ان دنوں احباب مستقبل کے سیاسی منظر نامے کی جانکاری کیلئے مختلف النوع سوالات پوچھتے ہیں۔ یہ کہ کوئی بھی بڑی سیاسی پارٹی بڑے سیاسی جلسے کیوں نہیں کر پا رہی ؟ کیا آنیوالے دنوں میں بشمول پی ٹی آئی سب کو لیول پلیننگ فیلڈ ملے گی ؟ آپ نواز شریف اور سابق کھلاڑی کےساتھ حسن سلوک ہوتے ملاحظہ کر رہے ہیں اور اسے کتنا منصفانہ سمجھتے ہیں ؟ آپ 8فروری 2024ء کا دن کیسے دیکھ رہے ہیں کیا انتخابات شفاف ہونگے اور جیت کس کی ہو گی؟اگلی حکومت مخلوط بنے گی یا مضبوط؟کیا اس کے بعد ہارنے و الے دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے سڑکوں پر نہیں نکلیں گے؟ کیا ہماری تقدیر سنورنے جا رہی ہے یا مزید بگڑنے ؟؟

اس نوع کے سوالات ان دنوں قریباً ہر ذی شعور پاکستانی کی سوچوں سے ٹکرا رہے ہیں، اس سے پہلے یہ سوال بھی تھا کہ کیا 8فروری کو واقعی انتخابات ہو جائیںگے ؟الحمدللہ ہماری سپریم جوڈیشنری کی مہربانی سےیہ اعلان پتھر پر لکیر کی طرح ثبت ہو چکا ہے کسی بھی حلقے یا گوشے میں اس نوع کا کوئی ابہام تھا تو وہ پوری طرح کلیئر ہو چکا ہے ۔ اب آندھی آئے یا طوفان ہمارے قومی و صوبائی انتخابات بہرصورت 8فروری کو ہی ہونگے التوا یا تاخیر کا واہمہ تمام اذہان سے کلی طور پر نکل جانا چاہئے ۔آرمی چیف کے حالیہ دورہ امریکہ سے متعلق دیگر بہت سے موضوعات جوڑے،، پوچھے اور اٹھائے جا سکتے ہیں مگر جو لوگ انتخابات کو ادھر ادھر جوڑ رہے ہیں وہ زیادتی کر رہے ہیں ۔

جہاں تک بڑی سیاسی پارٹیوں کے بڑے بڑے جلسوں کاسوال ہے اس کا جواب ہر پاکستانی کو سال نو کے آغاز میں ہی مل جائے گا نہ صرف وہ اپنے تمام شہروں میں بڑے بڑے جلسے ملاحظہ کر رہے ہونگے بلکہ انتخابی مہمات کی سرگرمیوں سے بھی ہمارا میڈیا گونج رہا ہو گا ،کس کے جلسے بڑے او رکس کے چھوٹے ہونگے بلاشبہ یہ بھی واضح ہے، بڑے جلسوں کی افادیت اپنی جگہ مگر یہ مقبولیت پرکھنے کا واحد یا آخری پیمانہ قرار نہیں دیا جا سکتا، بڑے جلسے تو ہم ہمیشہ سے جماعت اسلامی کے بھی ہوتے دیکھ رہے ہیں لیکن جتنی سیٹیں وہ لیتے ہیں وہ سب پر واضح ہیں۔

آج کے کالم میں یہ درویش تو سو سوالوں سے بڑے ایک سوال کا جواب دینا چاہتا ہے جو کوئی نہیں پوچھ رہا، یہ کہ ہمارے لوگ کسی لیڈر یا پارٹی کو ووٹ کیوں دیتے ہیںیا پسند کیوں کرتے ہیںاور کیا جس کو پسند کرتے ہیں ووٹ بھی اسی کو دیتے ہیں؟ سب سے پہلی بات یہ کہ ہمارے برصغیرکے لوگ بشمول انڈیا و بنگلہ دیش اور اگر پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائےتو بالخصوص پنجاب اور سندھ کےلوگ کسی دوسرے کو نہ تو پسند کرتے ہیں اور نہ ہی ووٹ دیتے ہیں، یہ بڑے ہوشیار لوگ ہیں یہ خود کو ہی پسند کرتے ہیں اور خود کو ہی ووٹ دیتے ہیں، بلاشبہ دھڑلے کے لوگ بھی ہوتے ہیں اور وہ بہرصورت اپنے دھڑلے کی جیت کو اپنی ذاتی جیت خیال کرتے ہوئے اس کیلئے لڑ مرتے ہیں بالخصو ص ہمارے دیہات میں ہنو ز دھڑلے کی سیات اتنی شدید ہے کہ لیڈران و امیدواران تو پھر بھی مل بیٹھ کر چائے بھی پی لیتے ہیں لیکن بعض مقامات پر برادری ازم کی شمولیت کے ساتھ اور بعض جگہ کسی اور تعصب کے کارن دھڑلے بازوں کی رنجشیں اگلے انتخابات تک چل رہی ہوتی ہیں۔اس کےمقابل شہروں میں بلاشبہ کچھ نظریاتی ووٹ بھی ہوتا ہے جو سردی گرمی فائدے ، نقصان سے بے نیاز ہے۔ تاہم بڑا عوامی ریلا جو کسی کی ہار جیت میں فیصلہ کن کہا جاسکتا ہے وہ صرف اپنی ذات کا سگا ہوتا ہے اور ووٹ اسی کو دیتا ہے جس سے اس کے مفادات جڑے ہوتے ہیں بالخصوص ہمارے دیہات میں تو تھانے کچہری کی بڑی اہمیت ہے اس طرح بچوں کی نوکری وغیرہ کے مسائل ہیں وہ سوچتے ہیں کہ ہمارے ان دکھوں کا مداوا کون کرے گا جو کرے گا وہی ان کے ووٹ کا حقدار کہلائے گا۔

اس طرح ترقیاتی کاموں کی بھی انتخابات جیتنے ہارنے میں بڑی اہمیت ہے، شہرہوں یا دیہات اگر ترقیاتی کاموں کو دیکھ کر کوئی ووٹ نہ بھی دے لیکن جو لیڈر لوگوں کے اجتماعی ترقیاتی کاموں پر دھیان نہیں دیتا عوام میں اسکے خلاف رائے عامہ تیزی سے ہموار ہونا شروع ہو جاتی ہے، ان تمام باتوں سے بڑھ کر ہمارے عوام کے اذہان میں ایک چیز جم گئی ہے کہ ہم نے اپنے ووٹ کو ضائع نہیں کرنا یہ کسی بھی صورت ہارنے والے کو نہیں دینا۔اس لئے ہر سیاسی لیڈر کیلئے یہ ہواکھڑاکرنا ضروری و لازمی ہے کہ بس وہی جیت رہا ہے اگر اس حوالے سے وہ کمزوری دکھائے گا تو سمجھ لے کہ ہار اس کا مقدر ہے۔

آپ 2018سے شروع ہو جائیں اور پیچھے چلتے چلے جائیں جس لیڈر اور پارٹی کیلئے یہ فضا بن گئی کہ بڑے یا طاقتور تو اس کے ساتھ ہیں، فتح اسی کا مقدر ٹھہری۔ اٹھارہ میں درویش کو کوئی شک نہ تھا کہ نواز شریف اور اس کی جماعت زمینی طور پر پنجاب میں چھائی ہوئی تھی لیکن دھیرے دھیرے جب عوام میں یہ چیز راسخ ہوتی چلی گئی کہ طاقتور حلقے کھلاڑی کےپیچھے کھڑے ہو گئے ہیں اور انہوں نے نواز شریف کو کسی صورت نہیں آنے دینا ،جس روز نواز نے اپنی بیٹی کے ہمراہ جیل یاترا کیلئے لندن سے پرواز پکڑی درویش نے اپنے تمام احباب پر واضح کر دیا کوئی انہیں روکو اس مرحلے پر ان کا جیل جانا ان کی پکی شکست ہوگا ،عوام یقین کر بیٹھیں گے کہ جن کو اس بے عزتی کےساتھ جیل میں ڈالا جا رہا ہے بھلا ان کو کون جیتنے دے گا علاوہ ازیں کس کے ٹکٹ کی کتنی ویلیو اور اہمیت ہے یہ بھی پرکھ کا ایک پیمانہ ہے۔ (جاری ہے)

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے مطابق اضافہ مالی سال دو ہزار تئیس چوبیس کی پہلی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا ہے۔

مبینہ خودکشی سے دو روز قبل ماں اور بیٹی نے تحفظ کے لیے میڈیا کے ذریعے اعلیٰ حکام کو بھیجا گیا وڈیو پیغام بھی سامنے آگیا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر کا کہنا ہے کہ ہم بھرپور طریقے سے الیکشن میں حصہ لیں گے، ہم صحیح معنوں میں حقیقی آزادی چاہتے ہیں۔

بحیرہ احمر میں یمن کے حوثی گروپ کے بین الاقوامی جہازوں پر حملوں کے بعد امریکی قیادت میں بننے والی میری ٹائم فورس میں ڈنمارک بھی شامل ہوگیا۔

پاکستان کرکٹ ٹیم انتظامیہ اور قومی سلیکشن کمیٹی نے نیوزی لینڈ کی سیریز سے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی تیاریاں شروع کرنے اور نئے کھلاڑیوں کو بتدریج آزمانے کا فیصلہ کیا ہے، بابر اعظم اور محمد رضوان کو دو، دو میچوں میں آرام کرانے کی تجویز ہے۔

امریکا کو جنگ بندی کی اصطلاح، دشمنی کےخاتمے جیسےالفاظ پر اعتراض ہے۔

امریکی چینل کی رپورٹر نے مغربی کنارے میں اسرائیلی جارحیت کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر دیا۔

رپورٹ کے مطابق عمر فاروق ظہور کے کسی جرم میں ملوث ہونے کا ثبوت نہیں ملا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ٹورنٹو میں نفرت انگیز واقعات پر 48 گرفتاریاں ہوئیں۔

حمیرا اور سمیرا کی صورت میں ضیا صاحب کو دو خوب صورت بہوئیں مل گئیں۔

تیرتے ہوئے اس پرندے کی لمبی خم دار گردن سانپ سے مشابہ نظر آتی ہے جس کی وجہ سے اسے "اسنیک برڈ" بھی کہا جاتا ہے۔

ہاتھ اٹھ ہی جاتے ہیں، کبھی دعا میں تو کبھی گلے لگانے کےلیے، شاہ رخ خان

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما عطا تارڑ نے کہا ہے کہ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی الیکشن نہیں لڑسکتے، وہ ابھی بری نہیں ہوئے ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ کے سینئر ڈپٹی کنوینر مصطفٰی کمال نے کہا کہ پی ٹی آئی کو ہلکا سا دھکا لگا پوری پارٹی ریزہ ریزہ ہو گئی۔ ہم اپنے ساتھیوں کے جنازے اٹھاتے رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ ن لیگ کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نواز شریف ہوں گے۔

برطانیہ میں افراط زر کی شرح نومبر سے 3.9 فیصد تک گر گئی۔ لندن سے برطانیہ کے دفتر برائے قومی شماریات کے مطابق افراط زر اب دو سال سے زیادہ عرصے میں سب سے کم ہے۔

QOSHE - افضال ریحان - افضال ریحان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

افضال ریحان

10 1
21.12.2023

ان دنوں احباب مستقبل کے سیاسی منظر نامے کی جانکاری کیلئے مختلف النوع سوالات پوچھتے ہیں۔ یہ کہ کوئی بھی بڑی سیاسی پارٹی بڑے سیاسی جلسے کیوں نہیں کر پا رہی ؟ کیا آنیوالے دنوں میں بشمول پی ٹی آئی سب کو لیول پلیننگ فیلڈ ملے گی ؟ آپ نواز شریف اور سابق کھلاڑی کےساتھ حسن سلوک ہوتے ملاحظہ کر رہے ہیں اور اسے کتنا منصفانہ سمجھتے ہیں ؟ آپ 8فروری 2024ء کا دن کیسے دیکھ رہے ہیں کیا انتخابات شفاف ہونگے اور جیت کس کی ہو گی؟اگلی حکومت مخلوط بنے گی یا مضبوط؟کیا اس کے بعد ہارنے و الے دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے سڑکوں پر نہیں نکلیں گے؟ کیا ہماری تقدیر سنورنے جا رہی ہے یا مزید بگڑنے ؟؟

اس نوع کے سوالات ان دنوں قریباً ہر ذی شعور پاکستانی کی سوچوں سے ٹکرا رہے ہیں، اس سے پہلے یہ سوال بھی تھا کہ کیا 8فروری کو واقعی انتخابات ہو جائیںگے ؟الحمدللہ ہماری سپریم جوڈیشنری کی مہربانی سےیہ اعلان پتھر پر لکیر کی طرح ثبت ہو چکا ہے کسی بھی حلقے یا گوشے میں اس نوع کا کوئی ابہام تھا تو وہ پوری طرح کلیئر ہو چکا ہے ۔ اب آندھی آئے یا طوفان ہمارے قومی و صوبائی انتخابات بہرصورت 8فروری کو ہی ہونگے التوا یا تاخیر کا واہمہ تمام اذہان سے کلی طور پر نکل جانا چاہئے ۔آرمی چیف کے حالیہ دورہ امریکہ سے متعلق دیگر بہت سے موضوعات جوڑے،، پوچھے اور اٹھائے جا سکتے ہیں مگر جو لوگ انتخابات کو ادھر ادھر جوڑ رہے ہیں وہ زیادتی کر رہے ہیں ۔

جہاں تک بڑی سیاسی پارٹیوں کے بڑے بڑے جلسوں کاسوال ہے اس کا جواب ہر پاکستانی کو سال نو کے آغاز میں ہی مل جائے گا نہ صرف وہ اپنے تمام شہروں میں بڑے بڑے جلسے ملاحظہ کر رہے ہونگے بلکہ انتخابی مہمات کی سرگرمیوں سے بھی ہمارا میڈیا گونج رہا ہو گا ،کس کے جلسے بڑے او رکس کے چھوٹے ہونگے بلاشبہ یہ بھی واضح ہے، بڑے جلسوں کی افادیت اپنی جگہ مگر یہ مقبولیت پرکھنے........

© Daily Jang


Get it on Google Play