’’اگر‘‘ایک ایسی اکسیر ہے جو ماضی کی چوٹوں کو سہلانے اور دل ناداں کو بہلانے کے کام آتی ہے۔مثلاً جب ہم وطن عزیز کے حالات پر کڑھتے ہوئے تنگ آجاتے ہیں تو دفعتاً خیال آتا ہے ،اگر قائداعظم کی ایمبولینس خراب نہ ہوئی ہوتی ،زندگی نے کچھ اور مہلت دیدی ہوتی تو پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی ۔اگر نواب لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد خواجہ ناظم الدین وزیراعظم بننے کے بجائے گورنر جنرل کے منصب پر ہی براجمان رہتے تو ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار نہ ہوتا۔اگر پہلے مقامی کمانڈر انچیف نامزد ہونے والے میجر جنرل محمد افتخار کا جہاز کراچی کے قریب جنگ شاہی میں گر کر تباہ نہ ہوتااور ایوب خان افواج پاکستان کے سربراہ نہ بنتے تو سیاست کے خیمے میں فوجی مداخلت کا اونٹ داخل نہ ہوپاتا۔اس طرح کے فیصلہ کن موڑ افراد واقوام کی زندگی میں بار بار آتے ہیں۔گاہے خیال آتا ہے لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ نیازی ڈھاکہ میں ہتھیار نہ ڈالتے اور واقعتاً آخری سپاہی اور آخری گولی تک لڑنے کا فیصلہ کرلیتے تو کیا ہوتا؟اگرذوالفقار علی بھٹو جنرل ضیاالحق کو آرمی چیف تعینات کرنے کی غلطی نہ کرتے یا پھر انہیں پھانسی نہ دی جاتی تو کیا پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی؟یوں تو ’’اگر‘‘کی گردان بہت طویل ہوسکتی ہے مگر اس تمہید کا مقصد ’’نئے پاکستان‘‘سے ’’پرانے پاکستان ‘‘میں واپسی تک کے سفر میں کپتان سے سرزد ہونے والی غلطیوں اور امکانات کا جائزہ لینا ہے۔جب حالات ناموافق ہوں ،نمبر پورے نہ ہوں تو عقل و خرد کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اننگز ڈیکلیئر کردی جائے۔ جیسا کہ جنوری2018ء میں وزیراعلیٰ بلوچستان ثنااللہ زہری نے نوشتہ دیوار پڑھ لینے کے بعد عدم اعتماد کا سامنا کرنے کے بجائے استعفیٰ دے دیا۔اگر عمران خان بھی حالات کی نزاکت کو بھانپ لیتے ،عدم اعتماد کی قرار داد آنے سے پہلے قومی اسمبلی تحلیل کرکے عام انتخابات کا اعلا ن کردیتے یا پھر کسی قسم کی رکاوٹ ڈالے بغیر عدم اعتماد کا سامنا کرتے اور شکست ہوجانے پرچپ چاپ گھر چلے جاتے تو کیا ہوتا ؟چلیں ،مشیروں نے گمراہ کیا یا افتاد طبع کے باعث وہ درست فیصلہ نہیں کر سکے ۔ 10اپریل 2022ء کوبازی پلٹ جانے پر اگروہ دل گرفتہ ہونے اور سب کچھ نیست و نابود کرنے کے بجائے اپنے خلاف سازش کرنے والوں کو ایک منفرد انداز میں شہہ مات دینے کا فیصلہ کرلیتے تو سیاسی منظر نامہ کیا ہوتا؟ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی کابینہ میں وزیر رہے ،نوازشریف نہ صرف جنرل ضیاالحق کے شریک سفر رہے بلکہ ان کی وفات کے بعد بھی مشن مکمل کرنے کی باتیں کرتے رہے ،جاوید ہاشمی ،یوسف رضا گیلانی سمیت کونسا سیاستدان ہے جس نے سیاسی بندوبست کی نرسری میں پرورش نہیں پائی ۔عمران خان بھی اگر کسی کی اُنگلی پکڑ کر اقتدار میں آئے تھے تو یہ ہرگز اچنبھے کی بات نہیں ۔لیکن بچپن اور نادانی کا یہ دور ختم ہوجانے پر بالغ ہوجانا چاہئے۔جس طرح بینظیر بھٹو اور نوازشریف نے ماضی سے سبق سیکھا اور میثاق جمہوریت پر دستخط کئے،اسی طرح عمران خان بھی سیاسی شعور پاتے ،اپنے مخالفین کے پاس جاتے ،میاں نوازشریف ،آصف زرداری ،مولانا فضل الرحمان ،اسفند یار ولی ،سراج الحق ،اختر مینگل اور خالد مقبول صدیقی سمیت تمام ہم عصر سیاستدانوں سے رجوع کرتے اور کہتے کہ ہمارے اختلافات ہیں اور رہیں گے ،لیکن جس طرح دنیا بھر میں آباد نیازی کہتے ہیں کہ میانوالی سانجھی ہے اسی طرح ہمارے درمیان جمہوریت اور سویلین بالادستی قدرِ مشترک ہے،ہم مل کر طے کرتے ہیں کہ چابی والے کھلونے نہیں بنیں گے،کسی بادشاہ گر کے اشاروں پر نہیں ناچیں گے،عوام کے حق انتخاب کا دفاع کریں گے اور کسی کو ووٹ کی عزت پامال نہیں کرنے دیں گے۔میرا خیال ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہم اس فیصلہ کن موڑ پر کھڑے تھے جہاں اس راستے کا انتخاب کرکے سیاسی استحکام کی منزل حاصل کی جاسکتی تھی۔لیکن بدقسمتی سے عمران خان اس ظرف کا مظاہرہ نہیں کرپائے۔وہ اپنی انا اور خودپسندی کے حصار سے باہر نہیں نکل پائے یا پھر سیاسی بیانیہ زمین بوس ہونے کے خوف سے یہ پیشرفت نہیں کرسکے ؟اس سوال کا جواب ان کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔لیکن ان کے پاس ایک اور راستہ بھی تھا۔

کرکٹ میچ کے دوران آپ کی اننگز ختم ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ کھیل ختم ہوگیا۔آپ اچھی فیلڈ لگاتے ہیں ،مخالف ٹیم کو جلد آئوٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیںاور اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔اسی طرح اگر آپ بلے باز ہیں اور کسی خطرناک بائولر کا سامنا ہے تو آپ اس وقت تک ٹُک ٹُک کرتے رہتے ہیں جب تک شارٹ لگانے کے لئےکوئی لوز بال نہیں ملتی۔اگر آپ جلد بازی کا مظاہرہ کریں تو کیا ہوتا ہے ،کلین بولڈ ہوکر پویلین کو واپس لوٹ آتے ہیں۔اسی طرح سیاست کے میدان میں بھی بے صبری کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔اپوزیشن میں بیٹھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کسی بھی وقت دوبارہ اقتدار میںآسکتے ہیں۔ عمران خان برطانیہ جاتے،اپنے بچوں اور سابقہ بیوی کیساتھ وقت گزارتے۔ پی ڈی ایم کی حکومت کو جس طرح کے معاشی مسائل کا سامنا تھا ،اس کا غیر مقبول ہونا ناگزیر تھا۔ جب اگست 2023ء میں اسمبلیوں کی مدت ختم ہوتی تو پاکستان واپس آکر جلسوں کے ذریعے اپنے کارکنوں کا لہو گرماتے اور ایک بار پھر وزیراعظم بن جاتے۔ آزاد کشمیر،گلگت بلتستان ،پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انکی حکومت تھی۔ امریکی سازش کا راگ جھنجھوٹی چھیڑنے اور پھر 9مئی کے گڑھے میں گرجانے کے بجائے بصیرت اور دوراندیشی کا مظاہرہ کیا جاتا تو نہ انکی پارٹی تتربتر ہوتی اور نہ وہ خود ابتلا ء وآزمائش کا شکار ہوتے۔ لیکن انہوں نے حکمت و تدبر سے کام لینے کے بجائے ،احمقانہ جذباتیت اور اشتعال انگیز جنونیت کا راستہ اختیار کیا۔ گاہے خیال آتا ہے ،یوں ہوتا تو کیا ہوتا۔پھر سوچتا ہوں غم عشق گر نہ ہوتا ،غم روزگار ہوتا۔یا یوں کہئے کہ ’گھر ہماراجو نہ روتے تو بھی توویراں ہوتا‘۔شاید یہ ویرانی اور سوختہ سامانی ناگزیر تھی ۔کچھ لوگ اپنی علت و جبلت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں۔ انہیں تباہ و برباد ہی ہونا ہوتا ہے۔بھنور سے بچا لیا جائے تو سفینوں میں ڈوب جاتے ہیں۔ انہیں ہر حال میں غرقاب ہی ہونا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پانچ سال کے دوران تین مختلف عہدوں پر کام کیا، جن کے ساتھ کام کیا اور جو کچھ حاصل کیا اس پر فخر ہے۔

امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ یہ خطے میں شدید تناؤ کا وقت ہے، حوثیوں کے حملے کے بعد میری ٹائم سیکیورٹی کا دفاع جاری رکھیں گے۔

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے افغان نائب وزیراعظم برائے سیاسی امور مولوی عبدالکبیر سے ملاقات میں مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔

ایچ آر سی پی نے ملک میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سروسز کی معطلی کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔

پیپلز پارٹی سندھ کے سینئر رہنما ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ ہماری مثبت سیاست سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو نقصان پہنچا ہے۔

بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے ترجمان سینیٹر کہدہ بابر بلوچ نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے بھی ہمارے موقف کی تائید کی ہے۔

راولپنڈی کی اڈیالہ جیل انتظامیہ نے بانی پی ٹی آئی سے اخبارات اور کتابوں کی سہولت واپس لینے کی تردید کردی۔

، 8 جنوری کو ہونے والا جلسہ اسموگ کی وجہ سے ایک روز آگے بڑھا دیا گیا ہے۔

جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی کابل میں افغانستان کے نائب وزیراعظم سے ملاقات ہوگئی۔

نواب طاہر سیال اور ناصر عباس سیال پی ٹی آئی چھوڑ کر جبکہ فہیم احمد خان مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر پی پی پی میں شامل ہوئے۔

ملک کے مختلف حصوں میں سوشل میڈیا سروسز بری طرح متاثر ہوگئیں۔

امیر جماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ ہم میئر بھی بنائیں گے اور اس مصنوعی حکومت سے جان بھی چھڑائیں گے، پھٹے ہوئے غبارے کبھی نہیں پھولیں گے۔

ترجمان ایم کیوایم کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ کمال نے مانیٹرنگ سیل کا دورہ کرتے ہوئے تمام ٹاؤنز کے ڈیجیٹل رابطہ مہم کا جائزہ لیا۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ کچھ قوتیں ملک میں الیکشن ملتوی کرانا چاہتی ہیں۔

جرمن وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ غزہ اسرائیل کیلئے خطرہ نہ بنے، حماس کو ہتھیار ڈال دینے چاہئیں۔

اعلامیہ کے مطابق امیر جماعت اسلامی کراچی این اے 246 اور 250 سے جماعت اسلامی کے امیدوار ہونگے۔ حافظ نعیم صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 130 سے بھی لڑیں گے۔

QOSHE - محمد بلال غوری - محمد بلال غوری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

محمد بلال غوری

14 1
08.01.2024

’’اگر‘‘ایک ایسی اکسیر ہے جو ماضی کی چوٹوں کو سہلانے اور دل ناداں کو بہلانے کے کام آتی ہے۔مثلاً جب ہم وطن عزیز کے حالات پر کڑھتے ہوئے تنگ آجاتے ہیں تو دفعتاً خیال آتا ہے ،اگر قائداعظم کی ایمبولینس خراب نہ ہوئی ہوتی ،زندگی نے کچھ اور مہلت دیدی ہوتی تو پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی ۔اگر نواب لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد خواجہ ناظم الدین وزیراعظم بننے کے بجائے گورنر جنرل کے منصب پر ہی براجمان رہتے تو ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار نہ ہوتا۔اگر پہلے مقامی کمانڈر انچیف نامزد ہونے والے میجر جنرل محمد افتخار کا جہاز کراچی کے قریب جنگ شاہی میں گر کر تباہ نہ ہوتااور ایوب خان افواج پاکستان کے سربراہ نہ بنتے تو سیاست کے خیمے میں فوجی مداخلت کا اونٹ داخل نہ ہوپاتا۔اس طرح کے فیصلہ کن موڑ افراد واقوام کی زندگی میں بار بار آتے ہیں۔گاہے خیال آتا ہے لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ نیازی ڈھاکہ میں ہتھیار نہ ڈالتے اور واقعتاً آخری سپاہی اور آخری گولی تک لڑنے کا فیصلہ کرلیتے تو کیا ہوتا؟اگرذوالفقار علی بھٹو جنرل ضیاالحق کو آرمی چیف تعینات کرنے کی غلطی نہ کرتے یا پھر انہیں پھانسی نہ دی جاتی تو کیا پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی؟یوں تو ’’اگر‘‘کی گردان بہت طویل ہوسکتی ہے مگر اس تمہید کا مقصد ’’نئے پاکستان‘‘سے ’’پرانے پاکستان ‘‘میں واپسی تک کے سفر میں کپتان سے سرزد ہونے والی غلطیوں اور امکانات کا جائزہ لینا ہے۔جب حالات ناموافق ہوں ،نمبر پورے نہ ہوں تو عقل و خرد کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اننگز ڈیکلیئر کردی جائے۔ جیسا کہ جنوری2018ء میں وزیراعلیٰ بلوچستان ثنااللہ زہری نے نوشتہ دیوار پڑھ لینے کے بعد عدم اعتماد کا سامنا کرنے کے بجائے استعفیٰ دے دیا۔اگر عمران خان بھی حالات کی نزاکت کو بھانپ لیتے ،عدم اعتماد کی قرار داد آنے سے پہلے قومی اسمبلی تحلیل کرکے عام انتخابات کا اعلا ن کردیتے یا پھر کسی قسم کی رکاوٹ ڈالے بغیر عدم اعتماد کا سامنا کرتے اور شکست ہوجانے پرچپ چاپ گھر چلے جاتے تو کیا ہوتا ؟چلیں ،مشیروں نے گمراہ کیا یا افتاد........

© Daily Jang


Get it on Google Play