’’کھلاڑی بلے کے بغیر کیسے کھیلیں گے؟ یہ تو نہایت غیر منصفانہ اورامتیازی سلوک ہے۔‘‘

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تحریک انصاف کے بین الجماعتی انتخابات کالعدم قرار دیئے جانے اور بلے کا انتخابی نشان واپس لئے جانے کے بعد یہ جو بیانیہ سامنے آیاہے،اسے اختصار کیساتھ متذکرہ بالا جملوں میں بیان کیا جاسکتا ہے۔چونکہ نونہالان ِانقلاب کی تاریخ 10اپریل2022ء سے شروع ہوتی ہے اسلئے وہ کسی بھی زیادتی کے بعد پکار اُٹھتے ہیں، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی مقبول ترین سیاسی جماعت کیساتھ یہ سلوک کیا جارہا ہے۔ ایسی صورت میں یہ ذمہ داری تاریخ کے اس طالب علم کے کندھوں پر آپڑتی ہے کہ ریکارڈ درست رکھنے کی غرض سے حقائق سامنے لائے جائیں۔جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو تلوار کا انتخابی نشان منتخب کیا گیا پیپلز پارٹی نے 1970ء اور پھر1977ء کے عام انتخابات تلوار کے انتخابی نشان پر لڑے۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے نام کی مناسبت سے اس تلوار کو حضرت علی ؓکی تلوار کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ کراچی میں کلفٹن روڈ کے دو اہم ترین چوراہوں پر دو تلوار اور تین تلوار کے نام سے جو یادگاریں ہیں یہ منصوبہ دراصل پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں 1973-74ء کے دوران مکمل ہوا۔ 1977ء کے عام انتخابات میں حکومت مخالف پاکستان قومی اتحاد کو ’’ہل ‘‘کا انتخابی نشان دیا گیا تھا اور توقع یہ تھی کہ اس انتخابی نشان کیساتھ بھرپور مہم چلانا ممکن نہیں ہوگا لیکن پی این اے نے سماں باندھ دیا اور ہر طرف ایک ہی نعرہ سنائی دیتا ’’ہل نے مچادی ہلچل‘‘۔جنرل ضیاالحق عنان اقتدار پر قابض ہوئے تو 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے دوران تلوار کو انتخابی نشانات کی فہرست سے نکال دیا گیا۔ پیپلز پارٹی نے 1988ء کے عام انتخابات میں بینظیر بھٹو کی قیادت میں حصہ لینا تھا مگر تلوار کا انتخابی نشان نہ مل سکا۔ چنانچہ تیر کا انتخابی نشان لے لیا گیا۔جیالوں نے صورتحال کی مناسبت سے یہ نعرہ لگایا کہ جب چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو تھے تو انتخابی نشان تلوار تھا ،اب چیئر پرسن بینظیر ہے تو انتخابی نشان تیر ہے۔ تمام تر رکاوٹوں کے باجود پیپلز پارٹی نے ان انتخابات میں میدان مار لیا۔ بعدازاں طویل جدوجہد کے بعد پیپلز پارٹی 2018ء میں پرانا انتخابی نشان تلوار لینے میں کامیاب ہوئی۔ اب الیکشن کمیشن کے پاس پیپلز پارٹی کے نام سے دو جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی جسکے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیں اس کا انتخابی نشان تلوار ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین جس کے چیئرمین آصف زرداری ہیں اسکا انتخانی نشان تیر ہے ۔یعنی نانا کی میراث بلاول نے سنبھال رکھی ہے جبکہ بینظیر کا نشان آصف زرداری کے پاس ہے۔ اس حساب سے بلے کا نشان پاکستان تحریک انصاف کے بعد پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین کے پاس جا سکتا ہے جو پرویز خٹک کے نام رجسٹرڈ ہے۔ بہر حال جس طرح پیپلز پارٹی کو تلوار کے انتخابی نشان سے محروم کیا گیا تھا، اسی طرح کا سلوک چند برس بعد مسلم لیگ (ن) کیساتھ ہوا۔ میاں نوازشریف طویل ماضی میں سائیکل کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑتے چلے آرہے تھے مگر 1993ء کے عام انتخابات کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کو سائیکل کے انتخابی نشان سے محروم کردیا گیا۔ میاں نوازشریف کو چارو ناچار نئے انتخابی نشان شیر کیساتھ انتخابات میں حصہ لینا پڑا۔مسلم لیگ(ن)کو اس الیکشن میں شکست ہوئی مگر پھر شیر کا انتخابی نشان نہیں چھوڑا گیا۔ بعدازاں سائیکل کا انتخابی نشان مسلم لیگ (ق)کے حصے میں آگیا۔ مسلم لیگ (ن)کو دوسری بار اس طرح کی صورتحال کا سامنا 2018ء میں سینیٹ انتخابات کے دوران کرنا پڑا۔ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع ہوچکے تھے، ٹکٹ جاری کئے جاچکے تھے، سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے فیصلہ دیا کہ چونکہ نوازشریف تاحیات نااہل قرار پائے ہیں لہٰذا وہ کسی سیاسی جماعت کی قیادت کرنے کے اہل نہیں رہے اور بطور پارٹی سربراہ انہوں نے جو فیصلے کئےہیں، وہ کالعدم قرار دیئے جاتے ہیں ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم لیگ (ن)کے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنا پڑاتو سینیٹ میں اکثریت حاصل نہ ہوسکی۔ تب تو اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے ہی سیاسی بندوبست کیا جارہا تھا اسلئے کوئی جائے پناہ نہیں تھی مگر تحریک انصاف کو یہ گوشہ عافیت میسر ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ اگر عدالتوں سے ریلیف نہیں ملتا تو ایسی صورت میں بھی کئی متبادل آپشن موجود ہیں۔ بیرسٹر گوہر علی جو الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعدپی ٹی آئی کے چیئرمین نہیں رہے ،ان کا یہ موقف درست نہیں کہ اس فیصلے سے تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے محروم ہو جائیگی۔ مخصوص نشستیں ایک انتخابی نشان پر کامیابی حاصل کرنیوالی جماعتوں میں تقسیم کی جاتی ہیں اور پی ٹی آئی کسی بھی سیاسی جماعت سے اتحاد کرکے یہ حصہ وصول کرسکتی ہے۔ تحریک انصاف اپنے اتحادی شیخ رشید کی جماعت عوامی مسلم لیگ کے ذریعے قلم دوات کے انتخابی نشان پر امیدوار کھڑے کرسکتی ہے یا پھر الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ دیگر 175سیاسی جماعتوں میں سے کسی کے ساتھ بھی اتحاد کیا جاسکتا ہے۔ یہ تاثر بھی درست نہیں کہ پی ٹی آئی شروع سے بلے کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑتی چلی آئی ہے اور اب بلے کے بغیر الیکشن لڑنا دشوار ہوگا۔ 1997ء کے عام انتخابات میں عمران خان سمیت تحریک انصاف کے امیدواروں نے ’’چراغ ‘‘کے انتخابی نشان پر حصہ لیا۔ مقبولیت اور قبولیت کی منازل طے کرنے کے بعد بھی ’’بلا‘‘ عمران خان کی پہلی ترجیح نہیں رہا۔ 2013ء میں الیکشن کمیشن سے استدعا کی گئی کہ ’’ترازو‘‘کا انتخابی نشان الاٹ کیا جائے۔جماعت اسلامی بھی ’’ترازو‘‘کی دعویدار تھی اور 1970ء کے انتخابات میں ’’ترازو‘‘کے انتخابی نشان پر حصہ لینے کے باعث اس کا مقدمہ مضبوط تھا تو پی ٹی آئی کو ’’بلے‘‘کے انتخابی نشان پر اکتفا کرنا پڑا۔ اب بھی ’’چراغ‘‘نہ سہی ’’کوئی جادو کا چراغ‘‘بطور انتخابی نشان لیا جاسکتا ہے ۔

نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کرسمس کے موقع پر اپنے پیغام میں کہنا ہے کہ قائد کے پاکستان میں ہر شخص کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔

آسٹریلیا کے خلاف دوسرے ٹیسٹ کیلئے سابق کپتان سرفراز احمد کو ڈراپ کردیا گیا، وکٹ کیپر محمد رضوان کو حتمی 12 کھلاڑیوں میں شامل کرلیا گیا۔

لاہور میں سی آئی اے پولیس نے کینال روڈ پر واقع نجی اسپتال پر مبینہ طور پر دھاوا بول دیا، پولیس اہلکاروں نے عملے پر تشدد کیا، نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی ملک لیاقت کو او ایس ڈی بنادیا۔

ٹیلی وژن، ریڈیو اور اسٹیج کے معروف اداکار نثار قادری 82 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔

استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے امیدواروں نے قومی اسمبلی کی 18 اور صوبائی اسمبلی کی 40 نشستوں پر کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے، جہانگیر ترین، ملتان اور لودھراں، علیم خان، عون چوہدری لاہور سے الیکشن لڑیں گے۔

سانتا کلاز آج رات کھلونے لائیں گے، چپکے سے بچوں کے سرہانے رکھ جائیں گے، کل سب خوشیاں منائیں گے۔

مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے صاحبزادے سالک حسین نے کہا ہے کہ خاندان کی عزت پی ٹی آئی کے ووٹوں کے لیے مت رولو۔

سابق وفاقی وزیر چوہدری مونس الہٰی نے چوہدری شجاعت حسین کے صاحبزادوں پر آبائی گھر پر پولیس بھیجنے کا الزام لگادیا۔

”دل کا رشتہ“ ایپ نے زیادہ وزن سے پریشان لڑکی کا بھی جوڑ ملا دیا۔

لاہور میں نواز شریف، بلاول بھٹو سمیت دیگر امیدواروں کے کا غذات نامزدگی جمع کراوئے گئے۔

جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) نظریاتی نے بلوچستان کی 11 قومی اسمبلی نشستوں پر کاغذات نامزدگی جمع کرادیے ہیں۔

بانی پی ٹی آئی سب پر بازی لے گئے، جنہوں نے چور چور کا شور مچایا، لیکن اُ س نےخود چوری کی انتہا کر دی، بانی پی ٹی آئی اپنے کیے کی سزا بھگت رہے ہیں، پرویز خٹک

استحکام پاکستان پارٹی ( آئی پی پی ) کے سربراہ جہانگیر خان ترین نے قومی اسمبلی کے 2 اور صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے سے کاغذات نامزدگی جمع کرادیے۔

نعیم پنجوتھہ نے کہا کہ سرگودھا کے حلقہ پی پی 80 سے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے ہیں۔

الیکشن کمشنر بلوچستان اعجاز انور چوہان نےالیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) سے آرمی کی خدمات حاصل کرنے کی گزارش کردی۔

انسانی حقوق کے معاملے میں دنیا تجارتی مفادات پر چلتی ہے، عالمی شہرت یافتہ اداکارہ

QOSHE - محمد بلال غوری - محمد بلال غوری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

محمد بلال غوری

24 19
25.12.2023

’’کھلاڑی بلے کے بغیر کیسے کھیلیں گے؟ یہ تو نہایت غیر منصفانہ اورامتیازی سلوک ہے۔‘‘

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تحریک انصاف کے بین الجماعتی انتخابات کالعدم قرار دیئے جانے اور بلے کا انتخابی نشان واپس لئے جانے کے بعد یہ جو بیانیہ سامنے آیاہے،اسے اختصار کیساتھ متذکرہ بالا جملوں میں بیان کیا جاسکتا ہے۔چونکہ نونہالان ِانقلاب کی تاریخ 10اپریل2022ء سے شروع ہوتی ہے اسلئے وہ کسی بھی زیادتی کے بعد پکار اُٹھتے ہیں، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی مقبول ترین سیاسی جماعت کیساتھ یہ سلوک کیا جارہا ہے۔ ایسی صورت میں یہ ذمہ داری تاریخ کے اس طالب علم کے کندھوں پر آپڑتی ہے کہ ریکارڈ درست رکھنے کی غرض سے حقائق سامنے لائے جائیں۔جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو تلوار کا انتخابی نشان منتخب کیا گیا پیپلز پارٹی نے 1970ء اور پھر1977ء کے عام انتخابات تلوار کے انتخابی نشان پر لڑے۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے نام کی مناسبت سے اس تلوار کو حضرت علی ؓکی تلوار کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ کراچی میں کلفٹن روڈ کے دو اہم ترین چوراہوں پر دو تلوار اور تین تلوار کے نام سے جو یادگاریں ہیں یہ منصوبہ دراصل پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں 1973-74ء کے دوران مکمل ہوا۔ 1977ء کے عام انتخابات میں حکومت مخالف پاکستان قومی اتحاد کو ’’ہل ‘‘کا انتخابی نشان دیا گیا تھا اور توقع یہ تھی کہ اس انتخابی نشان کیساتھ بھرپور مہم چلانا ممکن نہیں ہوگا لیکن پی این اے نے سماں باندھ دیا اور ہر طرف ایک ہی نعرہ سنائی دیتا ’’ہل نے مچادی ہلچل‘‘۔جنرل ضیاالحق عنان اقتدار پر قابض ہوئے تو 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے دوران تلوار کو انتخابی نشانات کی فہرست سے نکال دیا گیا۔ پیپلز پارٹی نے 1988ء کے عام انتخابات میں بینظیر بھٹو کی قیادت میں حصہ لینا تھا مگر تلوار کا انتخابی نشان نہ مل سکا۔ چنانچہ تیر کا انتخابی نشان لے لیا گیا۔جیالوں نے صورتحال کی مناسبت سے یہ نعرہ لگایا کہ جب چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو تھے تو انتخابی نشان تلوار تھا ،اب چیئر........

© Daily Jang


Get it on Google Play