2023 اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ غروب ہو چکا ہے اور2024ایک نئی آب و تاب کے ساتھ طلوع ہو گیاہے۔اس وقت پاکستان کا ایک بڑا حصہ دھند سے ڈھکا ہوا ہے اسی طرح ملک کا سیاسی اور معاشی مطلع بھی امید کی روشنی سے محروم دکھائی دے رہا ہے۔2023میں پاکستان میں کیا کچھ نہیں ہوا۔ معاشی اور سیاسی میدان میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔آئین اور قانون کی بے توقیری کی نئی مثالیں قائم ہوئیں۔دو صوبوں کے عوام منتخب حکومتوں کے انتخاب سے محروم رہے۔عدالتی اور قانونی محاذ پر ناقابل بیان مثالیں قائم کی گئیں۔ملک کی دم توڑتی معیشت کے ساتھ پی ڈی ایم نے وہ سلوک کیا جو غاصب حکمرں مفتوحہ قوموں کے ساتھ کرتے ہیں۔پاکستانی قوم جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی تلے پس رہی تھی اسے مزید رگیدا گیا۔گزشتہ مالی سال کے اختتام پر پاکستان نے آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کا ایک مختصر مدتی اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا اور یہ بندوبست مہنگائی کا ایسا طوفان لے آیا جس نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔پی ڈی ایم حکومت کے غیر دانشمندانہ معاشی اقدامات کی بدولت شر نمو منفی ہو گئی اور آج ملک میں مہنگائی کی ہفتہ وار شرح 43 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔آئی ایم ایف پروگرام کے تحت تمام طبقات کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کر دیا گیا۔ مالیاتی وسائل میں اضافہ تو کیا ہونا تھا،سرکاری ضرورتیں ہی بڑھا دی گئیں۔قرض کی ادائیگی اخراجات کی سب سے بڑی مد بن گئی اور اس پر مستزاد یہ کہ اس شیطانی چکر سے نکلنے کا کوئی حل بھی سامنے موجود نہیں۔سال گزشتہ میں ہر شعبہ روبہ و زوال رہا۔سیاسی اقدار ختم کی گئیں، سیاسی کارکنوں کے گھروں کی چار دیواری کا تقدس کچھ اس طرح پامال کیا گیا کہ تمام آئین شکنوں کی روحیں بھی شرمندہ ہو گئیں۔نو مئی کے افسوس ناک واقعہ کی آڑ میں بے گناہ لوگوں پر مقدمات قائم کیے گئے انہیں گھروں سے دور رہنے پر مجبور کیا گیا، خواتین کے سروں سے چادریں کھینچی گئیں، بچوں کو ان کے والدین سے علیحدہ رہنے پر مجبور کیا گیا۔سیاست کرنا کچھ ایسا جرم بن گیا کہ سیاسی لوگوں کے کاروبار بند ہو کر رہ گئے اور بے روزگار قوم کے ہجوم میں کئی لاکھ نئے بے روزگاروں کا اضافہ ہوا۔غیر سیاسی اور غیر دانشمند افراد کے حکومت پر قبضہ کے بعد یہ حالت ہے کہ ستمبر 2023میں ملکی اخراجات 780 ھرب تک بڑھ چکے ہیں اور آج جبکہ 2023ا ختتام پذیر ہو رہا ہے تو یہ سرکاری اخراجات 800کھرب کے نشان کو چھو رہے ہیں۔پاکستان میں سیاسی کارکنوں کیلئے یہ سال مشکل تو تھا ہی کاروباری طبقہ کی پیٹھ پر بھی تازیانے برسائے گئے۔ جو معمولی رعایتیں کاروباری طبقہ کو حاصل تھی وہ چھین لی گئیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پچھلا پورا سال کاروبار منجمد رہا۔پاور سیکٹر بحران کا شکار رہا اور نا اہلی کا یہ عالم ہے کہ آج شدید سردی میں بھی دس گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا عذاب مسلط ہے۔اگر اس موقع پر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر بروقت مداخلت نہ کرتے تو شاید ملک دیوالیہ ہو جاتا۔انہوں نے آگے بڑھ کر ملک کا معاشی نظام سنبھالا،لاہور اور کراچی میں تاجروں سے ملاقاتیں کیں، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نام پر جاری اسمگلنگ کا راستہ روکا، ڈالر کی اسمگلنگ سختی سے روکی گئی،پاک افغان بارڈر پر ریاست کی رٹ قائم کی گئی جس کے نتیجے میں پاکستانی معیشت کو بھی سانس لینے کا موقع ملا۔آرمی چیف کی کوششوں سے قومی معیشت میں بحالی کے آثار پیدا ہوئے، اربوں ڈالرز کے معاہدے کیے گئے روپے کی قدر کچھ بہتر ہوئی، اسٹاک ایکسچینج میں زندگی کے آثار ظاہر ہوئے لیکن اس رجحان کو جاری رکھنے کے لیے سیاسی بے یقینی کا خاتمہ اور شفاف انتخابی عمل از حد ناگزیر ہے۔2024کی صبح طلوع ہو چکی ہے لیکن خدشات کے سائے اب بھی گہرے ہیں۔ کیا اس ملک سے سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہو سکے گا؟کیا ہم شفاف انتخابات دیکھ سکیں گے؟ کیا عوام کو اپنی مرضی کی حکومت منتخب کرنے کا موقع مل سکے گا؟ کیا قوم اس بات پریقین رکھ سکتی ہے کہ اس کا ووٹ چوری نہیں ہوگا؟گزشتہ تین سال سے جاری سیاسی افرا تفری کا خاتمہ ہوگا؟ ملک میں جاری دہشت گردی کی لہر پر قابو پایا جا سکے گا؟ لاپتہ افراد کے مسائل حل ہو سکیں گے؟ملک بھر میں جاری عوامی اضطراب پر قابو پانے کے لیے مثبت اقدامات کیے جا سکیں گے؟ملک کی نوجوان نسل جو اس وقت ریاست سے شدید ناراض ہے اس کی ناراضی ختم کرنے کے اسباب مہیا کیے جا سکیں گے؟ہماری مقتدرہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ اب عوامی جذبات کے سامنے بند باندھنا ملک کے لیے کسی طرح بھی مفید نہیں ہوگا۔ خدشات کے بادل ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔سیاسی کارکنوں کے ساتھ جرائم پیشہ عناصر جیسا سلوک بند کرنا ہوگا اور قوم کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ مقتدرہ اپنی پسند کی حکومت نہیں بلکہ قوم کی منتخب کردہ حکومت کے ساتھ چلنے کے لیے آمادہ ہوگی۔اس وقت سال تو نیا ہے لیکن خدشات پرانے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے مقتدر ادارے ان خدشات سے عہدہ برا ہونے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ اس وقت تمام ملکی مسائل کا واحد حل شفاف انتخابات ہیں عوام کی مرضی کے مطابق ان کی منتخب کردہ حکومت کو برسر اقتدار لانا اور اس کے ہاتھ مضبوط کرنے سے ہی ریاست بھی مضبوط ہوگی اور ملک میں بھی استحکام آئے گا اگر عوامی خواہشات کے برعکس کوئی انجینئرڈ حکومت لانے کی کوشش کی گئی تو خاکم بدہن اس سے نہ تو ریاست مضبوط ہوگی اور نہ ہی قوم خوشحال رہ سکے گی۔

امریکی صدر جُوبائیڈن نے جاپان کے وسطی صوبے اشیکاوا میں آئے زلزلے کے بعد مدد کی پیش کش کر دی۔

ایس ایس پی کا کہنا ہے کہ علاقے میں سرچ آپریشن شروع کردیا گیا۔

اسرائیلی سپریم کورٹ نےعدلیہ کے اختیارات سے متعلق حکومت کے متنازع قانون کو کالعدم قرار دے دیا۔

مکی ماؤس کا کردار اب کوئی بھی بلا اجازت استعمال کر سکے گا۔

جیسے جیسے وہ رنگوں کو کینوس پر بکھیرتی ہیں ویسے ویسے شیر کے چہرے کی غیر معمولی تصویر سامنے آجاتی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی ترجمان معظم بٹ نے کہا ہے کہ ہمیں الیکشن کےلیے سازگار ماحول فراہم نہیں کیا جا رہا ہے۔

ظہیر نے نہ صرف رشتہ ایپ کے ذریعے 60 سالہ زرینہ بی بی کا اپنے والد کے لیے رشتہ ڈھونڈا بلکہ شادی کی تقریب کا بھی اہتمام کیا۔

این اے 243 کیماڑی سے امیدوار شیراز جدون اور پی ایس 115 کے امیدوار طیب خان نے جماعت اسلامی میں شمولیت کا اعلان کردیا۔

امریکا سمیت دیگر ممالک میں ایسا نہیں ہوتا، معروف قانون دان

2023 کے پہلے 9 ماہ میں پاکستان آنے والے غیر ملکی سیاحوں کی آمد میں 115 فیصد اضافہ ہو گیا ۔

بالی ووڈ کے مشہور اداکار جان ابراہم نے ممبئی کے کھار علاقے میں شاندار بنگلہ خرید لیا۔

جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو سے چار سو کلو میٹر دور وسطی صوبے اشیکاوا میں 7.6 شدت کا زلزلہ آیا۔ خبرایجنسی کے مطابق جاپان میں زلزلہ کے بعد سونامی وارننگ کو سونامی ایڈوائزری میں تبدیل کر دیا گیا۔

انتخابات 2024 میں پیپلز پارٹی نے پنجاب میں قدم جمانے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ اس بار بلاول بھٹو لاہور سے میدان میں اتر رہے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے محفوظ فیصلہ سنادیا، عدالت نے خرم لطیف کھوسہ کے خلاف ایف آئی آر خارج کردی۔

2023 کے آغاز میں 45 روپے کلو ملنے والا ٹماٹر ، 2024 میں 100 روپے کلو میں دستیاب ہے۔

اسرائیل کے انسانیت دشمن مظالم کے خلاف مزاحمت کرنے والی فلسطینی تنظیم حماس کے عسکری شعبے القسام بریگیڈ نے خان یونس میں اسرائیلی ٹینک کو راکٹوں سے نشانہ بنایا۔

QOSHE - پیر فاروق بہاو الحق شاہ - پیر فاروق بہاو الحق شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

پیر فاروق بہاو الحق شاہ

9 5
02.01.2024

2023 اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ غروب ہو چکا ہے اور2024ایک نئی آب و تاب کے ساتھ طلوع ہو گیاہے۔اس وقت پاکستان کا ایک بڑا حصہ دھند سے ڈھکا ہوا ہے اسی طرح ملک کا سیاسی اور معاشی مطلع بھی امید کی روشنی سے محروم دکھائی دے رہا ہے۔2023میں پاکستان میں کیا کچھ نہیں ہوا۔ معاشی اور سیاسی میدان میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔آئین اور قانون کی بے توقیری کی نئی مثالیں قائم ہوئیں۔دو صوبوں کے عوام منتخب حکومتوں کے انتخاب سے محروم رہے۔عدالتی اور قانونی محاذ پر ناقابل بیان مثالیں قائم کی گئیں۔ملک کی دم توڑتی معیشت کے ساتھ پی ڈی ایم نے وہ سلوک کیا جو غاصب حکمرں مفتوحہ قوموں کے ساتھ کرتے ہیں۔پاکستانی قوم جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی تلے پس رہی تھی اسے مزید رگیدا گیا۔گزشتہ مالی سال کے اختتام پر پاکستان نے آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کا ایک مختصر مدتی اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا اور یہ بندوبست مہنگائی کا ایسا طوفان لے آیا جس نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔پی ڈی ایم حکومت کے غیر دانشمندانہ معاشی اقدامات کی بدولت شر نمو منفی ہو گئی اور آج ملک میں مہنگائی کی ہفتہ وار شرح 43 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔آئی ایم ایف پروگرام کے تحت تمام طبقات کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کر دیا گیا۔ مالیاتی وسائل میں اضافہ تو کیا ہونا تھا،سرکاری ضرورتیں ہی بڑھا دی گئیں۔قرض کی ادائیگی اخراجات کی سب سے بڑی مد بن گئی اور اس پر مستزاد یہ کہ اس شیطانی چکر سے نکلنے کا کوئی حل بھی سامنے موجود نہیں۔سال گزشتہ میں ہر شعبہ روبہ و زوال رہا۔سیاسی اقدار ختم کی گئیں، سیاسی کارکنوں کے گھروں کی چار دیواری کا تقدس کچھ اس طرح پامال کیا گیا کہ تمام آئین شکنوں کی روحیں بھی شرمندہ ہو گئیں۔نو مئی کے افسوس ناک واقعہ کی آڑ میں بے گناہ لوگوں پر مقدمات........

© Daily Jang


Get it on Google Play