سرکاری اداروں میں رائج کرپشن کا کلچر ایک ایسا موضوع ہے جس پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ عام شہری سے لے کر صنعتکار اور بااثر ترین عوامی عہدوں پر رہنے والے سیاستدان بھی سرکاری اداروں میں کرپشن کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ سرکاری اداروں میں کام کرنے والا ہر شخص ہی کرپٹ یا بدعنوان ہے لیکن یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ سرکاری ملازمین کی اکثریت اس برائی میں ضرور مبتلا ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اب کرپشن کو ایک برائی یا عیب تصور نہیں کیا جاتا بلکہ ہر شخص اپنا جائز یا ناجائز کام کروانے کے لئے ’’سپیڈ منی‘‘ دینے اور فائلوں کو ’’پہیے‘‘ لگانا معمول سمجھتا ہے۔ کرپشن ہمارے قومی تشخص کو کس طرح مجروح کر رہی ہے اس کا اندازہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے جاری کردہ کرپشن سروے 2023ء سے کیا جا سکتا ہے۔ اس سروے کے مطابق پولیس کا محکمہ کرپشن میں پہلے، ٹھیکے دینے اور کنٹریکٹ کرنے کا شعبہ دوسرے، عدلیہ تیسرے، تعلیم چوتھے اور صحت کا محکمہ کرپشن میں پانچویں نمبر پر ہے۔ کرپشن درحقیقت ناانصافی کا دوسرا نام ہے اور یہ کتنی بڑی برائی ہے اس کا اندازہ حضرت علیؓکے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے لیکن نا انصافی کے ساتھ نہیں‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں عدل وانصاف اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کرپشن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ہمارے لئے اس سے زیادہ باعث شرم بات کیا ہو گی کہ پولیس اور عدلیہ کو بدعنوانی میں ملوث ہی قرار نہیں دیا گیا بلکہ انہیں اس فہرست میں سب سے کرپٹ ترین محکمے قرار دیا گیا ہے۔ کسی بھی ظلم و زیادتی یا جرم کا شکار کوئی شہری جب ایف آئی آر درج کروانے تھانے جاتا ہے تو اسے یا تو رشوت دینا پڑتی ہے یا کسی سے سفارش کروانا پڑتی ہے۔ عام آدمی کو تھانہ، کچہری میں اتنا خوار کیا جاتا ہے کہ اکثر و بیشتر وہ اپنے نقصان کی رپورٹ درج کروانے کی بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ پولیس میں رائج کرپشن کی اس انتہا کو دیکھتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے کہ پولیس کو عدلیہ کی ماتحتی میں دیدیا جائے لیکن اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ عدلیہ کا ادارہ خود اس برائی میں پولیس کے بعد تیسرے درجے پر آ چکا ہے۔یہ صورتحال اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ سرکاری محکموں سے کرپشن کے خاتمے کے لئے اگر اب بھی سنجید ہ اقدامات نہ کئے گئے تو یہ مرض لاعلاج ہو جائے گا۔ اگرچہ سرکاری محکموں میں بدعنوانی کا سدباب اور اسے کم کرنا ایک پیچیدہ اور چیلنجنگ کام ہے لیکن یہ ناممکن نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اولین ترجیح سرکاری محکموں میں شفافیت اور جوابدہی کے طریقہ کار کو نافذ کرنے اور مظبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے حکومتی سرگرمیوں، فیصلوں اور اخراجات سے متعلق معلومات تک عام شہریوں کی رسائی آسان بنائی جانی چاہیے۔ اس کے لئے سرکاری محکموں کی ڈیجٹلائزیشن ضروری ہے تاکہ ہر شہری سرکاری محکموں کے امور کی انجام دہی سےآگاہی حاصل کرکے ان کا محاسبہ کر سکے۔ اسی طرح پہلے سے رائج انسداد بدعنوانی کے قوانین کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ انسداد بدعنوانی کے لئے ایسے موثر قوانین متعارف کروائے جائیں جو یکساں طور پر سرکاری اور نجی شعبوں کا احاطہ کرتے ہوں۔ بدعنوانی کی روک تھام کے لئے قانونی فریم ورک میں سخت سزائیں شامل کرنے کے علاوہ قانونی عمل موثر اور منصفانہ بنانے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔علاوہ ازیں کرپشن کے خاتمے کے لئے خود مختار انسداد بدعنوانی ادارے کا قیام بھی وقت کا تقاضا ہے۔ اس سلسلے میں موٹروے پولیس اور پنجاب فرانزک لیب کی طرز پر جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ اور عالمی معیار سے ہم آہنگ نئی ایجنسی یا ادارہ قائم کر کے اسے بدعنوانی کے مقدمات کی چھان بین اور قانونی چارہ جوئی کے اختیارات دیئے جا سکتے ہیں۔ ایسی کسی بھی ایجنسی کو مکمل طور پر سیاسی مداخلت سے پاک ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں سرکاری محکموں سے کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کے لئے نشاندہی یا معلومات فراہم کرنے والے عام شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے بھی خصوصی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اگر ملک میں ایک ایسا کلچر فروغ دیا جائے کہ عام لوگ سرکاری ملازمین کی جانب سے کی جانے والی انتقامی کارروائیوں کے خوف سے آزاد ہو کر کرپشن یا بدعنوانی کی نشاندہی کر سکیں تو ہمارا ملک اس لعنت سے بہت جلد چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے۔ سرکاری محکموں میں کرپشن اور بدعنوانی کے فروغ پانے کی سب سے بڑی وجہ میرٹ کی بنیاد پر بھرتیاں اور ترقیاں نہ ہونا ہے۔ یہ ایک عمومی کلچر ہے کہ ایماندار اور فرض شناس سرکاری ملازمین کو ان کے اپنے ساتھی ہی لعنت ملامت شروع کر دیتے ہیں۔ سرکاری محکموں میں موجود ایسے افراد کو عام فہم زبان میں ’’کھڈے لائن‘‘لگا دیا جاتا ہے۔ دوسری جانب سفارش سے یا رشوت دے کر بھرتی ہونے والے ملازمین پہلے دن سے ہی اپنے ’’سرمایہ کاری‘‘ کو منافع سمیت واپس حاصل کرنے کا بہی کھاتہ کھول لیتے ہیں۔ اس لئے اقربا پروری اور جانبداری کو کم کرنے کیلئے سرکاری افسران کی بھرتی اور ترقی کے لیے میرٹ پر مبنی نظام کو فروغ دینا اشد ضروری ہے۔

دونوں جماعتوں کے تعلقات اور انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے متعلق امور پر گفتگو کی گئی۔

بھارتی اداکار پربھاس کی نئی فلم سالار ہندی زبان میں 100 کروڑ سے زائد کمائی کرنے والی پانچویں فلم بن گئی۔

حنا پرویز بٹ نے جلسے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ شیخوپورہ نے ثابت کردیا کہ یہ نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہے۔

اسرائیل نے وسط دسمبر تک 29 ہزار بم گرائے، غزہ کا 70 فیصد رہائشی علاقہ تباہ کردیا۔

کراچی پریس کلب (کے پی سی) کے سالانہ الیکشن میں دی ڈیموکریٹس پینل نے 14 ویں مرتبہ کلین سویپ کرلیا۔

محکمہ کسٹمز نے ٹیکس اہداف مکمل کرنے کےلیے نیا ہدایت نامہ جاری کردیا ہے۔

راولپنڈی کے حلقے این اے53 پر ن لیگ کے انجینئر قمرالاسلام کے کاغذات نامزدگی بھی منظور کرلیے گئے۔

محکمہ تعلیم کے مراسلے کے مطابق سرد موسم کے باعث 7 جنوری تک تمام سرکاری اور نجی اسکول بند رہیں گے۔

ہماری لڑائی بہت طویل ہے، صبر و استقامت کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا، امیر جماعت اسلامی

کشمیریوں کےلیے کی گئی ان کی جدوجہد کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

مسلم لیگ (ن) پنجاب کے سینئر رہنما شیخ روحیل اصغر نے پارٹی اجلاس کے بائیکاٹ کی خبروں کو غیر مصدقہ قرار دے دیا۔

روسی حکام کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں دو بچے بھی شامل ہیں۔ حملے میں 108 افراد زخمی بھی ہوئے۔

پاکستانی شہری محمد انعام نے صرف 15 درھم کا ٹکٹ خریدا تھا جس کی بنیاد پر انہوں نے ایک کروڑ 50 لاکھ درہم جیت لیے ہیں۔

این اے 122 لاہور سے لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق، پی ٹی آئی کے لطیف کھوسہ اور اظہر صدیق ایڈووکیٹ کے کاغذات نامزدگی منظور کرلیے گئے۔

عارف حسن 19 سال پی او اے کے صدر رہے، وہ مارچ 2004 میں پہلی بار پی او اے کے صدر منتخب ہوئے تھے۔

کشمیر کونسل یورپ کل برسلز میں اپنے سیکریٹریٹ میں ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کررہی ہے۔

QOSHE - چوہدری سلامت علی - چوہدری سلامت علی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

چوہدری سلامت علی

9 7
31.12.2023

سرکاری اداروں میں رائج کرپشن کا کلچر ایک ایسا موضوع ہے جس پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ عام شہری سے لے کر صنعتکار اور بااثر ترین عوامی عہدوں پر رہنے والے سیاستدان بھی سرکاری اداروں میں کرپشن کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ سرکاری اداروں میں کام کرنے والا ہر شخص ہی کرپٹ یا بدعنوان ہے لیکن یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ سرکاری ملازمین کی اکثریت اس برائی میں ضرور مبتلا ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اب کرپشن کو ایک برائی یا عیب تصور نہیں کیا جاتا بلکہ ہر شخص اپنا جائز یا ناجائز کام کروانے کے لئے ’’سپیڈ منی‘‘ دینے اور فائلوں کو ’’پہیے‘‘ لگانا معمول سمجھتا ہے۔ کرپشن ہمارے قومی تشخص کو کس طرح مجروح کر رہی ہے اس کا اندازہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے جاری کردہ کرپشن سروے 2023ء سے کیا جا سکتا ہے۔ اس سروے کے مطابق پولیس کا محکمہ کرپشن میں پہلے، ٹھیکے دینے اور کنٹریکٹ کرنے کا شعبہ دوسرے، عدلیہ تیسرے، تعلیم چوتھے اور صحت کا محکمہ کرپشن میں پانچویں نمبر پر ہے۔ کرپشن درحقیقت ناانصافی کا دوسرا نام ہے اور یہ کتنی بڑی برائی ہے اس کا اندازہ حضرت علیؓکے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے لیکن نا انصافی کے ساتھ نہیں‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں عدل وانصاف اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کرپشن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ہمارے لئے اس سے زیادہ باعث شرم بات کیا ہو گی کہ پولیس اور عدلیہ کو بدعنوانی میں ملوث ہی قرار نہیں دیا گیا بلکہ انہیں اس فہرست میں سب سے کرپٹ ترین محکمے قرار دیا گیا ہے۔ کسی بھی ظلم و زیادتی یا جرم کا شکار کوئی شہری جب ایف آئی آر درج کروانے تھانے........

© Daily Jang


Get it on Google Play