گزشتہ کالم پر دنیا بھر سے تبصرے موصول ہوئے مگر دو تبصرے انتہائی شاندار تھے۔ قائد اعظم کے فرمودات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے لاہور سے عباس علی گھرکی لکھتے ہیں کہ’’قائد کے فرمودات اب کون یاد کرے، وہ ان کی خواہشات کی تکمیل میں رکاوٹ ہیں۔ اس لئے ان کو طاق نسیاں کر دیا گیا۔

جدید ترین فرمودات کے لئے اب انہوں نے باہر سے نئے قائد بھرتی کر لیے ہیں۔ آپ کو شاید اس بات کا علم نہیں ہے، علم تو آپ کو ہے لیکن آپ بتاتے نہیں ہیں کیونکہ گل ودھ گئی اے‘‘۔ دوسرا تبصرہ اس سے بھی زیادہ منفرد ہے۔ یہ تبصرہ ملتان سے راحت ملتانیکر نے کیا ہے۔ راحت ملتانیکر ایک کالج میں پڑھاتی ہیں۔ معروف گلوکارہ ثریا ملتانیکر کی اس صاحبزادی نے گائیکی میں بھی نام بنا رکھا ہے۔ راحت ملتانیکر لکھتی ہیں کہ’’پہلے سرکاری دفاتر میں افسران کے پیچھے قائد اعظم کی تصویر لگائی جاتی تھی، اس کا ایک خاص مقصد تھا کہ دفتر میں آکر سرکاری افسران سے مخاطب ہونے والوں کی نظر قائد اعظم پر پڑے تو وہ افسران سے کوئی ناجائز اور غیر قانونی بات نہ کریں بلکہ انہیں قائد کی تصویر دیکھ کر خوف آ جائے مگر اب یہ تصویر افسران کے سامنے لگانی چاہئے تاکہ جب وہ کوئی غیر قانونی اور ناجائز کام کرنا چاہیں تو ان کی نظر قائد کی تصویر پر پڑے، ہو سکتا ہے انہیں بانی پاکستان کے کچھ فرمودات یاد آ جائیں اور وہ خود کو قانون کے دائرے میں رکھیں‘‘۔ بڑی عجیب بات ہے اس کالم کی اشاعت کے بعد آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے زرعی فارمرز سے خطاب کیا تو انہیں ریاست مدینہ کی یاد آئی مگر انہوں نے ریاست طیبہ کہا۔ پاکستان کے وسائل کا بہت تذکرہ کیا، زراعت کے حوالے سے پورا ایک انقلابی ایجنڈا پیش کیا۔ وہ کہنے لگے کہ " 60ء کی دہائی میں پاکستان ایشیا کا تیزی سے ترقی کرنے والا ملک تھا مگر ہم نے قائد کے تین زریں اصولوں ایمان، اتحاد، تنظیم کو بھلا دیا، جس کی وجہ سے تنزلی کا شکار ہوئے"۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے مسائل کی درست نشاندہی کی ہے۔

پاکستان کے مسائل کا احاطہ بھی درست کیا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ہمیں سب سے پہلے زراعت ہی پر توجہ دینی چاہئے کیونکہ زراعت ہماری معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے 60ء کی دہائی کا تذکرہ کیا مگر یاد رہے کہ جب سے ہم پاکستان کا وفاقی دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد لے آئے تو اسی وقت تنزلی کی بنیاد رکھ دی گئی تھی، جو لوگ بہت سے علوم پر دسترس رکھتے ہیں انہیں علم کی روشنی میں معلوم ہے کہ کراچی دارالحکومت کے طور پر کس قدر اہم اور پاکستان کی ترقی کی علامت تھا۔ ان لوگوں کو علم ہے کہ پاکستان کی تنزلی کی ایک بڑی وجہ دارالحکومت کا جنوبی خطے سے شمالی خطے میں جانا ہے۔ اب آ جائیے ایمان، اتحاد اور تنظیم کی طرف۔ جب لوگ ذرا ذرا سی چیزوں کے لئے بے ایمان ہو جائیں تو پھر ایمان کا زریں اصول پس پشت چلا جاتا ہے۔ جہاں تک اتحاد کا تعلق ہے تو پاکستان میں ان کرداروں کو تلاش کیجیے جنہوں نے ہمارا اتحاد پارہ پارہ کیا۔ ایسے کردار ڈھونڈ نکالیں جنہوں نے صوبائیت کا زہر گھولا، جنہوں نے لسانی بنیادوں پر شہروں کے شہر تقسیم کیے بلکہ شہر اجاڑ دیے۔ کسے خبر نہیں یہاں مذہبی تنظیموں کے پیچھے کس کس کا ہاتھ ہے۔ مذہبی منافرت پھیلا کر معاشرے کو زہر آلود کرنے والے کون ہیں؟ اب ذرا تنظیم کی بات کر لیں۔ تنظیم، قانون اور آئین سے جڑی ہوئی ہے، آئین عدل کا تقاضا کرتا ہے۔ ایسے کرداروں کو ڈھونڈنا چاہیے جو قانونی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تنظیم جیسے اصول کو بھلا دیں۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ ملک میں آئین کی پاسداری کہاں کہاں نہیں ہوتی جس سے تنظیم کا حلیہ بگڑتا ہے۔ آئین اور قانون کو پس پشت ڈال کر ظلم و جبر کے نظام کو رواج دینا بھی تنظیم کو ختم کر دیتا ہے۔ عدل کا نہ ہونا بھی قائد اعظم کے فرمودات کی نفی ہے۔ آرمی چیف کے خیالات تو بہت اچھے ہیں مگر یہاں کے کئی عہدیدار برملا یہ کہتے ہیں ’’قائد اعظم کا فرمان کون سا الہامی ہے کہ اس میں کوئی ردو بدل نہیں ہو سکتا‘‘۔

گزشتہ دو سال سے پاکستانی لوگوں کی اکثریت مہنگائی کی چکی میں پس گئی ہے۔ کیا یہ کام قائد اعظم کے فرمودات کے تحت ہوا؟ مہنگائی کو عروج پر لے جانے والی ایک جماعت کے رہنما دانیال عزیز خوب گرجے برسے تھے، اب اس کا اعتراف زبیر عمر نے بھی کر لیا ہے۔ ملک کے اندر حالیہ دنوں میں الیکشن کا ڈھونگ رچایا گیا ہے۔ کیا یہ سب قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ لوگوں سے کاغذات نامزدگی چھین لو، لوگوں کو اغوا کر لو، تجویز کنندہ اور تائید کنندہ کو غائب کر دو اور اگر کوئی وکیل چلا جائے تو اسے بھی پکڑ کر ڈالے میں ڈال لو۔ قائد اعظم تو ایسے الیکشن کے خواہشمند نہیں تھے۔ شاید اسی لئے نامور قانون دان چوہدری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ’’ الیکشن کمیشن الیکشن کروا نہیں رہا بلکہ الیکشن لڑ رہا ہے‘‘۔ حالیہ الیکشن کی صورتحال کو قائد اعظم کے فرمودات کے آئینے میں دیکھا جائے تو پھر عقیل عباس جعفری کے اشعار یاد آتے ہیں کہ

ہم سب ایسے شہر نا پرساں کے باسی ہیں

جس کا نظم و نسق چلائیں نا معلوم افراد

لگتا ہے اس شہر کا کوئی والی نہ وارث

ہر جانب بس دھوم مچائیں نا معلوم افراد

امریکی صدر جُوبائیڈن نے جاپان کے وسطی صوبے اشیکاوا میں آئے زلزلے کے بعد مدد کی پیش کش کر دی۔

ایس ایس پی کا کہنا ہے کہ علاقے میں سرچ آپریشن شروع کردیا گیا۔

اسرائیلی سپریم کورٹ نےعدلیہ کے اختیارات سے متعلق حکومت کے متنازع قانون کو کالعدم قرار دے دیا۔

مکی ماؤس کا کردار اب کوئی بھی بلا اجازت استعمال کر سکے گا۔

جیسے جیسے وہ رنگوں کو کینوس پر بکھیرتی ہیں ویسے ویسے شیر کے چہرے کی غیر معمولی تصویر سامنے آجاتی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی ترجمان معظم بٹ نے کہا ہے کہ ہمیں الیکشن کےلیے سازگار ماحول فراہم نہیں کیا جا رہا ہے۔

ظہیر نے نہ صرف رشتہ ایپ کے ذریعے 60 سالہ زرینہ بی بی کا اپنے والد کے لیے رشتہ ڈھونڈا بلکہ شادی کی تقریب کا بھی اہتمام کیا۔

این اے 243 کیماڑی سے امیدوار شیراز جدون اور پی ایس 115 کے امیدوار طیب خان نے جماعت اسلامی میں شمولیت کا اعلان کردیا۔

امریکا سمیت دیگر ممالک میں ایسا نہیں ہوتا، معروف قانون دان

2023 کے پہلے 9 ماہ میں پاکستان آنے والے غیر ملکی سیاحوں کی آمد میں 115 فیصد اضافہ ہو گیا ۔

بالی ووڈ کے مشہور اداکار جان ابراہم نے ممبئی کے کھار علاقے میں شاندار بنگلہ خرید لیا۔

جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو سے چار سو کلو میٹر دور وسطی صوبے اشیکاوا میں 7.6 شدت کا زلزلہ آیا۔ خبرایجنسی کے مطابق جاپان میں زلزلہ کے بعد سونامی وارننگ کو سونامی ایڈوائزری میں تبدیل کر دیا گیا۔

انتخابات 2024 میں پیپلز پارٹی نے پنجاب میں قدم جمانے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ اس بار بلاول بھٹو لاہور سے میدان میں اتر رہے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے محفوظ فیصلہ سنادیا، عدالت نے خرم لطیف کھوسہ کے خلاف ایف آئی آر خارج کردی۔

2023 کے آغاز میں 45 روپے کلو ملنے والا ٹماٹر ، 2024 میں 100 روپے کلو میں دستیاب ہے۔

اسرائیل کے انسانیت دشمن مظالم کے خلاف مزاحمت کرنے والی فلسطینی تنظیم حماس کے عسکری شعبے القسام بریگیڈ نے خان یونس میں اسرائیلی ٹینک کو راکٹوں سے نشانہ بنایا۔

QOSHE - مظہر برلاس - مظہر برلاس
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مظہر برلاس

17 1
02.01.2024

گزشتہ کالم پر دنیا بھر سے تبصرے موصول ہوئے مگر دو تبصرے انتہائی شاندار تھے۔ قائد اعظم کے فرمودات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے لاہور سے عباس علی گھرکی لکھتے ہیں کہ’’قائد کے فرمودات اب کون یاد کرے، وہ ان کی خواہشات کی تکمیل میں رکاوٹ ہیں۔ اس لئے ان کو طاق نسیاں کر دیا گیا۔

جدید ترین فرمودات کے لئے اب انہوں نے باہر سے نئے قائد بھرتی کر لیے ہیں۔ آپ کو شاید اس بات کا علم نہیں ہے، علم تو آپ کو ہے لیکن آپ بتاتے نہیں ہیں کیونکہ گل ودھ گئی اے‘‘۔ دوسرا تبصرہ اس سے بھی زیادہ منفرد ہے۔ یہ تبصرہ ملتان سے راحت ملتانیکر نے کیا ہے۔ راحت ملتانیکر ایک کالج میں پڑھاتی ہیں۔ معروف گلوکارہ ثریا ملتانیکر کی اس صاحبزادی نے گائیکی میں بھی نام بنا رکھا ہے۔ راحت ملتانیکر لکھتی ہیں کہ’’پہلے سرکاری دفاتر میں افسران کے پیچھے قائد اعظم کی تصویر لگائی جاتی تھی، اس کا ایک خاص مقصد تھا کہ دفتر میں آکر سرکاری افسران سے مخاطب ہونے والوں کی نظر قائد اعظم پر پڑے تو وہ افسران سے کوئی ناجائز اور غیر قانونی بات نہ کریں بلکہ انہیں قائد کی تصویر دیکھ کر خوف آ جائے مگر اب یہ تصویر افسران کے سامنے لگانی چاہئے تاکہ جب وہ کوئی غیر قانونی اور ناجائز کام کرنا چاہیں تو ان کی نظر قائد کی تصویر پر پڑے، ہو سکتا ہے انہیں بانی پاکستان کے کچھ فرمودات یاد آ جائیں اور وہ خود کو قانون کے دائرے میں رکھیں‘‘۔ بڑی عجیب بات ہے اس کالم کی اشاعت کے بعد آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے زرعی فارمرز سے خطاب کیا تو انہیں ریاست مدینہ کی یاد آئی مگر انہوں نے ریاست طیبہ کہا۔ پاکستان کے وسائل کا بہت تذکرہ کیا، زراعت کے حوالے سے پورا ایک انقلابی ایجنڈا پیش کیا۔ وہ کہنے لگے کہ " 60ء کی دہائی میں پاکستان ایشیا کا تیزی سے ترقی کرنے والا ملک تھا مگر........

© Daily Jang


Get it on Google Play