ماہ رنگ بلوچ اور سمی بلوچ نامی دو بیٹیاں جو صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی بیٹیاں ہیں، چند روز پہلے لانگ مارچ کر کے اسلام آباد پہنچیں، جنوبی پنجاب چونکہ بلوچستان کی سرزمین رہی ہے یہاں لغاری، مزاری، دشتی اور دیگر بلوچ قبیلے نہ صرف اثر ورسوخ رکھتے ہیں بلکہ سرداری نظام بھی یہاں کافی مضبوط رہا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس بار بلوچ لانگ مارچ سندھ کے بجائے بلوچستان کے راستے جنوبی پنجاب میں داخل ہوا جہاں سرکاری مشینری نے اس لانگ مارچ کو کچلنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا کیوں کہ جنوبی پنجاب کےعوام اس مارچ کی خدمت کرنے کے لیے سڑکوں پر موجود تھے، ویسے بھی پاکستان کا ہر خطہ مہمان نوازی کے لیے مشہورہے۔ اور یہ بلوچ مارچ ہوتا یا کوئی اور مارچ یہاں مہمان نوازی ہونا لازم تھی، مگر جس طرح کا تضحیک آمیز رویہ یہاں کی افسر شاہی نے اپنایا وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ یہاں چلیں کوئی گرفتاری یا تشدد نہ کیا گیا لیکن جیسے ہی ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھی اسلام آباد میں داخل ہوئے تو جو کچھ ان کے ساتھ کیا گیا اس سے پوری دنیا کو ایک پیغام گیا کہ پرامن مظاہروں کے لیے اسلام آباد میں کوئی جگہ نہیں، ایسا لگتا تھا جیسے پوری ریاست کی طاقت سے زیادہ طاقتور ماہ رنگ بلوچ اور دیگر خواتین اور بچے ہیں جن سے اتنا خوف تھا کہ انھیں پکڑ کر تھانے پہنچا دیا گیا۔ پاکستان میں چند ہی لوگوں کو علم تھا کہ کوئی مارچ ہورہا ہے اگر تشدد نہ کیا جاتا تو کسی کو کانوں کان علم بھی نہ ہوتا کہ بلوچ لانگ مارچ ہواہے ۔ مگر تشدد کے بعد ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں کے لیے پورے پاکستان میں ہمدردی کی لہر دوڑ گئی۔ شکریہ تو اس قوم کو حامد میر کا کرنا چاہیے جو بروقت ماہ رنگ بلوچ اور دیگر لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوا اور اس تاثر کو زائل کردیا کہ اہل پنجاب کے دلوں میں بلوچوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ہمیں ضرور یہ برا لگا رہا ہوگا کہ حامد میر مبینہ طور پر دہشتگردوں کی بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ کیوں کھڑا نظر آیا لیکن یاد رکھیں حامد میر اگر آواز نہیں اٹھائے گا تو یقینی طور پر ملک کےباہر سے آواز اٹھے گی جو حامد میر کی آواز سے کئی زیادہ خطرناک ثابت ہوگی۔ حامد میر اور ان جیسوں کی آوازوں سے مملکت کو کوئی خطرہ نہیں مگر جو آوازیں باہر سے اٹھیں گی وہ ہر حوالے سے مملکت کے لیے خطرناک ثابت ہوں گی۔ یہ بلوچ بچیاں بھارت یا افغانستان میں پیدا نہیں ہوئیں یہ یہاں اس پاکستان میں پیدا ہوئی ہیں۔ انھیں اپنی بیٹیاں سمجھ کر ان کو گلے لگا لینے سے ہی بلوچستان کا مسئلہ حل ہوگا، ان کے مطالبات مان لینے سے ریاست کا سر بلند ہوگا، یہ ہمارا مستقبل ہیں، ہو سکتا ہے کہ ماہ رنگ بلوچ اور دیگر افراد کسی مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہوں کیوں کہ ایک ایسے وقت میں لانگ مارچ کرنا کہ جب بلوچ علیحدگی پسند سرفراز بنگلزئی اورگلزار شنبے کے اعتراف میڈیا کے سامنے آرہے ہیں جس میں وہ بتا رہے ہوں کہ کیسے دشمن ممالک نے انھیں پاکستان کے خلاف بلوچستان میں استعمال کیا اور ایک ایسے وقت میں جب ان دونوں کی پاکستان کے اداروں کے پاس موجودگی سے بلوچ علیحدگی پسند گروپوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہوا، ایسے میں ماہ رنگ بلوچ کا لانگ مارچ شروع کرنا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ مگر اس سوال کا جواب کون دے گا کہ ماہ رنگ اور اس کے ساتھیوں پر تشدد کر کے ہمیں کیا ملا ؟ یقینی طور پر ماہ رنگ کو اپنے اہداف حاصل ہوگئے وہ جس کام کے اور جس ایشو کے لیے اسلام آباد پہنچی تھی وہ اسے حاصل ہوگیا مگر ریاست کو کیا ملا ؟ آئیں اپنے لوگوں کو پیار دے کر ان کے دل جیتیں، جب یہ بچیاں اسلام آباد سے رخصت ہورہی ہوں تو یہ یہاں سے تلخ یادوں کے بجائے پیار، امن اور محبت کے پیغام لے کر واپس لوٹیں، ہم ان کے پیارے تو انھیں واپس نہیں لوٹا سکتے لیکن کیا ہم انھیں عزت اور پیار بھی نہیں دے سکتے ؟ یقینی طور پر لانگ مارچ میں ایسے نعرے لگے ہیں جو اس مارچ کے اہداف اور بھارت اور پاکستان مخالف عناصر کے اہداف حاصل کرنے کے لیے لگائے جاتے ہیں میری ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں سے بھی گزارش ہے کہ اپنے مقصد کو اور لانگ مارچ کو کسی کی بندوق کا کندھا نہ بننے دیں، فوج مخالف نعروں سے آپ کا مسئلہ حل نہ پچھلے 20سال میں ہوا نہ اگلے 40سال میں ہوگا، اس مسئلے کا حل بات چیت سے نکل سکتا ہے اور نکلے گا۔ لیکن جب تک ماہ رنگ بلوچ اور دیگر بلوچ بہن بھائی دوسروں کی بندوق کو اپنا کندھا فراہم کرتے رہیں گے ریاست کے لیے ناممکن ہوگا کہ ان کے مطالبات کو عملی جامہ پہنائے۔ ایک بار پھر ریاست سے گزارش کرتا ہوں کہ اسلام آباد میں بیٹھے بلوچ بہنوں اور بیٹیوں کے سر کی چادر بنے۔ میں یقین سے کہتا ہوں تلخ ماہ رنگ اور سیمی بلوچ کے سر پر اپنی بہن بیٹی سمجھ کر ہاتھ رکھیں گے تو یہ تلخ، ناراض اور ناخوش بیٹیاں اپنا غم بھولیں نہ بھولیں آپ کے ہاتھوں تلخ واقعات ضرور بھول جائیں گی۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی سے متعلق درخواست پر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ آئیے مزید فلاحی پاکستان کی تعمیر کے لیے آگے بڑھیں۔

امریکی صدر جُوبائیڈن نے جاپان کے وسطی صوبے اشیکاوا میں آئے زلزلے کے بعد مدد کی پیش کش کر دی۔

ایس ایس پی کا کہنا ہے کہ علاقے میں سرچ آپریشن شروع کردیا گیا۔

اسرائیلی سپریم کورٹ نےعدلیہ کے اختیارات سے متعلق حکومت کے متنازع قانون کو کالعدم قرار دے دیا۔

مکی ماؤس کا کردار اب کوئی بھی بلا اجازت استعمال کر سکے گا۔

جیسے جیسے وہ رنگوں کو کینوس پر بکھیرتی ہیں ویسے ویسے شیر کے چہرے کی غیر معمولی تصویر سامنے آجاتی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی ترجمان معظم بٹ نے کہا ہے کہ ہمیں الیکشن کےلیے سازگار ماحول فراہم نہیں کیا جا رہا ہے۔

ظہیر نے نہ صرف رشتہ ایپ کے ذریعے 60 سالہ زرینہ بی بی کا اپنے والد کے لیے رشتہ ڈھونڈا بلکہ شادی کی تقریب کا بھی اہتمام کیا۔

این اے 243 کیماڑی سے امیدوار شیراز جدون اور پی ایس 115 کے امیدوار طیب خان نے جماعت اسلامی میں شمولیت کا اعلان کردیا۔

امریکا سمیت دیگر ممالک میں ایسا نہیں ہوتا، معروف قانون دان

2023 کے پہلے 9 ماہ میں پاکستان آنے والے غیر ملکی سیاحوں کی آمد میں 115 فیصد اضافہ ہو گیا ۔

بالی ووڈ کے مشہور اداکار جان ابراہم نے ممبئی کے کھار علاقے میں شاندار بنگلہ خرید لیا۔

جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو سے چار سو کلو میٹر دور وسطی صوبے اشیکاوا میں 7.6 شدت کا زلزلہ آیا۔ خبرایجنسی کے مطابق جاپان میں زلزلہ کے بعد سونامی وارننگ کو سونامی ایڈوائزری میں تبدیل کر دیا گیا۔

انتخابات 2024 میں پیپلز پارٹی نے پنجاب میں قدم جمانے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ اس بار بلاول بھٹو لاہور سے میدان میں اتر رہے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے محفوظ فیصلہ سنادیا، عدالت نے خرم لطیف کھوسہ کے خلاف ایف آئی آر خارج کردی۔

QOSHE - محمد خان ابڑو - محمد خان ابڑو
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

محمد خان ابڑو

10 1
02.01.2024

ماہ رنگ بلوچ اور سمی بلوچ نامی دو بیٹیاں جو صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی بیٹیاں ہیں، چند روز پہلے لانگ مارچ کر کے اسلام آباد پہنچیں، جنوبی پنجاب چونکہ بلوچستان کی سرزمین رہی ہے یہاں لغاری، مزاری، دشتی اور دیگر بلوچ قبیلے نہ صرف اثر ورسوخ رکھتے ہیں بلکہ سرداری نظام بھی یہاں کافی مضبوط رہا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس بار بلوچ لانگ مارچ سندھ کے بجائے بلوچستان کے راستے جنوبی پنجاب میں داخل ہوا جہاں سرکاری مشینری نے اس لانگ مارچ کو کچلنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا کیوں کہ جنوبی پنجاب کےعوام اس مارچ کی خدمت کرنے کے لیے سڑکوں پر موجود تھے، ویسے بھی پاکستان کا ہر خطہ مہمان نوازی کے لیے مشہورہے۔ اور یہ بلوچ مارچ ہوتا یا کوئی اور مارچ یہاں مہمان نوازی ہونا لازم تھی، مگر جس طرح کا تضحیک آمیز رویہ یہاں کی افسر شاہی نے اپنایا وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ یہاں چلیں کوئی گرفتاری یا تشدد نہ کیا گیا لیکن جیسے ہی ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھی اسلام آباد میں داخل ہوئے تو جو کچھ ان کے ساتھ کیا گیا اس سے پوری دنیا کو ایک پیغام گیا کہ پرامن مظاہروں کے لیے اسلام آباد میں کوئی جگہ نہیں، ایسا لگتا تھا جیسے پوری ریاست کی طاقت سے زیادہ طاقتور ماہ رنگ بلوچ اور دیگر خواتین اور بچے ہیں جن سے اتنا خوف تھا کہ انھیں پکڑ کر تھانے پہنچا دیا گیا۔ پاکستان میں چند ہی لوگوں کو علم تھا کہ کوئی مارچ ہورہا ہے اگر تشدد نہ کیا جاتا تو کسی کو کانوں کان علم بھی نہ ہوتا کہ بلوچ لانگ مارچ ہواہے ۔ مگر تشدد کے بعد ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں کے لیے پورے پاکستان میں ہمدردی کی لہر دوڑ گئی۔ شکریہ تو اس قوم کو حامد میر کا کرنا چاہیے جو بروقت ماہ........

© Daily Jang


Get it on Google Play