جس زمانے میں ہم اسکول میں پڑھتے تھے۔اللہ اللہ وہ بھی کیا زمانہ تھا،اب یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں وقت کیسے گزر گیا،اب تو نہ وہ اسکول رہے اور نہ وہ وقت ۔آپ اسے ناسٹلجیا کہہ سکتے ہیں، ہم سے پچھلی نسل کے لوگ بھی اپنے وقت کے بارے میں یہی سوچتے ہوں گے کہ اُن کا دورزیادہ خوبصورت تھا ،شایدہر نسل کو ایسا ہی لگتا ہے۔ہمارے دور میں اسکولوں کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا کہ کس اسکول کا طالب علم ’بورڈ ‘ میں پوزیشن حاصل کرے گا۔ میں کریسنٹ ماڈل اسکول میں پڑھتا تھا، ہمارا اسکول بھی اِس دوڑ میں شامل تھا، اکثر پوزیشنز کریسنٹ ماڈل، ڈی پی ایس اور سنٹرل ماڈل اسکول کے درمیان ہی تقسیم ہوتی تھیں۔اِن تینوں اسکولوں کی فیس نہایت کم تھی،اُس زمانے میں ویسے بھی مہنگے انگریزی گرامر اسکولوں کا رواج شروع نہیں ہوا تھا،چھوٹے شہروں کے سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچے بھی اپنی قابلیت کے بنیاد پر اعلیٰ عہدوں تک پہنچ جاتے تھے،بلکہ دور دراز کے دیہات میں قائم اسکولوں سے بھی بچے پڑھ لکھ کر اعلیٰ فوجی اور سول افسر بنتے تھے ۔اب یہ استحقاق صرف مہنگے پرائیویٹ اسکولوں کا ہے کیونکہ سرکاری اسکول میں پڑھنے والا غریب بچہ اب اِن اعلیٰ عہدوں تک نہیں پہنچ سکتا۔اِس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک تو سرکاری اسکولوں کا زوال ہےاور دوسرایہ کہ ہم نے اِن اسکولوں کا معیار بہتر بنانے کے لیے ظاہری لیپا پوتی تو کی ہے مگر استاد شاگرد کا رشتہ نہیں جوڑ پائے۔جو اسکول درخت کی چھاؤں میں ہوتا تھا یا جہاں بچے ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھتے تھے وہاں کااستاد اگر بچے کو مکمل توجہ کے ساتھ پڑھاتا تھا تو پھر اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھاکہ اسکول کی چار دیواری ہے یا نہیں ۔آج کل کے جدید انگریزی اسکولوں کے استاد سقراط یا افلاطون نہیں ،مگر تمام قابل بچے ،جو مہنگی تعلیم کے متحمل ہوسکتے ہیں، اِن اسکولوں میں داخلہ لیتے ہیں، اِسلئے اِن گرامر اسکولوں کی اجارہ داری قائم ہوگئی ہے جس میں اِن کاکوئی کمال نہیں ۔ہمارے ہاں زیادہ تر ٹیلنٹ اسی وجہ ضائع ہوجاتا ہے کہ غریبوں کے جو بچے اہل اور ذہین ہوتے ہیں ،وہ وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے پڑھ ہی نہیں پاتے اور معاشرے کا اثاثہ بننے کی بجائے بوجھ بن جاتے ہیں۔

ٹیلنٹ ضائع ہونےکی ایک اور مثال کرکٹ سے بھی دی جا سکتی ہے۔عامر جمال نامی ایک کھلاڑی نے حالیہ پاکستان آسٹریلیا ٹیسٹ سیریز میں سب کو حیران کردیا،سڈنی ٹیسٹ میں جمال نے پہلی باری میں بیاسی دوڑیں بنائیں اور چھ وکٹیں بھی لیں۔اِس سطح کا آل راؤنڈر پاکستانی ٹیم میں طویل عرصے بعد آیا ہے مگر افسوس کہ اِس کی کرکٹ کی آدھی عمر گزر چکی ہے، یہی کھلاڑی اگر آسٹریلیا میں پیدا ہوتا تو بیس سال کی عمر میں اسے ٹیسٹ کیپ مل چکی ہوتی اور ستائیس برس کی عمر میں یہ پچاس ٹیسٹ کھیل چکا ہوتا جبکہ حقیقت میں عامر جمال نے صرف تین ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں اور کاغذوں میں اُس کی عمر اٹھائیس سال کے قریب ہے۔یہ نوجوان بھی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا،اِس نے گزر اوقات کے لیے اوبر چلائی ، اپنے زور بازو پر پریکٹس کی، مقامی کرکٹ کی سیاست نے اِس نوجوان کا راستہ روکنے کی بھرپور کوشش کی ، اِس پر پابندیاں لگائیں مگر اِس نے ہمت نہیں ہاری اور بالآخر پہلے انڈر 19 اور بعد ازاں قومی سطح پر پاکستانی ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگیا۔جمال کا ٹیلنٹ چونکہ غیر معمولی تھا اِس لیے دریا کی طرح بہتا چلا گیامگر اِس کے باوجود جمال کے قیمتی سال ضائع ہوگئے ۔پاکستان میں چونکہ کرکٹ پر بے حد توجہ دی جاتی ہے ، اِس کھیل میں پیسہ بھی ہے، کرکٹ بورڈ کے پاس فنڈز بھی ہیں ، اِس لیےیہاں ٹیلنٹڈ نوجوانوں کے اوپر آنے کے امکانات قدرے بہتر ہیں مگر یہ امکانات دیگر ممالک ، جیسے کہ بھارت،برطانیہ ، آسٹریلیا،کے مقابلے میں اب بھی بہت کم ہیں اور اِس کی متعدد وجوہات ہیں جو فی الحال ہمارا موضوع نہیں ۔

ہمارا موضوع یہ ہے کہ پاکستان میں نہ ٹیلنٹ کی زیادتی ہے اور نہ کمی ، ہم بہت زیادہ ذہین فطین قوم ہیں اور نہ بہت کند ذہن ، ہماری قابلیت کا معیار بھی اوسط درجے کا ہے ۔مگر یہ تمام باتیں غیر معمولی نہیں ،ہر قوم ہی ایسی ہوتی ہے ،جو ممالک ہمیں ترقی یافتہ نظر آتے ہیں وہاں بھی ہر نوجوان ہائزن برگ یا نیل بوہر نہیں ہوتا، زیادہ تر لوگ اوسط دماغ کے ہوتے ہیں جو اوسط زندگی گزار کر مطمئن رہتے ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ وہاں کوئی بچہ محض وسائل کی کمی کی وجہ سے پیچھے نہیں رہ جاتا،یہ ممکن نہیں کہ کسی بچے میں قابلیت ہو، وہ ذہین ہومگراِس کے باوجود غربت کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کر پائے۔عامر جمال جیسا کرکٹر اگر اِن ممالک میں پیدا ہوتا تو اسے غم ِ روزگار سے نجات دلاکر اُس کی توجہ صرف کرکٹ پر مرکوز کی جاتی ، اُس صورت میں نہ صرف اُس کا ٹیلنٹ مزید نکھر آتا بلکہ اُس کے قیمتی سال بھی ضائع نہ ہوتے۔لہذا جو لوگ پاکستانی قوم کو نالائقی کی بنیاد پر طعنے دیتےہیں وہ دراصل اپنے گوشہ عافیت میں بیٹھ کر یہ لعن طعن کرتے ہیں، انہیں اندازہ ہی نہیں ہوپاتاکہ وہ کس طرح پاکستانی قوم کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔ میں یہ ہر گز نہیں کہہ رہا کہ ہم بہت عظیم قوم ہیں، ہم بالکل ویسے ہی ہیں جیسے دنیا کی دیگر اقوام ہیں۔ہاں، ہماری work ethics ٹھیک نہیں ،اور ہم میں اوربھی بہت سی خرابیاں ہیں ، مگر یہ خرابیاں کسی اور وجہ سے ہیں،ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنےبچوں کی قابلیت، لیاقت ، ہنر مندی اور ذہانت کو ضائع ہونے سے کیسے بچائیں؟

اِس مسئلے کاایک حل یہ ہے کہ مخیر اور درد مند لوگ ایسے ادارے بنائیں جہاں اِس طرح کے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کامکمل انتظام کیاجائے جو مہنگے اسکول افورڈ نہیں کر سکتے، یہ کام ملک میں ہوتو رہا ہے مگر اِس کا زیادہ فوکس اِس بات پر ہے کہ غریب گھرانوں کے بچوں کو عمومی تعلیم فراہم کر دی جائے ، یعنی یہ کسی ایسے ٹیلنٹ ہنٹ کا نظام نہیں ہے جس کے ذریعے غریب گھرانوں کے ذہین بچے زندگی میں ترقی کرکے اعلیٰ مقام حاصل کر سکیں۔حکومتی سطح پر یہ کام کیا جا سکتا ہے مگر اِس کے لیے ضروری ہے کہ پانچویں تک تعلیم صرف کاغذوں میں مفت نہ ہو بلکہ ہر بچہ اسکول جائے اور پھر وہاں سے پانچ فیصد بچوں کو چھانٹی کرکے ایچی سن کالج یا کراچی گرامر جیسے اسکولوں میں داخل کردیا جائے جس کا خرچ سرکار برداشت کرے۔دانش اسکولوں کا یہی ماڈل تھا۔بے شک یہ کوئی آسان کام نہیں لیکن اگر کوئی ایک کام ایسا ہے جو حکومت کولازماً کرنا چاہیے تو وہ یہی کام ہے، باقی معاملات از خود درست ہوجائیں گے۔

موٹروے ایم 2 لاہور سے شیخوپورہ تک، موٹروے ایم 3 لاہور سے سمندری اور فیض پور سے درخانہ تک بند کی گئی ہے۔

ضلع وسطی کے 2 پلوں کے نیچے بنائے گئے اسپورٹس ارینا خستہ حالی کا شکار ہوگئے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ گھر میں گھس کر خاتون کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا ہے۔

مظاہرین کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔

نگراں صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ احمد شہزاد کوئٹہ میں نوجوان کھلاڑیوں سے ملاقات کریں گے۔

عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے ایران کے شہر کرمان میں دھماکوں پر اظہار افسوس کیا ہے۔

وزارت خزانہ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی تنظیم نو سے متعلق اعلان کردیا۔

رضا ہارون اور انیس ایڈووکیٹ نے پاکستان پیپلز پارٹی میں باقاعدہ شمولیت کا اعلان کر دیا۔

ابتدائی پولنگ لسٹ پر حلقہ کا کوئی ووٹر، امیدوار اعتراض یا تجویز 11 جنوری تک آر او آفس میں جمع کرواسکتا ہے۔

پولیس کے مطابق زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔

پانچ گھروں سے اگر باپ بیٹے کو پارٹی ٹکٹ ملا تو وہیں پانچ بھائی بھی الیکشن کے لیے پارٹی کے نامزد امیدوار کے طور پر سامنے آئے۔ یہی نہیں بہنیں، ہم زلف، کزنز اور داماد بھی پیپلز پارٹی کی ممکنہ کامیاب نشستوں کے لیے امیدوار ہیں۔

ذرائع کے مطابق دورے میں افغان سر زمین کے پاکستان کے خلاف مسلسل استعمال پر بھی بات ہوگی۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد امیر بھٹی نے درخواستوں کی سماعت کیلئے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا۔

اسماعیل ہنیہ کا کہنا ہے کہ بلنکن دورے میں اسرائیلی جارحیت ختم کروانے پر توجہ رکھیں

جاوید ایک بزنس مین ہیں جبکہ دلہن سحر طلاق یافتہ خاتون ہیں۔

لیویز اہلکار کے قتل کے خلاف لواحقین نے کوئٹہ قلعہ سیف اللّٰہ شاہراہ پر احتجاج کیا، پولیس حکام

QOSHE - یاسر پیر زادہ - یاسر پیر زادہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

یاسر پیر زادہ

36 7
07.01.2024

جس زمانے میں ہم اسکول میں پڑھتے تھے۔اللہ اللہ وہ بھی کیا زمانہ تھا،اب یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں وقت کیسے گزر گیا،اب تو نہ وہ اسکول رہے اور نہ وہ وقت ۔آپ اسے ناسٹلجیا کہہ سکتے ہیں، ہم سے پچھلی نسل کے لوگ بھی اپنے وقت کے بارے میں یہی سوچتے ہوں گے کہ اُن کا دورزیادہ خوبصورت تھا ،شایدہر نسل کو ایسا ہی لگتا ہے۔ہمارے دور میں اسکولوں کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا کہ کس اسکول کا طالب علم ’بورڈ ‘ میں پوزیشن حاصل کرے گا۔ میں کریسنٹ ماڈل اسکول میں پڑھتا تھا، ہمارا اسکول بھی اِس دوڑ میں شامل تھا، اکثر پوزیشنز کریسنٹ ماڈل، ڈی پی ایس اور سنٹرل ماڈل اسکول کے درمیان ہی تقسیم ہوتی تھیں۔اِن تینوں اسکولوں کی فیس نہایت کم تھی،اُس زمانے میں ویسے بھی مہنگے انگریزی گرامر اسکولوں کا رواج شروع نہیں ہوا تھا،چھوٹے شہروں کے سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچے بھی اپنی قابلیت کے بنیاد پر اعلیٰ عہدوں تک پہنچ جاتے تھے،بلکہ دور دراز کے دیہات میں قائم اسکولوں سے بھی بچے پڑھ لکھ کر اعلیٰ فوجی اور سول افسر بنتے تھے ۔اب یہ استحقاق صرف مہنگے پرائیویٹ اسکولوں کا ہے کیونکہ سرکاری اسکول میں پڑھنے والا غریب بچہ اب اِن اعلیٰ عہدوں تک نہیں پہنچ سکتا۔اِس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک تو سرکاری اسکولوں کا زوال ہےاور دوسرایہ کہ ہم نے اِن اسکولوں کا معیار بہتر بنانے کے لیے ظاہری لیپا پوتی تو کی ہے مگر استاد شاگرد کا رشتہ نہیں جوڑ پائے۔جو اسکول درخت کی چھاؤں میں ہوتا تھا یا جہاں بچے ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھتے تھے وہاں کااستاد اگر بچے کو مکمل توجہ کے ساتھ پڑھاتا تھا تو پھر اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھاکہ اسکول کی چار دیواری ہے یا نہیں ۔آج کل کے جدید انگریزی اسکولوں کے استاد سقراط یا افلاطون نہیں ،مگر تمام قابل بچے ،جو مہنگی تعلیم کے متحمل ہوسکتے ہیں، اِن اسکولوں میں داخلہ لیتے ہیں، اِسلئے اِن گرامر اسکولوں کی اجارہ داری قائم ہوگئی ہے جس میں اِن کاکوئی کمال نہیں ۔ہمارے ہاں زیادہ تر ٹیلنٹ اسی وجہ ضائع ہوجاتا ہے کہ غریبوں کے جو........

© Daily Jang


Get it on Google Play