ہر انسان خاص اہمیت کا حامل ہے۔بطورِ انسان ہر فرد کو احترام،اعزازات اور وقار سے جینے کے حقوق حاصل ہیں۔ شُکر ہے انسانی قوانین اور الہامی ضابطوں میں رنگ، نسل، دولت اور اقتدار کی بِنا پر برتری کے اصول وضع کرکے خاص اور عام کی درجہ بندی نہیں کی گی۔ فرق روا رکھا گیا تو صرف رویوں میں اور رویوں میں تبدیلی کیلئے صدیوں کی تہذیبی اور اخلاقی جدوجہد درکار ہوتی ہے۔ تاہم یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جا سکتی ہے کہ دنیا میں اکثریت اوسط سوچ کے لوگوں کی ہے۔یہ قدرت کی حکمت ہے جس کی فلسفیانہ اور سماجی حمایت میں سینکڑوں تاویلیں دی جا سکتی ہیں لیکن سائنسی حوالے سے ابھی سراغ لگانا باقی ہے کہ اکثریت کو ذہانت ہی اتنی عطا ہوتی ہے کہ وہ لگی بندھی زندگی جی سکیں یا وہ اپنے نظام کو سمجھنے اور خود کو کھوجنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ تاہم بات ہو رہی تھی اوسط سوچ کی حامل اکثریت کی جو عام روزمرہ معاملات تک محدود ہوتی ہے، اسلئے عام کہلاتی ہے،یہاں عام سے مطلب کم تر یا معمولی نہیں بلکہ ہر معاشرے میں ایک جیسی سوچ رکھنے والی اکثریت ہے۔خاص لوگ وہ ہوتے ہیں جو زمانے کو نئے نظریات و تصورات اور آگہی دیتے ہیں۔اپنے جدا گانہ افکار اور کردار سے ارد گرد والوں اور اپنی تحریروں سے عہد کو زندگی کے ذائقوں اور مقاصد سے روشناس کرتے ہیں۔ یہ تعداد میں کم ہوتے ہیں کیونکہ انکو سامنے لانے کے لیے فلک کو برسوں جتن کرنا پڑتے ہیں اور انتظار کے روگ سہنے پڑتے ہیں تب یہ پوشیدہ ہیرے سامنے آ تے ہیں اور اپنی جگمگاہٹ سے دنیا کے خاکے میں نئے رنگ بھر کر زندگی کی نئے انداز سے تشریح کرتے ہیں۔ ایک فلک ان کے اپنے اندر بھی ہوتا ہے جس کی ترغیب پر یہ اپنے جوہر کو نمایاں کر کے دنیا میں اپنا سونپا گیا کردار ادا کرتے ہیں۔

اصغر ندیم سید ،جن کے اپنے تعارف میں سینکڑوں کارہائے نمایاں کے تابندہ تمغے موجود ہیں، نے ادب کے میدان میں شاہ سواری کرنے والے 15 خاص لوگوں کی یادوں کو عمدگی سے خاکوں کے فریم میں سجا کر کتابی شکل میں محفوظ کر دیا ہے اور اسے’’ پھرتا ہے فلک برسوں‘‘ کا نام دے کر ان کی اہمیت اور حیثیت واضح کردی ہے۔ہم تحقیقی اور تنقیدی تحریروں سے اجتناب برتنے والے لوگ ہیں۔ ہماری طبع نازک مشکل کام کرنے سے کتراتی ہے اس لئے ہم تحقیقی تحریروں کو مشکل اور بور سمجھ کر پرہیزی تحریروں پر اکتفا کرتے ہیں۔رفتہ رفتہ لوگوں میں شاعری کی محبت مزاحیہ مشاعروں اور مزاح ، پھکڑ سٹیج ڈراموں تک محدود ہو چکا ہے۔ قہر کے اس عالم میں اکثریت کو کتاب کی طرف راغب کرنے کیلئے خاص طریقہ علاج ضروری ہو جاتا ہے۔

اصغر ندیم سید نفسیات شناس لکھاری ہیں وہ ان تمام معاملات سے آگاہ ہیں اس لئے ان کی تحریروں میں دلکشی، کشش اور دلچسپی کا رنگ نمایاں ہوتا ہے۔استاد ہیں گھیر کر طالبعلموں کو کلاس روم میں لانے اور لیکچر پر توجہ دینے پر راغب کرنا انھیں خوب آتا ہے۔، اس کتاب کی تحریروں کو پڑھ کر بخوبی احساس ہوتا ہے جیسے شگفتگی کے ماحول میں بے تکلفانہ گفتگو کی جارہی ہے،جسے قاری بھی کسی کونے میں بیٹھا سن،دیکھ اور محظوظ ہو رہا ہے۔منو بھائی، انور سجاد،فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، حمید اختر، انتظار حسین،احمد بشیر، ضیا محی الدین،شہزاد احمد، اشفاق احمد، احمد راہی،امجد اسلام امجد، حسن رضا گردیزی، ممتاز مفتی اورصلاح الدین محمود،یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہیں میری نسل کے لکھنے والے بخوبی جانتے ہیں۔ مگر ان خاکوں کو پڑھ کر انھیں سمجھنے میں آسانی ہوئی،کئی گرہیں کُھلیں، کئی راز افشا ہوئے۔ہمارے ہاں خاکہ نگاری کو عموما ً خاک اڑانے والی تحریر سمجھا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ جس کا خاکہ لکھا جائے اسکے بارے میں کوئی اوٹ پٹانگ، خفیہ اور منفی اثرات رکھنے والا واقعہ ضرور شامل کیا جائے جو بریکنگ نیوز بن کر پھیلے اور ہر محفل میں اس کا تذکرہ ضروری ہو جائے۔ادبی دنیا میں دھماکہ کرنے والی ایسی خبریں مثبت بالکل نہیں ہوتیں۔اس لئے اکثر لوگ خاکہ نگاروں سے نالاں رہتے ہیں۔لیکن’’ پھرتا ہے فلک برسوں ‘‘ایک بالکل مختلف مزاج کی حامل خاکہ نگاری ہے۔اس میں گُدگّدی، مذاق،شرارت اور قہقہے ہیں تمسخر،طنز، ٹھٹھا اور بے توقیری نہیں۔ تمام ہستیوں کی زندگیوں کے جن گوشوں کو وا کیا گیا ہے وہ سوچ کو نئے زاویے عطا کرتے ہیں۔ اصغر ندیم سید خود نظریاتی انسان ہیں اسلئے اپنی تحریر اور گفتگو میں کسی بہانے پردے کے پیچھے جاری ڈرامے کی بھی بات کر جاتے ہیں۔ان خاکوں میں بھی کئی شیریں یادوں کے کیپسولوں میں تلخ حقائق بھرے ہوئے ہیں۔ ادب سے محبت کرنے والوں اور طالبعلموں کیلئے یہ ایک تحفہ ہے۔ نئے سال کا آغاز اس کتاب کے مطالعے سے کریں۔یقیناً ادب فرد کے اندر جمالیاتی قدریں اجاگر کر کے اسے بہتر انسان بننے میں مددگار ہوتا ہے۔ نیاسال مبارک ہو۔

کراچی میں سال نو کا پہلا مقدمہ خواجہ اجمیر نگری تھانے میں درج ہوا، پہلا مبینہ پولیس مقابلہ لیاری کلری میں ہوا جس میں گینگ وار کا مبینہ کارندہ زخمی ہوا، جبکہ پہلا ٹریفک حادثہ سائٹ سپر پائی وے پر ہوا جس میں 18سال کے جوان کی جان گئی۔

کراچی میں سال نو کی خوشی میں مختلف علاقوں میں ہوائی فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 22 افراد زخمی ہوگئے۔

ایڈیشنل آئی جی کراچی خادم حسین رند نے کہا ہے کہ کراچی کے تمام ہوٹلز اور ریسٹورنٹس پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ ن لیگ نے کوشش کی ہے کہ بہترین امیدواروں کا چناؤ کیا جائے۔

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ افواج پاکستان اور عوام ایک ہیں، ہمارے قومی جذبے کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔

فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی جارحیت سال کے آخری دن بھی جاری ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ خرم لطیف کے خلاف تھانا مزنگ میں سب انسپکٹر کی مدعیت میں مقدمہ درج ہے۔

پیپلز پارٹی کی رہنما آصفہ بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ میں نئے سال کے موقع پر ہوائی فائرنگ کی حوصلہ شکنی کرتی ہوں۔

راجہ پرویز اشرف نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمان پر حملہ ملک دشمن عناصر کی بزدلانہ کارروائی ہے۔

نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل کی منظوری دے دی۔

نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا ہے کہ ہم 31 جنوری تک جاری ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرکےجائیں گے۔

بالی ووڈ کے معروف نگار اور مشہور بھارتی شاعر جاوید اختر نے انکشاف کیا کہ انھیں شاہ رخ خان کی حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ڈنکی کے گانے 'نکلے تھے کبھی ہم گھر سے' کے لیے 25 لاکھ روپے کی ادائیگی کی گئی۔

وزارت داخلہ نے یہ بھی کہا کہ انتخابی مہم کے دوران سیاسی سرگرمیوں کو مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔

جمعیت علماء اسلام (ف) کے سینئر رہنما حافظ حمد اللّٰہ نے کہا ہے کہ ہم بزدلانہ حملوں سے مرعوب ہوئے ہیں نہ ہی ہوں گے۔

QOSHE - ڈاکٹر صغرا صدف - ڈاکٹر صغرا صدف
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ڈاکٹر صغرا صدف

16 1
01.01.2024

ہر انسان خاص اہمیت کا حامل ہے۔بطورِ انسان ہر فرد کو احترام،اعزازات اور وقار سے جینے کے حقوق حاصل ہیں۔ شُکر ہے انسانی قوانین اور الہامی ضابطوں میں رنگ، نسل، دولت اور اقتدار کی بِنا پر برتری کے اصول وضع کرکے خاص اور عام کی درجہ بندی نہیں کی گی۔ فرق روا رکھا گیا تو صرف رویوں میں اور رویوں میں تبدیلی کیلئے صدیوں کی تہذیبی اور اخلاقی جدوجہد درکار ہوتی ہے۔ تاہم یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جا سکتی ہے کہ دنیا میں اکثریت اوسط سوچ کے لوگوں کی ہے۔یہ قدرت کی حکمت ہے جس کی فلسفیانہ اور سماجی حمایت میں سینکڑوں تاویلیں دی جا سکتی ہیں لیکن سائنسی حوالے سے ابھی سراغ لگانا باقی ہے کہ اکثریت کو ذہانت ہی اتنی عطا ہوتی ہے کہ وہ لگی بندھی زندگی جی سکیں یا وہ اپنے نظام کو سمجھنے اور خود کو کھوجنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ تاہم بات ہو رہی تھی اوسط سوچ کی حامل اکثریت کی جو عام روزمرہ معاملات تک محدود ہوتی ہے، اسلئے عام کہلاتی ہے،یہاں عام سے مطلب کم تر یا معمولی نہیں بلکہ ہر معاشرے میں ایک جیسی سوچ رکھنے والی اکثریت ہے۔خاص لوگ وہ ہوتے ہیں جو زمانے کو نئے نظریات و تصورات اور آگہی دیتے ہیں۔اپنے جدا گانہ افکار اور کردار سے ارد گرد والوں اور اپنی تحریروں سے عہد کو زندگی کے ذائقوں اور مقاصد سے روشناس کرتے ہیں۔ یہ تعداد میں کم ہوتے ہیں کیونکہ انکو سامنے لانے کے لیے فلک کو برسوں جتن کرنا پڑتے ہیں اور انتظار کے روگ سہنے پڑتے ہیں تب یہ پوشیدہ ہیرے سامنے آ تے ہیں اور اپنی جگمگاہٹ سے دنیا کے خاکے میں نئے رنگ بھر کر زندگی کی نئے انداز سے تشریح کرتے ہیں۔ ایک فلک ان کے اپنے اندر بھی ہوتا ہے جس کی ترغیب پر یہ اپنے جوہر کو........

© Daily Jang


Get it on Google Play