پچھلا کالم متناسب نمائندگی کے حوالے سے لکھا گیا، اس پر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر سے تبصرے موصول ہوئے مگر مجھے زیادہ حیرت اس وقت ہوئی جب میں نے سول سوسائٹی، سیاسی کارکنوں اور مقتدرہ کی کچھ شخصیات کے تبصرے متناسب نمائندگی کے حق میں دیکھے، مزید حیرت اس وقت ہوئی جب مجھے کچھ تبصرے پاکستان کی سب سے زیادہ مقبول اور زیر عتاب پارٹی کی طرف سے موصول ہوئے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستانیوں کی اکثریت کو یہ آئیڈیا پسند آیا۔ اس پسندیدگی کی بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان میں برس ہا برس سے اقلیت، اکثریت پر حکومت کر رہی ہے، ملک میں اکثریتی طبقات اقتدار سے محروم چلے آ رہے ہیں اور اقتدار میں شریک لوگ ایک فیصد سےبھی کہیں کم ہیں۔ جس ملک میں اکثریت کو اقتدار کی راہداریوں سے دور رکھا جائے وہاں سماجی اور قومی سطح پر ترقی، دیوانے کا خواب بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں اقلیت ملکی وسائل پر قابض ہو کر عوامی اکثریت کی بَھلائی بھول جاتی ہے، ہمارے سیاستدان عوامی بَھلائی سے زیادہ ذاتی مفادات کیلئے سیاست کرتے ہیں، اسی لئے سننے کو ملتا ہے کہ ملک میں مافیاز کا راج ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہمارے ہاں ناانصافی کا نظام ہے، نا انصافی کے یہ ثمرات شہروں اور دیہات میں اتر آئے ہیں، کبھی کسی نے لاہور شہر کے پولیس سربراہ سے پوچھا کہ تمہارے شہر سے اس مہینے کتنی گاڑیاں چوری ہوئی ہیں، کتنے موبائل اور پرس چھینے گئے ، کچھ افراد قتل بھی کر دیے گئے، آخر ایسا کیوں ہوا؟ جس کی گاڑی یا موبائل چھینا گیا وہ تو محروم ہو گیا مگر جو رکھوالی پر تھا اسے کوئی سزا ہی نہیں دی گئی، ہونا تو یہ چاہئے کہ ماہانہ جرائم کی پاداش میں ہر شہر کے پولیس سربراہ کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، ایک ایک چیز کا حساب مانگا جائے، اسی طرح مختلف شہروں میں زمینوں اور پلاٹوں پر قبضے کیے جاتے ہیں، کیا کبھی کسی نے دیکھا کہ اس جرم کی پاداش میں کسی پٹواری، تحصیلدار یا ڈی سی کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہو؟ بدقسمتی سے ہماری عدالتیں بھی ان جرائم کا نام ہی نہیں لیتیں اور نہ ہی کوئی جج سو موٹو ایکشن لیتا ہے، منتخب نمائندے بھی اس طرف دھیان نہیں دیتے ۔ سماج کی یہ بے رخی اور ناہمواری دیکھ کر عوام کی اکثریت کی خواہش ہے کہ متناسب نمائندگی کا نظام ہونا چاہیے تاکہ غریب اور متوسط طبقے کے افراد پارلیمنٹ کا حصہ بن سکیں اور ان مسائل پر بات ہو سکے جو اس ملک کے اکثریتی عوام کو در پیش ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری اطلاعات نور اللہ صدیقی نے متناسب نمائندگی کے حوالے سے لکھے گئے کالم پر مجھ سے بہت سے سوالات کیے، جب سب جواب آ چکے تو وہ کہنے لگے کہ ’’پارلیمنٹ میں بیٹھا ہوا مخصوص ٹولہ متناسب نمائندگی کے نظام کو قبول نہیں کرے گا، پاکستان کے بڑے بڑے جاگیردار اس نظام کے خلاف ہو جائیں گے، سرمایہ دار اور سرمائے سے جڑے ہوئے طبقات اس کی مخالفت کریں گے، ایسی صورتحال میں متناسب نمائندگی کا نظام کیسے رائج ہو سکتا ہے جب تک پارلیمنٹ منظور نہیں کرے گی یہ نظام نہیں آ سکے گا اور ہماری پارلیمنٹ کبھی نہیں چاہے گی کہ یہ نظام آئے۔ اس کا حل کیا ہے؟ ‘‘ میں نے ان سے عرض کیا کہ اس کا بڑا سادہ حل ہے، آئین پاکستان سپریم کورٹ آف پاکستان کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی اہم مسئلے پر ریفرنڈم کروا سکتی ہے، نظام سے بڑا مسئلہ کون سا ہو سکتا ہے جس پہ پورے سماجی ڈھانچے کو کھڑا ہونا ہے لہٰذا ایک گرینڈ ڈائیلاگ کے بعد آپ لوگ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں تاکہ نظام کی تبدیلی کے لئے ریفرنڈم کو یقینی بنایا جا سکے۔ اگر سپریم کورٹ چاہے تو وہ الیکشن سے پہلے اس بات پر ریفرنڈم کروا سکتی ہے، لوگوں سے پوچھ سکتی ہے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہونے چاہئیں، اس ریفرنڈم کے ذریعے ملک میں بسنے والے لوگوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر رائے سامنے آ جائے گی، بس اسی رائے کو سامنے رکھ کے نظام کو تبدیل کیا جائے۔ فی الحال جو نظام رائج ہے اگر اسے بھی متناسب نمائندگی پر لانا ہو تو پھر آپ کو الیکشن کے ذریعے کسی ایسی جماعت کو جتوانا ہو گا جو متناسب نمائندگی کے لئے قانون سازی کرے تاکہ اگر یہ نہیں تو اگلا الیکشن متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہو۔ اس وقت ایک زیر عتاب سیاسی جماعت بہت مقبول ہے، اس سیاسی جماعت کی مقبولیت ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھ جاتی ہے، ان کا نعرہ بھی ہے’’نظام بدلو، ووٹ کے ساتھ‘‘۔ اسی جماعت یعنی پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ متناسب نمائندگی کی بات کرے تاکہ عام لوگ پارلیمنٹ کا حصہ بن سکیں۔ اس مقبول جماعت کو چاہئے کہ وہ آئندہ الیکشن میں زیادہ ٹکٹس متوسط اور غریب طبقے کے افراد کو دے۔ اس مشکل کھیل میں سردار لطیف کھوسہ کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے وقت پروفیسر مقصود جعفری کا شعر یاد آرہا ہے کہ

سر ہتھیلی پر لیے گر جا سکو تو جاؤ تم

زندگی سے کھیلنا ہے اس طرف جانے میں آج

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

روس کے صدر ولادیمر پیوٹن نے ایک بار پھر صدارتی الیکشن لڑنے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرادیے ہیں۔

اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کے تباہ مکانات جنگجووں کی محفوظ پناہ گاہیں بن گئیں، اسرائیلی فوج کے کمانڈر کی ہمر جیپ کو اینٹی آرمر میزائل سے اڑادیا۔

چھانگا مانگا میں ڈاکوؤں نے باراتیوں کی بس لوٹ لی، متاثرہ افراد نے سڑک بلاک کرکے احتجاج کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف وہ کٹی پتنگ ہے جسے کروڑ پتیوں کی جانب سے لوٹا گیا، ناانصافی کے خلاف لڑتے رہیں گے

بانی پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین کی عدم موجودگی کے باعث گزشتہ سماعت پر فرد جرم عائد نہیں ہوسکی تھی۔

ترجمان افغان وزارت داخلہ نے کہا کہ پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں، افغان سرزمین کسی ملک بشمول پڑوسی ممالک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی آرمی چیف محکمہ خارجہ اور پینٹاگون سمیت دیگر عہدیداروں سے ملاقات کے لیے واشنگٹن میں تھے۔

ہیومن رائٹس واچ کا اسرائیل پر غزہ میں بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

نگراں وزیر فواد حسن فواد، مشیر احد چیمہ کو بھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔

اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ مقاصد کے حصول تک اسرائیل جنگ جاری رکھے گا۔ اسرائیل کی فتح امریکی قیادت میں آزاد دنیا کی فتح ہے۔

مقبول باقر نے کہا ہے کہ اکاؤنٹنٹ جنرل (اے جی) سندھ کے پیدا کردہ مسئلے کے باعث 30 بسیں پورٹ پر خراب ہو رہی ہیں۔

نامور گلوکار ارجیت سنگھ نے موسیقار اے آر رحمان کو بھارت میں آٹو ٹیون کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا۔

بڑے سائز کے پراٹھے کی تیاری کی یہ ویڈیو وائرل ہوگئی۔

بھارتی لوک سبھا میں سیکیورٹی کوتاہی کے واقعے پر وضاحت مانگنے پر اپوزیشن کے 79 ارکان معطل کر دیئے گئے۔

نگراں وزیراعظم دورے میں امیر کویت نواف الاحمد الجابر الصباح کی وفات پر تعزیت کریں گے۔

QOSHE - مظہر برلاس - مظہر برلاس
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مظہر برلاس

14 6
19.12.2023

پچھلا کالم متناسب نمائندگی کے حوالے سے لکھا گیا، اس پر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر سے تبصرے موصول ہوئے مگر مجھے زیادہ حیرت اس وقت ہوئی جب میں نے سول سوسائٹی، سیاسی کارکنوں اور مقتدرہ کی کچھ شخصیات کے تبصرے متناسب نمائندگی کے حق میں دیکھے، مزید حیرت اس وقت ہوئی جب مجھے کچھ تبصرے پاکستان کی سب سے زیادہ مقبول اور زیر عتاب پارٹی کی طرف سے موصول ہوئے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستانیوں کی اکثریت کو یہ آئیڈیا پسند آیا۔ اس پسندیدگی کی بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان میں برس ہا برس سے اقلیت، اکثریت پر حکومت کر رہی ہے، ملک میں اکثریتی طبقات اقتدار سے محروم چلے آ رہے ہیں اور اقتدار میں شریک لوگ ایک فیصد سےبھی کہیں کم ہیں۔ جس ملک میں اکثریت کو اقتدار کی راہداریوں سے دور رکھا جائے وہاں سماجی اور قومی سطح پر ترقی، دیوانے کا خواب بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں اقلیت ملکی وسائل پر قابض ہو کر عوامی اکثریت کی بَھلائی بھول جاتی ہے، ہمارے سیاستدان عوامی بَھلائی سے زیادہ ذاتی مفادات کیلئے سیاست کرتے ہیں، اسی لئے سننے کو ملتا ہے کہ ملک میں مافیاز کا راج ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہمارے ہاں ناانصافی کا نظام ہے، نا انصافی کے یہ ثمرات شہروں اور دیہات میں اتر آئے ہیں، کبھی کسی نے لاہور شہر کے پولیس سربراہ سے پوچھا کہ تمہارے شہر سے اس مہینے کتنی گاڑیاں چوری ہوئی ہیں، کتنے موبائل اور پرس چھینے گئے ، کچھ افراد قتل بھی کر دیے گئے، آخر ایسا کیوں ہوا؟ جس کی گاڑی یا موبائل چھینا گیا وہ تو محروم ہو گیا مگر جو رکھوالی پر تھا اسے کوئی سزا ہی نہیں دی گئی، ہونا تو یہ چاہئے کہ ماہانہ جرائم کی پاداش میں ہر شہر کے پولیس سربراہ کو........

© Daily Jang


Get it on Google Play