خدا خدا کرکے الیکشن کا شیڈول آیا مگر شیڈول آتے ہی ایک مرتبہ پھر پریس کانفرنسیں شروع ہو گئی ہیں۔ ظلم کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، کاغذات نامزدگی کی وصولی کے پہلے روز کئی واقعات ایسے ہوئے جنہوں نے انتخابات کے منصفانہ اور شفاف ہونے پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ میانوالی سے بیرسٹر عمیر خان نیازی کے والد ریٹائرڈ جج ضیاء اللّٰہ نیازی اپنے بیٹے کیلئے کاغذات نامزدگی لے کر نکلے ہی تھے کہ پنجاب پولیس کے’’قابلِ فخر سپوت‘‘ڈی ایس پی فیصل گجر نے کاغذات چھین لیے۔ ایک بوڑھے باپ سے اس کے بیٹے کے کاغذات نامزدگی چھین لیے جائیں تو الیکشن کی ایسی بنیادوں کو شفاف کون کہے گا، غیر جانبدارانہ کون مانے گا؟ ایسا ہی ایک واقعہ خوشاب میں پیش آیا، اس طرح کے واقعات اور شہروں میں بھی پیش آئے۔ کاغذات نامزدگی کی وصولی کے بعد جو پہلی رات آئی وہ بھی بڑی وحشت ناک تھی، اس رات کی سیاہی میں پنجاب پولیس کے’’بہادر جوان‘‘دیواریں پھلانگ کر دروازے توڑتے رہے، وہ ایسے افراد کی تلاش میں تھے جو کاغذات نامزدگی لے کر آئے تھے۔ اس رات اور دن سے پہلے جو صبح تھی وہ بھی نرالی تھی، اسی صبح گوجرہ کے ایک گھر پر دھاوا بولا گیا، یہاں سے زیر عتاب پارٹی کے امیدوار اسامہ حمزہ کو اٹھا لیا گیا تاکہ امیدوار ہی کو ٹھکانے لگا دیا جائے۔ اسامہ حمزہ کے بزرگ ایم حمزہ متعدد بار قومی اسمبلی کے رکن رہے، ان کے مالی حالات ایسے تھے کہ وہ سائیکل پر انتخابی مہم چلایا کرتے تھے، ابھی تو پہلے مرحلے کا آغاز ہے، ابھی کاغذات جمع ہوں گے، ان کی جانچ پڑتال ہو گی، اس ’’پل صراط‘‘ سے پی ٹی آئی کے امیدوار کیسے گزریں گے، ان کے سامنے آر اوز کی شکل میں وہی انتظامی افسران ہوں گے جو پچھلے ایک ڈیڑھ برس سے پی ٹی آئی پر برس رہے ہیں۔ آر اوز کے دفاتر کے باہر وہی ڈنڈا بردار پولیس کھڑی ہے جو پچھلے ایک ڈیڑھ برس سے پی ٹی آئی کارکنوں پر لاٹھیاں برسا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ جانبداری کے اس موسم میں انہیں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہی۔ بھٹو نے 1977ء میں یہ غلطی کی تھی، انہوں نے ججز کی بجائے انتظامی افسران کو آر اوز بنایا تھا، یہیں سے خرابی شروع ہوئی تھی اور پھر یہی خرابی بھٹو کے گلے پڑ گئی۔ ویسے تو پنجاب پولیس کے کئی’’کارنامے‘‘یادگار ہیں، لاہور اور پنجاب کے مختلف شہروں میں ہونے والے جعلی پولیس مقابلوں میں کس طرح مخالفین کو ٹھکانے لگایا جاتا رہا۔ یہ ہماری تاریخ ہے اس سے انکار ممکن نہیں۔ عابد باکسر اور فیصل آباد کے پولیس انسپکٹر کے یادگار انٹرویوز تو آپ کی نظروں سے گزرے ہوں گے۔ چلو رانا مقبول کا قصہ رہنے دیتے ہیں کہ اب وہ کسی اور جہان میں جا بسے ہیں۔ پنجاب پولیس پہلے ہی بدنام تھی اس بار تو پتہ نہیں انہیں کہاں سے کھلی چھٹی مل گئی ہے کہ وہ لوگوں کے گھروں کی دیواریں پھلانگتے ہیں، دروازے توڑتے ہیں، گھر کی اشیاء توڑنے کے بعد چادر اور چار دیواری کا تقدس تک بھول جاتے ہیں۔ لوگوں کی گرفتاریوںکیلئے رات کے دو ڈھائی بجے دھاوا بولنا فرض سمجھ لیا گیا ہے۔ اس لیول پلیئنگ فیلڈ کے خوبصورت مناظر کا کس ملک سے موازنہ کیا جائے؟ آج کل ایک طرف انصاف کی ’’سبیل‘‘لگی ہوئی ہے، اس سبیل سے’’مخصوص لوگ‘‘ مستفید ہوتے ہیں۔ انصاف سے یاد آیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے ورثاء ابھی تک انصاف کو ترس رہے ہیں، یہاں زندہ لوگوں کو انصاف نہیں ملتا تو قبروں کو خاک ملے گا؟ پہلے صرف ظلم تھا اب انسانیت بھی دم توڑ گئی ہے۔ چند ماہ پیشتر میاں عباد فاروق نے اپنے چاند جیسے لخت جگر کو مٹی کے حوالے کیا تو نماز جنازہ کے دوران میاں عباد فاروق کے دامن کو پولیس اہلکاروں نے’’احتیاطاً ‘‘پکڑ رکھا تھا کہ کہیں عباد فاروق اپنے لخت جگر کو چھوڑ کر بھاگ نہ جائیں۔ عثمان ڈار کے گھر جب پہلی بار دھاوا بولا گیا تو اخلاقیات کی بستیاں مسمار ہوئی تھیں اور اب دوسرے دھاوے میں وہ بستیاں جل کر راکھ ہو گئی ہیں۔ آڈیو ویڈیوز میں بدتمیزیوں کے سامنے عورتوں کی چیخیں تھیں یا پھر بلکتے ہوئے بچوں کی دل سوز صدائیں۔ ڈی پی او سیالکوٹ اس دلخراش واقعے پر بھی رعونت بھری گفتگو کرتے دکھائی دیے ، وہ اپنے نام کی لاج بھی نہ رکھ سکے ۔ پولیس اور اسی طرح کے اداروں میں کام کرنے والے افراد شاید بے خبر ہیں کہ خدا، اداروں سے نہیں انسانوں سے حساب لیتا ہے۔ کسی کو اقتدار دلوانے کی چاہت میں ہر حد سے گزر جانا کہاں کا انصاف ہے؟ ناجانے کیوں کوئی چیخوں اور لاشوں پر اپنے اقتدار کا تخت سجانا چاہتا ہے۔ ایسا تخت لینے سے تو یزید کے بیٹے نے بھی انکار کر دیا تھا۔ بقول حبیب جالب

آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے

کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا

اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو

اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا

چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالب ؔ نہیں بھولے

تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا

برطانوی وزارت داخلہ فیملی ویزا کیلئے کم از کم تنخواہ کی حد 38 ہزار 700 پاؤنڈ سے پیچھے ہٹ گیا۔

کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی غزہ مہم خود اس کی طویل مدتی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے جھنڈے والے جہازوں کو روکنے کے ملائیشیا کے موقف کو سراہتے ہیں۔

ایس بی پی کے مطابق ملکی زرمبادلہ ذخائر 15 دسمبر کو ختم ہوئے ہفتے تک 12 ارب 6 کروڑ ڈالر رہے۔

آئی جی جیل خانہ جات نے قیدیوں پر تشدد کی ویڈیو وائرل ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کا حکم دے دیا۔

پی پی چیئرمین آنکھوں میں آئی نمی کو بار بار رومال سے پونچھتے رہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ بیٹر اسد شفیق ابھی اور کرکٹ کھیلنا چاہتے ہیں، اسد شفیق فروری میں کنسلٹنٹ کی ذمے داری سنبھالیں گے۔

اشفاق بھٹی کا کہنا ہے کہ وہ پی پی 268 سے انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ 8 فروری کو فرسودہ نظام زمین بوس ہوجائے گا، عوام کی فتح ہوگی۔

اداکارہ میرا کا کہنا ہے کہ چوری کی واردات کے وقت گھر پر موجود نہیں تھی۔

پولیس کی جوابی کارروائی میں فائرنگ کرنے والا مارا گیا، جو یونیورسٹی کا ہی طالب علم تھا۔

صحافتی تنظیموں کی جانب سے کہا گیا کہ گھٹن زدہ ماحول میں عدلیہ ہی ریلیف کا واحد دروازہ ہے ، لیکن اگر یہ دروازہ بھی بند محسوس ہو تو صورتِ حال مزید خراب نظر آتی ہے۔

جو سزا دی گئی تھی وہ غلط تھی، فیصلہ عبوری تھا، اسے تبدیل کیا جاسکتا ہے، سینئر نائب صدر پی ٹی آئی

پولیس نےموقع پر پہنچ کر زخمی ڈاکوؤں کو اسپتال منتقل کیا، تاہم تینوں ڈاکو دم توڑ گئے۔

عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ گیس کی قیمتوں سے متعلق نوٹیفکیشن کی معطلی کا اطلاق صرف درخواست گزاروں پر ہوگا۔

QOSHE - مظہر برلاس - مظہر برلاس
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مظہر برلاس

25 8
22.12.2023

خدا خدا کرکے الیکشن کا شیڈول آیا مگر شیڈول آتے ہی ایک مرتبہ پھر پریس کانفرنسیں شروع ہو گئی ہیں۔ ظلم کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، کاغذات نامزدگی کی وصولی کے پہلے روز کئی واقعات ایسے ہوئے جنہوں نے انتخابات کے منصفانہ اور شفاف ہونے پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ میانوالی سے بیرسٹر عمیر خان نیازی کے والد ریٹائرڈ جج ضیاء اللّٰہ نیازی اپنے بیٹے کیلئے کاغذات نامزدگی لے کر نکلے ہی تھے کہ پنجاب پولیس کے’’قابلِ فخر سپوت‘‘ڈی ایس پی فیصل گجر نے کاغذات چھین لیے۔ ایک بوڑھے باپ سے اس کے بیٹے کے کاغذات نامزدگی چھین لیے جائیں تو الیکشن کی ایسی بنیادوں کو شفاف کون کہے گا، غیر جانبدارانہ کون مانے گا؟ ایسا ہی ایک واقعہ خوشاب میں پیش آیا، اس طرح کے واقعات اور شہروں میں بھی پیش آئے۔ کاغذات نامزدگی کی وصولی کے بعد جو پہلی رات آئی وہ بھی بڑی وحشت ناک تھی، اس رات کی سیاہی میں پنجاب پولیس کے’’بہادر جوان‘‘دیواریں پھلانگ کر دروازے توڑتے رہے، وہ ایسے افراد کی تلاش میں تھے جو کاغذات نامزدگی لے کر آئے تھے۔ اس رات اور دن سے پہلے جو صبح تھی وہ بھی نرالی تھی، اسی صبح گوجرہ کے ایک گھر پر دھاوا بولا گیا، یہاں سے زیر عتاب پارٹی کے امیدوار اسامہ حمزہ کو اٹھا لیا گیا تاکہ امیدوار ہی کو ٹھکانے لگا دیا جائے۔ اسامہ حمزہ کے بزرگ ایم حمزہ متعدد بار قومی اسمبلی کے رکن رہے، ان کے مالی حالات ایسے تھے کہ وہ سائیکل پر انتخابی مہم چلایا کرتے تھے، ابھی تو پہلے مرحلے کا آغاز ہے، ابھی کاغذات جمع ہوں گے، ان کی جانچ پڑتال ہو گی، اس ’’پل صراط‘‘ سے پی ٹی آئی کے امیدوار کیسے گزریں گے، ان کے سامنے آر اوز کی شکل........

© Daily Jang


Get it on Google Play