برادرم یاسر پیرزادہ خوب لکھتے ہیں۔ تاریخ اور معاشرت کی پیچیدہ گتھیاں اس سہولت سے کھولتے چلے جاتے ہیں کہ باید و شاید۔ روز مرہ مشاہدات سے ایسے نادر نکات برآمد کرتے ہیں کہ بے ساختہ خواہش ہوتی ہے کہ اسلام آباد کی کسی بیانیہ ساز یونیورسٹی میں صحافت کے ان پیران فرتوت کے لئے ایک خصوصی ڈپلومہ کورس منعقد کر کے انہیں یاسر پیرزادہ کے کالم بطور لازمی نصاب بالجہرپڑھائے جائیں جو عشروں سے کورے کاغذ کی معصومیت کو موصولہ آموختہ کی سیاہی سے آلودہ کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن ’ہر چہ از دل خیزد بر دل ریزد‘ کی نعمت سے محروم ہیں۔ یاسر پیرزادہ کبھی کبھی ادائے ناز آفریں سے گریز کرتے ہوئے جسد اجتماعی کی جراحی بھی کرتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایسا ہی ایک کالم بعنوان ’دو قومی نظریے کے بیانیے کے شیئر ہولڈرز‘ ارزاں کیا۔ لطف آ گیا۔ اس کالم میں انہوں نے قوم کو بتائے گئے داخلی بیانیے کے خدوخال تو بیان کئے، لیکن یہ بتانا ابھی باقی ہے کہ ہم نے قوم کو بیرونی دنیا کا گمراہ کن ’’جغرافیہ‘‘ بھی پڑھایا۔ جس کا نتیجہ یہ کہ ہماری خارجہ پالیسی ہر موقع پر زمیں بوس ہو جاتی ہے۔

گزارش ہے کہ خارجہ پالیسی کے ضمن میں 21 مئی 1947 کو قائداعظم کے ڈوم کیمبل سے انٹرویو پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ اس تاریخی انٹرویو میں ایک سوال پان اسلام ازم کے حوالے سے بھی تھا۔ بابائے قوم نے دو ٹوک لفظوں میں کہا کہ پان اسلام ازم کا نظریہ مدت ہوئی بے معنی ہوچکا البتہ تمام مسلم ممالک کے ساتھ باہمی مفاد کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات رکھے جائیں گے۔ گویا بانی پاکستان کو مسلم امہ کے مفروضہ نظریے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ تو نومولود پاکستان میں غیر جمہوری دھارے کی سیاسی قیادت کا نعرہ تھا جسے سرد جنگ میں سرمایہ دار دنیا کی مذہب پسند پالیسی نے تقویت دی۔ پاکستان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ستمبر 1954 میں سیٹو اور مئی 1955 میں سینٹو کاحصہ بنا۔ آج کوئی بتائے کہ ان معاہدوں میں شرکت سے پاکستان کو کیا ملا۔ نام نہاد مذہبی رشتے کی بنیاد پر اپنا گھر پھونکنے کا اگلا تماشا اکتوبر 1956کا سویز بحران تھا۔ طاقتور صدر سکندر مرزا نے وزیراعظم سہروردی کو بے بس کر کے رکھ دیا۔ 2 نومبر کو کراچی میں وزیراعظم سہروردی کے گھر کے باہر مظاہرہ کیا گیا جہاں سہروردی نے دولت مشترکہ سے الگ ہونے کا اعلان کیا ادھر ایران میں بیٹھے سکندر مرزا برطانوی وزیراعظم انتھونی ایڈن کو یقین دلا رہے تھے کہ ایسا نہیں ہو گا۔ 9 نومبر کو ملک بھر میں یوم مصر منایا گیا لیکن جمال ناصر نے سہروردی کے دورہ مصر کی تجویز مسترد کر دی اور دہلی کا دورہ کر کے مسئلہ کشمیر پر بھارت کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ یہ رہا ہمارا اسلامی رشتہ اور طاقت کا عالمی کھیل۔ 58ء میں اقتدار سنبھالتے ہی ایوب نے بڈابیر کا اڈا امریکیوں کے حوالے کر دیا۔ یہیں سے پرواز کرنے والا یو ٹو طیارہ یکم مئی 1960 کو سوویت یونین میں گرایا گیا تو خروشیف نے پشاور پر سرخ نشان لگانے کی دھمکی دی تھی۔ ایوب خان نے تاشقند میں سوویت یونین سے اس معاملے پر باقاعدہ معذرت کی تھی۔ 1965 کی جنگ میں امریکیوں نے پاکستان اور بھارت کو ہتھیاروں کی رسد روک لی۔ بھارت کو روس سے ہتھیار مل رہے تھے لیکن پاکستان بے دست و پا ہو کر رہ گیا۔ یہ تھی فیلڈ مارشل کی خارجہ پالیسی۔ یحییٰ خان سمجھتے تھے کہ جولائی 1971 میں ہنری کسنجر کے دورہ پیکنگ میں معاونت کر کے انہوں نے امریکہ سے دوستی گانٹھ لی ہے لیکن اندرا گاندھی نے اگست 1971 میں روس سے معاہدہ کر کے مشرقی پاکستان کے بحران میں پاکستان کی مشکیں کس دیں۔ چین والے سیاسی حل کی دہائی دیتے رہے اور نکسن کسنجر کے ساتھ بیٹھے اندرا گاندھی کو گالیاں دیتے رہے، ڈھاکہ ڈوب گیا۔ فروری 74ء کی اسلامی کانفرنس کا کھیل بنگلہ دیش تسلیم کرنے کے لئے رچایا گیا تھا۔ ضیاالحق افغان جہاد میں کودے تو ان کا مقصد اپنے اقتدار کے لیے مغرب کی حمایت حاصل کرنا تھا۔ سوویت یونین افغانستان سے نکل گیا تو امریکہ بہادر نے بھی رخصت چاہی۔ ہم چیختے رہ گئے کہ امریکی ہمیں چھوڑ گئے۔ کبھی مالک مکان بھی کرائے دار کے مکان چھوڑنے پر احتجاج کرتا ہے۔ نام نہاد مجاہدین کی مدد سے مشرقی سرحد پر تزویراتی گہرائی کا نادر خیال تو حمید گل کی تخلیق تھا۔ دنیا اس میں ہماری کیا مدد کرتی۔ کبھی سوچا کہ جنوری 2004ء میں واجپائی کے دورہ پاکستان کے بعد کشمیر میں دراندازی کیونکر ختم ہوئی۔ پرویز مشرف کو نائن الیون کے بعد افغان جنگ سے اپنے اقتدار کو طول دینے کا نسخہ مل گیا تھا۔ ہم بیس برس تک امریکہ اور نیٹو کی مدد کا کھیل کھیلتے رہے۔ بچہ بچہ جانتا تھا کہ افغانستان میں برسرپیکار طالبان کے حقیقی ٹھکانے کہاں واقع ہیں۔ جولائی 2021 میں امریکہ کے افغانستان سے رخصت ہونے پر ہم نے غلامی کی زنجیریں توڑنے کا اعلان کیا تھا۔ دو عشروں پر محیط دوہری پالیسی کا نتیجہ یہ کہ آج ہم نہیں جانتے کہ کیا ہم افغانستان پر قابض طالبان حکومت کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ نے اپنے دستور کا آرٹیکل 370 ختم کر دیا اور ہم بیانات دینے کے سوا کچھ نہیں کر سکے۔ ہم نے پاکستان کے لوگوں کو داخلی پالیسیوں ہی پر بے خبر نہیں رکھا، خارجہ معاملات پر بھی گمراہ کیا۔ نتیجہ یہ کہ ہماری قومی ساکھ کی ٹھیکریاں چوراہے میں بکھری ہیں۔ ہماری معیشتBasket case ہے۔ ہمارے متعدد سابق سیکرٹری خارجہ سیاسی معاملات پر ایسے لہجے میں بنکار رہے ہیں جو سفارت کاری کی زبان ہی نہیں۔ تین امریکی صدر آئزن آور، کینیڈی اور جانسن سرعام سوال اٹھا چکے ہیں کہ پاکستان کی مدد کرنے سے انہیں کیا حاصل ہو گا۔ چھ امریکی صدر یعنی کارٹر، بش سینئر، کلنٹن، بش جونیئر، اوباما اور ٹرمپ پوچھ چکے ہیں کہ کیا پاکستانی قیادت پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ اچھی خارجہ پالیسی کا ایک ہی اصول ہے، غیرضروری معاملات میں بے مقصد نعرے بازی کی بجائے اپنے ملک کو سیاسی استحکام اور پیداواری معیشت کے راستے پر ڈالنا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

امریکی ریاست کولراڈو کی سپریم کورٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی الیکشن کی پرائمری کے لیے نااہل قرار دیدیا۔

فرانس میں بھی امیگرینٹس کیخلاف قوانین مزید سخت کیے جانے لگے، ایوان زیریں نے بل منظور کرلیا۔

رپورٹس کے مطابق اسرائیل اور امریکا قرارداد میں جنگ بندی کی اصطلاح استعمال کرنے کے مخالف ہیں۔

جنوبی افریقہ نے بھارت کو سیریز کے دوسرے ون ڈے انٹرنیشنل میں 8 وکٹ سے شکست دے دی۔

شارع فیصل پر عمارت میں لگی آگ پر فائر بریگیڈ کی پانچ گاڑیوں نے تقریباً ایک گھنٹے کی جدوجہد کے بعد قابو پالیا، عمارت کی چھت پر جانے والے تین افراد کو بھی ریسکیو کرلیا گیا۔

سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے بجلی 4 روپے 66 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی درخواست جمع کرادی۔

گجرات سے تحریک انصاف( پی ٹی آئی) کے سابق رکن قومی اور صوبائی اسمبلی نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کردیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سینئر وکیل خامد خان نے کہا ہے کہ ہم انتخابات کا التوا نہیں چاہتے، پارٹی کو بلے کا انتخابی نشان ملنا چاہیے۔

پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ حسن رضا پاشا نے کہا ہے کہ تاثر ہے کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار انتخابات کا التوا چاہتی ہے۔

دوحہ سے کراچی آنے والے قطر ایئر ویز کے طیارے سے پرندہ ٹکرا گیا تاہم طیارے کو باحفاظت لینڈ کروا دیا گیا۔

راولپنڈی پولیس کا لاپتہ سابق پولیس اہلکار 7 سال بعد بازیاب کرالیا گیا۔

قرارداد پاکستان اور فلپائن نے اسپانسر کی تھی۔

عالمی ادارے ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ غزہ تنازع بین الاقوامی برادری کی اخلاقی ناکامی ہے۔ ریڈ کراس کی صدر مرجانہ اسپولجرچ ایگر نے دورہ غزہ اور اسرائیل کے بعد جینوا پہنچنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران کہی۔

کوئٹہ سے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ اسلام آباد سے وفاقی وزارت ہیلتھ سروسز کے ترجمان کے مطابق کوئٹہ سے سیوریج کے پانی کے 2 نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا۔

پولیس حکام کے مطابق حادثہ درخشان تھانے کی حدود میں خیابان شمشیر پر پیش آیا۔

سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی نے عام انتخابات کے حوالے سے اعلامیہ جاری کردیا۔

QOSHE - وجاہت مسعود - وجاہت مسعود
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

وجاہت مسعود

17 1
20.12.2023

برادرم یاسر پیرزادہ خوب لکھتے ہیں۔ تاریخ اور معاشرت کی پیچیدہ گتھیاں اس سہولت سے کھولتے چلے جاتے ہیں کہ باید و شاید۔ روز مرہ مشاہدات سے ایسے نادر نکات برآمد کرتے ہیں کہ بے ساختہ خواہش ہوتی ہے کہ اسلام آباد کی کسی بیانیہ ساز یونیورسٹی میں صحافت کے ان پیران فرتوت کے لئے ایک خصوصی ڈپلومہ کورس منعقد کر کے انہیں یاسر پیرزادہ کے کالم بطور لازمی نصاب بالجہرپڑھائے جائیں جو عشروں سے کورے کاغذ کی معصومیت کو موصولہ آموختہ کی سیاہی سے آلودہ کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن ’ہر چہ از دل خیزد بر دل ریزد‘ کی نعمت سے محروم ہیں۔ یاسر پیرزادہ کبھی کبھی ادائے ناز آفریں سے گریز کرتے ہوئے جسد اجتماعی کی جراحی بھی کرتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایسا ہی ایک کالم بعنوان ’دو قومی نظریے کے بیانیے کے شیئر ہولڈرز‘ ارزاں کیا۔ لطف آ گیا۔ اس کالم میں انہوں نے قوم کو بتائے گئے داخلی بیانیے کے خدوخال تو بیان کئے، لیکن یہ بتانا ابھی باقی ہے کہ ہم نے قوم کو بیرونی دنیا کا گمراہ کن ’’جغرافیہ‘‘ بھی پڑھایا۔ جس کا نتیجہ یہ کہ ہماری خارجہ پالیسی ہر موقع پر زمیں بوس ہو جاتی ہے۔

گزارش ہے کہ خارجہ پالیسی کے ضمن میں 21 مئی 1947 کو قائداعظم کے ڈوم کیمبل سے انٹرویو پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ اس تاریخی انٹرویو میں ایک سوال پان اسلام ازم کے حوالے سے بھی تھا۔ بابائے قوم نے دو ٹوک لفظوں میں کہا کہ پان اسلام ازم کا نظریہ مدت ہوئی بے معنی ہوچکا البتہ تمام مسلم ممالک کے ساتھ باہمی مفاد کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات رکھے جائیں گے۔ گویا بانی پاکستان کو مسلم امہ کے مفروضہ نظریے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ تو نومولود پاکستان میں غیر جمہوری دھارے کی سیاسی قیادت کا نعرہ تھا جسے سرد جنگ میں سرمایہ دار دنیا کی مذہب پسند پالیسی نے تقویت دی۔ پاکستان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ستمبر 1954 میں سیٹو اور مئی 1955 میں سینٹو کاحصہ بنا۔ آج کوئی بتائے کہ ان معاہدوں میں شرکت سے پاکستان کو کیا ملا۔ نام نہاد مذہبی رشتے کی بنیاد پر اپنا گھر پھونکنے کا........

© Daily Jang


Get it on Google Play