پاکستانی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آزادی کے بعد ہمیں کولونیل دور کے جو ادارے ورثے میں ملے تھے، ان میںنوکر شاہی ، فوج اورعدلیہ شامل تھے۔نو آبادیاتی حکمراں ان اداروں کی مدد سے جاگیر داروں،سجادہ نشینوں اور قبائلی سرداروں کے ساتھ ملکر عوام پر حکومت کرتے تھے اور عوام کے ساتھ انکا رویہ حاکم اور محکوم کا سا تھا۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد بھی ہمارے حکمرانوں نے اسی روش کوجاری رکھا اور یوں ریاست اور عوام کے درمیان آج تک کوئی رشتہ استوار نہیں ہو سکا ۔اس طرز حکمرانی کے ساتھ ساتھ حکمراں ٹولے نے نیا ریاستی بیانیہ دیتے ہوئے نئے نعروں کا استعمال شروع کر دیاجن میں’’مسلمان قوم، نظریہ پاکستان اور مضبوط مرکز‘‘ وغیرہ کے نعرے شامل تھے ۔ یوں انہوں نے سیاسی اقتدار پر آہستہ آہستہ قبضہ کر لیا، ادارہ سازی نہ ہو سکی اور سویلین سپرمیسی اور آئین کی بالادستی صرف خواب بن کر رہ گئے۔اس کے ساتھ ساتھ مضبوط مرکز کے نعرے کو تقویت دیتے ہوئے پاکستان میں بسنے والی مختلف قوموں کو معاشی، معاشرتی ، تاریخی اور سیاسی اقدارسے محروم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا جس سے نفاق اور بداعتمادی کا بیج بویا جاتا رہااور پاکستانی حکمرانوں نے کبھی بھی اس بات کو تسلیم نہ کیا کہ قومیت نہ صرف ایک سماجی و سیاسی تصور ِفکر ہے بلکہ ایک زندہ حقیقت بھی ہے۔

بلوچستان میں دراصل ساحل و وسائل کے ساتھ ساتھ معاشی حقوق کی سیاسی جدوجہد کی تاریخ بھی کافی پرانی ہے لیکن آخری فوج کشی میں پرویز مشرف نے ہزاروں بلوچوں کولا پتہ کروایا۔گمشدہ افراد کا یہ سلسلہ دو دہائیوں کے عرصے پر محیط ہے جس سے تنگ آکر بالآخر بلوچ خواتین نے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کیااور ان پر اسلام آبادمیں داخل ہوتے ہی شدید سردی کے موسم میں واٹر کینن کے استعمال کے ساتھ ساتھ تشددکرتے ہوئے انہیں گرفتاربھی کر لیا گیا۔ان مقید خواتین، جو اپنے گھر سے ہزاروں میل سفر طے کرکے اسلام آباد آئی تھیں ، کو کسی سے ملنے بھی نہ دیا گیا۔دوسری طرف حکمران ٹولے نے اس مسئلے کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا اور مختلف حیلے بہانوں سے گمشدہ افراد کے مسئلے کو سردخانے میں ڈالا جا تا رہا ہے! حکومت کی غیر سنجیدگی کا اظہار تو مختلف طریقوں سے ہو ہی رہا تھاکہ اس پر نگراں وزیراعظم نے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے کہا کہ اس مارچ کی حمایت کرنے والے لوگ بی ایل اے اور بی ایل ایف کو جوائن کر لیں ۔ انہوں نے غصے کی حالت میں کہا کہ یہ 1971ء نہیں ہے جب بنگلہ دیش صرف نو ماہ میں بن گیا تھا ، بلوچوں کا معاملہ تو بیس سال سے چل رہا ہے ۔وزیر اعظم کے ان بیانات پر عوام پرست مبصرین نے بہت مایوسی کا اظہار کیا ، نگران وزیر اعظم کے ان بیانات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ مشرقی پاکستان اس لیے علیحدہ ہوگیا کہ وہ ہم سے سینکڑوںمیل دور تھا لیکن بلوچستان میں ایسا کبھی نہیںہو سکتا دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظیم کے رہنمائوں نے پاکستانی تاریخ کے اس نازک موڑ پر جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پریس کانفرنس کی جن میں کسی کا نام لیا گیا کہ فلاں بلوچوں اور دوسرے علاقوں کے لوگوں کو کو گمشدہ کرنے کا ذمہ دار ہے البتہ یہ استدعا ضرور کی گئی کہ اس مسئلے کو سیاسی طور پر حل کیا جانا چاہیے اورتمام سیاسی پارٹیوں کوملکر اس مسئلے کا فوری اور دیر پاحل تلاش کرنا چاہیے۔ اس پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کے ساتھ ہونے والی انتخابی زیادتیوں کابھی کھل کر اظہار کیا گیا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کے عوام اپنے مسائل کے حل کیلئے وفاق کی سیاست کرنا چاہتے ہیں اوراس کےلیے ضروری ہے کہ ڈاکٹر مالک کے زمانے میں جلا وطن رہنمائوں سے مذاکرات، جس مقام پر تعطل کا شکار ہوئے تھے، وہیں سے دوبارہ شروع کیے جائیں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر آگے بڑھا جا ئے۔آج وقت کا تقاضا ہے کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ ایسا اعلیٰ عدالتی کمیشن بنائے جو گمشدہ افراد کے حوالے سے مکمل معلومات سامنے لائے اور بازیاب افراد کو عدالتوں میں پیش کروائے اور ایک ایسا واضح قانون مرتب کروائے کہ آئندہ کوئی پاکستانی لاپتہ نہ ہوسکے۔یہ عجیب بات ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ تو حکمراںمعاہدہ کرکے عام معافی کا مشروط اعلان بھی کر دیتے ہیں لیکن جلا وطن بلوچ رہنمائوں اور گمشدہ افراد کی عام معافی کا فوری اعلان کرنے سے کتراتے ہیں ۔قائداعظم نے تو کہا تھا کہ’’ریاست کا سب سے پہلا کام لوگوں کی حفاظت کرنا ہے‘‘،پھر یہ کیا ہے؟

بلوچستان کے مسئلے کا حل جمہوری ارتقاء اور آئین کی پاسداری میں ہی ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے تاکہ بامقصد سیاست ہو ۔لیکن پاکستان میں اور خاص طور پر بلوچستان میں آزادانہ انتخابات کی راہ میں ہمیشہ نادیدہ رکاوٹ رہی ہے۔ گو کہ 2018ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے ساتھ ریاستی حکمرانوں نے وہی ظلم و زیادتیاں کی تھیںجو آج پی ٹی آئی کے ساتھ روا رکھی جا رہی ہیں۔یوں مستقبل میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے تاریخ دان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹیوں کو بھی مورد الزام ٹھہرائیں گے۔بلوچ خواتین کی جدوجہد کو دیکھتے ہوئے سیاسی پارٹیوں کو بھی چاہیے کہ وہ تمام غیرجمہوری رویوں کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں ورنہ عوام سیاسی عمل سے تھک ہار کر مایوس ہو جائیں گے۔

موٹروے ایم 2 لاہور سے شیخوپورہ تک، موٹروے ایم 3 لاہور سے سمندری اور فیض پور سے درخانہ تک بند کی گئی ہے۔

ضلع وسطی کے 2 پلوں کے نیچے بنائے گئے اسپورٹس ارینا خستہ حالی کا شکار ہوگئے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ گھر میں گھس کر خاتون کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا ہے۔

مظاہرین کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔

نگراں صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ احمد شہزاد کوئٹہ میں نوجوان کھلاڑیوں سے ملاقات کریں گے۔

عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے ایران کے شہر کرمان میں دھماکوں پر اظہار افسوس کیا ہے۔

وزارت خزانہ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی تنظیم نو سے متعلق اعلان کردیا۔

رضا ہارون اور انیس ایڈووکیٹ نے پاکستان پیپلز پارٹی میں باقاعدہ شمولیت کا اعلان کر دیا۔

ابتدائی پولنگ لسٹ پر حلقہ کا کوئی ووٹر، امیدوار اعتراض یا تجویز 11 جنوری تک آر او آفس میں جمع کرواسکتا ہے۔

پولیس کے مطابق زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔

پانچ گھروں سے اگر باپ بیٹے کو پارٹی ٹکٹ ملا تو وہیں پانچ بھائی بھی الیکشن کے لیے پارٹی کے نامزد امیدوار کے طور پر سامنے آئے۔ یہی نہیں بہنیں، ہم زلف، کزنز اور داماد بھی پیپلز پارٹی کی ممکنہ کامیاب نشستوں کے لیے امیدوار ہیں۔

ذرائع کے مطابق دورے میں افغان سر زمین کے پاکستان کے خلاف مسلسل استعمال پر بھی بات ہوگی۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد امیر بھٹی نے درخواستوں کی سماعت کیلئے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا۔

اسماعیل ہنیہ کا کہنا ہے کہ بلنکن دورے میں اسرائیلی جارحیت ختم کروانے پر توجہ رکھیں

جاوید ایک بزنس مین ہیں جبکہ دلہن سحر طلاق یافتہ خاتون ہیں۔

لیویز اہلکار کے قتل کے خلاف لواحقین نے کوئٹہ قلعہ سیف اللّٰہ شاہراہ پر احتجاج کیا، پولیس حکام

QOSHE - ایوب ملک - ایوب ملک
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ایوب ملک

18 1
07.01.2024

پاکستانی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آزادی کے بعد ہمیں کولونیل دور کے جو ادارے ورثے میں ملے تھے، ان میںنوکر شاہی ، فوج اورعدلیہ شامل تھے۔نو آبادیاتی حکمراں ان اداروں کی مدد سے جاگیر داروں،سجادہ نشینوں اور قبائلی سرداروں کے ساتھ ملکر عوام پر حکومت کرتے تھے اور عوام کے ساتھ انکا رویہ حاکم اور محکوم کا سا تھا۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد بھی ہمارے حکمرانوں نے اسی روش کوجاری رکھا اور یوں ریاست اور عوام کے درمیان آج تک کوئی رشتہ استوار نہیں ہو سکا ۔اس طرز حکمرانی کے ساتھ ساتھ حکمراں ٹولے نے نیا ریاستی بیانیہ دیتے ہوئے نئے نعروں کا استعمال شروع کر دیاجن میں’’مسلمان قوم، نظریہ پاکستان اور مضبوط مرکز‘‘ وغیرہ کے نعرے شامل تھے ۔ یوں انہوں نے سیاسی اقتدار پر آہستہ آہستہ قبضہ کر لیا، ادارہ سازی نہ ہو سکی اور سویلین سپرمیسی اور آئین کی بالادستی صرف خواب بن کر رہ گئے۔اس کے ساتھ ساتھ مضبوط مرکز کے نعرے کو تقویت دیتے ہوئے پاکستان میں بسنے والی مختلف قوموں کو معاشی، معاشرتی ، تاریخی اور سیاسی اقدارسے محروم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا جس سے نفاق اور بداعتمادی کا بیج بویا جاتا رہااور پاکستانی حکمرانوں نے کبھی بھی اس بات کو تسلیم نہ کیا کہ قومیت نہ صرف ایک سماجی و سیاسی تصور ِفکر ہے بلکہ ایک زندہ حقیقت بھی ہے۔

بلوچستان میں دراصل ساحل و وسائل کے ساتھ ساتھ معاشی حقوق کی سیاسی جدوجہد کی تاریخ بھی کافی پرانی ہے لیکن آخری فوج کشی میں پرویز مشرف نے ہزاروں بلوچوں کولا پتہ کروایا۔گمشدہ افراد کا یہ سلسلہ دو دہائیوں کے عرصے پر محیط ہے جس سے تنگ آکر بالآخر بلوچ خواتین نے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کیااور ان پر اسلام آبادمیں داخل ہوتے ہی شدید سردی کے موسم میں........

© Daily Jang


Get it on Google Play