جون 2011ءمیں اس وقت کے صدرآصف علی زرداری نے سپریم کورٹ میں ایک صدارتی ریفرنس دائر کیا۔ جس میں انھوں نے فروری 1979ء میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کی طرف سے 4-3 کے فیصلے پر شہید ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت پر نظرثانی کی درخواست کی کیونکہ اپریل 1979ءمیں بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی ، اس مقدمے کو ہمیشہ عدالتی قتل قرار دیا جاتا رہا اور خود اس بینچ کے ایک جج نے اس عدالتی قتل پر کھل کر رائے پیش کی، جن کا نام نسیم حسن شاہ ہے۔پاکستان کی تاریخ میں یہ واحد مثال ہے کہ ملک کے کسی سابق وزیراعظم کو پھانسی دی گئی اوراس کیس کو لاہور ہائی کورٹ کو ٹرائل کورٹ میںتبدیل کرکے اس وقت کے آمر کے اشارے پہ آئین کو پامال کردیا گیا ، شہید بھٹواگست 1973 میں پاکستان کے نویں وزیر اعظم بنے۔تاہم، چار سالہ ہنگامہ خیز دور کے بعد، بھٹو کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا جب ان کے منتخب آرمی چیف، جنرل ضیاء الحق نے جولائی 1977میں حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے فوجی بغاوت کی۔دو ماہ بعد معزول وزیراعظم کو سیاسی حریف کے قتل کے پیچھے ماسٹر مائنڈ ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ ایک متنازع مقدمے میں جسے بہت سے مبصرین اور قانونی ماہرین نے ناقص قرار دیا، اسے ان الزامات کا مجرم قرار دیا گیا اور مارچ1978میں اسے موت کی سزا سنادی گئی۔اس کے بعد، بھٹو کی سپریم کورٹ میں سات رکنی بینچ کے سامنے اپیل فروری 1979 میں ان کے خلاف 4-3 کے فیصلے کے ساتھ خارج کر دی گئی، اور دو ماہ بعد انہیں راولپنڈی میں پھانسی دے دی گئی۔ پھانسی تو بھٹو کو دی گئی مگر سولی پہ پورے پاکستان کو چڑھا دیا گیا کیوں کہ اس ناحق قتل کے بعد پاکستان میں کبھی سکون واپس نہ آیا ۔ قانونی ماہرین نے برسوں لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ دونوں میں مقدمے کی سماعت پر سوالات اٹھائے اور مارشل لاء کے تحت طے پانے والے ہائی پروفائل کیس میں ہونے والے طرز عمل اور طریقہ کار کی خامیوں پر متعدد سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔ درحقیقت، بھٹو کی سزائے موت پر فروری 1979 کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اس کے بعد کے کسی بھی مقدمے میں دوبارہ کبھی پیش نہیں کیا گیا۔تین دہائیوں سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد، جس کے دوران بھٹو کی بیٹی بے نظیر، جو خود ملک کی دو مرتبہ وزیر اعظم رہ چکی ہیں، کو 2007 میں ایک سیاسی ریلی کے دوران گولی مار کر شہید کر دیا گیا ، پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نے جون 2011 میں سپریم کورٹ میں اس موت پر نظرثانی کا ریفرنس دائر کیا تھا۔ جس میں پانچ نکتے اٹھاتے گئے، ریفرنس کا مقصد 1979کے فیصلے کی قانونی حیثیت پر سپریم کورٹ کے 11 رکنی بنچ کی رائے حاصل کرنا تھا۔ تاہم، صرف 7سماعتیں ہوئیں، جن میں سے آخری بروز منگل کم و بیش 11سال بعد ہوئی۔ سپریم کورٹ کا بینچ تبدیل ہوتا رہا اور اس کے ساتھ ہی سماعتیں رکتی گئیں، کئی چیف جسٹس آئے اور چلے گئے مگر شہید ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف نہ مل سکا۔سندھ کی عوام قاضی فائز عیسیٰ کے مشکور ہیں کہ انھوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے ریفرنس کو دوبارہ کھلی عدالت میں سننے کا فیصلہ کیا جس کی اب اگلی تاریخ جنوری میں طے ہوئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب بھی تاریخ پر تاریخ دی جائے گی یا شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر انھیں انصاف فراہم کیا جائے گا، کون نہیں جانتا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کا قاتل صرف ضیاءالحق نہیں ہے، سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتیں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے قتل میں براہ راست ملوث ہیں، جنہیں شہید ذوالفقار علی بھٹو سے خطرہ تھا کہ یہ شخص تیسری دنیا کی ایک بھرپور قیادت بن کر ابھرا تھا، جس نے پاکستان کو ایٹم بم دیا تھا، جس نے آمریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی اور وطن فروشی کے بجائے پھانسی پر چڑھنا قبول کیا۔شہید ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف فراہم کرنا کسی عام شخص کی بات نہیں، کیوں کہ اس عدالتی قتل میں عالمی قوتیں ملوث ہیں، جنہیں ضیاءالحق جیسا آمر مل گیا، شہید ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کو صرف قتل قرار دینا کسی صورت انصاف تصور نہیں ہوگا بلکہ اس عدالتی قتل میں تمام عالمی محرکات اور کون کون کس طرح اس عالمی سازش کا حصہ بنا یہ تمام تفصیل سامنے آئے گی تو ہی شہید ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف مل سکے گا ورنہ صرف اسے ایک نا انصافی یا قتل قرار دینا کسی صورت انصاف نہیں کہلائے گا ۔مجھے امید ہےعدلیہ ہی میں یہ جرات ہے کہ وہ اس عالمی سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے تمام اندرونی اور بیرونی کرداروں کے منہ سے پردہ اٹھائے گی ورنہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی قبر کو کسی فیصلے کی ضرورت نہیں کیوں کہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ اسے نا حق قتل کیا گیا۔تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم کو یہ بتایا جائے کہ اس کو کیوں قتل کیا گیا اور کون کون سے قومی مجرم اور ادارے اس عالمی سازش کا حصہ تھے۔

روس کے صدر ولادیمر پیوٹن نے ایک بار پھر صدارتی الیکشن لڑنے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرادیے ہیں۔

اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کے تباہ مکانات جنگجووں کی محفوظ پناہ گاہیں بن گئیں، اسرائیلی فوج کے کمانڈر کی ہمر جیپ کو اینٹی آرمر میزائل سے اڑادیا۔

چھانگا مانگا میں ڈاکوؤں نے باراتیوں کی بس لوٹ لی، متاثرہ افراد نے سڑک بلاک کرکے احتجاج کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف وہ کٹی پتنگ ہے جسے کروڑ پتیوں کی جانب سے لوٹا گیا، ناانصافی کے خلاف لڑتے رہیں گے

بانی پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین کی عدم موجودگی کے باعث گزشتہ سماعت پر فرد جرم عائد نہیں ہوسکی تھی۔

ترجمان افغان وزارت داخلہ نے کہا کہ پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں، افغان سرزمین کسی ملک بشمول پڑوسی ممالک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی آرمی چیف محکمہ خارجہ اور پینٹاگون سمیت دیگر عہدیداروں سے ملاقات کے لیے واشنگٹن میں تھے۔

ہیومن رائٹس واچ کا اسرائیل پر غزہ میں بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

نگراں وزیر فواد حسن فواد، مشیر احد چیمہ کو بھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔

اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ مقاصد کے حصول تک اسرائیل جنگ جاری رکھے گا۔ اسرائیل کی فتح امریکی قیادت میں آزاد دنیا کی فتح ہے۔

مقبول باقر نے کہا ہے کہ اکاؤنٹنٹ جنرل (اے جی) سندھ کے پیدا کردہ مسئلے کے باعث 30 بسیں پورٹ پر خراب ہو رہی ہیں۔

نامور گلوکار ارجیت سنگھ نے موسیقار اے آر رحمان کو بھارت میں آٹو ٹیون کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا۔

بڑے سائز کے پراٹھے کی تیاری کی یہ ویڈیو وائرل ہوگئی۔

بھارتی لوک سبھا میں سیکیورٹی کوتاہی کے واقعے پر وضاحت مانگنے پر اپوزیشن کے 79 ارکان معطل کر دیئے گئے۔

نگراں وزیراعظم دورے میں امیر کویت نواف الاحمد الجابر الصباح کی وفات پر تعزیت کریں گے۔

QOSHE - محمد خان ابڑو - محمد خان ابڑو
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

محمد خان ابڑو

12 5
19.12.2023

جون 2011ءمیں اس وقت کے صدرآصف علی زرداری نے سپریم کورٹ میں ایک صدارتی ریفرنس دائر کیا۔ جس میں انھوں نے فروری 1979ء میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کی طرف سے 4-3 کے فیصلے پر شہید ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت پر نظرثانی کی درخواست کی کیونکہ اپریل 1979ءمیں بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی ، اس مقدمے کو ہمیشہ عدالتی قتل قرار دیا جاتا رہا اور خود اس بینچ کے ایک جج نے اس عدالتی قتل پر کھل کر رائے پیش کی، جن کا نام نسیم حسن شاہ ہے۔پاکستان کی تاریخ میں یہ واحد مثال ہے کہ ملک کے کسی سابق وزیراعظم کو پھانسی دی گئی اوراس کیس کو لاہور ہائی کورٹ کو ٹرائل کورٹ میںتبدیل کرکے اس وقت کے آمر کے اشارے پہ آئین کو پامال کردیا گیا ، شہید بھٹواگست 1973 میں پاکستان کے نویں وزیر اعظم بنے۔تاہم، چار سالہ ہنگامہ خیز دور کے بعد، بھٹو کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا جب ان کے منتخب آرمی چیف، جنرل ضیاء الحق نے جولائی 1977میں حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے فوجی بغاوت کی۔دو ماہ بعد معزول وزیراعظم کو سیاسی حریف کے قتل کے پیچھے ماسٹر مائنڈ ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ ایک متنازع مقدمے میں جسے بہت سے مبصرین اور قانونی ماہرین نے ناقص قرار دیا، اسے ان الزامات کا مجرم قرار دیا گیا اور مارچ1978میں اسے موت کی سزا سنادی گئی۔اس کے بعد، بھٹو کی سپریم کورٹ میں سات رکنی بینچ کے سامنے اپیل فروری 1979 میں ان کے خلاف 4-3 کے فیصلے کے ساتھ خارج کر دی گئی، اور دو ماہ بعد انہیں راولپنڈی میں پھانسی دے دی گئی۔ پھانسی تو بھٹو کو دی گئی مگر سولی پہ پورے پاکستان کو چڑھا دیا گیا کیوں کہ اس ناحق قتل کے بعد پاکستان میں کبھی سکون واپس نہ آیا ۔ قانونی ماہرین نے........

© Daily Jang


Get it on Google Play