(گزشتہ سے پیوستہ)

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ہمارے موجودہ مرکزی حکمران 18 ویں آئینی ترمیم اور قومی مالیاتی کمیشن کے بارے میں آئین کی کئی شقوں کو تسلیم تو نہیں کرتے مگر کیا مرکزی حکومت ان شقوں پر عمل کررہی ہے؟ اس سلسلے میں‘ میں 18ویں آئینی ترمیم کے آرٹیکل 58 کی شق (i) اور شق (ii) کی مثال دے رہا ہوں‘ اس آرٹیکل کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 157 میں ترمیم کی گئی ہے‘ ترمیم شدہ آرٹیکل کے شق (i) میں کہا گیا ہے کہ

(i) in clause (1) for the full stop at the end a colon shall be substituted and thereafter the following proviso shall be inserted, namely:-

"Provided that the Federal Government shall, prior to taking a decision to construct or cause to be constructed, hydro-electric power stations in any Province, shall consult the Provincial Government concerned" ; and

(ii) after clause (2), the following new clause shall be added, namely:-

"(3) In case of any dispute between the Federal Government and a Provincial Government in respect of any matter under this Article, any of the said Governments may move the Council of Common Interests for resolution of the dispute.

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب تک ایسا ہوا ہے کہ وفاقی حکومت نے کسی صوبے میں ہائیڈرو الیکٹرک پاور اسٹیشن کے بارے میں متعلقہ صوبے سے مشورہ کیا ہو؟ اسی طرح چھوٹے صوبوں کے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اس آرٹیکل کے تحت کسی ایشو پر وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان تنازع پیدا ہونے پر کیس کونسل آف کامن انٹریسٹس سے رابطہ کیا گیا ہو؟سوال تو یہ ہے کہ اب تک مرکز کی طرف سے اس اہم کونسل کو کتنی اہمیت دی جاتی رہی ہے؟ وہ بھی ایک الگ ایشو ہے‘ اب ہم 18ویں آئینی ترمیم کے آرٹیکل 59کی طرف آتے ہیں‘ اس آرٹیکل کے ذریعے آئین کی شق 160میں ترمیم کی گئی ہے‘ آرٹیکل 59 میں کہا گیا ہے کہ :

In the Constitution, in Article 160, after clause (3), the following new clauses shall be inserted, namely:-

"(3A) The share of the Provinces in each Award of National Finance Commission shall not be less than the share given to the Provinces in the previous Award. (3B) The Federal Finance Minister and Provincial Finance Ministers shall monitor the implementation of the Award biannaully and lay their reports before both Houses of Majlis-e-Shoora (Parliament) and Provincial Assemblies."

جہاں تک کلاس (3A)کا تعلق ہے تو موجودہ سال کی بھی مثال دی جاسکتی ہے‘ سندھ کو دیئے گئے گزشتہ قومی مالیاتی ایوارڈ کے مقابلے میں اس سال کا ایوارڈ مرکزی حکومت سندھ کو کم دے رہی ہے جس کے خلاف سندھ حکومت نے احتجاج بھی کیا ہے جہاں تک اس آرٹیکل کے کلاز 3P کا تعلق ہے تو آج تک ایسی کوئی مثال سامنے نہیں آئی کہ وفاقی وزیر خزانہ اور صوبائی وزرائے خزانہ نے مشترکہ طور پر ہر دو سال کے بعد مالیاتی ایوارڈ کو مانیٹر کیا ہو اور اپنی رپورٹیں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کی ہوں؟

اب میں نیچرل گیس کے بارے میں آئین کے آرٹیکل 158کا حوالہ دونگا۔ یہ آرٹیکل میں یہاں اصل شکل میں پیش کررہا ہوں:

Priority of Requirements of Natural Gas: Article 158: The Province in which a well-head of natural gas is situated shall have precedence over other parts of Pakistan in meeting the requirements from the well-head, subject to the commitments and obligations as on the commencing day.

اس آرٹیکل میں واضح لکھا گیا ہے کہ اگر ایک صوبے میں قدرتی گیس ’’ویل ہیڈ‘‘ قائم ہوتا ہے تو اس ’’ویل ہیڈ‘‘ کے گیس کی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے اس صوبے کو ملک کے دیگر حصوں پر ترجیح ہوگی‘ کیا آئین کی اس شق پر عمل ہوا ہے یا ہورہا ہے؟ نہیں‘ نہ ایسا ماضی میں ہوا ہے اور نہ اس وقت ہورہا ہے‘ اس کی ایک مثال پاکستان کے ابتدائی برسوںمیں بلوچستان سے نکلنے والی ’’سوئی گیس‘‘ کی دی جاسکتی ہے اگر میں غلط نہیں ہوں تو یہ حقیقت ہے کہ یہ گیس صوبہ بلوچستان میں برائے نام استعمال ہوتی تھی جبکہ ساری گیس دوسرے صوبوں خاص طور پر پنجاب میں فراہم کی جاتی تھی اس کے بعد پاکستان کے صوبے سندھ میں گیس نکلی‘ اس گیس کا بھی بڑا حصہ پنجاب کو فراہم کیا جاتا تھا اور اب بھی ایسا ہورہا ہے اگر معلومات درست ہیں تو کیا یہ آئین کی سنگین خلاف ورزی نہیں ہے‘ اس وقت سندھ صوبے کے کچھ مخصوص حلقوں میں ایک Move کیلئےتیاریاں ہورہی ہیں کہ سندھ کے لوگ اجتماعی طور پر مطالبہ کریں کہ ایک انکوائری کمیشن بنایاجائے جو اس سلسلے میں اعداد و شمار جمع کرے کہ بلوچستان سے ہر سال کتنی گیس پنجاب اور دیگر صوبوں کو اب تک فراہم کی گئی اور اب بھی کتنی گیس ان کو فراہم کی جارہی ہے۔ اس کے بعد اس بات کی بھی تحقیق کی جائے کہ یہ گیس کس ریٹ پر ان صوبوں کو فراہم کی جاتی رہی یا کی جارہی ہے اور کتنی فراہم کی جارہی ہے؟ (جاری ہے)

کراچی میں سال نو کا پہلا مقدمہ خواجہ اجمیر نگری تھانے میں درج ہوا، پہلا مبینہ پولیس مقابلہ لیاری کلری میں ہوا جس میں گینگ وار کا مبینہ کارندہ زخمی ہوا، جبکہ پہلا ٹریفک حادثہ سائٹ سپر پائی وے پر ہوا جس میں 18سال کے جوان کی جان گئی۔

کراچی میں سال نو کی خوشی میں مختلف علاقوں میں ہوائی فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 22 افراد زخمی ہوگئے۔

ایڈیشنل آئی جی کراچی خادم حسین رند نے کہا ہے کہ کراچی کے تمام ہوٹلز اور ریسٹورنٹس پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ ن لیگ نے کوشش کی ہے کہ بہترین امیدواروں کا چناؤ کیا جائے۔

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ افواج پاکستان اور عوام ایک ہیں، ہمارے قومی جذبے کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔

فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی جارحیت سال کے آخری دن بھی جاری ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ خرم لطیف کے خلاف تھانا مزنگ میں سب انسپکٹر کی مدعیت میں مقدمہ درج ہے۔

پیپلز پارٹی کی رہنما آصفہ بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ میں نئے سال کے موقع پر ہوائی فائرنگ کی حوصلہ شکنی کرتی ہوں۔

راجہ پرویز اشرف نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمان پر حملہ ملک دشمن عناصر کی بزدلانہ کارروائی ہے۔

نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل کی منظوری دے دی۔

نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا ہے کہ ہم 31 جنوری تک جاری ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرکےجائیں گے۔

بالی ووڈ کے معروف نگار اور مشہور بھارتی شاعر جاوید اختر نے انکشاف کیا کہ انھیں شاہ رخ خان کی حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ڈنکی کے گانے 'نکلے تھے کبھی ہم گھر سے' کے لیے 25 لاکھ روپے کی ادائیگی کی گئی۔

وزارت داخلہ نے یہ بھی کہا کہ انتخابی مہم کے دوران سیاسی سرگرمیوں کو مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔

جمعیت علماء اسلام (ف) کے سینئر رہنما حافظ حمد اللّٰہ نے کہا ہے کہ ہم بزدلانہ حملوں سے مرعوب ہوئے ہیں نہ ہی ہوں گے۔

QOSHE - جی این مغل - جی این مغل
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

جی این مغل

12 20
01.01.2024

(گزشتہ سے پیوستہ)

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ہمارے موجودہ مرکزی حکمران 18 ویں آئینی ترمیم اور قومی مالیاتی کمیشن کے بارے میں آئین کی کئی شقوں کو تسلیم تو نہیں کرتے مگر کیا مرکزی حکومت ان شقوں پر عمل کررہی ہے؟ اس سلسلے میں‘ میں 18ویں آئینی ترمیم کے آرٹیکل 58 کی شق (i) اور شق (ii) کی مثال دے رہا ہوں‘ اس آرٹیکل کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 157 میں ترمیم کی گئی ہے‘ ترمیم شدہ آرٹیکل کے شق (i) میں کہا گیا ہے کہ

(i) in clause (1) for the full stop at the end a colon shall be substituted and thereafter the following proviso shall be inserted, namely:-

"Provided that the Federal Government shall, prior to taking a decision to construct or cause to be constructed, hydro-electric power stations in any Province, shall consult the Provincial Government concerned" ; and

(ii) after clause (2), the following new clause shall be added, namely:-

"(3) In case of any dispute between the Federal Government and a Provincial Government in respect of any matter under this Article, any of the said Governments may move the Council of Common Interests for resolution of the dispute.

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب تک ایسا ہوا ہے کہ وفاقی حکومت نے کسی صوبے میں ہائیڈرو الیکٹرک پاور اسٹیشن کے بارے میں متعلقہ صوبے سے مشورہ کیا ہو؟ اسی طرح چھوٹے صوبوں کے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اس آرٹیکل کے تحت کسی ایشو پر وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان تنازع پیدا ہونے پر کیس کونسل آف کامن انٹریسٹس سے رابطہ کیا گیا ہو؟سوال تو یہ ہے کہ اب تک مرکز کی طرف سے اس اہم کونسل کو کتنی اہمیت دی جاتی رہی ہے؟ وہ بھی ایک الگ ایشو ہے‘ اب ہم 18ویں آئینی ترمیم کے آرٹیکل 59کی طرف آتے ہیں‘ اس آرٹیکل کے ذریعے........

© Daily Jang


Get it on Google Play