الیکشن شیڈول آنے کے بعد آج کل کاغذات نامزدگی حاصل کرنا پھر انہیں جمع کروانا کاہش جاں بن گیا ہے کیونکہ آتے جاتے شریف شہریوں سے کاغذ چھیننا پولیس اہلکاروں کی پسندیدہ واردات بن گئی ہے۔ کاغذات چھیننے کے اس عمل میں وہ دھکم پیل بھی کرتے ہیں، گالم گلوچ اور تشدد ان کا معمول بن گیا ہے، مزاحمت کرنے پر گرفتار کر لیا جاتا ہے، پولیس کی یہ دیدہ دلیری دیکھ کر مجھے کئی پرانے بادشاہوں کے ہرکارے یاد آ گئے ہیں جو انسانوں کو جانوروں کی طرح ہانکتے تھے، صرف ہانکتے نہیں تھے جانوروں جیسا سلوک بھی کرتے تھے۔ سولائزیشن کے بعد ترقی کرتے کرتے سماج اس نہج پر پہنچا کہ لوگوں کے انسانی حقوق جاگ گئے پھر ان انسانی حقوق کو آئین میں تحفظ دے دیا گیا، اس قانونی تحفظ کے باوجود حالیہ چند دنوں کے واقعات نے ساری صورتحال کو بے نقاب کر دیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ انسانی حقوق پامال ہو کر رہ گئے ہیں۔ عثمان ڈار کی والدہ کا گریبان پھاڑ دیا جاتا ہے۔ شیخ امتیاز کی بیوی کو توہین آمیز رویے کیساتھ تھانے لیجا کر مزید تضحیک کی جاتی ہے۔ چوہدری شجاعت حسین کی تین بہنوں کو مشکل ترین صورتحال سے گزرنا پڑتا ہے مگر چوہدری صاحب اور ان کے بچے خاموش رہتے ہیں۔ بلال ورک کی آنکھ زخمی ہو جاتی ہے۔ بلوچستان سے آئی ہوئی خواتین کے ساتھ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں انتہائی گھٹیا اور توہین آمیز رویہ اپنایا جاتا ہے۔ پولیس کے کارندے عورتوں پر وحشیانہ تشدد کرتے ہیں۔ اسلام آباد کی یخ بستہ رات میں واٹر کینن کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سب مناظر دیکھ کر ایک سوال بار بار اٹھتا ہے کہ آخر پولیس وردیوں میں ملبوس اہلکار کن ماؤں کے بچے ہیں جو اپنے دیس کی ماؤں بہنوں کی توہین اور تضحیک کر رہے ہیں۔ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے، دھرتی ماں ہوتی ہے اور مامتا ہمیشہ بچوں کے لئے تڑپتی ہے۔ مامتا بچوں کے لئے سکھ تلاش کرتی ہے، مامتا تو دکھوں کی نگری آباد نہیں کرتی۔ میں سوچتا ہوں میرے سامنے یہ بہت بڑا سوال ہے کہ آخر میرے وطن کی ماؤں نے کب سے بدتمیز بچے پیدا کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ میرے وطن کی مائیں تو مہذب اور مؤدب بچے پیدا کیا کرتی تھیں۔ میری دھرتی تو حوصلہ مند اور باہمت ماؤں سے بھری پڑی تھی۔ یہ باغ کب اجڑ گیا، کب سے خزاں نے بسیرا کر لیا کہ لوگ شرم و حیا اور اخلاقیات کو بھول گئے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کیلئے اخلاقیات کی چتا جلا دی جائے۔ چھوڑیئے صاحب! سیاست زہر آلود ہو گئی ہے، سیاست میں عزتیں پامال ہو گئی ہیں۔ آج میں آپ کو ایک عظیم ماں کی کہانی سناتا ہوں۔ یہ ماں ضلع جھنگ کے علاقے بھوانہ کے قریب ایک پسماندہ گاؤں چک نمبر 195 کی ہے، اس عظیم خاتون کی کیا بات ہے، یہ جب پینتیس سال کی عمر میں بیوہ ہوئیں تو آنگن میں سات بیٹے تھے، سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر آٹھ ماہ تھی۔ پروفیسر انور خان جپہ آج سے سینتیس برس پہلے اپنے گھر کے سات ننھے چراغ چھوڑ کر منوں مٹی تلے آسودہ خاک ہو گئے تھے، بس پھر ان چراغوں کی مدہم روشنیاں تھیں، آندھیوں اور تیز ہواؤں کا سامنا تھا مگر مامتا جاگتی رہی، ماں نے کوئی چراغ بجھنے نہ دیا۔ بچوں کے مرحوم والد کی خواہش کے مطابق پہلے سیف انور جپہ کو گورنمنٹ کالج لاہور بھیجا اور پھر اس کے پیچھے اسد طاہر جپہ، ظفر حیدر جپہ، شکیل انور جپہ، سلیم انور جپہ، ظہیر انور جپہ اور نوید انور جپہ کو بھی گورنمنٹ کالج لاہور بھیجا۔ مامتا بچوں پہ پہرہ دیتی رہی، ماں بچوں کو سمجھاتی رہی۔ انکے مستقبل کی لائنیں درست کرتی رہی۔ ماں کی یہی خواہش تھی کہ باپ کے انتقال کے وقت جو سات ننھے چراغ تھے وہ اس قدر بھرپور ہو جائیں کہ انکی روشنی علاقے سے نکل کر ملک گیر ہو جائے اور پھر اس روشنی کا احساس بیرون ملک بھی ہو۔ ایک دیہاتی ماں کے سات میں سے پانچ بچے سی ایس ایس کر گئے۔ سب سے چھوٹے کو آرمی میں جانے کا شوق تھا وہ آج کل پاک فوج میں بطور میجر خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ ایک بھائی کو کاروبار کا شوق تھا سو اس نے کاروبار اپنا لیا۔ ان تمام سات لڑکوں میں حصول علم کی آرزو ابھی بھی تڑپتی ہے، خاص طور پر اسد طاہر جپہ اور ظفر حیدر جپہ بیرون ملک تعلیم کے دروازے کھٹکھٹاتے رہتے ہیں۔ اسد طاہر نے تو اور بھی کمال کیا کہ ماں کی رہنمائی میں اپنے پسماندہ علاقے کے بچوں کیلئے اعلیٰ اسکول قائم کر دیا۔ جھنگ کے یہ جاٹ بچے ملک کے روشن چراغ بن چکے ہیں لیکن ان چراغوں کو طوفانوں اور آندھیوں سے بچا کر انکی لو بڑھانے والی ماں چند روز پہلے بچھڑ گئی کہ بالآخر اس جہان فانی سے سب کو کوچ کر جانا ہے۔ لمحات کی عجیب مسافت ہے کہ جو ماں ساری زندگی بچوں کیلئے دعا کرتی رہی اب بچے اس کے لئے دعا کر رہے ہیں اور ساتھ یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ

خوف آیا نہیں سانپوں کے گھنے جنگل میں

مجھ کو محفوظ مری ماں کی دعا نے رکھا

میلبرن میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ میں قومی ٹیم میں محمد رضوان، حسن علی اور میر حمزہ کو شامل کیا گیا ہے۔

روسی حکام کا کہنا ہے کہ اس علاقے کو مکمل آزاد کرانے سے روسی پوزیشن مزید مستحکم ہوگئی ہے۔

ورجینیا میں فلسطینی حامی مظاہرین نے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے گھر کے باہر احتجاج کیا۔

رہنماؤں نے پنجاب میں انتخابی اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بات چیت کی۔

مردان میں تنظیمی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللّٰہ کرے یہ بات غلط ہو لیکن شاید ہمارے خلاف بھی فیصلہ کرنا پڑے۔

برطانیہ کے بادشاہ چارلس نے دنیا بھر میں بڑھتے المناک تنازعات پر اظہار تشویش کیا ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ افسوس ہے کہ سائفر کے معاملے کو بھی سیاست اور لیول پلیئنگ فیلڈ کی نذر کیا گیا۔

پنجاب کے میدانی علاقوں میں آج رات بھی دھند چھا گئی، حد نگاہ انتہائی کم ہونے کے باعث موٹر ویز کو مختلف مقامات سے بند کردیا گیا ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ رنبیر اور عالیہ کی بیٹی کے ساتھ لی گئی تصاویر اور ویڈیو سامنے آئی ہیں۔

نگراں وزیر اطلاعات سندھ نے کہا ہے کہ ایس ایس پی عرفان سموں صحافی جان محمد مہر کے قاتلوں کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

ترجمان حماس نے مزید کہا کہ دو ریاستی حل کو مسترد کرتے ہیں، اگر چور گھر میں آ جائے تو کیا ہم اس کو اپنے گھر کا حصہ دار بنائیں گے؟

ایرانی پاسداران انقلاب گارڈز نے کہا ہے کہ اسرائیل کو رضا موسوی کے قتل کی قیمت چکانی ہوگی۔

اسرائیل نے دمشق کے علاقے پر حملہ کیا ہے، ایرانی ٹی وی کے مطابق حملے میں جنرل سلیمانی کے ساتھی ایرانی کمانڈر جاں بحق ہوئے ہیں۔

مقررین کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک نا جائز ریاست ہے، فلسطین کی حمایت کرنا سب کی ذمہ داری ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نہال ہاشمی نے کہا ہے کہ الیکشن میں ہمارا کسی سے اتحاد نہیں ہے۔

پی پی رہنما نے کہا کہ ہر سیاسی جماعت کو الیکشن میں حصہ لینے کی ضرورت ہے۔

QOSHE - مظہر برلاس - مظہر برلاس
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مظہر برلاس

18 1
26.12.2023

الیکشن شیڈول آنے کے بعد آج کل کاغذات نامزدگی حاصل کرنا پھر انہیں جمع کروانا کاہش جاں بن گیا ہے کیونکہ آتے جاتے شریف شہریوں سے کاغذ چھیننا پولیس اہلکاروں کی پسندیدہ واردات بن گئی ہے۔ کاغذات چھیننے کے اس عمل میں وہ دھکم پیل بھی کرتے ہیں، گالم گلوچ اور تشدد ان کا معمول بن گیا ہے، مزاحمت کرنے پر گرفتار کر لیا جاتا ہے، پولیس کی یہ دیدہ دلیری دیکھ کر مجھے کئی پرانے بادشاہوں کے ہرکارے یاد آ گئے ہیں جو انسانوں کو جانوروں کی طرح ہانکتے تھے، صرف ہانکتے نہیں تھے جانوروں جیسا سلوک بھی کرتے تھے۔ سولائزیشن کے بعد ترقی کرتے کرتے سماج اس نہج پر پہنچا کہ لوگوں کے انسانی حقوق جاگ گئے پھر ان انسانی حقوق کو آئین میں تحفظ دے دیا گیا، اس قانونی تحفظ کے باوجود حالیہ چند دنوں کے واقعات نے ساری صورتحال کو بے نقاب کر دیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ انسانی حقوق پامال ہو کر رہ گئے ہیں۔ عثمان ڈار کی والدہ کا گریبان پھاڑ دیا جاتا ہے۔ شیخ امتیاز کی بیوی کو توہین آمیز رویے کیساتھ تھانے لیجا کر مزید تضحیک کی جاتی ہے۔ چوہدری شجاعت حسین کی تین بہنوں کو مشکل ترین صورتحال سے گزرنا پڑتا ہے مگر چوہدری صاحب اور ان کے بچے خاموش رہتے ہیں۔ بلال ورک کی آنکھ زخمی ہو جاتی ہے۔ بلوچستان سے آئی ہوئی خواتین کے ساتھ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں انتہائی گھٹیا اور توہین آمیز رویہ اپنایا جاتا ہے۔ پولیس کے کارندے عورتوں پر وحشیانہ تشدد کرتے ہیں۔ اسلام آباد کی یخ بستہ رات میں واٹر کینن کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سب مناظر دیکھ کر ایک سوال بار بار اٹھتا ہے کہ آخر پولیس وردیوں میں ملبوس اہلکار کن ماؤں کے بچے ہیں جو اپنے دیس کی........

© Daily Jang


Get it on Google Play