سیاسی لڑائی عدالتوں میں جا چکی ہے، ہمارے کئی دوست چیف جسٹس کو جسٹس منیر بننے کا مشورہ دے رہے ہیں مگر کچھ دوست ایسے ہیں جو انہیں یہ بھی مشورہ دے رہے ہیں کہ نظریہ ضرورت کو دفن رہنے دیں۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ موجودہ فیصلے سنہری حروف میں لکھے جائیں گے یا نظریہ ضرورت کے بوسیدہ قبرستان میں دفن ہو جائیں گے۔ اگر موجودہ سیاسی مقدمات کا جائزہ لیا جائے اور سماج کا عمیق مشاہدہ کیا جائے تو سچ کا آئینہ بتاتا ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں جس بے ڈھنگے جمہوری نظام کیلئے لڑ رہی ہیں وہ تو سماج کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ اگر 75 برسوں کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پارلیمانی جمہوری نظام نے لوگوں کی زندگیوں کو نہ صرف تنگ کیا بلکہ ان کی خواہشات کو کچل کر حسرت کے قبرستان بنا دیے۔ اس پارلیمانی جمہوری نظام کو ہمیشہ مفادات کے دائروں میں چلایا گیا، کبھی دھاندلی ہوئی، کبھی ایبڈو سامنے آ گیا، کہیں مقدمات بن گئے، کبھی غداریاں بانٹی گئیں ، کبھی دھاندلے کیے گئے اور کبھی سرکاری مشینری کے ذریعے مخالفین کو کچل کر جھرلو پھیر دیا گیا۔ اس پارلیمانی جمہوری نظام میں پاکستان کے ہر قومی اور صوبائی حلقے میں وراثتی سیاست پروان چڑھتی رہی۔ اگر کبھی غریب اور متوسط طبقے کیلئے کوئی کھڑکی کھلی بھی تو اسے موسم کا بہانہ بنا کر بند کر دیا گیا۔ حلقوں کی وراثتی سیاست نے سیاسی پارٹیوں میں بادشاہتیں متعارف کروائیں پھر یہ بادشاہ مافیاز کی سر پرستی کرتے ہوئے نظر آئے، اس دوران ملک لٹتا رہا، چراغ بجھتے رہے اور سماج کا سفر کٹھن ہوتا گیا۔ پھر ایک تیسری سیاسی پارٹی سامنے آئی، وہی آج کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہے۔ جب اس جماعت نے لوگوں کے مسائل حل کرنا شروع کیے تو سیاست کے تمام تمن دار اکٹھے ہوئے، مافیاز کو ساتھ ملایا اور اس کے راستے میں خندق کھود دی گئی۔ اب جب الیکشن شیڈول آ چکا ہے تو سیاست کے میدان میں جیتنے اور سر پٹ دوڑنے والے گھوڑے کہیں دکھائی نہیں دے رہے بلکہ وہ کسی دفاعی حصار میں گھاس کے متلاشی بن چکے ہیں جبکہ ایک سیاسی قوت کے امیدواروں کو سختیوں، تکلیفوں کے درمیان کاغذات سنبھالنے کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ پہلے صرف کاغذات چھینے جاتے تھے اب نشان بھی چھین لیا ہے۔ نشان پر پتہ نہیں اعلیٰ عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے مگر سماج کی اکثریت اس کے ساتھ کھڑی ہے جس کے پاس انتخابی نشان تک نہیں۔ طاقت اور سرکاری مشینری جن کے ساتھ ہے وہ میدان میں اترنے سے گھبرا رہے ہیں۔ ان کے پاس لوگوں کو دینے کیلئے کچھ نہیں ، ان کے ہاتھوں میں پھول نہیں، صرف کانٹے ہیں اور لوگ کانٹوں کے خریدار نہیں۔ لوگوں کے دل قیدی کے اسیر ہو چکے ہیں۔ عجیب منظر ہے طاقت کی پشت پناہی کے بل بوتے پر الیکشن لڑنے والے تمام لوگ، عوام سے خوف زدہ ہیں۔ سماج موروثی سیاست دانوں کو منہ کیوں نہیں لگا رہا، یہ بڑا سوال ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں ان روایتی سیاسی پارٹیوں نے ہمارے مسائل حل کیوں نہیں کیے۔ لوگ سولہ مہینوں پر مشتمل مہنگائی رجسٹر کھول کر سامنے رکھ دیتے ہیں کہ کس طرح پی ڈی ایم میں شامل روایتی سیاسی جماعتوں نے لوگوں کی زندگیوں کو کچل مسل کر رکھ دیا۔ کچھ پریشان لوگ گرداب میں پھنس گئے، اکثریت مہنگائی برد ہو گئی۔ ملک میں بسنے والے غریب غموں کے پھولوں پر پڑی شبنم چاٹ رہے ہیں یا پھر غربت کی کھائیوں میں آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کہیں زندگی پیاسی نظر آتی ہے کہیں بھوکی اور کہیں بالکل بے لباس۔ ہمارے اقتدار پرست سیاست دانوں نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ لوگوں کے مسائل حل کیے جائیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 80 فیصد پاکستانیوں کی ماہانہ آمدنی بیس ہزار سے کم ہے۔ جب گھروں کے اخراجات لاکھوں کو چھو رہے ہوں تو بیس ہزار کیا کریں گے۔ کوئی گھر چلانے کیلئے زیور بیچ رہا ہے تو کوئی بچوں کی فیسوں کیلئے ادھار لے رہا ہے۔ بجلی اور گیس کے بلوں کا پیٹ پالنے کیلئے ہڈیوں کو ایندھن بنایا جا رہا ہے۔ لوگوں کا یہ عارضی بندوبست بھی دو چار مہینوں میں اختتام پذیر ہو جائے گا۔ کبھی کسی نے سوچا کہ 25 کروڑ کی آبادی میں صرف چالیس لاکھ افراد ائر کنڈیشنر استعمال کرتے ہیںباقی ساڑھے چوبیس کروڑ گرم ہواؤں کے تھپیڑوں کے سپرد ہوتے ہیں۔ سہولتوں کا یہی تناسب سرد موسم میں بھی ہے۔ اگر لوگوں کے مسائل حل نہ ہوئے، لوگوں کے ذرائع آمدنی نہ بڑھے اور لوگوں کی زندگیوں میں خوشگوار انقلابی تبدیلیاں نہ آئیں تو پھر سمجھ لیجیے کہ سرخ آندھی چلنے والی ہے، یہ لال آندھی صرف درختوں ہی کو نہیں بڑے بڑے گلستانوں کو برباد کر دے گی۔ اب بھی وقت ہے کہ اگر آپ نے پارلیمانی جمہوری نظام چلانا ہے تو پھر الیکشن متناسب نمائندگی کی بنیاد پر کروایا جائے یا پھر اس کا آسان حل صدارتی نظام ہے تاکہ سیاست کے دروازے پاکستان کی اکثریت کیلئے کھل سکیں، ابھی تک تو اکثریت پر اقلیت ہی حکومت کر رہی ہے۔اگر تبدیلی نہ آئی تو پھر لوگ آئیں گے۔ یاد رکھیے لوگوں کے سامنے طاقت ور بھی ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔ الیکشن کو پابندیوں سے نکال کر عوامی بنا دیا جائے تو یہی بہتر ہے۔ بقول سرور ارمان

حاجتیں زیست کو گھیرے میں لیے رکھتی ہیں

خستہ دیوار سے چمٹے ہوئے جالوں کی طرح

کراچی کے علاقے ملیر سٹی کے قریب جھونپڑیوں میں آگ لگنے سے 2 خواتین سمیت 4 افراد جھلس کر زخمی ہوگئے۔

امریکی پینٹاگون نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بغداد کے شمالی علاقے میں عراقی کمانڈر مشتاق جواد کاظم الجواری کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

بلوچستان کے مختلف علاقوں میں برفباری کے بعد سردی کی شدت میں اضافہ ہوگیا۔

امریکی میڈیا کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ فائرنگ میں ملوث نوجوان کی عمر 17 برس تھی، ملزم نے فائرنگ کے بعد خودکشی کرلی۔

ترجمان امریکی محکمۂ خارجہ میتھیو ملر کا کہنا ہے کہ امریکا پاکستان کو نہیں کہہ سکتا کہ انتخابات کیسے کروائے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق رکن پنجاب اسمبلی سردار محمد نواز رند بیٹے سمیت پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔

اسرائیلی میڈیا کا مزید کہنا ہے کہ ممدوح لولو نے اسرائیل کے خلاف کئی حملوں کی قیادت کی تھی۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کےآفیشل اکاؤنٹ پر جاری بیانات پارٹی موقف یا پالیسی کے عکاس ہیں۔

زرتاج گل پر مقدمہ سخی سرور کے بارڈر ملٹری پولیس تھانے میں ظفر حسین نامی شہری کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔

ریلوے مسافروں کے لیے اچھی خبر سامنے آئی ہے، جس کے مطابق نئی ڈائننگ کار کا افتتاح کر دیا گیا ہے۔

جب بھی آپ انیل کپور کو دیکھیں تو وہ کبھی بھی آپکو اپنے خوبصورت لُک کے حوالے سے مایوس نہیں کریں گے۔

برطانیہ میں بھنگ درآمد کرنے والے مشتبہ گروہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ لندن سے برطانوی میڈیا کے مطابق پولیس آپریشن میں 100 کلو سے زائد بھنگ، 5 لاکھ پاونڈ نقدی اور لگژری کار برآمد کی گئی۔

مرکزی بینک کے مطابق 29 دسمبر تک ملکی زرمبادلہ ذخائر 13 ارب 22 کروڑ ڈالر رہے۔

لاہورمیں ساندہ کے علاقے حکیماں والا بازار میں کاروباری رنجش پر بھانجے نے فائرنگ کر کے ماموں کو قتل کر دیا۔

دل کا رشتہ ایپ پاکستان کی پہلی رشتہ ایپ ہے جو لاکھوں تصدیق شدہ پرو فائلز کے ساتھ پاکستان کی نمبر ون ایپ بن چکی ہے۔

QOSHE - مظہر برلاس - مظہر برلاس
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مظہر برلاس

21 15
05.01.2024

سیاسی لڑائی عدالتوں میں جا چکی ہے، ہمارے کئی دوست چیف جسٹس کو جسٹس منیر بننے کا مشورہ دے رہے ہیں مگر کچھ دوست ایسے ہیں جو انہیں یہ بھی مشورہ دے رہے ہیں کہ نظریہ ضرورت کو دفن رہنے دیں۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ موجودہ فیصلے سنہری حروف میں لکھے جائیں گے یا نظریہ ضرورت کے بوسیدہ قبرستان میں دفن ہو جائیں گے۔ اگر موجودہ سیاسی مقدمات کا جائزہ لیا جائے اور سماج کا عمیق مشاہدہ کیا جائے تو سچ کا آئینہ بتاتا ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں جس بے ڈھنگے جمہوری نظام کیلئے لڑ رہی ہیں وہ تو سماج کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ اگر 75 برسوں کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پارلیمانی جمہوری نظام نے لوگوں کی زندگیوں کو نہ صرف تنگ کیا بلکہ ان کی خواہشات کو کچل کر حسرت کے قبرستان بنا دیے۔ اس پارلیمانی جمہوری نظام کو ہمیشہ مفادات کے دائروں میں چلایا گیا، کبھی دھاندلی ہوئی، کبھی ایبڈو سامنے آ گیا، کہیں مقدمات بن گئے، کبھی غداریاں بانٹی گئیں ، کبھی دھاندلے کیے گئے اور کبھی سرکاری مشینری کے ذریعے مخالفین کو کچل کر جھرلو پھیر دیا گیا۔ اس پارلیمانی جمہوری نظام میں پاکستان کے ہر قومی اور صوبائی حلقے میں وراثتی سیاست پروان چڑھتی رہی۔ اگر کبھی غریب اور متوسط طبقے کیلئے کوئی کھڑکی کھلی بھی تو اسے موسم کا بہانہ بنا کر بند کر دیا گیا۔ حلقوں کی وراثتی سیاست نے سیاسی پارٹیوں میں بادشاہتیں متعارف کروائیں پھر یہ بادشاہ مافیاز کی سر پرستی کرتے ہوئے نظر آئے، اس دوران ملک لٹتا رہا، چراغ بجھتے رہے اور سماج کا سفر کٹھن ہوتا گیا۔ پھر ایک تیسری سیاسی پارٹی سامنے آئی، وہی آج کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہے۔ جب اس جماعت نے لوگوں کے مسائل حل کرنا شروع کیے تو سیاست کے تمام تمن دار اکٹھے........

© Daily Jang


Get it on Google Play