حسن بن صباح سے زیادہ مضبوط، نظریاتی اور خطرناک cult شاید ہی کبھی کسی کا رہا ہو۔ ایک ایسا cult جو کہ اسکی موت کے بعد ڈیڑھ صدی تک چلتا رہا، اس پر بہت کچھ لکھا گیا، کچھ سچ تھا اور کچھ فکشن پر مبنی تھا۔ ہیرلڈ لیم کا ناول’’خلت قزاق الموت میں‘‘ اور عبدالحلیم شرر کا ناول ’’فردوس بریں‘‘ تو سامنے کی مثالیں ہیں، صلاح الدین ایوبی کو بھی اس فتنے کی سرکوبی سے اس وقت باز آنا پڑا، جب اس کے محفوظ ترین سپہ سالاری خیمے میں اس کے سرہانے تکیے میں تحریر شدہ خنجر اڑسا ہوا ملا کہ ’’سوچو اگر ہم تمہارے تکیے تک پہنچ سکتے ہیں تو؟‘‘

حسن بن صباح کے کلٹ فالوورز نے ایک طوفان بدتمیزی بپا کررکھا تھا، اخلاقیات کا جنازہ نکالا ہوا تھا۔ کون تھا جو ان کی ہاتھ و زبان کی ضرب سے پرے تھا ،وقت گزرتا گیا اور پھر ایک روز شامت اعمال سےاس گروہ نے ہلاکو خان سے پنگا لے لیا۔ ہلاکو کے حکم پر اس کی فوج کے ایک حصے نے قلعہ الموت پر دھاوا بول دیا۔ فوج نے ڈیڑھ صدی پر محیط دہشت گری کی طلسماتی و کرشماتی علامت ’’الموت‘‘ کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا۔ اس کلٹ کے ایک ایک فالوور کو چن چن کر منطقی انجام تک پہنچا دیا۔ ہلاکو کی فوج ان کے امام کو اپنے ساتھ منگو لیا لے گئی، وہاں اسے گھوڑوں کے اصطبل اور گھوڑوں کی لید کی صفائی پر مامور کردیا۔ آج کی طرح نہیں کہ امام کو جیل میں بند کرکے اسکی ویڈیوز ،آڈیوز نکال نکال کر چلارہے ہیں اور وہ ڈمی مضمون غیر ملکی جرائد میں لکھ رہا ہے۔ جہاں تاریخ میں اسکے بعد دوبارہ حسن بن صباح کے اس کلٹ کا ذکر نہیں ملتا، وہیں کسی ہلاکوکے سیاسی پروجیکٹ کا نشان بھی نہیں ملتا۔ آج صبح صبح ایک مقبول سوشل میڈیا فور م پردرج بالا تحریر پڑھی، عین ممکن ہے کہ تحریر کی تمام سطور سے قارئین کی اکثریت متفق نہ ہو مگر اس بات سے تمام لوگ اتفاق کریں گے کہ دو راستوں میں سے ایک صحیح اور ایک غلط ہوتا ہے۔

آج تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جیل میں ہیں۔ ریاست کے بڑے اور اسٹیبلشمنٹ کے زعماء سمجھتے ہیں کہ عمران خان ریاست پاکستان کیلئے سب سے خطرناک شخص ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے دو بڑے مکمل متفق ہیں کہ اگر عمران کلٹ کو ختم نہ کیا گیا تو یہ کلٹ، اللّٰہ نہ کرے ،پاکستان کو ختم کردے گا۔اسی لئے عمران خان پروجیکٹ کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے ریاست ہر حد تک جائے گی۔ لیکن ریاست کے بڑوں کا یہ بیانیہ اس وقت زیادہ کمزور ہو جاتا ہے ،جب آپ کے ماتحت ہومیوپیتھی انداز میں اس کلٹ سے نمٹنا شروع کردیتے ہیں۔ آج کھل کر لکھنا چاہتا ہوں کہ اگر عمران خان سے صرف کسی طاقتور کا سیاسی اختلاف ہے اور عمران خان کسی ایجنڈے کا حصہ نہیں ہے تو اس کے خلاف ایسی کوئی بھی کارروائی نہیں ہونی چاہئے، جس سے اسکی جماعت اور اس کا ذاتی سیاسی تشخص ختم ہو جائے۔ لیکن اگر ریاست کے بڑے جو کچھ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر بیان کرتے ہیں اور اس کے حق میں ناقابل تردید شواہد بھی پیش کرتے ہیں تو ایسے میں ریاست کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔کیونکہ اگر طاقتور حلقے اسی انداز میں اس کلٹ سے نمٹتے رہے تو یاد رہے یہ کلٹ تو کمزور نہیں ہوگا بلکہ ریاست کی جڑوں کو ضرور کمزور کر دے گا۔

عمران دور کی اسٹیبلشمنٹ سے لاکھ اختلاف ہیں، مگر ایک بات ماننا ہوگی کہ فیض، باجوہ اور عمران جو طے کرتے تھے، اس کی عمل داری میں ہر حد تک چلے جاتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ ایک نگراں وزیراعلیٰ یا نگراں وفاقی وزیر کی خواہش پر عام انتخابات آگے جانے کی منصوبہ بندی شروع ہو جائے۔ عدالتیں اس کلٹ کی مکمل سہولت کاری شروع کردیں۔جو ججز کل تک ادارے کی مرضی کے بغیر دن کا آغاز نہیں کرتے تھے ،آج وہ سب سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کلٹ کی سہولت کاری کیلئے آرڈرز جاری کررہے ہیں ۔عمران کو آپ نے جیل میں ڈال دیا ہے،لیکن تمام یوٹیوبرز، پروپیگنڈا کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے کہ وہ عمران کلٹ کو زندہ رکھنے کیلئے جو مرضی کہتے رہیں مگر ریاست خاموش ہے۔ کسی یوٹیوبر کو صرف اس لئے گنجائش دے دیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے کسی ایک دفتر کے قریب ہے۔ یاد رکھیں کہ ایسے کلٹ ختم نہیں ہوتے۔ مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی ملک میں جلد از جلد بروقت انتخابات کرانے کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ لیکن جب ماتحت لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے تو کہیں نہ کہیں کوئی کمیونیکیشن گیپ ضرور ہے۔ ادارے کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ یاد رکھیں کہ اگر عام انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تو مسلم لیگ ن ،پی پی پی یا جے یوآئی ف کو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، سب سے زیادہ نقصان ملک اور ادارے کا ہوگا اور اس کا فائدہ کسی نگراں وزیراعلی یا وفاقی وزیر کو نہیں بلکہ عمران خان کو ہوگا اور پھر آپ اس کلٹ کا مقابلہ کرنےکیلئے اکثریتی سیاسی جماعتوں کی سپورٹ بھی کھو دیں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اگر واقعی یہ کلٹ ریاست کی بقاء کیلئے خطرہ ہے تو واضح اور سیدھی پالیسی دیں اور پھر اس راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو کچلتے چلے جائیں اور اگر یہ کلٹ سیاسی اختلاف سے زیادہ کچھ نہیں ہے تو پھر اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں،لیکن ہومیو پیتھی پالیسی فوراً ختم کریں۔

انہوں نے کہا کہ پانچ سال کے دوران تین مختلف عہدوں پر کام کیا، جن کے ساتھ کام کیا اور جو کچھ حاصل کیا اس پر فخر ہے۔

امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ یہ خطے میں شدید تناؤ کا وقت ہے، حوثیوں کے حملے کے بعد میری ٹائم سیکیورٹی کا دفاع جاری رکھیں گے۔

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے افغان نائب وزیراعظم برائے سیاسی امور مولوی عبدالکبیر سے ملاقات میں مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔

ایچ آر سی پی نے ملک میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سروسز کی معطلی کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔

پیپلز پارٹی سندھ کے سینئر رہنما ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ ہماری مثبت سیاست سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو نقصان پہنچا ہے۔

بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے ترجمان سینیٹر کہدہ بابر بلوچ نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے بھی ہمارے موقف کی تائید کی ہے۔

راولپنڈی کی اڈیالہ جیل انتظامیہ نے بانی پی ٹی آئی سے اخبارات اور کتابوں کی سہولت واپس لینے کی تردید کردی۔

، 8 جنوری کو ہونے والا جلسہ اسموگ کی وجہ سے ایک روز آگے بڑھا دیا گیا ہے۔

جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی کابل میں افغانستان کے نائب وزیراعظم سے ملاقات ہوگئی۔

نواب طاہر سیال اور ناصر عباس سیال پی ٹی آئی چھوڑ کر جبکہ فہیم احمد خان مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر پی پی پی میں شامل ہوئے۔

ملک کے مختلف حصوں میں سوشل میڈیا سروسز بری طرح متاثر ہوگئیں۔

امیر جماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ ہم میئر بھی بنائیں گے اور اس مصنوعی حکومت سے جان بھی چھڑائیں گے، پھٹے ہوئے غبارے کبھی نہیں پھولیں گے۔

ترجمان ایم کیوایم کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ کمال نے مانیٹرنگ سیل کا دورہ کرتے ہوئے تمام ٹاؤنز کے ڈیجیٹل رابطہ مہم کا جائزہ لیا۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ کچھ قوتیں ملک میں الیکشن ملتوی کرانا چاہتی ہیں۔

جرمن وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ غزہ اسرائیل کیلئے خطرہ نہ بنے، حماس کو ہتھیار ڈال دینے چاہئیں۔

اعلامیہ کے مطابق امیر جماعت اسلامی کراچی این اے 246 اور 250 سے جماعت اسلامی کے امیدوار ہونگے۔ حافظ نعیم صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 130 سے بھی لڑیں گے۔

QOSHE - حذیفہ رحمٰن - حذیفہ رحمٰن
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

حذیفہ رحمٰن

19 18
08.01.2024

حسن بن صباح سے زیادہ مضبوط، نظریاتی اور خطرناک cult شاید ہی کبھی کسی کا رہا ہو۔ ایک ایسا cult جو کہ اسکی موت کے بعد ڈیڑھ صدی تک چلتا رہا، اس پر بہت کچھ لکھا گیا، کچھ سچ تھا اور کچھ فکشن پر مبنی تھا۔ ہیرلڈ لیم کا ناول’’خلت قزاق الموت میں‘‘ اور عبدالحلیم شرر کا ناول ’’فردوس بریں‘‘ تو سامنے کی مثالیں ہیں، صلاح الدین ایوبی کو بھی اس فتنے کی سرکوبی سے اس وقت باز آنا پڑا، جب اس کے محفوظ ترین سپہ سالاری خیمے میں اس کے سرہانے تکیے میں تحریر شدہ خنجر اڑسا ہوا ملا کہ ’’سوچو اگر ہم تمہارے تکیے تک پہنچ سکتے ہیں تو؟‘‘

حسن بن صباح کے کلٹ فالوورز نے ایک طوفان بدتمیزی بپا کررکھا تھا، اخلاقیات کا جنازہ نکالا ہوا تھا۔ کون تھا جو ان کی ہاتھ و زبان کی ضرب سے پرے تھا ،وقت گزرتا گیا اور پھر ایک روز شامت اعمال سےاس گروہ نے ہلاکو خان سے پنگا لے لیا۔ ہلاکو کے حکم پر اس کی فوج کے ایک حصے نے قلعہ الموت پر دھاوا بول دیا۔ فوج نے ڈیڑھ صدی پر محیط دہشت گری کی طلسماتی و کرشماتی علامت ’’الموت‘‘ کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا۔ اس کلٹ کے ایک ایک فالوور کو چن چن کر منطقی انجام تک پہنچا دیا۔ ہلاکو کی فوج ان کے امام کو اپنے ساتھ منگو لیا لے گئی، وہاں اسے گھوڑوں کے اصطبل اور گھوڑوں کی لید کی صفائی پر مامور کردیا۔ آج کی طرح نہیں کہ امام کو جیل میں بند کرکے اسکی ویڈیوز ،آڈیوز نکال نکال کر چلارہے ہیں اور وہ ڈمی مضمون غیر ملکی جرائد میں لکھ رہا ہے۔ جہاں تاریخ میں اسکے بعد دوبارہ حسن بن صباح کے اس کلٹ کا ذکر نہیں ملتا، وہیں کسی ہلاکوکے سیاسی پروجیکٹ کا نشان بھی نہیں ملتا۔ آج صبح صبح ایک مقبول سوشل میڈیا فور م پردرج بالا تحریر پڑھی، عین ممکن ہے کہ تحریر کی تمام سطور سے قارئین کی اکثریت متفق نہ ہو مگر اس بات سے تمام لوگ اتفاق کریں گے کہ دو راستوں........

© Daily Jang


Get it on Google Play