چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے ایسے حالات میں امریکہ کا دورہ کیا ہے جب پاکستان اندرونی اور بیرونی طور پر مختلف سیاسی اور معاشی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ اندرونی طور پر شدید نوعیت کے سیاسی عدم استحکام کی کیفیت ہے ملک میں نئے انتخابات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے۔ریاست پاکستان کیلئے اس وقت ایک بڑا چیلنج ان انتخابات کو شفاف بنانا ہے تاکہ عالمی دنیا میں ان انتخابات کی ساکھ بن سکے جبکہ زمینی حقائق کوئی اور کہانی بتاتے ہیں۔ دوسری طرف افغانستان کی جانب سے مسلسل غیر یقینی حالات کا سامنا ہے۔ افغان طالبان پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کر رہے ہیں اور کابل میں کوئی شخص یا ادارہ پاکستانی آواز پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ ان حالات میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے فیصلے نے کئی عالمی دوستوں کو تشویش میں مبتلا کیا ہے لیکن ریاست پاکستان نے اس حوالے سے جراتمندانہ موقف اختیار کرتے ہوئے انکی واپسی جاری رکھی ہے جس سے پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں اور جرائم کی شرح میں بھی نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ روایتی طور پر پاکستان میں آرمی چیف کا منصب سنبھالنے والے جلد امریکہ کا دورہ کرتے ہیں لیکن جنرل عاصم منیر نے نومبر 2022ء میں آرمی چیف کا منصب سنبھالا اسکے بعد وہ چین، سعودی عرب، متحدہ امارات اور برطانیہ کے دورے پرگئے لیکن ایک سال کی طویل سوچ بچار اور اس پر ادارہ جاتی کوآرڈی نیشن کے بعد انہوں نے امریکہ کا سفر اختیار کیا۔ اپنی جگہ پر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے دوطرفہ تعلقات مستقل طور پر ایک کیفیت میں نہیں رہتے لیکن اس کیساتھ ساتھ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستانی سویلین حکومت اور امریکی حکومت کے مابین تعلقات کشیدہ ہوں یا خوشگوار ہوں دونوں ملکوں کے فوجی مراکز کبھی بھی آپس کے باہمی تعلقات میں رخنہ نہیں ڈالتے۔ برے ترین حالات میں بھی جی ایچ کیو اور پینٹاگون کے مابین روابط برقرار رہتے ہیں اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سیاسی حکومتوں کے مابین جب کہیں سرد مہری آتی ہے تو جی ایچ کیو اور پینٹاگان ملکر اس کشیدگی کو ختم کرنے میں اپنی اپنی حکومتوں کی مدد بھی کرتے ہیں اور رابطہ کار کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں فوجی ادارے سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کےمابین سیکورٹی کے معاملات پر تعلقات بہت گہرے ہیں اور کوئی بھی ادارہ ان تعلقات میں کسی نوعیت کا تعطل اپنی اپنی ریاست کے مفاد میں نہیں سمجھتا۔ آج بھی واشنگٹن اور اسلام آباد کے مابین تعلقات میں گرم جوشی نہیں ہے۔

اس سردمہری کے عالم میں جنرل عاصم منیر اپنے پہلے دورہ امریکہ پر تشریف لے گئے تو دیکھنا ہوگا کہ وہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کس حد تک بحال کر سکتے ہیں اور ان تعلقات کے حوالے سے مستقبل کا منظر نامہ کیا ہو گا۔پاکستان اور امریکہ کے درمیان کئی عشروں پر محیط تعلقات کا محور افغانستان کی صورتحال رہی ہے مگر امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد یہ اہمیت اپنا اثر ختم کر چکی ہے اور اب پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ دوبارہ کسی ایسی بنیاد پر تعلقات کی عمارت کھڑی کی جائے جہاں پاکستان کو محض ایک سیکورٹی ریاست کے طور پر نہ دیکھا جائے بلکہ کاروباری تعلق کے حوالے سے بھی پاکستان کو اہمیت دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ آرمی چیف کے دورہ امریکہ کے دوران پاکستان کے معاشی معاملات پر گفتگو کو بنیادی اہمیت حاصل رہی جنرل عاصم منیر وطن عزیز کی معاشی ترقی کیلئے بذات خود دلچسپی رکھتے ہیں اور معاملات کو دیکھ بھی رہے ہیں۔ ڈالر کنٹرول کرنے میں انکی حکمت عملی کا ایک واضح دخل ہے اور انہوں نے دورہ امریکہ کے دوران پاکستان کی معاشی صورتحال کو بنیادی اہمیت دی۔ ذرائع کے مطابق آرمی چیف نے امریکی انتظامیہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے گزشتہ چند برسوں میں پاکستانی معیشت جس زبوں حالی کا شکار ہوئی ہے اس میں پاکستان کے اندرونی حالات کیساتھ ساتھ امریکی پالیسیوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ لہذا اسکے ازالہ کیلئے بائیڈن انتظامیہ کو بھی موثر کوشش کرنی چاہے۔ امریکی انتظامیہ نے آرمی چیف کو یہ باور کرانے کی بھی کوشش کی ہے کہ چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے باوجود پاکستان کو چین کی جانب سے تجارتی خسارے کا سامنا ہے اور کاروباری عدم توازن کے باعث پاکستانی سرمایہ چین میں منتقل ہو رہا ہے اور چین کی جانب سے اس عدم توازن کو ختم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی جا رہی۔ چین کے، بی آر آئی فلیگ شپ منصوبے، سی پیک کی وجہ سے پاکستان فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کر رہا ہے لیکن اسکے معاشی ثمرات پاکستانی قوم کو نہیں مل رہے۔ امریکی انتظامیہ میں یہ سوچ بھی پروان چڑھ رہی ہے کہ پاکستان بتدریج امریکی بلاک سے نکل کر چینی بلاک میں جا رہا ہے۔ غالبا اسی سوچ کے تناظر میں آرمی چیف نے کہا کہ ’’پاکستان بلاکس کی سیاست میں حصہ نہیں لے گا‘‘ معیشت کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ پاکستان کالعدم ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کا شکار ہے لیکن امریکہ اس وجہ سے ٹی ٹی پی کیخلاف کارروائی نہیں کر رہا کیونکہ انکے خیال میں طالبان، داعش کیخلاف جنگ لڑ رہے ہیں لہذا انکے مفادات کا تقاضاہے کہ طالبان کیخلاف کارروائی نہ کی جائے جبکہ پاکستان اس حوالے سے شدید پریشانی سے دوچار ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ ریاست کی سب سے بااثر شخصیت کی جانب سے امریکہ کو کس حد تک یہ باور کروایا جا سکا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کی بہتری کیلئے ایک طرف تو دہشت گردی ختم کرنے کیلئے امریکی کردار کی اور تعاون کی ضرورت ہے تو دوسری طرف معیشت کی بحالی کیلئے بھی امریکہ کا دست تعاون از بس ضروری ہے۔

ایران نے جاپانی ٹینکر پر ڈرون حملے کا امریکی الزام مسترد کرتے ہوئے اسے بےکار قرار دیا ہے۔

میلبرن میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ میں قومی ٹیم میں محمد رضوان، حسن علی اور میر حمزہ کو شامل کیا گیا ہے۔

روسی حکام کا کہنا ہے کہ اس علاقے کو مکمل آزاد کرانے سے روسی پوزیشن مزید مستحکم ہوگئی ہے۔

ورجینیا میں فلسطینی حامی مظاہرین نے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے گھر کے باہر احتجاج کیا۔

رہنماؤں نے پنجاب میں انتخابی اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بات چیت کی۔

مردان میں تنظیمی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللّٰہ کرے یہ بات غلط ہو لیکن شاید ہمارے خلاف بھی فیصلہ کرنا پڑے۔

برطانیہ کے بادشاہ چارلس نے دنیا بھر میں بڑھتے المناک تنازعات پر اظہار تشویش کیا ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ افسوس ہے کہ سائفر کے معاملے کو بھی سیاست اور لیول پلیئنگ فیلڈ کی نذر کیا گیا۔

پنجاب کے میدانی علاقوں میں آج رات بھی دھند چھا گئی، حد نگاہ انتہائی کم ہونے کے باعث موٹر ویز کو مختلف مقامات سے بند کردیا گیا ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ رنبیر اور عالیہ کی بیٹی کے ساتھ لی گئی تصاویر اور ویڈیو سامنے آئی ہیں۔

نگراں وزیر اطلاعات سندھ نے کہا ہے کہ ایس ایس پی عرفان سموں صحافی جان محمد مہر کے قاتلوں کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

ترجمان حماس نے مزید کہا کہ دو ریاستی حل کو مسترد کرتے ہیں، اگر چور گھر میں آ جائے تو کیا ہم اس کو اپنے گھر کا حصہ دار بنائیں گے؟

ایرانی پاسداران انقلاب گارڈز نے کہا ہے کہ اسرائیل کو رضا موسوی کے قتل کی قیمت چکانی ہوگی۔

اسرائیل نے دمشق کے علاقے پر حملہ کیا ہے، ایرانی ٹی وی کے مطابق حملے میں جنرل سلیمانی کے ساتھی ایرانی کمانڈر جاں بحق ہوئے ہیں۔

مقررین کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک نا جائز ریاست ہے، فلسطین کی حمایت کرنا سب کی ذمہ داری ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نہال ہاشمی نے کہا ہے کہ الیکشن میں ہمارا کسی سے اتحاد نہیں ہے۔

QOSHE - پیر فاروق بہاو الحق شاہ - پیر فاروق بہاو الحق شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

پیر فاروق بہاو الحق شاہ

12 1
26.12.2023

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے ایسے حالات میں امریکہ کا دورہ کیا ہے جب پاکستان اندرونی اور بیرونی طور پر مختلف سیاسی اور معاشی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ اندرونی طور پر شدید نوعیت کے سیاسی عدم استحکام کی کیفیت ہے ملک میں نئے انتخابات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے۔ریاست پاکستان کیلئے اس وقت ایک بڑا چیلنج ان انتخابات کو شفاف بنانا ہے تاکہ عالمی دنیا میں ان انتخابات کی ساکھ بن سکے جبکہ زمینی حقائق کوئی اور کہانی بتاتے ہیں۔ دوسری طرف افغانستان کی جانب سے مسلسل غیر یقینی حالات کا سامنا ہے۔ افغان طالبان پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کر رہے ہیں اور کابل میں کوئی شخص یا ادارہ پاکستانی آواز پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ ان حالات میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے فیصلے نے کئی عالمی دوستوں کو تشویش میں مبتلا کیا ہے لیکن ریاست پاکستان نے اس حوالے سے جراتمندانہ موقف اختیار کرتے ہوئے انکی واپسی جاری رکھی ہے جس سے پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں اور جرائم کی شرح میں بھی نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ روایتی طور پر پاکستان میں آرمی چیف کا منصب سنبھالنے والے جلد امریکہ کا دورہ کرتے ہیں لیکن جنرل عاصم منیر نے نومبر 2022ء میں آرمی چیف کا منصب سنبھالا اسکے بعد وہ چین، سعودی عرب، متحدہ امارات اور برطانیہ کے دورے پرگئے لیکن ایک سال کی طویل سوچ بچار اور اس پر ادارہ جاتی کوآرڈی نیشن کے بعد انہوں نے امریکہ کا سفر اختیار کیا۔ اپنی جگہ پر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے دوطرفہ تعلقات مستقل طور پر ایک کیفیت میں نہیں رہتے لیکن اس کیساتھ ساتھ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستانی سویلین حکومت اور امریکی حکومت کے مابین تعلقات کشیدہ ہوں یا خوشگوار ہوں دونوں ملکوں کے فوجی مراکز کبھی بھی آپس کے باہمی تعلقات میں رخنہ نہیں........

© Daily Jang


Get it on Google Play