شیکسپیئر نے ڈرامے ’’دی ٹیمپسٹ‘‘ میں کہا تھا ، ’’ یہ ہیں وہ موتی جو کبھی اس کی آنکھیں تھیں ۔‘‘اس جملے کا اثر اتنا طاقتور تھا کہ ٹی ایس ایلیٹ نے نظم’’ویسٹ لینڈ‘‘ میں اسے دہرایا :’’ مجھے یا د ہے ، یہ وہ موتی ہیں جو کبھی اس کی آنکھیں تھیں۔ ‘‘ ایلیٹ ’’مردہ کی تدفین‘‘ میں اس سے ملتا جلتا منظر پیش کرتے ہیں ، گرچہ تفصیل کیساتھ : اس سرخ چٹان کے نیچے سایہ ہے / اس سرخ چٹا ن کے سائے میں آجائو/ اور میں تمھیں کچھ مختلف دکھائوں گا/یا تو تمہارا سایہ صبح کے وقت تمہارے پیچھے چل رہا ہوگا / یا شام کے وقت تمہارا سایہ تم سے ملنے آگے موجود ہوگا/ میں تمھیں مٹھی بھر مٹی میں خوف دکھائوں گا۔بطور قوم ہم ایسے ہی مرض میں مبتلا ہوتے رہے ہیں ، لیکن حالیہ دنوں یہ علالت کہیں زیادہ سنگین ہوچکی۔ ایسا دکھائی دیتاہے جیسے تمام معاشرہ خوف اور نابینا پن کے دہرے مرض میں مبتلا ہے ۔ لیکن یہ نابیناپن نہیں جس نے ہمیں خوفزدہ کررکھا ہے بلکہ یہ خوف ہے جس نے ہمیں اندھا کردیا ہے ۔ اس کی وجہ وہ نتائج ہیں جن کا لامحالہ سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ، یا پھر وہ ریاست کی پھیلائی ہوئی دہشت سے راہ فرار اختیار کرنے کا ایک طریقہ ہے کہ آنکھیں موند لیں۔

جب لوگوں کو اٹھا کر ان سے زبردستی اعترافی بیانات حاصل کئے جارہے ہوں ، تمام معاشرہ نادیدہ طاقتوںکے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہو،ا ور وہ طاقتیں صرف نظر سے ہی نہیں ہر قسم کے احتساب سے بھی ماورا ہوں۔یہ طاقتیں سایوں کی اوٹ میں ہیں ، صرف ان کے ہیولے ہی منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں لیکن انسانی آنکھ ان کی واضح شکل دیکھنے سے قاصر ہے ۔ اس مرحلے پر جہاں آج پاکستان کھڑا ہے یہ بات قابل بحث ہے کہ کیا یہ صورت حال بصارت سے محرومی کا نتیجہ ہے ، یا پھر خوف کی وجہ سے انسان اس منظر سے نظریں پھیر لیتے ہیں ۔ لیکن دونوں امکانات جیتے جاگتے حقائق ہیں ۔ ان سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے ۔ زندگی ان حدود سے بہت دور نکل آئی جہاں خوف کی اذیت سے نجات حاصل کرنا ممکن ہو۔ کچھ خوش قسمت لوگ ہیں جو معاملات کو مکمل اطمینان کے ساتھ سنبھالنے کی آزادی رکھتے ہیں ۔ ایسے افراد جنھیں وہ اپنے مقاصد کے حصول اور اپنے ایجنڈے کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں کو دھمکیاں دینے، بدسلوکی کرنے اور تذلیل کرنے کی کھلی چھوٹ ہے ۔ صرف چند روز قبل جب پشاور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کو انتخابی نشان کی الاٹمنٹ روکنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکم کو معطل کیا تو ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کو چیف جسٹس کو دھمکی دیتے ہوئے سنا گیاکہ وہ ایسے فیصلے دینے سے باز رہیں ورنہ ان کی جان خطرے میں پڑ جائے گی اور انھیں صوبہ چھوڑنے پر مجبور کردیاجائے گا۔ عدالت کی عملداری قائم کرنے اور ان لوگوں کی حفاظت کیلئے جو اب بھی اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور اپنے فرائض کی انجام دہی مقدم سمجھتے ہیں ، کی حفاظت کیلئے ایک پتا تک نہ ہلا۔ریاست مجموعی طور پر، تشدد اور عدم برداشت کے لبادے میں لپٹی نظر آتی ہے۔ آئین، قانون کی حکمرانی اور اخلاقیات کے تقاضے جو بھی ہوں، ارباب اختیار کا کہنا ہے کہ یہ ان کی مرضی ہے جس کی پاسداری کرنی ہے۔ کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا، جب کہ اس ستم کا سامنا کرنے والوں کو سنگین نتائج خاموشی سے بھگتنا پڑتے ہیں ۔ پھر بھی ایسے لمحات ہیں جہاں ثابت قدمی اپنی داستان رقم کرتی ہے۔ جب انسانی روح سربلند ہوتی ہے، اور جب خوف سمٹ کر محض ایک تماشائی بن جاتا ہے۔ نوجوان لڑکیاں اور لڑکے اور ان کے سینئر قائدین جو تقریباً چھ ماہ سے سلاخوں کے پیچھے بند تھے ، ان کی جرات اور بہادری حوصلے کے چراغ ر وشن کرچکی ۔ ریاست کی زیادتیوں کا ناحق شکار ، اپنی آزادی سے محروم ، انھوںنے اصولوں پر سمجھوتا کرنے سے انکار کر دیا ۔ دور طلوع ہوتی ہوئی صبح کا غازہ ان کی پیشانیوں پرطلوع ہوتے ہوئے نئے دن کا عنابی شفق ہے ۔ وہ عظمت کی روشنی سے دمک رہے ہیں ۔ زنداں نے ان کے جنوں کی آنچ مزید تیز کی ہے ۔اپنے درست مقصد کی خاطر منہ زور لہروں سے نبرد آزما ہوتے ساحل کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ بے مثال استقامت اور اپنے یقین کی حرارت سے انھوں نے وہ راستہ ہموار کیا ہے، پاکستان کو بہت پہلے جس پر گامزن ہو جانا چاہیے تھا: ایک حقیقی آزاد اور خود مختار ملک جو کہ اپنے فائدے اور اپنے لوگوں کے فائدے کیلئے فیصلے کرنے کیلئے آزاد ہو۔ اب تک یہ لوگ زندگی کے کنارے پر حیات آزما تھے ۔کوئی بھی اپنے مقدر کا اندازہ نہیں لگا سکتا، لیکن یہ فائدہ اٹھانے والے اشرافیہ کا ظالمانہ ظلم ہے جس نے ملک کیلئے ایک نئی صبح اور اس کے لوگوں کیلئے ایک نئے مستقبل کی نوید سنادی ہے ۔ایک ایسا مستقبل جو پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے ایک خواب ہی بن کر رہ گیا تھا۔ دنیا کے سامنے ایک الگ ملک کے طور پر، نوآبادیاتی زنجیروں سے آزادہوا لیکن یہ تبدیلی عارضی ثابت ہوئی ۔ اس کے فوراً بعد غیر ملکی مسلط کردہ حکمرانی کی جگہ اس کے اپنے لوگوں کی مقامی نوآبادیات نے لے لی۔اس تسلط کو جھنجھوڑنے اور اس کی بنیادیں ہلانے میں سات عشرے لگ گئے ہیں کہ ایسی تبدیلی کا سورج چمکے جو ملک کی قسمت میں اجالا کردے ۔ اب نہ تو لوگ منڈلاتے ہوئے خوف سے خائف ہیں ، نہ ہی وہ واضح شکل اختیار کرنے والی حقیقت سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں ۔ یہ لو گ اس کی تبدیلی کے عامل ہیں ۔ پاکستان کو اس کی منزل تک پہنچانے کے شرف سے کوئی چیز انھیں نہ محروم کرسکتی ہے ، نہ روک سکتی ہے ۔ (صاحب تحریر پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری انفارمیشن ہیں)

جے یو آئی ف کے مولانا فضل الرحمٰن کے بیٹے کے ولیمے میں سابق صدر آصف زرداری اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔

جنوبی افریقا نے اسرائیل کیخلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرلیا۔

پی ٹی آئی رہنما راجہ اظہر کو سینٹرل جیل سے رہا کردیا گیا، انہیں 9 مئی سمیت مختلف مقدمات میں گرفتار کیا گیا تھا۔

پولیس کے مطابق زخمیوں کو قریبی نجی اسپتال منتقل کر دیا گیا۔

جام کمال نے کہا کہ 2008 کے سیاسی حالات کے باعث جام محمد یوسف 4 سال کے لیے دبئی چلے گئے تھے۔

انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شہری حکومتی فیصلے کے پیش نظر کسی بھی قسم کی تقریبات کے انعقاد سے گریز کریں۔

بھارتی ریاست بہار کے علاقے موٹیہاری میں جمعہ کو ایک اسکریپ (ناکارہ) قرار دیا گیا طیارہ جو کہ ایک ٹرک پر ٹرانسپورٹ کیا جارہا تھا وہ بہار ہائی وے کے ایک برج کے نیچے پھنس گیا۔

پریذیڈنٹ ٹرافی میں تیسرے راؤنڈ کے دوسرے روز کے آر ایل کے خلاف ایچ ای سی کے اویس ظفر مسلسل دوسرے میچ میں بھی سنچری اسکور کرنے میں کامیاب رہے۔

کنوینر ایم کیو ایم پاکستان خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ ہم اپنے حصہ کا انقلاب لاچکے ہیں۔ ہم پورے پاکستان کے حصے کا انقلاب لانے کی ذمہ داری لے رہے ہیں۔

عدالت نے فریقین کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور تمام اپیلیں واپس ہائیکورٹ کو ارسال کردیں۔

بھارتی اداکار تھلاپتی وجے پر کیپٹن وجے کانت کی آخری رسومات میں شرکت کے دوران چپل سے حملہ کیا گیا۔

سندھ میں رواں سال ملیریا کے 5 لاکھ 59 ہزار 515، ڈینگی کے 2 ہزار 852، نیگلیریا کے 12 اور کانگو وائرس کے 5 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

بھارت کے نامور اداکار رام چرن کی ایکٹنگ اسکول کے زمانے کی ویڈیو منظر عام پر آگئی، جس کے بعد پرستار حمایت میں سامنے آگئے۔

اجلاس میں ججز تعیناتی کے طریقہ کار کی تجاویز رولز کے مسودے میں شامل کر لی گئیں۔

بالی ووڈ اداکارہ شہناز گل نے بالی ووڈ سپر اسٹار سلمان خان کے بعد اب اداکار رنبیر کپور کے ساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان انڈر۔19 ٹیم 6 جنوری کو ورلڈ کپ میں شرکت کے لیےجنوبی افریقہ روانہ ہو گی۔

QOSHE - رؤف حسن - رؤف حسن
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

رؤف حسن

25 1
30.12.2023

شیکسپیئر نے ڈرامے ’’دی ٹیمپسٹ‘‘ میں کہا تھا ، ’’ یہ ہیں وہ موتی جو کبھی اس کی آنکھیں تھیں ۔‘‘اس جملے کا اثر اتنا طاقتور تھا کہ ٹی ایس ایلیٹ نے نظم’’ویسٹ لینڈ‘‘ میں اسے دہرایا :’’ مجھے یا د ہے ، یہ وہ موتی ہیں جو کبھی اس کی آنکھیں تھیں۔ ‘‘ ایلیٹ ’’مردہ کی تدفین‘‘ میں اس سے ملتا جلتا منظر پیش کرتے ہیں ، گرچہ تفصیل کیساتھ : اس سرخ چٹان کے نیچے سایہ ہے / اس سرخ چٹا ن کے سائے میں آجائو/ اور میں تمھیں کچھ مختلف دکھائوں گا/یا تو تمہارا سایہ صبح کے وقت تمہارے پیچھے چل رہا ہوگا / یا شام کے وقت تمہارا سایہ تم سے ملنے آگے موجود ہوگا/ میں تمھیں مٹھی بھر مٹی میں خوف دکھائوں گا۔بطور قوم ہم ایسے ہی مرض میں مبتلا ہوتے رہے ہیں ، لیکن حالیہ دنوں یہ علالت کہیں زیادہ سنگین ہوچکی۔ ایسا دکھائی دیتاہے جیسے تمام معاشرہ خوف اور نابینا پن کے دہرے مرض میں مبتلا ہے ۔ لیکن یہ نابیناپن نہیں جس نے ہمیں خوفزدہ کررکھا ہے بلکہ یہ خوف ہے جس نے ہمیں اندھا کردیا ہے ۔ اس کی وجہ وہ نتائج ہیں جن کا لامحالہ سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ، یا پھر وہ ریاست کی پھیلائی ہوئی دہشت سے راہ فرار اختیار کرنے کا ایک طریقہ ہے کہ آنکھیں موند لیں۔

جب لوگوں کو اٹھا کر ان سے زبردستی اعترافی بیانات حاصل کئے جارہے ہوں ، تمام معاشرہ نادیدہ طاقتوںکے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہو،ا ور وہ طاقتیں صرف نظر سے ہی نہیں ہر قسم کے احتساب سے بھی ماورا ہوں۔یہ طاقتیں سایوں کی اوٹ میں ہیں ، صرف ان کے ہیولے ہی منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں لیکن انسانی آنکھ ان کی واضح شکل دیکھنے سے قاصر ہے ۔ اس مرحلے پر جہاں آج پاکستان کھڑا ہے یہ بات قابل بحث ہے کہ کیا یہ صورت حال بصارت سے محرومی کا نتیجہ ہے ، یا پھر خوف کی وجہ سے انسان اس منظر سے نظریں پھیر لیتے ہیں ۔ لیکن دونوں امکانات جیتے جاگتے حقائق ہیں ۔ ان سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے ۔ زندگی ان حدود سے........

© Daily Jang


Get it on Google Play