بہت کچھ جس کی ہر ممکنہ طریقے سے تردید کی جاتی ہے ،اتوار کی شب تحریک انصاف کے ہونیوالے ورچوئل جلسے نے ارباب اختیار کو ہلا کر رکھ دیا ۔ وہ اپنے من پسند خواب غفلت سے ہڑبڑا کر جاگ اُٹھے ۔ حکومت کی انٹرنیٹ کو سست کرنے اور ایکس ، فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی سروس میں خلل ڈالنے کی کوششوں کے باوجوددس ملین سے زیادہ افراد نے اس میں شرکت کی ۔ یہ جلسہ سوموار کی صبح تک جاری رہا ۔ اس شو کی خاص بات تحریک انصاف کے تاحیات چیئرمین ، عمران خان کا تاریخ ساز خطاب تھا جو مصنوعی ذہانت استعمال کرتے ہوئے نشر کیا گیا۔ جیسا کہ میرے دوستوں میں سے ایک کا کہنا تھا کہ اتوار کی شب عمران خان اور دیگر پارٹی رہنمائوں کی جسمانی موجودگی کے باوجود ورچوئل جلسہ کامیاب ہوا۔ یہ جلسہ تزویراتی طور پر تحریک انصاف کے ووٹروں ، حامیوں اور قیادت کو آنیوالے مشکل چیلنجز کیلئے تیار کرنے کیلئے تھا۔ وہ چیلنج جو آٹھ فروری کے انتخابات سے جڑے ہوئے ہیں ۔

عمران خان اور تحریک انصاف کو ختم کرنے کا منصوبہ بہت پہلے شروع کیا گیا تھا جس کا آغاز خفیہ اور سفاک ریاستی جبر سے ہوا تھا۔ درحقیقت اسے ختم کرنےکیلئے جتنے وحشیانہ حربے استعمال کیے گئے ہیں، اس کی مقبولیت میں اتنا ہی اضافہ ہوتا چلا گیاہے ۔

جب عمران خان کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کو مقامی اور غیر ملکی ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک سازش کے ذریعے ہٹایا گیا تو یہ خیال تھا کہ ایک بار اقتدار سے باہر ہونے کے بعد تحریک انصاف ایک مردہ گھوڑا ثابت ہو گی۔ درحقیقت جو کچھ ہوا وہ سمجھے جانیوالے منصوبوں کے برعکس تھا:پارٹی کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا، اور اب اسے ملک کی اب تک کی سب سے زیادہ غالب سیاسی قوت کے طور دیکھا جاتا ہے۔ اس کے ناقدین کیلئے یہ بات حیران کن ہو سکتی ہے، لیکن ان لوگوں کیلئے نہیں جو سیاسی تاریخ کے طالب علم رہے ہیں اور جنھوں نے ملک اور پاکستان کے اس بڑے خطے میں پارٹیوں کے فروغ کو قریب سے دیکھا ہے ۔

تحریک انصاف کی ساکھ اسکے سماجی بہبود کے پروگرام کی کامیابی اور لوگوں کے مصائب کو دور کرنےکیلئے وعدوں کو حقیقت میں بدلنے پر مبنی ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو معاشرے کے پریشان حال طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جی ڈی پی کی 6.1شرح نمو حاصل کرنے سے لے کر کوویڈ کے مشکل وقت میں بھی ملک کے غریب طبقات کیلئے ریلیف کو یقینی بنانے تک، خان نے اپنے انتخابات سے پہلے کیے گئے وعدوں پر عمل کیا۔ ملک گیر صحت کارڈ کی سہولت ہو، احساس پروگرام، روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ، بلین ٹری سونامی، شیلٹر ہومز، کرپشن کیخلاف جنگ، بھرپورفصلیں اور متعدد شعبوں میں ریکارڈ پیداوار ان بنیادی کامیابیوں کا ہدف معاشرے کے غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانا تھا۔

اس طرح اس نے ملک میں تبدیلی برپا کرتے ہوئے غریب کو سانس لینے کی جگہ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا جو تاریخی طور پر بدنام زمانہ حکمران اشرافیہ کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بنتا رہا تھا۔ اس اشرافیہ کو نوآبادیاتی ذہنیت سے جڑے بدعنوان نظام کی معاونت حاصل تھی۔ اس تبدیلی نے ملک کے روایتی چھوٹے مفاد پرست طبقے کیلئے خطرہ کھڑا کردیا ۔ جنہوںنے نظام پر اپنی اجارہ داری کا تحفظ کرنے کیلئے خان کو نیچے گرانےکی سازش شروع کردی ۔

خان نے روس سمیت علاقائی اسٹیک ہولڈرز تک رسائی کی پالیسی شروع کرکے ملک کے تزویراتی خدوخال کو وسعت دینے کیلئے جو اہم اقدامات کیے، وہ انکی حکومت کو ختم کرنے کا اہم عنصر بن گئے کیونکہ اس نے ان روایتی معروضات کو متاثر کیا تھا جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہیں۔ عدلیہ کے زیر قیادت ریاست اور اسکے اداروں نے برطرفی کے بعد جن سخت کارروائیوں کا آغاز کیا ، اس نے نفرت کو جنم دیا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافے کا رجحان ہے ۔

8فروری کو ہونیوالے انتخابات کی طرف بڑھتے ہوئے مستقبل کی راہ ہموار کرنے کیلئے دو وسیع طریقے ہیں: حقیقت کو قبول کریں اور اسکے ساتھ موافقت کیلئے بات چیت کا عمل شروع کریں یا غالب کو کچلنے کی کوشش کریں۔ عوامی جذبات اور وقت کے دھارے پہلے والے کو منتخب کرنے سے ملک میں امن اور ہم آہنگی کا ماحول پیدا ہو جائیگا، لیکن بعد والے آپشن سے معاشرے میں مزید تقسیم پیدا ہو گی، یہاں تک کہ پر تشدد جذبات پھیلتے جائیں گے۔ یہ انتخاب کرنا کوئی مشکل نہیں ہے، لیکن زیادہ سمجھد ار آپشن کچھ کی طبع نازک پر گراں گزرے گا، جس نے اقتدار پر قابض افراد کو پی ٹی آئی کو ریاستی ظلم و بربریت کے بوجھ تلے دفن کرنے کے تفرقہ انگیز انداز پر قائم رہنے پر مجبور کیا ہے۔ انہوں نے جتنی کوشش کی ہے، وہ صرف پی ٹی آئی کے حق میں عوامی جذبات کو مزید بھڑکانے اور نچلی سطح پر اسکی حمایت کو بڑھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

میں نے ققنس سنڈروم کے بارے میں پہلے لکھا ہے کہ کیا ہم اسکی آخری عمر دیکھ چکے۔ گزشتہ تقریباً دو سال کا جائزہ لینے کے بعد میں یہ کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ ققنس اپنی راکھ سے زبردست طاقت لے کر اٹھنا شروع ہو گیا ہے۔ ملک بھر میں اور سماجی تقسیم کے تمام طبقات میں حمایت کی بنیاد پرپی ٹی آئی کا عروج کوئی حادثہ نہیں ۔ یہ اسکے قومی مقصد کی حمایت میں اس انداز میں سرایت کر گیا ہے کہ صرف خان ہی اس کی ہمت اور حوصلہ رکھتا تھا۔ اب یہ ایک ایسا رجحان ہے جو اب ختم نہیں ہوگا کیونکہ اس کی لہر کی شدت وقت کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اور اسکے عوام اس قابل ادراک تبدیلی سے جڑے ہوئے ہیں جو واضح شکل اختیار کر رہی ہے۔(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے سیکریٹری انفارمیشن ہیں)

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ملزمان ایک گاڑی اور ایک موٹرسائیکل پر سوار تھے، مقتول کو پانچ سے زائد گولیاں ماری گئیں۔

موٹروے ایم 2 فیض پور سے رجانہ تک، موٹروے ایم 3 لاہور سے عبدالحکیم تک بند ہے۔

اپنے بیان میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ غزہ میں جاری قتل عام اور عالمی قانون کی خلاف ورزیاں صرف امریکا روک سکتا ہے۔

کراچی میں عام انتخابات 2024 میں کاغذات نامزدگی جمع و وصول کروانے کا سلسلہ آج چوتھے روز بھی جاری رہا.

بالی ووڈ اداکارہ میرا چوپڑا نے اپنی کزن پریانکا چوپڑا اور پرینیتی چوپڑا سے تعلق پر لب کشائی کردی۔

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ حلقہ بندیوں سے متعلق اعتراضات پر سماعت عام انتخابات کے بعد کی جائے گی۔

مقدمہ ایکسپلوزو ایکٹ اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کےتحت درج کیا گیا۔

اسرائیلی فوج نے اعتراف کیا ہے کہ جنوبی اور شمالی غزہ میں 24 گھنٹوں میں 5 فوجی ہلاک ہوئے۔

بدین میں ٹرک کی ٹکر سے گاڑی میں سوار 4 افراد جاں بحق اور 3 زخمی ہو گئے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ موقع پر سی سی ٹی وی تھی ویڈیو سامنے لائیں، آڈیو کی فارنزک کا حکم دیں، مجھ پر الزامات کی سچائی کی تحقیق کا حکم دیں۔

حکومت کی جانب سے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو صرف روز مرہ کے کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، میڈیا رائٹس کی فروخت اور دیگر بڑے فیصلے سے قبل منظوری لینے کا کہہ دیا گیا ہے۔

ٹیم ڈائیریکٹر محمد حفیظ بھی اس فرم سے وابستہ تھے لیکن اب وہ استعفیٰ دے چکے ہیں۔

میچ کے اختتامی لمحات میں الاتفاق کے محمد الکواکبی نے گول کیا پر میچ النصر نے ایک کے مقابلے میں 3 گول سے جیت لیا۔

ذکاء اشرف کو آج رات باکسنگ ڈے ٹیسٹ دیکھنے میلبرن روانہ ہونا تھا۔

بم دھماکے میں 10 افراد کی ہلاکت کے کیس کا 10 سال بعد فیصلہ سنا دیا گیا۔

اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین اپنے ارد گرد نظر رکھیں، کسی کو حفاظتی حصار میں داخل نہ ہونے دیں۔

QOSHE - رؤف حسن - رؤف حسن
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

رؤف حسن

14 6
24.12.2023

بہت کچھ جس کی ہر ممکنہ طریقے سے تردید کی جاتی ہے ،اتوار کی شب تحریک انصاف کے ہونیوالے ورچوئل جلسے نے ارباب اختیار کو ہلا کر رکھ دیا ۔ وہ اپنے من پسند خواب غفلت سے ہڑبڑا کر جاگ اُٹھے ۔ حکومت کی انٹرنیٹ کو سست کرنے اور ایکس ، فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی سروس میں خلل ڈالنے کی کوششوں کے باوجوددس ملین سے زیادہ افراد نے اس میں شرکت کی ۔ یہ جلسہ سوموار کی صبح تک جاری رہا ۔ اس شو کی خاص بات تحریک انصاف کے تاحیات چیئرمین ، عمران خان کا تاریخ ساز خطاب تھا جو مصنوعی ذہانت استعمال کرتے ہوئے نشر کیا گیا۔ جیسا کہ میرے دوستوں میں سے ایک کا کہنا تھا کہ اتوار کی شب عمران خان اور دیگر پارٹی رہنمائوں کی جسمانی موجودگی کے باوجود ورچوئل جلسہ کامیاب ہوا۔ یہ جلسہ تزویراتی طور پر تحریک انصاف کے ووٹروں ، حامیوں اور قیادت کو آنیوالے مشکل چیلنجز کیلئے تیار کرنے کیلئے تھا۔ وہ چیلنج جو آٹھ فروری کے انتخابات سے جڑے ہوئے ہیں ۔

عمران خان اور تحریک انصاف کو ختم کرنے کا منصوبہ بہت پہلے شروع کیا گیا تھا جس کا آغاز خفیہ اور سفاک ریاستی جبر سے ہوا تھا۔ درحقیقت اسے ختم کرنےکیلئے جتنے وحشیانہ حربے استعمال کیے گئے ہیں، اس کی مقبولیت میں اتنا ہی اضافہ ہوتا چلا گیاہے ۔

جب عمران خان کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کو مقامی اور غیر ملکی ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک سازش کے ذریعے ہٹایا گیا تو یہ خیال تھا کہ ایک بار اقتدار سے باہر ہونے کے بعد تحریک انصاف ایک مردہ گھوڑا ثابت ہو گی۔ درحقیقت جو کچھ ہوا وہ سمجھے جانیوالے منصوبوں کے برعکس تھا:پارٹی کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا، اور اب اسے ملک کی اب تک کی سب سے زیادہ غالب سیاسی قوت کے طور دیکھا جاتا ہے۔ اس کے ناقدین کیلئے یہ بات حیران کن ہو سکتی ہے، لیکن ان لوگوں کیلئے نہیں جو سیاسی تاریخ کے طالب علم رہے........

© Daily Jang


Get it on Google Play