بے شک الیکشن کے سلسلے کے تمام مراحل بڑی خوش اسلوبی طے ہورہے ہیں مگر دور تک دیکھوں تو پلان بی کی جھلکیاں بھی نظر آنے لگتی ہیں۔ الیکشن کے نتائج کیا ہونگے ۔کون جیتے گا، کون ہارے گا، کس کی حکومت بنے گی، کیا عجب ہے کہ یہ باتیں ہر شخص جانتا ہے مگر کچھ الیکشن لڑنے والوں سے مکالمہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انتخابات کوئی نیا موڑ بھی ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کوئی ایسی جماعت الیکشن سے بائیکاٹ کا اعلان دے، جس کی بیرونی دنیا میں ساکھ بہت مضبوط ہے۔ اگر ایسا ہوا تو دنیا کیلئے یہ الیکشن سلیکشن کی ایک نئی شکل قرار پائیں گے۔ پھر تیرہ پارٹیاں مل کر حکومت بنائیں یا جہانگیر ترین کی چودہویں پارٹی بھی شامل ہو ۔ کوئی فرق نہیں پڑے گی۔ ووٹ کاسٹ کرنے کی شرح زمین پر گر پڑے گی اور اگر اُس پارٹی کے امیدواروں کو الیکشن لڑنے دیا گیا تو پھر اور کوئی ’’ورلہ ورلہ‘‘ ہی جیت سکے گا۔ دھاندلی کے ناخن بھی اکھڑ جائیں گے۔ بہر حال موجودہ صورت حال میں پنجاب میں نون لیگ، سندھ میں پیپلز پارٹی، خیبرپختون خوا میں ملی جلی پارٹیاں اور بلوچستان میں نون لیگ کے اتحادیوں کی کامیابی کا واضح امکان ہے، پنجاب میں وہ اضلاع جونون لیگ کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔ ایک نظر ان میں ہونے والی شکست و ریخت پر ڈالتے ہیں۔ فیصل آباد، رانا ثناء اللہ کےداماد کو صوبائی اسمبلی کاٹکٹ مل گیا۔ دانیال عزیز کو شریف برادران سے مفاہمت کے بعد نارووال سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ ملنے کی توقع ہے۔ خواجہ سعد رفیق وغیرہ بھی ان کے ساتھ ہیں دوسری طرف اقبال اور رانا ثنا اللہ اس کے خلاف بول رہے ہیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم میں شہباز شریف اور مریم نوازشریف کے درمیان مقابلہ جاری ہے۔ مریم نواز طلال چوہدری کی حمایت کر رہی ہیں۔ شہباز شریف ملک نواب شیر وسیر کے ساتھ ہیں۔ شہباز شریف عطا اللہ تارڑ کی، مریم نواز محمود بشیر ورک کی حمایت میں ہیں۔ لاہور میں نئی حلقہ بندیوں کے سبب ایاز صادق اور شیخ روحیل اصغر آمنے سامنے آ گئے ہیں۔ دیکھتے ہیں شریف برادران کسے قربان کرتے ہیں۔

بہاولپورمیں طارق بشیر چیمہ گلے میں اٹکے ہوئے ہیں، ق لیگ کے ساتھ نون لیگ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بھی بڑے مسائل ہیں۔ گجرات میں تو نون لیگ کے امیدوار ٹکٹ نہ ملنے پر آزادانہ حیثیت سے لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ ممکن ہے یہ کام پارٹی کے مشورے سے کر رہے ہوں۔ دوسری طرف پی پی بھی نون لیگ کے لئے گردن توڑ بخار سے کم نہیں۔ انہوں نے چالیس سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کوئی آسان کا م نہیں، اسی طرح اسلام آباد میں بھی نون لیگ کے امیدواروں کے درمیان جنگ جاری ہے۔ وہ مسلسل غیر یقینی کا شکار ہیں۔ ایک نشست پر توتین سے زیادہ ٹکٹ کے دعوے دار الیکشن لڑنے کیلئے کاغذات جمع کرا چکے ہیں۔ انجم عقیل خان، اسلام آباد کے سابق ڈپٹی میئر ذیشان نقوی اور مسلم لیگ (ن) جاپان کے صدر ملک نور اسی ایک نشست کیلئے میدان میں ہیں۔ ملک نور حال ہی میں جاپان سے الیکشن لڑنے کیلئے واپس آئے ہیں۔

سیالکوٹ ایک اہم ضلع ہے اور نون لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ خواجہ آصف اس شہر میں نون لیگ کی پہچان ہیں۔ یہاں بھی نون لیگ کو ایک سیٹ پر بہت مسائل ہیں۔ وہ نوشین افتخار والی سیٹ ہے۔ نوشین افتخار پہلے اپنے خاندانی اثر رسوخ کی وجہ سے بھی خاصے ووٹ لے جاتی تھیں۔ پچھلے کچھ عرصہ میں ان کے کردار پر بڑے گھناونے حملے ہوئے۔ سوشل میڈیا میں ان پر طرح طرح الزام لگائے گئے جس کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں کمی آئی، اپنے شوہر صاحبزادہ ہ سید مرتضیٰ امین سے علیحدگی اور مقدمہ بازی کی وجہ سے بھی انہیں خاصا نقصان ہوا۔ وہ اسی حلقے سے پہلے ایم این اے بھی رہے ہیں۔ وہ مذہبی رہنما ہیں اس کے علاوہ مہار شریف کے نقشبندی سلسلے کے صدر ہیں۔ سو اس مرتبہ سیالکوٹ میں نون لیگ کے کارکنوں کی کوشش ہے کہ ٹکٹ ان کے بجائے کسی اور کو دیا جائے، خاص طور پر ان کے نیچے جو نون لیگ کے دوایم پی اے کے امیدوار ہیں وہ کوشش کر رہے ہیں کہ نوشین افتخار کو ٹکٹ نہ ملے۔ انہیں خدشہ ہے کہ ان کی وجہ سے ہم بھی ہار سکتے ہیں۔ خواجہ آصف ماضی میں وہاں نون لیگ کامیاب ترین امیدوار رہے ہیں مگر اس مرتبہ ان کے حالات ٹھیک نہیں۔ اس کی وجہ عثمان ڈار کی والدہ ہیں جنہوں نے نہ خود الیکشن لڑنے کیلئے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں بلکہ خواجہ آصف پر الزام بھی لگایا کہ ان کے کہنے پر چھ لوگ میرے گھر کا دروازہ توڑ کر گھر میں داخل ہوئے۔ مجھے زدو کوب کیا، میرے سر سے چادر اتاری، میرے بال کھینچے۔ پہلی بار مسلم لیگ نون کے ان حلقوں میں مسائل پیدا ہورہے ہیں جہاں سے وہ آسانی جیت جایا کرتی تھی۔ لوگوں کا خیال ہے کہ جس جس امیدوار کو بلے کا نشان مل گیا۔ اس کی قسمت جاگ گئی ۔اب بلے کاکیا ہوتا ہے۔ یہ نشان کسی امیدوار ملتا ہے یا نہیں۔ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن اس سلسلے میں کیا کرتا ہے ۔اس سے متعلق ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

میلبرن ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں آسٹریلیا کی پوری ٹیم 262 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئی اور پاکستان کو جیت کیلئے رنز کا ہدف درکار ہے۔

ایرانی کمانڈر شام میں اسرائیلی حملے میں جاں بحق ہوئے تھے

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کراچی سے کیماڑی اور ملیر کی قومی اسمبلی کی پانچ اور صوبائی 10 نشستوں پر ن لیگ سے بات چیت پر تیار ہے۔

54 سال نصیر سومرو عالمی ریکارڈ کے حامل ہیں اور انھیں حکومتی مدد کی ضرورت ہے۔

بلوچستان یکجہتی مارچ کے مظاہرین نے مطالبات کےحل کے لیے7 دن کا الٹی میٹم دے دیا۔

حماس کے رہنما اُسامہ حمدان کا کہنا ہے کہ شمالی غزہ کے شہری اب فاقہ کشی سے مر رہے ہیں، عرب و اسلامی ممالک اور عالمی برادری غزہ میں امداد فراہم کریں۔

مہر بانو قریشی نے کہا کہ6 جون کو لاہور ہائیکورٹ کو ریاست نے جن شہروں کے کیسز میں شاہ محمود قریشی مطلوب تھے بتایا ان شہروں میں راولپنڈی شامل نہیں تھا۔

اسٹیو بالمر بل گیٹس کے بعد جنوری 2000 میں کمپنی کے سی ای او بنے اور فروری 2014 میں اس عہدے سے سبگدوش ہوئے۔

شہباز شریف نے فاروق ستار کو صاحبزادی کی شادی پر مبارک باد اور دعائیں دیں اور کہا کہ مصروفیات کی وجہ سے شادی کی تقریب میں شرکت نہیں کر سکا۔

جنوبی بھارت سے تعلق رکھنے والی بھارتی اداکارہ نیانتھرا نے اپنے فلمی کیریئر کے بیس برس مکمل کرلیے۔

34 مظاہرین کی رہائی کے بعد گرفتار ہونے والے تمام مظاہرین رہا ہوچکے ہیں۔

جام خان شورو کے اثاثوں میں 5 کروڑ 39 لاکھ روپے سے زائد کا ڈیری فارم بھی ملکیت کا حصہ ہے۔

حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز نے آج کی جانے والی عسکری کارروائیوں کی تفصیلات جاری کر دیں۔

دستاویز کے مطابق بشیر میمن کے مجموعی اثاثوں کی مالیت11کروڑ 29 لاکھ 64 ہزار 946 روپے ہے۔

اسرائیلی حملوں سے دربدر ہونے والی فلسطینی خاتون کے ہاں چار بچوں کی ولادت ہوئی ہے، قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں میں سے ایک ابھی اسپتال میں ہے۔

دستاویز کے مطابق مخدوم جمیل الزماں کا ہالہ میں 12لاکھ روپے کا گھر ہے، مخدوم جمیل الزماں کی وراثت میں22 لاکھ روپے کی65 ایکڑ زمین ہے۔

QOSHE - منصور آفاق - منصور آفاق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

منصور آفاق

19 0
29.12.2023

بے شک الیکشن کے سلسلے کے تمام مراحل بڑی خوش اسلوبی طے ہورہے ہیں مگر دور تک دیکھوں تو پلان بی کی جھلکیاں بھی نظر آنے لگتی ہیں۔ الیکشن کے نتائج کیا ہونگے ۔کون جیتے گا، کون ہارے گا، کس کی حکومت بنے گی، کیا عجب ہے کہ یہ باتیں ہر شخص جانتا ہے مگر کچھ الیکشن لڑنے والوں سے مکالمہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انتخابات کوئی نیا موڑ بھی ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کوئی ایسی جماعت الیکشن سے بائیکاٹ کا اعلان دے، جس کی بیرونی دنیا میں ساکھ بہت مضبوط ہے۔ اگر ایسا ہوا تو دنیا کیلئے یہ الیکشن سلیکشن کی ایک نئی شکل قرار پائیں گے۔ پھر تیرہ پارٹیاں مل کر حکومت بنائیں یا جہانگیر ترین کی چودہویں پارٹی بھی شامل ہو ۔ کوئی فرق نہیں پڑے گی۔ ووٹ کاسٹ کرنے کی شرح زمین پر گر پڑے گی اور اگر اُس پارٹی کے امیدواروں کو الیکشن لڑنے دیا گیا تو پھر اور کوئی ’’ورلہ ورلہ‘‘ ہی جیت سکے گا۔ دھاندلی کے ناخن بھی اکھڑ جائیں گے۔ بہر حال موجودہ صورت حال میں پنجاب میں نون لیگ، سندھ میں پیپلز پارٹی، خیبرپختون خوا میں ملی جلی پارٹیاں اور بلوچستان میں نون لیگ کے اتحادیوں کی کامیابی کا واضح امکان ہے، پنجاب میں وہ اضلاع جونون لیگ کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔ ایک نظر ان میں ہونے والی شکست و ریخت پر ڈالتے ہیں۔ فیصل آباد، رانا ثناء اللہ کےداماد کو صوبائی اسمبلی کاٹکٹ مل گیا۔ دانیال عزیز کو شریف برادران سے مفاہمت کے بعد نارووال سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ ملنے کی توقع ہے۔ خواجہ سعد رفیق وغیرہ بھی ان کے ساتھ ہیں دوسری طرف اقبال اور رانا ثنا اللہ اس کے خلاف بول رہے ہیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم میں شہباز شریف اور مریم نوازشریف کے درمیان مقابلہ جاری ہے۔ مریم نواز طلال چوہدری کی حمایت کر رہی ہیں۔ شہباز........

© Daily Jang


Get it on Google Play