یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ یہ ریاست پاکستان ہے صومالیہ وغیرہ نہیں ہے۔ ریاست پاکستان کمزور نہیں ہے کہ چند لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بن جائے گی۔ گزشتہ چند دنوں سے اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرے کے نام پر ایک عجیب تماشا لگا ہوا ہے۔ یہ ’’احتجاجی مظاہرہ‘‘ لاپتہ افراد کی آڑ میں کیا جارہا ہے۔ حکومت نے ان ’’مظاہرین‘‘ سے مذاکرات کیلئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ ابھی تک کئی ’’مظاہرین‘‘ کو رہا بھی کیا جا چکا ہے۔ بعض لوگ ان ’’مظاہرین‘‘ کی حمایت کر رہے ہیں ایسے لوگ یا تو حقائق سے بے خبر ہیں یا کچھ اور وجوہات ہوں گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بلوچستان کےمحب لوگوں کے ساتھ دشمنی ہے۔ جو وہاں قیام امن کے خواہاں ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہ مظاہرہ بھارت کی ایما پر کیا جارہا ہے۔ اس ’’مظاہرے کی قیادت کرنے والی خود پاکستان کی تنخواہ دار ایک دہشت گرد کی بیٹی ہے۔ کوئی بھی جاکر اس خاتون سے دہشت گردوں کے خلاف ایک جملہ تو کہلوا دے پھر بے شک اس مظاہرے کی حمایت کرے۔

لاپتہ افراد کے لئے قائم کمیشن نے انکے بارے میں تمام تفصیلات جاری کردی ہیں۔ ہزاروں لاپتہ افراد اپنے گھروں کو جاچکے ہیں اور باقی کے بارے میں کام ہو رہا ہے۔ لیکن پھر بھی جائز مسئلے کے لئے پرامن احتجاج کرنا ہر پاکستانی کا حق ہے۔ لیکن یہ حق ملک دشمنوں اور ملک میں دہشت گردی کرنے یا امن و امان کو خراب کرنے والوں کو ہرگز حاصل نہیں ہے نہ ہی ان لوگوں کو جو ریاست کے اندر ریاست بنانے اور زور زبردستی اپنے ناجائز مطالبے کو منوانا چاہتے ہیں۔ ریاست ایسی کسی بھی کوشش کو کچلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے ۔ اسلام آباد میں اس ’’مظاہرے‘‘ کی قیادت کرنے والی ماہ رنگ بلوچ ضلع چاغی میں میڈیکل افسر ہے۔ اسکے والد عبدالغفار لانگو کا تعلق بی ایل اے نامی دہشت گرد تنظیم سے رہا ہے۔ واضح رہے کہ اس تنظیم کو اقوام متحدہ نے بھی دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے جس کے پیچھے بھارت ہے۔ ماہ رنگ لانگو اسی لئے دہشت گردوں کے خلاف کوئی بات نہیں کرتی بلکہ ڈھٹائی دیکھیں کہ وہ اسلام آباد میں بیٹھ کر ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف زبان استعمال کر رہی ہے اور ریاست کیخلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کرکے بلوچوں کو ورغلا کر گمراہ کر رہی ہے۔ یہ کوئی سنی سنائی باتیں نہیں ہیں۔ کوئی بھی اس کی ویڈیو دیکھ اور سن سکتا ہے وہاں جا کر اس سے پوچھ سکتا ہے۔ یہ کونسا احتجاج اور مظاہرہ ہے۔ یہ تو ریاست کے خلاف بغاوت اور اعلان جنگ ہے۔ اس ’’مظاہرے‘‘ کا مقصد لاپتہ افراد کا معاملہ ہرگز نہیں ہے لاپتہ افراد کا معاملہ تو ایک آڑ ہے جس کے پیچھے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے یہ بات نہایت سنگین اور قابل توجہ ہے کہ ایک دہشت گرد کی بیٹی ریاست پر زبانی حملہ آور ہورہی ہے۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ وہ کس طرح ایک سرکاری ملازمت پر برقرار ہے جس ملک کا کھا رہی ہے اسی کے اداروں کے خلاف عوام میں نفرت پھیلاتی اور گمراہ کرکے مشتعل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اور بلوچستان میں قیام امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے۔ پتہ ہونا چاہئے کہ اسکے پیچھے کون ہے اور اس کے حمایتی کسی بھی شعبے میں ہوں وہ کیوں اس کی حمایت کررہے ہیں؟۔ بلوچستان میں بے گناہ مزدوروں کا قتل عام ہوتا ہے۔ بے گناہ بلوچوں کو قتل کیا جاتا ہے اس کے خلاف تو نہ کوئی بولتا ہے نہ لکھتا ہے ۔ لیکن ماہ رنگ بلوچ کی حمایت کی جارہی ہے یہ نہایت قابل توجہ بات ہے۔ امید ہے کہ ریاست اس پر بھی جلد توجہ دے گی۔ جہاں تک پاکستانی سیاست کا تعلق ہے ووٹ کی محتاج سیاسی جماعتوں نے نہ تو ان ’’مظاہرین‘‘ کی حمایت کی ہے نہ ہی مخالفت کی ہے۔ حالانکہ ان کو ریاست پاکستان کی حمایت کرنی چاہئے اور کھل کر کرنی چاہئے۔ ہم اسی لئے کہتے ہیں کہ اس نام نہاد جمہوریت سے ملک کو عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہے فائدہ اگر ہے تو سیاستدانوں کو ہے۔ عوام کو سوچنا چاہئے کہ جانوں کی قربانیاں دفاعی اداروں کے افسر اور جوان دیں اور معاشی قربانیاں عوام دیں۔ جبکہ مزے اور فائدے سیاستدان لیں۔ اور پھر بھی ’’جمہوریت ‘‘ زندہ باد۔ جب تک عوام یہ نہیں سمجھیںگے اسی طرح کی صورت حال جاری رہے گی۔ نظام کی تبدیلی ہی مسائل کا حل ہے۔

بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات نے بھی کہا ہے کہ بلوچستان میں نسلی تعصب کی بنا پر لوگوں کو قتل کیا جاتا ہےلیکن کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ بلوچستان سے کوئی بھی لاپتہ نہیں ہے۔ ’’احتجاجی مظاہرے‘‘ کے شرکاء جن افراد کے نام لے رہے ہیں وہ پہاڑوں پر کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے کیمپوں میں ہیں یا بھارت میں تربیت لے رہے ہیں۔ ماہ رنگ بلوچ لاپتہ افراد کے لئے نہیں بلکہ دہشت گرد تنظیموں کا سیاسی ونگ بنا کر چلا رہی ہے۔ جس راشد بلوچ نامی شخص کی تصویر اس ’’مظاہرے‘‘ میں دکھائی گئی ہے یہ وہی راشد بلوچ نامی شخص ہے جو 2018ء میں چینی قونصلیٹ پر حملے میں ملوث تھا۔ اس حملے میں راشد بلوچ نے بی ایل اے کی مدد کی تھی اس حملے کی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کی تھی۔ اسلام آباد میں ہونے والے مظاہرے میں کھلے عام ریاست اور ریاستی اداروں پر جھوٹے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور ان کو کھلی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ماہ رنگ بلوچ دہشت گردوں کو کھلے عام اپنا ہیرو کہتی ہے۔ اور بلوچ نوجوانوں کو اکسا کر دہشت گرد تنظیم میں شامل ہونے کی دعوت دے رہی ہے۔ بلوچوں کو پنجابیوں کے خلاف اکسا کر ملک میں بدامنی اور انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے اور بلوچستان کی علیحدگی کا پرچار کر رہی ہے۔ کیا اب بھی اسکے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کی جائے۔ کیا اس کے خلاف کارروائی بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ کیا ریاست یہ تماشا دیکھتی رہے؟

ایران نے جاپانی ٹینکر پر ڈرون حملے کا امریکی الزام مسترد کرتے ہوئے اسے بےکار قرار دیا ہے۔

میلبرن میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ میں قومی ٹیم میں محمد رضوان، حسن علی اور میر حمزہ کو شامل کیا گیا ہے۔

روسی حکام کا کہنا ہے کہ اس علاقے کو مکمل آزاد کرانے سے روسی پوزیشن مزید مستحکم ہوگئی ہے۔

ورجینیا میں فلسطینی حامی مظاہرین نے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے گھر کے باہر احتجاج کیا۔

رہنماؤں نے پنجاب میں انتخابی اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بات چیت کی۔

مردان میں تنظیمی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللّٰہ کرے یہ بات غلط ہو لیکن شاید ہمارے خلاف بھی فیصلہ کرنا پڑے۔

برطانیہ کے بادشاہ چارلس نے دنیا بھر میں بڑھتے المناک تنازعات پر اظہار تشویش کیا ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ افسوس ہے کہ سائفر کے معاملے کو بھی سیاست اور لیول پلیئنگ فیلڈ کی نذر کیا گیا۔

پنجاب کے میدانی علاقوں میں آج رات بھی دھند چھا گئی، حد نگاہ انتہائی کم ہونے کے باعث موٹر ویز کو مختلف مقامات سے بند کردیا گیا ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ رنبیر اور عالیہ کی بیٹی کے ساتھ لی گئی تصاویر اور ویڈیو سامنے آئی ہیں۔

نگراں وزیر اطلاعات سندھ نے کہا ہے کہ ایس ایس پی عرفان سموں صحافی جان محمد مہر کے قاتلوں کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

ترجمان حماس نے مزید کہا کہ دو ریاستی حل کو مسترد کرتے ہیں، اگر چور گھر میں آ جائے تو کیا ہم اس کو اپنے گھر کا حصہ دار بنائیں گے؟

ایرانی پاسداران انقلاب گارڈز نے کہا ہے کہ اسرائیل کو رضا موسوی کے قتل کی قیمت چکانی ہوگی۔

اسرائیل نے دمشق کے علاقے پر حملہ کیا ہے، ایرانی ٹی وی کے مطابق حملے میں جنرل سلیمانی کے ساتھی ایرانی کمانڈر جاں بحق ہوئے ہیں۔

مقررین کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک نا جائز ریاست ہے، فلسطین کی حمایت کرنا سب کی ذمہ داری ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نہال ہاشمی نے کہا ہے کہ الیکشن میں ہمارا کسی سے اتحاد نہیں ہے۔

QOSHE - ایس اے زاہد - ایس اے زاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ایس اے زاہد

14 1
26.12.2023

یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ یہ ریاست پاکستان ہے صومالیہ وغیرہ نہیں ہے۔ ریاست پاکستان کمزور نہیں ہے کہ چند لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بن جائے گی۔ گزشتہ چند دنوں سے اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرے کے نام پر ایک عجیب تماشا لگا ہوا ہے۔ یہ ’’احتجاجی مظاہرہ‘‘ لاپتہ افراد کی آڑ میں کیا جارہا ہے۔ حکومت نے ان ’’مظاہرین‘‘ سے مذاکرات کیلئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ ابھی تک کئی ’’مظاہرین‘‘ کو رہا بھی کیا جا چکا ہے۔ بعض لوگ ان ’’مظاہرین‘‘ کی حمایت کر رہے ہیں ایسے لوگ یا تو حقائق سے بے خبر ہیں یا کچھ اور وجوہات ہوں گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بلوچستان کےمحب لوگوں کے ساتھ دشمنی ہے۔ جو وہاں قیام امن کے خواہاں ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہ مظاہرہ بھارت کی ایما پر کیا جارہا ہے۔ اس ’’مظاہرے کی قیادت کرنے والی خود پاکستان کی تنخواہ دار ایک دہشت گرد کی بیٹی ہے۔ کوئی بھی جاکر اس خاتون سے دہشت گردوں کے خلاف ایک جملہ تو کہلوا دے پھر بے شک اس مظاہرے کی حمایت کرے۔

لاپتہ افراد کے لئے قائم کمیشن نے انکے بارے میں تمام تفصیلات جاری کردی ہیں۔ ہزاروں لاپتہ افراد اپنے گھروں کو جاچکے ہیں اور باقی کے بارے میں کام ہو رہا ہے۔ لیکن پھر بھی جائز مسئلے کے لئے پرامن احتجاج کرنا ہر پاکستانی کا حق ہے۔ لیکن یہ حق ملک دشمنوں اور ملک میں دہشت گردی کرنے یا امن و امان کو خراب کرنے والوں کو ہرگز حاصل نہیں ہے نہ ہی ان لوگوں کو جو ریاست کے اندر ریاست بنانے اور زور زبردستی اپنے ناجائز مطالبے کو منوانا چاہتے ہیں۔ ریاست ایسی کسی بھی کوشش کو کچلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے ۔ اسلام آباد میں اس ’’مظاہرے‘‘ کی قیادت کرنے والی ماہ رنگ بلوچ ضلع چاغی میں میڈیکل افسر ہے۔ اسکے والد عبدالغفار لانگو کا تعلق بی ایل اے نامی دہشت گرد تنظیم سے رہا ہے۔ واضح رہے کہ اس تنظیم کو اقوام متحدہ نے........

© Daily Jang


Get it on Google Play