا۔

عرب میڈیا کے مطابق کویتی کابینہ نے شیخ مشعل الاحمد الجابر الصباح کی بطور امیر تقرری کا فیصلہ کیا۔

فیشن شو کے دوران نامور اداکاروں عمران اشرف، کنزا ہاشمی اور فیروز خان سمیت دیگر نے بطور شو اسٹاپر ریمپ واک کی۔

الیکشن میں تاخیر ہوگی تو ریاست اور ن لیگ کو نقصان پہنچے گا۔ الیکشن سے ہی ملکی ترقی کی راہیں کھلتی ہیں، ن لیگی رہنام

عثمان اور انیلا اسکول کے زمانے سے ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے،

صارف نے ایکس پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں ایک پلیٹ میں سلاد میں زندہ گھونگھے کو دیکھا جاسکتا ہے۔

بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق دیروبھائی امبانی انٹرنیشنل اسکول ایونٹ میں بالی ووڈ فنکاروں کے بچوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

کراچی میں آج رات سے سرد ہوائیں چلیں گی اور کل سے سردی کی شدت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

رفتار کا طوفان، مہارت کے امتحان کیساتھ طاقتور گاڑیاں بھی موجود لیکن ان سے بھی مضبوط جذبے کیساتھ جھل مگسی کی ریت سے جاں بازوں کے جنون کا مقابلہ ہوا۔

اجلاس میں پارٹی قائد میاں نواز شریف نے بہاولپور ڈویژن سے پارٹی ٹکٹ کے خواہشمند امیدواروں کے انٹرویو کیے جو کئی گھنٹے جاری رہے۔

QOSHE - نعیم مسعود - نعیم مسعود
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

نعیم مسعود

17 17
17.12.2023

کچھ لوگوں کی الیکشن کمیشن سے محبت کی شدت کا جواب ہی نہیں، وہ صبح و شام اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں انتخابی شکست دیکھ کر سارا پیار الیکشن کمیشن ہی پر نچھاور کرنے کے درپے ہیں۔ وقت پر ووٹر اور اسپوٹر کے در پر دستک دی ہوتی تو معاملہ تھوڑا مختلف ہوتا۔ ایک دفعہ پیار پیار میں اکبر الہ آبادی نے کہا تھا: ’’چشم جہاں سے حالت اصلی چھپی نہیں / اخبار میں جو چاہئے وہ چھاپ دیجئے‘‘

ہم تو کہتے ہیں صاحب، الیکشن کا جہاں اور ہے کمیشن کا جہاں اور۔ جس کو اپنا الیکشن چاہئے وہ عوام کی نبض اور خواہش کی رمز پر بھی ہاتھ رکھے۔ کوئی تو ہو جو عوام کو بےوقوف بنانے کے بجائے خان کے آغاز اور انجام کے درمیان والے شبانہ روز میں سعودیہ و ملائشیا ، امریکہ و روس، چائنہ و ترکی سے پاکستان کے تعلقات کی جما دینے والی ٹھنڈک کا جائزہ بھی مدنظر رکھے، کوئی تو ہو جو پی ڈی ایم کے آفتاب و ماہتاب قبلہ شہباز شریف کی تابکاریوں و طراریوں کی بھی تان چھیڑے۔ نغمہء بلبل اور ہے اور سیاسی ترانے کچھ اور۔اگر چھوٹے میاں صاحب میں دم خم ہوتا تو بڑے میاں صاحب کو سفری صعوبتوں کے تکلفات ہی سے نہ گزارا جاتا اور نہ قبلہ عمران خان ہی پارلیمان کے اعتماد کے عدم کا سامنا کرتے۔ مانا کہ آنگن بھی اونچا نیچا ہے لیکن ناچ کے ہر اسٹیپ ہی کیلئے بھی اتنا ٹیڑھا نہیں کہ محض آنگن ہی کو کوستے رہیں ، او بھائی خود احتسابی بھی کوئی چیز ہوتی ہے کہ نہیں؟ پھر، میڈیا کے راگ راگنی اور اوپر سے نیچے تک کے عادل جب تہیہ کرلیں کہ الیکشن منصفانہ کرانے ہیں تو کس کی مجال ( ویٹو پاور نکال کر ) انتخابات کے آئینے سے پہلوتہی کرے؟ اگر کوئی چشمِ بینا سے دیکھے گا تو معلوم ہوگا کہ بیوروکریسی اور پولیس ہی میں سب امراض نہیں تماشے کہیں اور بھی ہیں جنہیں شور و غل کے غلاف میں ڈھانپ دیا جاتا ہے، کوئی الیکشن کمیشن کے چیلنجز کو بھی تو آئیڈیل ازم کے آسیب کے سایوں سے باہر نکل کر دیکھے! الیکشن کمیشن نے دیگر اداروں کی مدد سے ، اور تفویض کار کے تناظر میں انتخابات کے عمل کو ترتیب دینی ہے جس میں فورسز اور عدلیہ کے علاوہ بالخصوص محکمہ تعلیم کا اہم........

© Daily Jang


Get it on Google Play