منصفانہ اور شفاف انتخابات ہمارا خواب ہی رہے ہیں۔ ہمارے بزرجمہر شفاف انتخابات کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنانے کے بجائے اپنی مرضی اور منشا کے مطابق انتخابی نتائج دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں اور اسی تناظر میں وہ انتخابات کیلئے ماحول تیار کرتے ہیں۔ انتخابات سے پہلے ہی نتائج کے بارے میں روڈ میپ تیار کرنا، انتخابی نتائج کو اپنی مرضی کا رنگ دینا، کسی کی حمایت میں انتخابی ماحول بنانا ہمیشہ سے ہمارے مقتدر حلقوں کا شیوہ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ انتخابی عمل کی ساکھ یا اس کی شفافیت پر ہمیشہ سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ اس وقت ایک مرتبہ پھر 2024ء کے انتخابات کا شور ہے۔ لیکن اس مرتبہ انتخابات کو ’’شفاف‘‘بنانے کیلئے عدالت عظمیٰ کے ایوانوں میں بہت پھرتی دکھائی جا رہی ہے۔ میاں نواز شریف پر قائم مقدمات غیر معمولی پھرتی سے ختم کیے جا رہے ہیں، جبکہ عمران خان کو معمولی ریلیف دینے میں بھی لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے۔ ایک طرف مسلم لیگ نون کو سازگار ماحول فراہم کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف تحریک انصاف کیلئے زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ اور یہ سب کچھ دھڑلے سے کیا جا رہا ہے اور دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ 2018ء میں بھی تو یہی ہوا تھا۔ کسی غلط عمل کی توجیہ ایک اور غلط عمل سے کرنا بذات خود ایک نامناسب طرز عمل ہے لیکن ان دنوں طرز عمل یہی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ایک کمزور جمہوری نظام اور کمزور حکومت کی تشکیل ہی ہماری مقتدرہ کی ترجیح ہے۔ ہمارا مجموعی سیاسی اور انتخابی نظام شفافیت سے دور ہے یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا سیاست، جمہوریت اور انتخابات کی شفافیت پرسے اعتماد اٹھ رہا ہے۔ اگر ہم نے عام انتخابات کو محض ایک سیاسی مشق بنانا ہے تو نہ صرف یہ جمہوری نظام کیساتھ ظلم ہوگا بلکہ ملک کی بنیادیں بھی کھوکھلی کرنے کے مترادف ہوگا۔ یہ مشق 1951ء میں دہرائی گئی۔1960 ء میں صدارتی انتخابات بھی محض مشق ثابت ہوئے۔1965ء میں ایک مرتبہ پھر ایوب خان اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے مابین صدارتی انتخابات میں بدترین دھاندلی اور ریاستی مشینری کے استعمال سے ایوب خان کو جتوایا گیا۔ جس پر حبیب جالب نے کہا

دھاندلی، دھونس، دھن سے جیت گیا

ظلم پھر مکر و فن سے جیت گیا

1970 ء کے انتخابات سانحہ مشرقی پاکستان پر منتج ہوئے۔1977ءکے انتخابی نتائج بھی تسلیم نہ کیے گئے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات نئی اشرافیہ کی وجہ پیدائش ثابت ہوئے۔ 1988ء ، 1990ء، 1993ء اور 1997ء کے انتخابت اسی بے فائدہ مشق کا حصہ رہے۔2002ءمیں ایک مرتبہ پھر جمہوری نظام کو وینٹیلیٹر پر ڈالا گیا اور مصنوعی آکسیجن سے زندہ رکھنے کی کوشش کی گئی۔2008ءمیں بے نظیر بھٹو کو راستے سے ہٹا کر انتخابات کروائے گئے۔ 2013ء کےانتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے گئے۔2018ء میں آر ٹی ایس بٹھانے کے الزامات لگائے گئے اور اب 8فروری 2024ء کیلئےسجائے گئے سٹیج سے پردہ اٹھنے کا انتظار ہے۔8فروری 2024ء کے انتخابات کیلئے لیول پلینگ فیلڈ کا تصور تو ختم ہو ہی گیا ہے ایک جماعت کو انتخابی مہم چلانے کی مکمل آزادی ہے اور دوسری جماعت آن لائن جلسوں کا سہارا لے رہی ہے اور سب سے افسوسناک عمل یہ ہے کہ ہماری عدلیہ اس وقت انتخابی شفافیت کو مجروح کرنے میں آلہ کار کا کردار ادا کر رہی ہے۔ یوں تو عدلیہ نے ہمیشہ غیر جمہوری قوتوںکیلئے سہولت کار کا کردار ہی ادا کیا ہے۔ یہاں سے عام آدمی کو ٹھنڈی ہوا کم ہی آتی ہے۔اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ ان کی بنیادی ترجیح رہا ہے۔خود اپنے ذاتی کردار کا یہ عالم ہے کہ ایک معزز جج صاحب اپنے بیٹے کو لاہور سے امریکہ تک سرکاری پروٹوکول دلوانے کیلئے باقاعدہ خط لکھتے ہیں۔ ایسی ذاتی رعایتیں حاصل کرنے والے لوگ انتخابی عمل شفاف بنانے کی’’ڈیوٹی‘‘ پر ہیں۔ انتخابی عمل کی شفافیت کے تابوت میں آخری کیل اس وقت ٹھونک دیا گیا جب انتظامی افسران کو آر او،ڈی آر او مقرر کیا گیا۔ بیرسٹر عمیر خان نیازی نے عدالت میں صرف اتنی سادہ سی استدعا کی تھی کہ انتظامی افسران کے بجائے عدالتی افسران کو انتخابی عمل کا نگران مقرر کیا جائے کیونکہ ماضی میں بھی عدالتی عملہ ہی یہ خدمات سرانجام دیتا تھا۔ لیکن اس درخواست کے بنیادی نقطہ پر توجہ دینے کے بجائے درخواست گزار کو ہی شو کاز نوٹس جاری کر دیا گیا۔ حالانکہ تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی جماعت کو ریٹرننگ افسران پر تحفظات ہیں تو وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہے۔ اس سے انتخابات کے التوا کا کوئی تعلق نہیں۔

ہمارے بعض منصف محض نمائشی اقدامات کے ذریعے عوامی اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے شائق ہیں۔ہزاروں کی تعداد میں مقدمات سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں اور قابل احترام منصفین ان مقدمات پر توجہ صرف کر رہے ہیں جن کے فیصلہ ہونے یہ نہ ہونے سے عام آدمی کی زندگی پر کوئی اثر مرتب ہوگا اور نہ ہی ملکی سیاسی نظام میں بہتری کی گنجائش نکلے گی۔موجودہ بحران سے نکلنے کا واحد حل ایسے شفاف انتخابات ہیں جن کی شفافیت پر کوئی سیاسی جماعت یا ادارہ سوال نہ اٹھا سکے۔ ہر سیاسی جماعت کو انتخابی عمل کا حصہ بننے کی آزادی ہو۔ اور ہر ووٹر کو یقین ہو کہ وہ جس جماعت کو ووٹ دے گا وہ اسی سیاسی جماعت کے حق میں شمار تصور ہوگا۔اگر اس مرتبہ بھی مصنوعی انتظام کے ذریعے کسی لاڈلے کو مسلط کرنے کی کوشش کی گئی یا ووٹر کی رائے کا احترام نہ کیا گیا تو یہ جمہوریت اور جمہوری نظام پر ایک خودکش حملہ ہوگا جس کا ہمارا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔

روس کے صدر ولادیمر پیوٹن نے ایک بار پھر صدارتی الیکشن لڑنے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرادیے ہیں۔

اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کے تباہ مکانات جنگجووں کی محفوظ پناہ گاہیں بن گئیں، اسرائیلی فوج کے کمانڈر کی ہمر جیپ کو اینٹی آرمر میزائل سے اڑادیا۔

چھانگا مانگا میں ڈاکوؤں نے باراتیوں کی بس لوٹ لی، متاثرہ افراد نے سڑک بلاک کرکے احتجاج کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف وہ کٹی پتنگ ہے جسے کروڑ پتیوں کی جانب سے لوٹا گیا، ناانصافی کے خلاف لڑتے رہیں گے

بانی پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین کی عدم موجودگی کے باعث گزشتہ سماعت پر فرد جرم عائد نہیں ہوسکی تھی۔

ترجمان افغان وزارت داخلہ نے کہا کہ پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں، افغان سرزمین کسی ملک بشمول پڑوسی ممالک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی آرمی چیف محکمہ خارجہ اور پینٹاگون سمیت دیگر عہدیداروں سے ملاقات کے لیے واشنگٹن میں تھے۔

ہیومن رائٹس واچ کا اسرائیل پر غزہ میں بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

نگراں وزیر فواد حسن فواد، مشیر احد چیمہ کو بھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔

اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ مقاصد کے حصول تک اسرائیل جنگ جاری رکھے گا۔ اسرائیل کی فتح امریکی قیادت میں آزاد دنیا کی فتح ہے۔

مقبول باقر نے کہا ہے کہ اکاؤنٹنٹ جنرل (اے جی) سندھ کے پیدا کردہ مسئلے کے باعث 30 بسیں پورٹ پر خراب ہو رہی ہیں۔

نامور گلوکار ارجیت سنگھ نے موسیقار اے آر رحمان کو بھارت میں آٹو ٹیون کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا۔

بڑے سائز کے پراٹھے کی تیاری کی یہ ویڈیو وائرل ہوگئی۔

بھارتی لوک سبھا میں سیکیورٹی کوتاہی کے واقعے پر وضاحت مانگنے پر اپوزیشن کے 79 ارکان معطل کر دیئے گئے۔

نگراں وزیراعظم دورے میں امیر کویت نواف الاحمد الجابر الصباح کی وفات پر تعزیت کریں گے۔

QOSHE - پیر فاروق بہاو الحق شاہ - پیر فاروق بہاو الحق شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

پیر فاروق بہاو الحق شاہ

17 1
19.12.2023

منصفانہ اور شفاف انتخابات ہمارا خواب ہی رہے ہیں۔ ہمارے بزرجمہر شفاف انتخابات کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنانے کے بجائے اپنی مرضی اور منشا کے مطابق انتخابی نتائج دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں اور اسی تناظر میں وہ انتخابات کیلئے ماحول تیار کرتے ہیں۔ انتخابات سے پہلے ہی نتائج کے بارے میں روڈ میپ تیار کرنا، انتخابی نتائج کو اپنی مرضی کا رنگ دینا، کسی کی حمایت میں انتخابی ماحول بنانا ہمیشہ سے ہمارے مقتدر حلقوں کا شیوہ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ انتخابی عمل کی ساکھ یا اس کی شفافیت پر ہمیشہ سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ اس وقت ایک مرتبہ پھر 2024ء کے انتخابات کا شور ہے۔ لیکن اس مرتبہ انتخابات کو ’’شفاف‘‘بنانے کیلئے عدالت عظمیٰ کے ایوانوں میں بہت پھرتی دکھائی جا رہی ہے۔ میاں نواز شریف پر قائم مقدمات غیر معمولی پھرتی سے ختم کیے جا رہے ہیں، جبکہ عمران خان کو معمولی ریلیف دینے میں بھی لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے۔ ایک طرف مسلم لیگ نون کو سازگار ماحول فراہم کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف تحریک انصاف کیلئے زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ اور یہ سب کچھ دھڑلے سے کیا جا رہا ہے اور دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ 2018ء میں بھی تو یہی ہوا تھا۔ کسی غلط عمل کی توجیہ ایک اور غلط عمل سے کرنا بذات خود ایک نامناسب طرز عمل ہے لیکن ان دنوں طرز عمل یہی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ایک کمزور جمہوری نظام اور کمزور حکومت کی تشکیل ہی ہماری مقتدرہ کی ترجیح ہے۔ ہمارا مجموعی سیاسی اور انتخابی نظام شفافیت سے دور ہے یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا سیاست، جمہوریت اور انتخابات کی شفافیت پرسے اعتماد اٹھ رہا ہے۔ اگر ہم نے عام انتخابات کو محض ایک سیاسی مشق بنانا ہے تو نہ صرف یہ جمہوری نظام کیساتھ ظلم ہوگا بلکہ ملک کی بنیادیں بھی کھوکھلی کرنے کے مترادف ہوگا۔ یہ مشق 1951ء میں دہرائی گئی۔1960 ء میں........

© Daily Jang


Get it on Google Play