جن دنوں ڈاکٹر نیاز اختر پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوا کرتے تھے ۔کچھ عرصہ میں نے یونیورسٹی میں قیام کیا۔ ان دنوں میری کچھ بلوچ طالب علموں سے علیک سلیک ہو گئی ۔ایک دن انہوں نے مجھے ایک بلوچ اسٹوڈنٹ کی سفارش کےلئے کہا ۔میں اسے ساتھ لے کر وائس چانسلر کے پاس چلا ۔ڈاکٹر نیاز نے اسے داخلہ تو دیا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ ہمارے پاس پچاس بلوچ اسٹوڈنٹ کا کوٹا ہے جن کے اخراجات خود یونیورسٹی برداشت کرتی ہے مگر اس وقت ہمارے پاس تقریباًدو سو بلوچ اسٹوڈنٹس تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ پاکستان کی کوئی یونیورسٹی ایسی نہیں جہاں بلوچ اسٹوڈنٹس نہ ہوں۔ ہر یونیورسٹی میں بلوچ طالب علموں کا کوٹا ہے۔ جی سی یونیورسٹی جس کی اہمیت پوری دنیا میں تسلیم کی جاتی ہے۔جس میں تعلیم حاصل کرنا اعزاز کی بات ہے ۔وہاں بھی ڈاکٹر اقبال شاہد کے بقول ڈیڑھ سو زائد بلوچ طالب علم موجود ہیں اور ان تمام کی فیسوں میں خصوصی رعایت دی گئی ہے۔ انہیں ہوسٹلز کی فراہمی میں اولیت دی جاتی ہے ۔تمام کیڈٹ کالجز میں بلوچ اسٹوڈنٹ کا کوٹا موجود ہے۔ بلوچ رجمنٹ افواج پاکستان ایک قابل رشک رجمنٹ ہے۔دوہزار آٹھ سے لےکر اب تک بےشمار بلوچ کیڈٹ افواج پاکستان میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جب میں مجلس ترقی ادب کا سربراہ تھا تو حکومت پنجاب کی دعوت پر بلوچستان سے طالب علموں کا ایک گروپ آیا ،انہوں نے ہمارے پاس بھی وزٹ کیا ۔ان سے بڑی تفصیلی گفتگو ہوئی ۔انہوں نے کہا کہ یہاں آنے کے بعد پنجاب اور پنجابیوں کے بارے میں ہماری رائے میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ ضروری ہے کہ زیادہ سے بلوچوں کو پنجاب میں آنے اور رہنے کا موقع ملے تو انہیں احساس ہوگا کہ پنجابی کتنے مہمان نواز کتنے محبت کرنے والے لوگ ہیں ۔جتنی محبت ہمیں یہاں آکر ملی اس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ۔

جہاں بلوچوں کو ملازمتیں دینے کا تعلق ہے تو اس میں بھی ان کےلئے باقاعدہ ویکینسیاں رکھی گئی ہیں ۔ اسلام آبادمیں بلوچ ملازمین کی تعداد سندھیوں سے کم نہیں ۔حکومت اس بات کا خاص خیال رکھتی ہے کہ وہاں سے تعلق رکھنے والے اہل افراد کوخصوصی طور پر مختلف شعبوں میں بھرتی کیا جائے۔بلوچوں کو پنجاب میں رہائش اور کاروبار کے مکمل مواقع فراہم کیے گئے ہیں۔

جہاں تک بلوچستان کے اندر صحت ، تعلیم اور کاروبار سمیت باقی سہولیات کی بات ہے وہ کسی صوبے سے کم نہیں مگر کچھ لوگ بلوچستان کے مسائل کو بالکل اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے وہاں زندگی انتہائی دشوار ہو۔کیا پنجاب کے صحرائی علاقے میں غربت بلوچستان سے کم ہے ۔کیا اندرون ِ سندھ کے حالات بلوچستان جیسے نہیں ۔کیا تھر میں غربت کی جو صورتحال ہے بلوچستان سے کہیں زیادہ نہیں مگر بلوچستان کی پسماندگی کا ذکراس طرح کیا جاتا ہے جیسے پتہ نہیں وہاں ظلم ہورہا ہے ۔میں کئی دفعہ بلوچستان گیا ہوں ۔کوئٹہ اور بلوچستان کے دوسرے بڑے شہروں کے وہی حالات ہیں جو پنجاب اور سندھ کے شہروں کے ہیں مگر وہاں بھارتی فنڈنگ کے سبب جو کچھ پنجابیوں کے خلاف کیا گیا ،جتنےپنجابی شہید کیے گئے ان کا ذکر کبھی کسی نہیں کیا۔ کتنے پنجابی خاندانوں کو وہاں سے ہجرت پرمجبور کیا گیا اس پر کبھی کسی نے کوئی بات نہیں کی ۔وہاں کتنے بھارتی ایجنٹ ہیں اس کا اندازہ کلبھوشن کے اعترافات سے بہ آسانی کیا جاسکتا ہے ۔بھارت نے خاص طور پر بلوچستان کو ٹارگٹ کیا ہوا ہے ۔کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ وہاں کے حالات اگر خراب رہیں گے تو گوادر کی بندرگاہ آباد نہیں ہوگی ، وہاں کی سونے کی کانیں لوگوں میں خوشحالیاں نہیں بانٹ سکیں گی۔

مجھےصرف ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ بھارتی میڈیا اور بعض پاکستانی میڈیا بلوچستان کے موضوع پر ایک کیوں ہوجاتے ہیں ۔وہی باتیں جو بھارتی سرکاری میڈیا پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کے طور پر کرتا ہے ۔وہی باتیں جب میں اپنے لوگوں سے سنتا ہوں مجھے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔یہ خبر تقریباً تمام پاکستانی میڈیا نے بریک کی تھی کہ ’’بھارتی صحافی منیش رائے اور بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را کےبلوچستان ڈیسک کا انچارج کرنل اشوک کے درمیان رابطے کے ثبوت مل گئے ، بھارتی صحافی منیش رائے کی طرف سے بلوچستان کے پرامن نوجوانوں کو بہکانے اوربلوچستان میں امن کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لئے مختلف پمفلٹس اور تربیتی دستاویزات کو پروپیگنڈا مواد کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔منیش رائے نے متعدد بلوچ دہشتگردوں سمیت اعلیٰ قیادت کے انٹرویوز بھی کئے ہیں جن میں بلوچ لبریشن فرنٹ کے گوہرام بلوچ، بلوچ نیشنل آرمی کے گلزار امام شنبےاور بلوچ لبریشن آرمی کےحربیار مری شامل ہیں۔وہ ان دہشت گردگروپوں کے حق میں کئی کالم بھی لکھ چکا ہے۔ان کالموں میں وہی باتیں درج ہیں جو اس وقت پاکستانی میڈیا کےچند اہم صحافی کررہے ہیں ۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ وہ کیامعاملہ ہے جس پر منیش رائے اور وہ ایک مقام پر آکھڑے ہوئےہیں ۔مجھے احمد ندیم قاسمی یاد آرہے ہیں ۔ ایک دن میں ان کے پاس گیا تو وہ بڑے پریشان تھے میں نے سبب پوچھا تھا تو کہنے لگے آج ایک بہت ہی برے شخص نے میری تعریف کی ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ مجھ سے کیا غلطی ہوئی ہے۔میرا پاکستانی میڈیا کے بعض دوستوں کو مشورہ ہے کہ معاملات کو پاکستانی نقطہ نظر سے دیکھیں دشمن کے نقطہ نظر سے نہیں اور صاحبانِ اقتدار سے بھی گزارش ہے کہ اس مسئلہ کا فوری طور پر کوئی حل نکالیں کہ بلوچ نوجوانوں بھارتی ایجنٹ بہکا نہ سکیں۔

دونوں جماعتوں کے تعلقات اور انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے متعلق امور پر گفتگو کی گئی۔

بھارتی اداکار پربھاس کی نئی فلم سالار ہندی زبان میں 100 کروڑ سے زائد کمائی کرنے والی پانچویں فلم بن گئی۔

حنا پرویز بٹ نے جلسے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ شیخوپورہ نے ثابت کردیا کہ یہ نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہے۔

اسرائیل نے وسط دسمبر تک 29 ہزار بم گرائے، غزہ کا 70 فیصد رہائشی علاقہ تباہ کردیا۔

کراچی پریس کلب (کے پی سی) کے سالانہ الیکشن میں دی ڈیموکریٹس پینل نے 14 ویں مرتبہ کلین سویپ کرلیا۔

محکمہ کسٹمز نے ٹیکس اہداف مکمل کرنے کےلیے نیا ہدایت نامہ جاری کردیا ہے۔

راولپنڈی کے حلقے این اے53 پر ن لیگ کے انجینئر قمرالاسلام کے کاغذات نامزدگی بھی منظور کرلیے گئے۔

محکمہ تعلیم کے مراسلے کے مطابق سرد موسم کے باعث 7 جنوری تک تمام سرکاری اور نجی اسکول بند رہیں گے۔

ہماری لڑائی بہت طویل ہے، صبر و استقامت کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا، امیر جماعت اسلامی

کشمیریوں کےلیے کی گئی ان کی جدوجہد کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

مسلم لیگ (ن) پنجاب کے سینئر رہنما شیخ روحیل اصغر نے پارٹی اجلاس کے بائیکاٹ کی خبروں کو غیر مصدقہ قرار دے دیا۔

روسی حکام کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں دو بچے بھی شامل ہیں۔ حملے میں 108 افراد زخمی بھی ہوئے۔

پاکستانی شہری محمد انعام نے صرف 15 درھم کا ٹکٹ خریدا تھا جس کی بنیاد پر انہوں نے ایک کروڑ 50 لاکھ درہم جیت لیے ہیں۔

این اے 122 لاہور سے لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق، پی ٹی آئی کے لطیف کھوسہ اور اظہر صدیق ایڈووکیٹ کے کاغذات نامزدگی منظور کرلیے گئے۔

عارف حسن 19 سال پی او اے کے صدر رہے، وہ مارچ 2004 میں پہلی بار پی او اے کے صدر منتخب ہوئے تھے۔

کشمیر کونسل یورپ کل برسلز میں اپنے سیکریٹریٹ میں ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کررہی ہے۔

QOSHE - منصور آفاق - منصور آفاق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

منصور آفاق

21 0
31.12.2023

جن دنوں ڈاکٹر نیاز اختر پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوا کرتے تھے ۔کچھ عرصہ میں نے یونیورسٹی میں قیام کیا۔ ان دنوں میری کچھ بلوچ طالب علموں سے علیک سلیک ہو گئی ۔ایک دن انہوں نے مجھے ایک بلوچ اسٹوڈنٹ کی سفارش کےلئے کہا ۔میں اسے ساتھ لے کر وائس چانسلر کے پاس چلا ۔ڈاکٹر نیاز نے اسے داخلہ تو دیا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ ہمارے پاس پچاس بلوچ اسٹوڈنٹ کا کوٹا ہے جن کے اخراجات خود یونیورسٹی برداشت کرتی ہے مگر اس وقت ہمارے پاس تقریباًدو سو بلوچ اسٹوڈنٹس تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ پاکستان کی کوئی یونیورسٹی ایسی نہیں جہاں بلوچ اسٹوڈنٹس نہ ہوں۔ ہر یونیورسٹی میں بلوچ طالب علموں کا کوٹا ہے۔ جی سی یونیورسٹی جس کی اہمیت پوری دنیا میں تسلیم کی جاتی ہے۔جس میں تعلیم حاصل کرنا اعزاز کی بات ہے ۔وہاں بھی ڈاکٹر اقبال شاہد کے بقول ڈیڑھ سو زائد بلوچ طالب علم موجود ہیں اور ان تمام کی فیسوں میں خصوصی رعایت دی گئی ہے۔ انہیں ہوسٹلز کی فراہمی میں اولیت دی جاتی ہے ۔تمام کیڈٹ کالجز میں بلوچ اسٹوڈنٹ کا کوٹا موجود ہے۔ بلوچ رجمنٹ افواج پاکستان ایک قابل رشک رجمنٹ ہے۔دوہزار آٹھ سے لےکر اب تک بےشمار بلوچ کیڈٹ افواج پاکستان میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جب میں مجلس ترقی ادب کا سربراہ تھا تو حکومت پنجاب کی دعوت پر بلوچستان سے طالب علموں کا ایک گروپ آیا ،انہوں نے ہمارے پاس بھی وزٹ کیا ۔ان سے بڑی تفصیلی گفتگو ہوئی ۔انہوں نے کہا کہ یہاں آنے کے بعد پنجاب اور پنجابیوں کے بارے میں ہماری رائے میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ ضروری ہے کہ زیادہ سے بلوچوں کو پنجاب میں آنے اور رہنے کا موقع ملے تو انہیں احساس ہوگا کہ پنجابی کتنے مہمان نواز کتنے محبت کرنے والے لوگ ہیں ۔جتنی محبت ہمیں یہاں آکر ملی اس کا ہم تصور بھی........

© Daily Jang


Get it on Google Play