بمشکل ہی کبھی ایسا ہوا ہوگا کہ ایک ریاست پوری دلجمعی کیساتھ کسی فرد کی وراثت کو تباہ اور اسکی عظیم کامیابیوں اور کارناموں کے بیانیے کو رد کرنےکے خبط میں مبتلا ہو، جیسا کہ آج پاکستان میں ارباب اختیار عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت، تحریک انصاف کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ طاقت اور دھن دولت کے بل بوتے پر اقتدار سے باہر کرنے اور ان کیخلاف بدعنوانی سے لیکر قومی مفاد کو خطرے میں ڈالنے، اُنھیں گرفتار کرنے اور ایک مقدمے میں سزا دینے اور دیگر کی کارروائیاں تیز کرنے، ان سے بدسلوکی اور توہین آمیز سلوک روا رکھنے، انکی جماعت کے لوگوں پر دبائو ڈالنے، تاکہ وہ انھیں چھوڑ جائیںاور ثابت قدم رہنے والوں کو طویل عرصہ تک حراست میں رکھنے اور ضمانتیں منسوخ کرکے دوبارہ دیگر کیسز میں گرفتار کرنے، سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے کیلئے کچھ کو اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنانے، انکی جماعت کو سیاسی جلسے کرنے، اپنا انتخابی نشان رکھنے ، سینئر قائدین کو مرکزی دھارے کے میڈیا پر آنے، اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے روکنے،اور ریٹرننگ افسران کی طرف سے کاغذات مسترد ہونے کے بعد انکے تجویز کنندگان اور متبادل امیدواروں کو بھی اغوا کرنے ، عدالتوں پر دبائوڈال کر انصاف سے محروم رکھنے تک ریاست نے ان کیخلاف ہر جابرانہ ہتھکنڈا استعمال کر دیکھا ہے تاکہ ان کی پارٹی تباہ ہو جائے اور عمران خان عوام کی یادوں سے نکل جائیں ۔ لیکن اسکا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ مزید مقبول ہوگئے ہیں۔ ان کی کشش میں ہونیوالا مزید اضافہ عوام کو الیکشن والے دن جوق در جوق ان کی حمایت میں باہر لائیگا۔ اپنے ایک حالیہ بیان میں انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے ملک میں انسانی حقوق کی پامالی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایسے کچھ کیسز کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کا کہنا تھا : ’’سب سے بڑھ کر تو انتخابی منظر نامے کا دیدہ دلیری سے کنٹرول ہے جس میں صرف ایک سیاسی جماعت کو تاک کر منظم شکست وریخت سے دوچار کیا جارہا ہے ۔ یہ کہ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کسی بھی شکل میں کسی کے بھی تشدد کی تائید نہیں کرتا لیکن ریاست کا ردعمل غیر متناسب اور غیر قانونی ہے۔ اس نے ایک جانی پہچانی کارروائی کی شکل اختیار کرلی ہے، جیسا کہ پارٹی کارکنوں اور حامیوں کی گرفتاری، عائد کیے جانیوالے الزامات کے حوالے سے شفافیت کا فقدان، پارٹی کارکنوںکے اجتماع کے حق پر کریک ڈائون، جبری گمشدگیاں، قائدین پر دکھائی دینے والا دبائو کہ وہ سرنگوں ہو جائیں یا سیاست ہی چھوڑ جائیں، اور حالیہ دنوں ان کے امیدواروںکے بڑی تعداد میں کاغذات نامزدگی کا مسترد کیے جانا۔‘‘ انسانی حقوق کمیشن پاکستان اور دیگر ادارے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ملک میں انسانی حقوق کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال کو تشویش کیساتھ نوٹ کر رہے ہیںجہاں ایک فریق کو ریاست کی تمام تر طاقت استعمال کرتے ہوئے نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اس کے اراکین اور حامیوں کیساتھ غیر انسانی سلوک روارکھا جارہا ہے۔ لیکن ان سنگین نتائج پر غور کرنے کیلئے ایک قدم پیچھے ہٹ کر تنبیہ پر دھیان دینے کے بجائے اس آپریشن کی سفاکیت اتنی ہی بڑھتی ہی جا رہی ہے جتنی خان صاحب کی پاکستانی عوام کیلئے جادوئی کشش۔ملک میں انتخابات بمشکل چار ہفتے کی دوری پر ہیں۔ جس دوران دیگر جماعتوں کو خصوصی پروٹوکول مل رہا ہے، پی ٹی آئی کو اسکے بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔ اب تک کی رپورٹس کے مطابق پارٹی کی تقریباً تمام اعلیٰ قیادت کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں۔ نتیجتاً، وہ انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہونگے اور پارٹی کو انتخابات میںمتبادل امیدواروں پر انحصار کرنا پڑیگا۔ اس سے پہلے الیکشن ٹربیونلز میں اپیلیں دائر کرنے سمیت کچھ قانونی چارہ جوئی باقی۔ وہاں شنوائی نہ ہوئی تو عدالتوں سے رجوع کیا جائیگا۔ لیکن ماضی کے حالیہ تجربے کو دیکھتے ہوئے کسی بڑی داد رسی کا امکان نظر نہیں آتا۔ جس طرح سے معاملات چل رہے ہیں، یہ تقریباً یقینی ہے کہ ایک مجرم اور مفرور کو مسند اقتدار پر بٹھانے کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے، جس کی حمایت ان جماعتوں کے اتحاد نے کی ہے جو اپنے سابقہ دور اقتدار میں ملک کو تباہ کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اگرچہ ایسا کرنے کا جواز ناقابل فہم ہے، لیکن جو بات یقینی ہے وہ یہ کہ ملک جلد ہی لوٹ مار کا شکار ہو جائے گا۔ اس کا براہ راست فائدہ اس گھناؤنی اسکیم کے منصوبہ سازوں اور نافذ کرنے والوں کو پہنچے گا۔ خان حکومت کی برطرفی کے تقریباً دو سال بعدریاست یا اسکے عوام کی فلاح و بہبود کبھی اس کارروائی کا مقصد نہیں رہا۔زندگی کے تقریباً تمام شعبوں میں حالات تیزی سے خراب ہوتے چلے گئے۔ پاکستان کے قومی جسد نے بہت سفاک ضربیں برداشت کی ہیں ۔ ان کی جھلک خاص طور پر غریبوں کی حالتِ زار میں دیکھی جاسکتی ہے۔ زندگی کے دھارے سے ایک طرف دھکیلے گئے ان افرادکیلئے جینا ہی ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچتے ہوئے ملک کے غیر ملکی قرضوں میں غیر معمولی رفتار سے اضافہ اور ریاستی سرمائے میں مسلسل کمی کیساتھ ساتھ بین الاقوامی میدان میں اس کا قد بھی گھٹتا جارہا ہے۔آج پاکستان کو اپنی بقا کے ایسے چیلنج کا سامنا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ اس غلط تصور اور بدنیتی سے انجام دیے گئے آپریشن کا کیا فائدہ ہوا؟ کیا ہم ملک کی تقدیر بدلنے اور اسکے لوگوں کی زندگی آسان بنانے میں کامیاب ہوئے؟ کیا ہم نوجوان نسل کیلئے امید کا کوئی چراغ روشن کرپائے کہ انکا ملک سے بڑے پیمانے پر انخلا رک جائے؟ کیا دنیا میں پاکستان کا امیج بہتر ہوا ،اور کیا اس کے جیو اسٹرٹیجک مسائل حل ہوئے ؟ کیا امریکہ پر ہمارا بڑھتا ہوا انحصار ان متعدد بحرانوں کا علاج ہے جن سے یہ ملک اس موڑ پر دوچار ہے؟اور اگر اس میں سے کوئی بھی سچ نہیں ، اور یقیناً ایسا ہی ہے، تو پھر یہ سب کچھ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور یہ کیوں کیا گیا؟ اس سوال کے جواب میں وسیع مواد سامنے آئیگا۔ ان چیزوں پر زبردست پیپر لکھے جائیں گے جنھیں ادھورا رہنے دیا جاتا تو بہتر تھا۔ (صاحب تحریر پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری انفارمیشن ہیں)

پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی کیلئے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا، نواب ثنا اللّٰہ زہری قومی اور صوبائی اسمبلی دونوں میں پارٹی کے امیدوار ہیں، بی اے پی اور پی ٹی آئی سے پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والی تمام سابق اراکین اسمبلی کو پارٹی ٹکٹس مل گئے۔

کیا بالی ووڈ کے مشہور فلمساز یش چوپڑا کی فلموں کے ناموں کا 3،6 اور9 کے اعداد سے کوئی تعلق ہے؟

محکمہ تعلیم سندھ کے مطابق اس فیصلے کا اطلاق تمام سرکاری و نجی اسکولوں پر ہوگا۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ میں نے ذوالفقار بھٹو کا ریفرنس سپریم کورٹ تک پہنچا دیا ہے۔ سرائیکیوں کو انکا حق ملنا چاہیے۔

رہنما مسلم لیگ ن نے یہ بھی کہا کہ دنیا میں بڑی جنگیں ہوئیں تب بھی الیکشن ہوئے۔

جنوبی افریقا کے پیرا اولمپئین آسکرپسٹوریئس کو اپنی گرل فرینڈ ریوا سٹین کیمپ کے قتل کے تقریباً 11 سال بعد جیل سے پیرول پر رہا کردیا گیا۔

دوسری انڈر 17 نیشنل جونیئر اسنوکر چیمپئن شپ کا ٹائٹل سندھ کے محمد حسنین نے جیت لیا۔

بھارتی کرکٹر کے ایل راہول نے اہلیہ اتھیا شیٹی کی جنوبی افریقا کے خوبصورت مناظر میں لی گئی تصاویر مداحوں کو بھاگئیں۔

ن لیگی رہنما نے کہا کہ میں سیاست چھوڑ سکتا ہوں مگر نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑسکتا ہوں۔

غزہ پر اسرائیلی کے وحشیانہ حملوں کو 90 دن ہوگئے۔ غزہ میں حماس میڈیا آفس نےاسرائیلی حملوں سےمتعلق اعدادوشمار جاری کر دیئے۔

اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ کسی بھی معاملے میں فل کورٹ کے فیصلے کے بعد اپیل کی زیادہ اہمیت نہیں رہتی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیشنل پریس کلب کے باہر موجود بلوچ مظاہرین کو ہراساں نہ کرنے کے حکم میں توسیع کرتے ہوئے انہیں سہولیات فراہم کرنے کی ہدات کردی۔

بلاول بھٹو زرداری قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے انتخاب میں حصہ لیں گے۔

بانی پی ٹی آئی پر 9 مئی کے واقعات سے متعلق مقدمات درج ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر کر دی گئی ہے۔

سینیٹر بہرہ مند تنگی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اور پی ٹی آئی کے سینیٹر گردیپ سنگھ نے قرارداد کی مخالفت کی تھی۔

QOSHE - رؤف حسن - رؤف حسن
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

رؤف حسن

24 1
06.01.2024

بمشکل ہی کبھی ایسا ہوا ہوگا کہ ایک ریاست پوری دلجمعی کیساتھ کسی فرد کی وراثت کو تباہ اور اسکی عظیم کامیابیوں اور کارناموں کے بیانیے کو رد کرنےکے خبط میں مبتلا ہو، جیسا کہ آج پاکستان میں ارباب اختیار عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت، تحریک انصاف کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ طاقت اور دھن دولت کے بل بوتے پر اقتدار سے باہر کرنے اور ان کیخلاف بدعنوانی سے لیکر قومی مفاد کو خطرے میں ڈالنے، اُنھیں گرفتار کرنے اور ایک مقدمے میں سزا دینے اور دیگر کی کارروائیاں تیز کرنے، ان سے بدسلوکی اور توہین آمیز سلوک روا رکھنے، انکی جماعت کے لوگوں پر دبائو ڈالنے، تاکہ وہ انھیں چھوڑ جائیںاور ثابت قدم رہنے والوں کو طویل عرصہ تک حراست میں رکھنے اور ضمانتیں منسوخ کرکے دوبارہ دیگر کیسز میں گرفتار کرنے، سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے کیلئے کچھ کو اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنانے، انکی جماعت کو سیاسی جلسے کرنے، اپنا انتخابی نشان رکھنے ، سینئر قائدین کو مرکزی دھارے کے میڈیا پر آنے، اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے روکنے،اور ریٹرننگ افسران کی طرف سے کاغذات مسترد ہونے کے بعد انکے تجویز کنندگان اور متبادل امیدواروں کو بھی اغوا کرنے ، عدالتوں پر دبائوڈال کر انصاف سے محروم رکھنے تک ریاست نے ان کیخلاف ہر جابرانہ ہتھکنڈا استعمال کر دیکھا ہے تاکہ ان کی پارٹی تباہ ہو جائے اور عمران خان عوام کی یادوں سے نکل جائیں ۔ لیکن اسکا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ مزید مقبول ہوگئے ہیں۔ ان کی کشش میں ہونیوالا مزید اضافہ عوام کو الیکشن والے دن جوق در جوق ان کی حمایت میں باہر لائیگا۔ اپنے ایک حالیہ بیان میں انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے ملک میں انسانی حقوق کی پامالی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایسے کچھ کیسز کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کا کہنا تھا : ’’سب سے بڑھ کر تو انتخابی منظر نامے کا دیدہ دلیری سے کنٹرول ہے جس میں صرف ایک سیاسی جماعت کو تاک کر منظم شکست وریخت سے دوچار کیا جارہا ہے ۔ یہ کہ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کسی بھی شکل میں کسی کے بھی تشدد........

© Daily Jang


Get it on Google Play