‎ان دنوں کئی احباب یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ نواز شریف کے پاس جس طرح پہلے’’ووٹ کو عزت دو‘‘کا بیانیہ تھا جس کے تحت وہ کہتے تھے کہ زندگی میں اتنے زیادہ دھکے کھانے اور مشکلیں اٹھانے کے بعد اب وہ انقلابی بن چکے ہیں، آج وہ جس طرح کمپرو مائیز کرتے ہوئے واپس آئے ہیں اب عوام کو بیچنے کیلئے ان کے کھیسے میں کوئی ایسا چورن نہیں جسے لوگ امید بھری نظروں سے دیکھیں۔ وہ جن بیساکھیوں کے طعنے دوسروں کو دیتے تھے آج وہ خود انہیں کے سہارے ہیں، دوسرے وہ ابھی تک خود کو 2017ء سے نکال نہیں پارہے ہر جگہ انکا ایک ہی دکھ ہوتا ہے کہ مجھے کیوں نکالا؟ ‎ اس وقت کے ججز کو ہمارے خلاف فیصلہ دینے کی کیا ضرورت تھی۔ کسی لاڈلے کو لانے کیلئے مجھے ہٹانا اور سزائیں دلوانا اگر ضروری ہوگیا تھا تو اس میں عوام کوکس جرم کی سزا دی گئی، انکےچولہے کیوں بجھا دیے گئے ؟دشمنی مجھ سے تھی تو نقصان ملک کا کیوں کیا گیا؟ ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی سے اپنے تازہ خطاب میں نواز شریف کہہ رہے تھے کہ ہمارے یہاں عجب و تیرہ ہے آئین ٹوٹتا ہے تو ہمارے ججز آئین شکن کو ہار پہناتے ہیں پارلیمنٹ ٹوٹتی ہے تو کہتے ہیں ٹھیک ہوا بلکہ ہم آپ کو آئین سے کھلواڑ کرنے کیلئے پورے تین برس کی مدت عنایت کررہے ہیں اور پھر ان ججزکو مزید کہا جاتا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کوجیل سے باہر نہیں آنے دینا ورنہ ہماری 2سال کی محنت ضائع ہوجائیگی پتہ تو چلے کہ وہ 2سال کی محنت کیا تھی، قوم کو بھی تو پتہ چلے! ‎باتیں نواز شریف کی ٹھیک ہیں ،انکے خلاف نہ صرف یہ کہ سنگین نوعیت کے جھوٹے مقدمات بنائے گئے بلکہ میڈیا ٹرائل میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ انہی دنوں دوریش نے ایک ٹی وی شو میں جب یہ کہا کہ آج کے زمانے میں سب سے بڑا مظلوم نواز شریف ہے تو اس پر میڈیا کے دوست ہنس پڑے تھے اور آج نواز شریف کیخلاف بنائے گئے تمام کیسز جعلی و جھوٹے ثابت ہورہے ہیں ۔نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ وہ انتقام لینا نہیں چاہتے لیکن حساب لینا یا احتساب کرنا تو بنتا ہے کیونکہ اگر حساب نہ لیا گیا تو ملک کے ساتھ یہ کھلواڑکبھی بند نہیں ہوگا میں نے تو کبھی جنرل باجوہ، جنرل فیض یا جنرل راحیل کے خلاف کوئی ساز ش نہیں کی لیکن میرے خلاف جو سازشیں ہوئیں ان میں کون کون شامل تھا اس کا سب کو پتا چلنا چاہیے اسکے ساتھ ہی انہوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ 8فروری کو سب سےبڑی عوامی جے آئی ٹی اور عدالت لگے گی۔ ‎نواز شریف کے ان الفاظ اور بیانا ت سے کم از کم ان لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو یہ طعنہ زنی کرتے نہیں تھکتے کہ نواز شریف اپنا سارا جمہوری بیانیہ ترک کرتے ہوئے اب لاڈے جیسے کٹھ پتلی بن چکے ہیں ۔حالانکہ ایسی بات قطعی نہیں ہے البتہ حکمت عملی یا کامیابی کیلئے بہترا سٹرٹیجی کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں درویش کی نظروں میں نواز شریف کو اس حوالے سے اتنا آگے بڑھنے کی بجائے فی الحال احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے ۔یہ 2013کی بات ہے جب وہ تیسری مرتبہ منتخب ہوکر وزیر اعظم بنے تو درویش نے جنگ کے انہی صفحات میں لکھا کہ’’قوم آئین شکن کو جیل میں دیکھنا چاہتی ہے‘‘بعد ازاں احساس ہوا کہ احتساب کا مطالبہ ضرور ہونا چاہیے مگر احتیاط کے ساتھ یہ نہ ہوکہ لینے کے دینے پڑ جائیں سچ بھی اتنا ہی بولا جاسکتا ہے جتنا ہضم ہو سکے۔ ہم مانیں نہ مانیں بہر حال ہم یہاں ایک ہائبر ڈ سسٹم میں رہ رہے ہیں۔یہی حالات کا جبر ہے۔‎یہاں تو بزعم خود تیس مار خان کامدعاکبھی بھی آئین و پارلیمنٹ کی بالادستی یا عوامی جمہوریت کی عظمت منوانا نہیں رہا۔ ‎ایسی فضا میں پاکستان کے آئین و جمہوریت پر ایمان رکھنے والوں کیلئے نواز شریف کا وجود آخری امید کی طرح ہے جو ان مشکل ترین حالات میں بھی اعلان کر رہا ہے کہ میں برسر اقتدار آگیا تو بشمول بھارت اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات استوار کرونگا۔ یہ خوش کن امر ہے کہ نوازشریف نے کہا کہ وہ اپنے اندر انتقام کا شائبہ بھی نہیں رکھتے لیکن جن لوگوں نے جمہوریت سےکھلواڑ کیا اور ملک و قوم کی قسمت سے کھیلے ہیں، اچھے بھلے ترقی کرتے ملک کو بدترین حالت میں پہنچا دیا ، وقت آنے پر ان کا احتساب تو بہر حال ہوگا مگر درویش عرض گزار ہے کہ احتساب ضرور ہو مگر سنگین حالات میں گنجائش کے مطابق۔ فی الوقت تو اس کا یو ں پیہم واویلا بھی مناسب نہیں نواز شریف کا سارا بیانیہ اور دھیان قومی تعمیر و ترقی کے منصوبوں کی طرف ہونا چاہیے اور اس کا منشور یا ایجنڈا عوامی دکھوں بالخصوص مہنگائی کا خاتمہ ہونا چاہیے ۔اپنی پوری انتخابی مہم میںاپنی سابقہ تمام کامرانیاںپیش کرنا ہونگی۔ ہاں جومعززین معافیوں تلافیوں کے نام پر تیس مار خاں کیلئے گنجائش نکالنے کی فرمائش کر رہے ہیں ان سے ناراض ہوئے یا الجھے بغیر اپنا قومی تعمیر و ترقی کا یہی ایجنڈا پیش فرمائیں۔ اپنا سارا زور اس ایک پوائنٹ پر لگائیں کہ 8فروری کے بعد اہل وطن کو مخلوط کی بجائے مضبوط جمہوریت مل سکے۔ دو تہائی کی کاوش میں کوتاہی کیے بغیر سادہ اکثریت سے نیچے نہ آئیں۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نےعوام کو دھوکہ دہی پر مبنی لنکس سے متعلق خبردار کردیا۔

بھارتی فراڈیے سوکیش چندر شیکھر نے اداکارہ جیکولین فرنینڈس کے خلاف انکشاف انگیز حقائق سامنے لانے کا اعلان کردیا۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی پارٹی آئین کے مطابق الیکشن کروانےمیں ناکام رہی۔

سلامتی کونسل نے غزہ کی پٹی میں فلاحی امداد کی فراہمی کی قرار داد منظور کرلی۔ قرار داد میں کشیدگی ختم کرنے کے لیے پائیدار حالات کے قیام کی بات کی گئی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما اعظم خان سواتی نے مانسہرہ سے نواز شریف کے مقابلے پر الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا۔

مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما چوہدری سالک حسین نے کہا ہے کہ خواہش ہے کہ ہمارے خاندان میں پہلے کی طرح اتفاق و اتحاد ہو۔

پی ٹی آئی کے رہنما نعیم پنجوتھا نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دینے پر حیران ہوں۔ فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

کراچی میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی جنرل اور مخصوص نشستوں پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ تیسرے روز بھی جاری رہا۔

19 سالہ سشانگ سنگھ تو ان سولڈ رہے لیکن 32 سالہ سشانک پنجاب کی ٹیم کا حصہ بن گئے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ٹرین پشاور سے کینٹ اسٹیشن پہنچی تھی۔

ایم کیو ایم سے بات چیت کے لیے شہباز شریف کے کراچی جانے کا امکان ہے۔

سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے طویل ملاقات کی ہے۔

بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن پر ہمارے تحفظات ہیں۔

سفارت خانہ پاکستان، پیرس میں کرسمس ڈنر کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع فرانس میں پاکستان کے سفیر عاصم افتخار احمد نے مہمانوں کا استقبال کیا اور تقریب میں شریک ہونے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ رولز بناتے ہیں تو ان پر عمل کرنا چاہیے۔

پی ٹی آئی بلے کے نشان کی اہل نہیں، ہماری ہدایات پر عمل کرنے میں ناکام رہی: الیکشن کمیشن

QOSHE - افضال ریحان - افضال ریحان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

افضال ریحان

12 0
23.12.2023

‎ان دنوں کئی احباب یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ نواز شریف کے پاس جس طرح پہلے’’ووٹ کو عزت دو‘‘کا بیانیہ تھا جس کے تحت وہ کہتے تھے کہ زندگی میں اتنے زیادہ دھکے کھانے اور مشکلیں اٹھانے کے بعد اب وہ انقلابی بن چکے ہیں، آج وہ جس طرح کمپرو مائیز کرتے ہوئے واپس آئے ہیں اب عوام کو بیچنے کیلئے ان کے کھیسے میں کوئی ایسا چورن نہیں جسے لوگ امید بھری نظروں سے دیکھیں۔ وہ جن بیساکھیوں کے طعنے دوسروں کو دیتے تھے آج وہ خود انہیں کے سہارے ہیں، دوسرے وہ ابھی تک خود کو 2017ء سے نکال نہیں پارہے ہر جگہ انکا ایک ہی دکھ ہوتا ہے کہ مجھے کیوں نکالا؟ ‎ اس وقت کے ججز کو ہمارے خلاف فیصلہ دینے کی کیا ضرورت تھی۔ کسی لاڈلے کو لانے کیلئے مجھے ہٹانا اور سزائیں دلوانا اگر ضروری ہوگیا تھا تو اس میں عوام کوکس جرم کی سزا دی گئی، انکےچولہے کیوں بجھا دیے گئے ؟دشمنی مجھ سے تھی تو نقصان ملک کا کیوں کیا گیا؟ ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی سے اپنے تازہ خطاب میں نواز شریف کہہ رہے تھے کہ ہمارے یہاں عجب و تیرہ ہے آئین ٹوٹتا ہے تو ہمارے ججز آئین شکن کو ہار پہناتے ہیں پارلیمنٹ ٹوٹتی ہے تو کہتے ہیں ٹھیک ہوا بلکہ ہم آپ کو آئین سے کھلواڑ کرنے کیلئے پورے تین برس کی مدت عنایت کررہے ہیں اور پھر ان ججزکو مزید کہا جاتا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کوجیل سے باہر نہیں آنے دینا ورنہ ہماری 2سال کی محنت ضائع ہوجائیگی پتہ تو چلے کہ وہ 2سال کی محنت کیا تھی، قوم کو بھی تو پتہ چلے! ‎باتیں نواز شریف کی ٹھیک ہیں ،انکے خلاف نہ صرف یہ کہ سنگین نوعیت کے جھوٹے مقدمات بنائے گئے بلکہ میڈیا ٹرائل میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ انہی دنوں دوریش نے ایک ٹی وی شو میں جب یہ کہا کہ آج کے زمانے میں سب سے بڑا مظلوم نواز شریف ہے........

© Daily Jang


Get it on Google Play