سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی سیاست، تاریخی منطق سے مسلسل عاری رہی ہےکیونکہ آج دنیا میں مطلق العنانیت اور ہائبریڈ نظام کی بالادستی کا دور ختم ہو چکا ہے اور اس کے مقابلے میں مظلوم طبقات کے حقوق، جمہوری اقدار، سیکولر ازم اور ماحولیات کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ صرف وہی ملک ترقی کر رہے ہیں جو ان جمہوری روایات پر گامزن ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں جب سے نگران حکومت آئی ہے، کسی نہ کسی طرح انتخابات کے انعقاد کے بارے میں کنفیوژن پھیل رہی تھی، جس کو بالآخر سپریم کورٹ کے فیصلے اور الیکشن کمیشن کے شیڈول جاری ہونے کے بعد ختم ہو جا نا چاہئے۔ حالانکہ آج سے دو ماہ قبل سپریم کورٹ نے واضح طورپر تمام فریقین کو سن کر 8فروری کو انتخابات کرانے کا فیصلہ دیا تھا اور اس فیصلے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا تھا کہ الیکشن کے بارے میں کوئی تنازعات پیدا نہیں ہونے چاہئیں اور کوئی میڈیا ہاؤس ایسی خبریں شائع نہ کرے جس سے انتخابات کے انعقاد کے حوالےسے کوئی کنفیوژن پیدا ہو۔اگرچہ سپریم کورٹ نے انتہائی اہم فیصلہ کیا تھا لیکن اسکے باوجود بعض مبصرین اور تبصرہ نگار انتخابات کے انعقاد پرمسلسل شک و شبہ کا اظہار کرتے رہے ہیں اور اسکے جواز کے طور پرپنجاب اور کے پی میں پی ٹی آئی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت،مولانا فضل الرحمان کے بیانات اوربڑھتی ہوئی دہشت گردی بتائی جاتی ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی الیکشن کا وقت آتا ہے ، تو کچھ نادیدہ عناصر کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ عوام کی انتخابات میں دلچسپی کم ہو جائے اور یوں ایک کمزور حکومت قائم ہو۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کسی ایک پارٹی کی طرف سے ان انتخابات کی شفافیت پر الزام لگا کر مستقبل میں آنیوالی حکومت کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ سیاست کو بھی زوال پذیر روایات سے مزین کیا جاتا رہا ہے۔یاد رہے کہ اس سے پہلے چیئر مین الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ تمام پارٹیوں کو لیول پلینگ فیلڈ دی جائے گی لیکن اسکے باوجود بعض سیاسی جماعتوں کوانتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں مل رہی۔تحریک انصاف کے رہنمائوں کے خلاف مسلسل مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ انتخابات سے پہلے سب پارٹیوں کو لیول پلینگ فیلڈ ملتی لیکن ہماری سیاسی روایات کے عین مطابق تحریک انصاف کے مختلف لیڈروں کو جیل میں بند کر دیا گیاہے جس سے یہ اندیشہ زور پکڑ رہا ہے کہ الیکٹیبلزکی بڑی تعداد تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے سے اجتناب کرے گی۔حال ہی میں ایک سینئر صحافی نے اپنے نجی دورے میں پاکستان کے مختلف اضلاع میں نوجوانو ں سے آئندہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے بارے میں پوچھا تونوجوانوں کی بھاری تعداد نے تحریک انصاف کو ووٹ دینے کاارادہ ظاہرکیا ۔ان حالات کے باوجود سیاسی جماعتوں پر فرض ہے کہ وہ عوام کے مسائل کو حل کرنے اور ملک کو مستقل بحرانوں سے نکالنے کیلئے جامع منشور عوام کے سامنے پیش کریںتاکہ دنیا کے جدید ممالک کی طرح ہمارے ہاںبھی منشور کی بنیادپر ووٹ ڈالے جائیں ناکہ شخصیتوں اور ہیروز کی بنیاد پر ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے 2011ء سے ہی عمران خان کے سر پر ہاتھ رکھنا شروع کر دیاتھا جس کے نتیجے میں 2018میں تحریک انصاف کی حکومت بنی اور انتخابات سے پہلے نواز شریف کیلئے ایسے ہی حالات بنا دیے گئے تھے،جو آج تحریک انصاف کو درپیش ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی پرانی غلطیوں کا ازالہ کرتی اور سیاسی نظام میں کوئی مداخلت کیے بغیر اسکو ارتقا ء پذیر ہونے دیتی لیکن اب ایک اور غلطی کرتے ہوئے نوازشریف کے ساتھ ہونے والی غلطی کا ازالہ کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف جب ہم یورپین سیاسی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک ارتقا ء پذیر سیاسی عمل نے ہی یورپ میں ریاست، جمہوریت اور آئین کو باہم مربوط کر دیا اور اسکے نتیجےمیں جمہوری روایات کی جڑیں ان سماجوں میں بہت گہری ہو گئیں۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ یورپ میں آج نہ صرف فلاحی ریاستیں پروان چڑھ رہی ہیں بلکہ وہاں کے عوام اور ریاست کے درمیان رشتے روز بروز گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔لیکن اسکے مقابلے میں ہمارے ہاں ایک ہائبرڈ سیاسی نظام کو ہی مسلسل تقویت دی گئی اور یوں ہمارا سماج مثبت سیاسی روایات کی طرف بڑھنے کی بجائے تنزلی کی طرف رواں دواں ہے۔ ہندوستان کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں پچھتر سال سے اسٹیبلشمنٹ نے خراب ترین حالات کے باوجود کبھی سیاسی عمل میں رخنہ نہ ڈالااور الیکشن کمیشن کو آزادانہ پھلنے پھولنے کا موقع دیا جس کی وجہ سے کسی بھی جماعت نے کبھی اس ادارے کی کارکردگی پرانگلی نہیں اٹھائی۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستانی سماج ان معیاروں کی طرف اسی وقت ہی پیش قدمی کر سکتا ہے جب عبوری حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کی رو کے مطابق خود کو صرف عبوری حکومت تسلیم کرتے ہوئے اور ثانوی معاملات میں الجھنے کی بجائے آئین کے مطابق اقتدار کو عوامی نمائندوں کو منتقل کرنے کا اپنا اولین فریضہ انجام دے۔آج ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ پاکستان کی سیاسی طاقت عوام کے ہاتھوں میں نہیں ہےاگر مسلسل انتخابات کروائے جاتے رہے تو بھی عوام کسی نہ کسی طرح سیاست پر اثرانداز ضرور ہوتے رہیں گے۔ لیکن اسکی بنیادی شرط یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل کر ایک نئے میثاق جمہورت پر دل و جان سے دستخط کریں ،جس میں یہ تہیہ کیا جائے کہ آئندہ کوئی بھی سیاسی پارٹی کسی جمہوری حکومت کو گرانے میں مدد نہیں کریگی۔ بقول شاعر

یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی

ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کا حملہ ناکام بنا دیا گیا۔

لفٹ میں پھنسے بھارتی شہری کو جان سے زیادہ اپنے چھولے پٹھورے کی فکر لاحق رہی یعنیٰ جان جائے پر چھولے پٹھورے نہ جائیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما بابر اعوان نے پارٹی ٹکٹ کے حوالے پالیسی واضح کردی۔

سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ مقدمات ہی نہیں مقدمات بنانے والے بھی جھوٹے نکلے۔

اسرائیلی اپوزیشن لیڈر نے وزیراعظم نیتن یاہو سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کردیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ ڈیرا اسماعیل خان کے عوام کی خواہش ہے مولانا فضل الرحمان کو دوسری بار بھی شکست دوں۔

مصطفیٰ کمال نے اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ ایم کیو ایم سہراب گوٹھ کی پارٹی ہے، این اے 235 کا امیدوار ایک پشتون ہے ، بلوچ سندھی، مہاجر اس کے ورکرز ہیں۔

اسرائیلی فوج نے اپنے ایک اور فوجی کی ہلاکت کا اعتراف کیا ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق شمالی غزہ کی لڑائی میں آج ایک اسرائیلی فوجی ہلاک ہوا۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ذیشان اپنے والد کی مدد کو پہنچا تو ڈاکوؤں نے اسے بھی گولیاں مار دیں،

غزہ میں نئی جنگ بندی کی قطر اور مصر کی کوششیں جاری ہیں۔ اس حوالے سے حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حملے رُکنے تک یرغمالیوں سے متعلق بات چیت نہیں کریں گے۔

حکومت پاکستان نے امیر کویت کے انتقال پر کل ملک بھر میں قومی سوگ کا اعلان کردیا۔

عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے غزہ میں نہتے شہریوں پر اسرائیلی فوج کے حملوں کو دہشت گردی قرار دے دیا۔

نگراں وزیر اعلیٰ مقبول باقر نے کہا کہ کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کو ملک کے بہترین اداروں میں سے ایک ہے۔

بھارتی ریاست مہاراشٹر میں دھماکا خیز مواد بنانے والی فیکٹری میں دھماکے سے 9 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے، فیکٹری میں دھماکے کی وجوہات کا تاحال تعین نہیں ہوسکا۔

نیوزی لینڈ نے بنگلہ دیش کو پہلے ایک روزہ میچ میں ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کے تحت 44 رنز سے شکست دے دی۔

QOSHE - ایوب ملک - ایوب ملک
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ایوب ملک

15 0
18.12.2023

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی سیاست، تاریخی منطق سے مسلسل عاری رہی ہےکیونکہ آج دنیا میں مطلق العنانیت اور ہائبریڈ نظام کی بالادستی کا دور ختم ہو چکا ہے اور اس کے مقابلے میں مظلوم طبقات کے حقوق، جمہوری اقدار، سیکولر ازم اور ماحولیات کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ صرف وہی ملک ترقی کر رہے ہیں جو ان جمہوری روایات پر گامزن ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں جب سے نگران حکومت آئی ہے، کسی نہ کسی طرح انتخابات کے انعقاد کے بارے میں کنفیوژن پھیل رہی تھی، جس کو بالآخر سپریم کورٹ کے فیصلے اور الیکشن کمیشن کے شیڈول جاری ہونے کے بعد ختم ہو جا نا چاہئے۔ حالانکہ آج سے دو ماہ قبل سپریم کورٹ نے واضح طورپر تمام فریقین کو سن کر 8فروری کو انتخابات کرانے کا فیصلہ دیا تھا اور اس فیصلے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا تھا کہ الیکشن کے بارے میں کوئی تنازعات پیدا نہیں ہونے چاہئیں اور کوئی میڈیا ہاؤس ایسی خبریں شائع نہ کرے جس سے انتخابات کے انعقاد کے حوالےسے کوئی کنفیوژن پیدا ہو۔اگرچہ سپریم کورٹ نے انتہائی اہم فیصلہ کیا تھا لیکن اسکے باوجود بعض مبصرین اور تبصرہ نگار انتخابات کے انعقاد پرمسلسل شک و شبہ کا اظہار کرتے رہے ہیں اور اسکے جواز کے طور پرپنجاب اور کے پی میں پی ٹی آئی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت،مولانا فضل الرحمان کے بیانات اوربڑھتی ہوئی دہشت گردی بتائی جاتی ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی الیکشن کا وقت آتا ہے ، تو کچھ نادیدہ عناصر کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ عوام کی انتخابات میں دلچسپی کم ہو جائے اور یوں ایک کمزور حکومت قائم ہو۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کسی ایک پارٹی کی طرف سے ان انتخابات کی شفافیت پر الزام لگا کر مستقبل میں آنیوالی حکومت کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ سیاست کو بھی زوال پذیر روایات سے مزین کیا جاتا رہا ہے۔یاد رہے کہ اس سے........

© Daily Jang


Get it on Google Play