’’میں اپنا ووٹ کس کو دوں؟‘‘ دلاور فگار مرحوم کا یہ مشہور مصرع ہماری قومی زندگی سے جڑے نہایت اہم سوال کی صورت میں ایک بار پھر ملک کے تقریباً 13کروڑ رائے دہندگان کے سامنے ہے ۔یہ کوئی معمولی سوال نہیں ۔ اس کا غلط جواب ہمیں مزید تباہی سے دوچار کرسکتا جبکہ درست جواب بہتر مستقبل کی راہیں کھول سکتا ہے۔ انتخابی مہم میں سیاسی جماعتیں عموماً بڑے بلند بانگ دعوے کرتی ہیں۔ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہادینے کے وعدے کیے جاتے ہیں جن کا ناقابل عمل ہونا اگرچہ پہلے دن ہی سے واضح ہوتا ہے لیکن ان کی دل فریبی سادہ دل لوگوں کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیتی ہے۔ عوام کی اس فریب خوردگی کا نتیجہ سیاستدانوں کے روپ میں سرگرم جعل سازوں کے ایوان اقتدار تک پہنچ جانے کی شکل میں نکلتا ہے مگر ان کی کارکردگی نہایت مایوس کن بلکہ تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ پاکستانی قوم اس تجربے سے بارہا گزر چکی ہے اور دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا یہ ملک اب مزید ایسے کسی تجربے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اسلئے ہمیں ووٹ دینے کی اصل بنیاد سہانے مستقبل کے دکھائے جانے والے خوابوںکے بجائے سیاسی جماعتوں کی ماضی کی کارکردگی کو بنانا ہوگا کیونکہ آئندہ کے وعدے اسی کے قابل اعتبار ہوسکتے ہیں جس نے پہلے انہیں پورا کیا ہو،جھوٹے وعدوں کے سبزباغ دکھا کر قوم کو دھوکا نہ دیا ہو۔ماضی کی اطمینان بخش کارکردگی کے ریکارڈ کے ساتھ آج کے چیلنجوں کا قابل عمل حل اور قومی ترقی کا قابل فہم پروگرام پیش کرنے والی قیادت ہی سے یہ توقع وابستہ کی جاسکتی ہے کہ قادر مطلق اللہ رب العالمین کی تائید و نصرت سے وہ قوم کی بھنور میں پھنسی کشتی کو ساحل مراد تک پہنچائے گی۔ جنرل مشرف کے آمرانہ دور کے خاتمے کے بعد 2008ءسے 2021ءتک اقتدار میں رہنے والی جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف شامل ہیں اور آنے والے الیکشن میں بھی وفاق میں حکومت سازی کے میدان میں اصل مقابلہ ان ہی کے درمیان ہوتا نظر آتا ہے۔ لہٰذا درست نتیجے تک پہنچنے کیلئے رائے دہندگان کو اپنے فیصلے کی بنیاد ان تینوں بڑی جماعتوں کی اپنی حکومتوں کی کارکردگی کو بنانا ہوگا۔ پی ڈی ایم کی سوا سالہ13 جماعتی حکومت کسی پارٹی کی کارکردگی کا فیصلہ کن پیمانہ نہیں بن سکتی ۔ تقابلی جائزے کایہ کام چند بنیادی اِشاریوں کی مدد سے بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ اس معاملے میں کسوٹی اس سوال کو بنایا جا سکتا ہے کہ اقتدار سنبھالتے وقت ان جماعتوں کو معیشت، اشیائے صرف کی قیمتوں، ، بجلی گیس کی پیداوار، امن و امان، کرپشن، قومی یکجہتی اور خارجہ تعلقات وغیرہ کے حوالے سے ملک کس حال میں ملا اور اقتدار کے خاتمے پر انہوں نے اسے کس حال میں چھوڑا؟ ان جماعتوں کو اپنے انتخابی منشوروں کے ساتھ ان سوالوں کا جواب خود بھی قوم کوفراہم کرنا چاہیے اور لوگوں کو بھی دیکھنا چاہیے کہ ترقیاتی منصوبوں، بجلی کی پیداوار، لوڈ شیڈنگ، سرمایہ کاری ، نئی صنعتوں کے قیام، اسٹاک ایکسچینج، روپے کی قدر ، زرمبادلہ کے ذخائر، توازن تجارت، برآمدات و درآمدات اور خارجہ تعلقات کی کیفیت کس دور حکومت میں کیا رہی؟ کوشش کی جائے تو کم ازکم معیشت کے حوالے ایسا ایک تقابلی چارٹ تھوڑی سی تحقیق سے مرتب کیا جاسکتا ہے کہ 2008ء، 2013ء،2018 ءاور 2021 ءمیں یعنی پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے اقتدار سنبھالتے اور اقتدار چھوڑتے وقت بنیادی معاشی اشاریے کیا تھے۔ ان میں جی ڈی پی، شرح ترقی، زرمبادلہ کے ذخائر، ڈالر اور روپے کی قدر، توازن تجارت،اسٹاک ایکسچینج، اسٹیٹ بینک کی شرح سود، بجلی کی پیداوار اور مہنگائی کی شرح وغیرہ کو شامل کیا جانا چاہئے۔امن وامان کی صورت حال کا تعین ہر دور حکومت کے پہلے اور آخری سال میں دہشت گردی کے واقعات کی تعداد اور ان میں ہونے والی جانی نقصان کے اعداد و شمار سے کیا جاسکتا ہے۔ اس کسوٹی پر جو جماعت سب سے بہتر نظر آئے یقینا وہی ہمارے ووٹ کی اصل حقدار ہوگی ۔

جے یو آئی ف کے مولانا فضل الرحمٰن کے بیٹے کے ولیمے میں سابق صدر آصف زرداری اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔

جنوبی افریقا نے اسرائیل کیخلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرلیا۔

پی ٹی آئی رہنما راجہ اظہر کو سینٹرل جیل سے رہا کردیا گیا، انہیں 9 مئی سمیت مختلف مقدمات میں گرفتار کیا گیا تھا۔

پولیس کے مطابق زخمیوں کو قریبی نجی اسپتال منتقل کر دیا گیا۔

جام کمال نے کہا کہ 2008 کے سیاسی حالات کے باعث جام محمد یوسف 4 سال کے لیے دبئی چلے گئے تھے۔

انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شہری حکومتی فیصلے کے پیش نظر کسی بھی قسم کی تقریبات کے انعقاد سے گریز کریں۔

بھارتی ریاست بہار کے علاقے موٹیہاری میں جمعہ کو ایک اسکریپ (ناکارہ) قرار دیا گیا طیارہ جو کہ ایک ٹرک پر ٹرانسپورٹ کیا جارہا تھا وہ بہار ہائی وے کے ایک برج کے نیچے پھنس گیا۔

پریذیڈنٹ ٹرافی میں تیسرے راؤنڈ کے دوسرے روز کے آر ایل کے خلاف ایچ ای سی کے اویس ظفر مسلسل دوسرے میچ میں بھی سنچری اسکور کرنے میں کامیاب رہے۔

کنوینر ایم کیو ایم پاکستان خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ ہم اپنے حصہ کا انقلاب لاچکے ہیں۔ ہم پورے پاکستان کے حصے کا انقلاب لانے کی ذمہ داری لے رہے ہیں۔

عدالت نے فریقین کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور تمام اپیلیں واپس ہائیکورٹ کو ارسال کردیں۔

بھارتی اداکار تھلاپتی وجے پر کیپٹن وجے کانت کی آخری رسومات میں شرکت کے دوران چپل سے حملہ کیا گیا۔

سندھ میں رواں سال ملیریا کے 5 لاکھ 59 ہزار 515، ڈینگی کے 2 ہزار 852، نیگلیریا کے 12 اور کانگو وائرس کے 5 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

بھارت کے نامور اداکار رام چرن کی ایکٹنگ اسکول کے زمانے کی ویڈیو منظر عام پر آگئی، جس کے بعد پرستار حمایت میں سامنے آگئے۔

اجلاس میں ججز تعیناتی کے طریقہ کار کی تجاویز رولز کے مسودے میں شامل کر لی گئیں۔

بالی ووڈ اداکارہ شہناز گل نے بالی ووڈ سپر اسٹار سلمان خان کے بعد اب اداکار رنبیر کپور کے ساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان انڈر۔19 ٹیم 6 جنوری کو ورلڈ کپ میں شرکت کے لیےجنوبی افریقہ روانہ ہو گی۔

QOSHE - ثروت جمال اصمعی - ثروت جمال اصمعی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ثروت جمال اصمعی

14 13
30.12.2023

’’میں اپنا ووٹ کس کو دوں؟‘‘ دلاور فگار مرحوم کا یہ مشہور مصرع ہماری قومی زندگی سے جڑے نہایت اہم سوال کی صورت میں ایک بار پھر ملک کے تقریباً 13کروڑ رائے دہندگان کے سامنے ہے ۔یہ کوئی معمولی سوال نہیں ۔ اس کا غلط جواب ہمیں مزید تباہی سے دوچار کرسکتا جبکہ درست جواب بہتر مستقبل کی راہیں کھول سکتا ہے۔ انتخابی مہم میں سیاسی جماعتیں عموماً بڑے بلند بانگ دعوے کرتی ہیں۔ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہادینے کے وعدے کیے جاتے ہیں جن کا ناقابل عمل ہونا اگرچہ پہلے دن ہی سے واضح ہوتا ہے لیکن ان کی دل فریبی سادہ دل لوگوں کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیتی ہے۔ عوام کی اس فریب خوردگی کا نتیجہ سیاستدانوں کے روپ میں سرگرم جعل سازوں کے ایوان اقتدار تک پہنچ جانے کی شکل میں نکلتا ہے مگر ان کی کارکردگی نہایت مایوس کن بلکہ تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ پاکستانی قوم اس تجربے سے بارہا گزر چکی ہے اور دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا یہ ملک اب مزید ایسے کسی تجربے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اسلئے ہمیں ووٹ دینے کی اصل بنیاد سہانے مستقبل کے دکھائے جانے والے خوابوںکے بجائے سیاسی جماعتوں کی ماضی کی کارکردگی کو بنانا ہوگا کیونکہ آئندہ کے وعدے اسی کے قابل اعتبار ہوسکتے ہیں جس نے پہلے انہیں پورا کیا ہو،جھوٹے وعدوں کے سبزباغ دکھا کر قوم کو دھوکا نہ دیا ہو۔ماضی کی اطمینان بخش کارکردگی کے ریکارڈ کے ساتھ آج کے چیلنجوں کا قابل عمل حل اور قومی ترقی کا قابل فہم پروگرام پیش کرنے والی قیادت ہی سے یہ توقع وابستہ........

© Daily Jang


Get it on Google Play